’’ایک ایسا معاشرہ جو مکمل طور پر طاقتور گروہوں کی گرفت میں پھنس چکا ہو، اُس کے دانش ور کا کردار کیا ہوسکتا ہے؟ طاقتور گروہوں سے مراد ہے موقع پرست سیاست دان، کرپٹ سرکاری ملازم اور ایک بہت بڑی تعداد اُن افراد کی جو خراب حکمرانی سے فیض یافتہ ہیں۔ ایسا معاشرہ جس میں حکمرانوں کے لیے کسی بھی سیاسی مخالف حلقے اور اداراتی (ادارہ کے) حوالے سے مواخذہ نہ ہو، چاہے یہ حکمران متواتر عوام کے ووٹوں ہی سے منتخب ہوتے آئے ہوں۔ وہ اگر عوام کو ان کے بنیادی حقوق جس میں پینے کا صاف پانی، نکاسئ آب کا نظام، صحت اور تعلیم کی سہولیات تک مہیا نہ کرسکیں، اور وہ سہولیات بھی جو ایک معمول کی زندگی گزارنے کے لیے ناگزیر ہیں تو پھر وہ عوام کے حکمران کیوں کر اور کیسے کہلا سکتے ہیں؟
مذکورہ سوالات حالیہ برسوں میں اس لیے ہی زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں، کیوں کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت نے مفاہمت پر مبنی پالیسی اختیار کررکھی ہے، جس نے محض جاگیردار اور قبیلائی بھوتاروں (وڈیروں، سرداروں وغیرہ)کی ایک معتدبہ تعداد اور دیگر مخصوص ٹولوں کو اپنے حلقۂ اثر میں شامل کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پیپلزپارٹی نے اہلِ دانش و بینش کی ایک قابل ذکر تعداد سمیت دیگر نامور خراب حکمرانی کی مخالفت کرنے والوں اور سول سوسائٹی کے افراد کو بھی فائدہ پہنچایا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ ان میں سے بعض افراد براہِ راست سرکاری عہدے حاصل کرکے فوائد سمیٹ رہے ہیں، جبکہ دیگر، حکمران اشرافیہ اور وزراء کے ذریعے مراعات کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔ نتیجتاً سندھ حکومت کی کارکردگی انتہائی خطرناک حد تک خراب ہونے کے باوجود اسے اب سیاسی قوتوں اور اہلِ علم و دانش کے حلقے سے کسی نوع کا کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ خراب حکمرانی اور نااہلی دن بہ دن بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ اگر پیپلزپارٹی اسی طرح سے بے لگام اور بے ہنگم انداز میں حکومت کرتی رہی تو پھر یہ خطرہ ہے کہ بدترین حکمرانی کا یہ ماڈل 2018ء کے الیکشن کے بعد بھی سندھ میں جاری رہے گا۔ پیپلزپارٹی کی موجودہ صوبائی حکومت کے حمایتیوں کے پاس تین دلائل ہیں:
(1) یہ حکومت عوام کی منتخب کردہ ہے اور اسے عوام کی طرف سے حکمرانی کا طے شدہ مدت تک مینڈیٹ ملا ہوا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اس کی حمایت کی جائے۔
(2) پیپلزپارٹی ملک کی خاص طور پر سندھ کی ایک لبرل اور سیکولر آواز ہے، جہاں بنیاد پرستی اور فرقہ واریت قدم جما رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پیپلزپارٹی کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں۔
(3) یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ پیپلزپارٹی کی تمام تر خرابیاں اُس وقت ازخود ہی دھل جائیں گی جب اچھے کردار اور ساکھ کے حامل افراد اس میں شامل ہوکر اپنے کردارکو نبھائیں گے۔ اس لیے لازمی ضرورت ہے کہ باہر بیٹھ کر تبصرہ آرائی کرنے کے بجائے اس کا حصہ بنا جائے۔ آیئے اب ذرا ان تینوں دلائل پر ایک نظر ڈالیں۔
(1) پی پی حکومت کو عوام کا مینڈیٹ ملا ہوا ہے، اس لیے دوسروں کے علاوہ یہ اہلِ علم و دانش کی حمایت کی بھی حقدار بنتی ہے۔
بلاشبہ پیپلزپارٹی سندھ میں اپنے روایتی حلقوں سے انتخابات میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔ کیا اسے ’’عوامی مینڈیٹ‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟ اسے مختلف پیمانوں پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ مینڈیٹ اسی وقت کہا جاسکتا ہے جب عوام کو اپنی مرضی سے حقِ رائے دہی کے استعمال کے لیے سماجی، معاشی اور انتظامی دباؤ سے آزاد رکھا جائے۔ یہ سوال پوچھنا حد درجہ اہم ہے کہ کیا یہ مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے انتخابی طریقۂ کار کا استعمال کیا گیا، یا وڈیرانہ؟ یہاں تک کہ پیپلزپارٹی کے انتہائی قریبی اور زیادہ حامی یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ عوام موجودہ پیپلزپارٹی کو کسی آئیڈیالوجی یا نظریے کی کشش کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیتے اور نہ ہی قائدانہ سحر یا بہتر حکمرانی پر مبنی ماڈل کی کشش کے باعث اپنے ووٹ سے نوازتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی نے سوشلزم کے تصورکو اپنایا تھا اور اس کا یہ ایجنڈا تھا، لیکن پھر اقتداری سیاست کی وجہ سے اس نے اپنے پروگرام سے بھی دست برداری اختیارکرلی۔ اگرچہ بلاول بھٹو زرداری یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ پرانی پیپلزپارٹی کو بحال کرلیں گے اور بھٹو شہید کی سماجی، سیاسی پالیسیوں کے تحت سیاست کریں گے۔ وہ پرانے جیالوں سے بھی مل رہے ہیں اور جیالا کلچر کو پھر سے زندہ کرنے کی سعی کرنے میں لگے ہوئے ہیں، لیکن پارٹی زرداری ڈاکٹرائن کے پیچھے چل رہی ہے۔ مثلاً مختلف قبیلائی بھوتاروں (قبائلی وڈیروں، سرداروں اور جاگیرداروں) سے سیاسی اتحاد کرنا اور انہیں پیپلزپارٹی میں شامل کرنا، جن میں زیادہ تر وہ افراد ہیں جو تاریخی طور پر بھٹو صاحب کے مخالف تھے۔ یہ صرف اس لیے کیا جارہا ہے تاکہ سندھ میں الیکشن جیتا جاسکے۔ زرداری ڈاکٹرن بہت حد تک اس حوالے سے کامیابی حاصل کررہا ہے۔ کیونکہ سندھ میں دوسری کوئی اور مرکزی دھارے (مین اسٹریم) کی حامل جماعت رہی ہی نہیں ہے جو پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرسکے۔ یہاں تک کہ 18 ویں ترمیم کے بعد والے سندھ کے اقتداری اسٹرکچر اور مالی حیثیت کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے روایتی مخالف افراد بھی بلاول ہاؤس کے باہر قطار میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں تاکہ سندھ میں پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرکے اقتدار کے مزے لوٹ سکیں۔ سیاسی مخالفین کی کمی کے باعث پی پی حکومت کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام نہ کرنے کا ہر وہ عمل پھب جاتا ہے جس کا ثبوت اس حقیقت سے بھی ملتا ہے کہ سندھ کے نئے وزیراعلیٰ نے منصب سنبھالتے وقت تو بڑے بلند بانگ دعوے کیے تھے، لیکن ان کے کام کے معیار، پالیسی اور حکمرانی کا انداز وہی پرانا ہے۔ کسی نوع کی کوئی بھی معاشی، سیاسی اور سماجی پالیسی تبدیل نہیں کی گئی ہے۔ نہ حکومت اور نہ ہی پارٹی کرپٹ اور نااہل عناصر کی صفائی کرسکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زرداری صاحب کی وطن واپسی کے بعد صورت حال پہلے سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔ اب تو وزیراعلیٰ کے اختیارا ت بھی خاندان کی ٹرائیکا یعنی زرداری صاحب، ان کی ہمشیرہ (فریال تالپور) اور ان کے صاحبزادے بیک وقت استعمال کررہے ہیں۔
موجودہ حالات میں نام نہاد ’’مینڈیٹ‘‘ سندھ کے افراد پر مسلط کردہ کسی دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ’’زرداری ڈاکٹرن‘‘ کی تمنا یہ ہے کہ سندھ کے کروڑوں بے یارو مددگار لوگوں کو مقامی بھوتاروں کے ذریعے یرغمال بنا کر رکھا جائے، جنہیں چھوٹ حاصل ہے کہ وہ ریاستی فنڈز استعمال کریں، دفاتر استعمال کریں، زمینیں استعمال کریں اور اپنے ڈی سی اور ایس ایس پی سطح کے افسران اپنی مرضی کے مطابق تعینات کرا سکیں۔ عوام کی اکثریت جومتوسط طبقے اور غربت زدہ زندگی بسر کرنے والے پسے ہوئے افراد پر مشتمل ہے، ان سب کو جمہوریت کے فوائد اور ثمرات سے محروم رکھا گیا ہے۔ جو مقامی بھوتار اور اثر رسوخ کے حامل افراد ہیں وہ پیپلزپارٹی کی قیادت سے سودے بازی کرکے مزے لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی لائقِ تعجب امر نہیں ہے کہ سارا سندھ اس وقت زہریلا اور گٹرآلود پانی استعمال کررہا ہے اور سندھ کے لگ بھگ تمام چھوٹے بڑے شہر گندگی کے ڈھیروں میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ سندھ کے اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت بھی ازحد تباہ ہوچکی ہے۔ سندھ میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے لیکن سندھ کے حکمرانوں کو اس کی بھی کوئی پروا نہیں ہے۔
(2) پیپلزپارٹی ایک لبرل اور سیکولر قوت ہے۔
موجودہ پیپلزپارٹی کیا یہ دعویٰ جاری رکھ سکتی ہے کہ وہ لبرل اقدار کی ترجمان ہے؟ حالانکہ سندھ میں دن بہ دن انتہا پسندی اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہے اور سندھی سماج پر آگے چل کر اس کے گہرے اثرات مرتب ہونے ہیں۔ اسے روکنے کے لیے پیپلزپارٹی کی حکومت کچھ بھی نہیں کررہی ہے۔ کیا موجودہ حکومت یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ وہ کامیابی کے ساتھ صوبے میں فرقہ واریت اور انتہا پسندی کو روکنے میں کامیاب ثابت ہوئی ہے؟ وہ حکومت جو ہزاروں مدارس رجسٹرڈ کرچکی ہے اور یہ مدرسے ایک حکمت عملی کے تحت کراچی تا اوباڑو اور بلوچستان تک قائم ہیں، کیا انہیں چلانے کا اختیار حکومت کے پاس ہے؟ ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ یہاں پڑھنے والے بچوں کو جہاد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور بدلے میں ان کے والدین کو اس کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر موجودہ موقع پرست حکومت نے اپنی سابقہ روش برقرار رکھی تو سندھ کو فرقہ واریت اور انتہا پسندی کی آگ مستقبل میں گھیر لے گی۔
(3) اہلِ علم و دانش پیپلزپارٹی میں اس لیے جارہے ہیں تاکہ وہ اس میں شامل ہوکر اس کی تطہیر (صفائی) کریں گے یا کوئی کردار نبھائیں گے ۔
ایک زمانے میں 1950ء تا 1960ء کی دہائی میں یہی پالیسی کمیونسٹوں نے بھی اختیار کی تھی۔ تب ان کی سیاسی سرگرمیوں پر بندش تھی۔ کمیونسٹوں کی ایک بڑی تعداد مختلف سیاسی پارٹیوں میں اس خیال سے جا شامل ہوئی تھی کہ وہ وہاں جاکر اپنا نظریاتی کردار ادا کریں گے۔ لیکن یہ عمل بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا اور سوشلسٹ انقلاب نہ آسکا۔ یہاں تک کہ بائیں بازو کے جو رہنما تھے انہیں پیپلزپارٹی میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی کوئی خاص مقام نہیں مل سکا۔ موجودہ پیپلزپارٹی کو یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کسی طبقہ یا نظریہ کی سیاست کررہی ہے۔ موجودہ پیپلزپارٹی سیاسی بیوپاریوں، کاروباریوں اور طبقۂ اشرافیہ کی جماعت ہے جس کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کی جائے۔ یہ ایک احمقانہ خیال ہے کہ سول سوسائٹی کے کسی رکن یا کسی دانشور کے پیپلزپارٹی میں شمولیت کرنے سے پیپلزپارٹی کے طرزِ حکمرانی پر کوئی فرق پڑجائے گا۔
اب آتے ہیں اپنے اصل سوال پر کہ اس خراب حکمرانی اور کرپشن کو روکا کس طرح سے جائے؟ کیا غریب اہلِ سندھ اس جمہوریت سے کوئی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں؟ وہ کون ہے جو آگے آئے گا اور حکومت کو مجبور کرے گا کہ وہ تعلیم، صحت، نکاسئ آب، روڈ راستوں، سماجی اور معاشی حالات اور دیگر انفرااسٹرکچر کو بہتر بنائے؟ میری رائے میں موجودہ صورت حال میں ادیب، شاعر، طلبہ، صحافی، خواتین، ٹریڈ یونینیں، ہاریوں کی تنظیمیں، اساتذہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنان پارلیمنٹ کے باہر مورچہ پر حزبِ مخالف کا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔ تاریخی طور پر مذکورہ قوتیں غیر جمہوری یا استحصالی حکومتی ادوار میں ابھرتی ہیں اور مزاحمت کیا کرتی ہیں اور عوامی اجتماعات سمیت دیگر طریقوں سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی ہیں۔ ان قوتوں کی طاقت سماجی اور ثقافتی محاذ پر معاشرے میں کسی رائے عامہ کی تشکیل کے خیال سے بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آج کی دنیا میں اہلِ دانش و بینش کا کردار حد درجہ مضبوط ہوچکا ہے، کیونکہ سوشل میڈیا کے جو مختلف ذرائع ہیں ان کی وساطت سے اپنی آواز بلند کی جاسکتی ہے، جسے استعمال کیا جانا چاہیے۔
ہمارے اہلِ دانش و بینش آخر کیوں اکٹھے ہوکر جبر، استحصال اور ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے؟ وہ اپنا قانونی اور آئینی حق کہاں استعمال کررہے ہیں؟ کم از کم ہم جو دانشور ہیں، سول سوسائٹی کے ممبر ہیں، یہ تو کرسکتے ہیں کہ ایک چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کریں جو حکومت کو اس امر کا پابند بنائے کہ وہ ایک طے شدہ وقت پر اس چارٹرآف ڈیمانڈ کو لاگو کرے۔ جو ہماری پُرامن اور آئینی جدوجہد ہوگی۔ ہمارا دانشور طبقہ کم از کم یہ کیوں نہیں کرتا کہ ان سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کرے اور ان وزراء کا سوشل بائیکاٹ کرے جو کرپشن کی وجہ سے بدنام ہیں۔ اگر ہم یہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیونکہ اس طرح کرنے سے ہمیں یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں ہمارے ذاتی تعلقات متاثر نہ ہوجائیں۔۔۔ تو پھر ہم خود کو کم سے کم عوام کی آواز اور ضمیر کہلوانا بھی بند کردیں۔ اور یہی ایک کیس یا مثال ہے کہ تاریخ ہمارے کردار کو کیسے جج کرتی ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر اپنے اداروں کی تباہی کیسے روک پائیں گے؟ مستقبل کا تاریخ دان ہمیں مجرم قرار دے گا بعینہٖ اسی طرح سے جس طرح حکمران بھوتار طبقے کو مجرم قرار دے گا، اور یہی اپنے لوگوں سے ایک بہت بڑی غداری گردانی جائے گی۔ کیا ہم انہیں یہ اجازت دے دیں کہ وہ عوام کے مینڈیٹ، سیکولر اقدار اور لبرل ازم کے نام پر اپنا دھندا یونہی جاری رکھیں؟
میں اپنی اس تحریر کے توسط سے ادباء، شعراء، اساتذہ، میڈیا اور سول سوسائٹی کے دیگر افراد سے ملتمس ہوں کہ کم ا زکم حکومت کو پینے کے صاف پانی، نکاسئ آب کے نظام، صحت، تعلیم، امن و امان اور دوسرے معاشی مواقع کے لیے ایک مشترکہ چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کریں۔ اگر حکومت تین ماہ کے عرصے تک اس چارٹر آف ڈیمانڈ کو پورا نہ کرسکے تو پھر اس کے خلاف ایک پُرامن جمہوری جدوجہد کی جائے۔ اس جدوجہد کے پہلے مرحلے میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سرکاری تقریبات کا سوشل بائیکاٹ ہو، وزراء سے تعلقات ختم کردیے جائیں اور کسی بھی سرکاری تقریب میں شرکت نہ کی جائے۔ یہی پُرامن اور مؤثر احتجاج ہوگا۔ میرے دوستو! میری اس گزارش پر غور کیجیے اور اپنے سارے ذاتی تعلقات اور فائدے ایک طرف رکھ کر اہلِ سندھ کے مستقبل کے لیے ضرور یکجا ہوں۔ اب آگے آپ کی جو بھی مرضی ہو۔‘‘
nn