(مسلم علمی خدمت (طاہر مسعود

 (دوسرا اور آخری حصہ)
متین صاحب سچے اور کھرے پاکستانی تھے۔ پاکستان کی سالمیت، بقا اور ترقی کے لیے انھوں نے اپنے قلم کو وقف کیے رکھا۔ خود ان کے بیان کے مطابق جسارت اور تکبیر کے لیے انھوں نے تقریباً چار ہزار سے زائد اداریے لکھے۔ یہ ان مضامین اور مقالات کے علاوہ ہیں جو وہ علمی اور تحقیقی رسائل کے لیے رقم کرتے رہے۔ انھیں کبھی شہرت اور ناموری کا خواہش مند نہیں پایا۔ لکھنے سے اور لکھ کر جو آسودگی اور مسرت ہر صاحبِ قلم کو میسر آتی ہے، وہ اسی پر ہمیشہ قانع رہے۔ البتہ اپنی تحریر میں انھیں کسی قسم کی ایڈیٹنگ اور قطع و برید کبھی گوارہ نہ ہوئی۔ ’’جنگ‘‘ اخبار میں ان کی مضمون نگاری جو اسی ادارے کی فرمائش پر شروع ہوئی تھی، زیادہ دنوں تک اس لیے نہ چل سکی کہ اخبار ان کی بے لاگ سچائی کا متحمل نہ ہوسکا اور جب ’’قابلِ اعتراض‘‘ فقرے قلم زد کیے گئے تو دوسرے کالم نگاروں کی طرح انھوں نے اسے ٹھنڈے پیٹوں، مارے باندھے برداشت نہ کیا اور ہاتھ آئی شہرت اور ہر دل عزیزی کو آزاد�ئ اظہار پر قربان کرنے میں ایک لمحے کے لیے بھی دیر نہ لگائی اور ’’جنگ‘‘ کے لیے لکھنا بند کردیا۔ ’’جنگ‘‘ اخبار ہی کے حوالے سے ایک اور واقعہ یاد آتا ہے۔ جب میر شکیل الرحمن صاحب اپنے والد کے نئے نئے جانشین بنے اور اخبار کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کالم نگاروں کو زیادہ معاوضہ دے کر توڑنے کی ’’بدعت‘‘ کا آغاز کیا تو اسی سلسلے میں انھیں ’’جنگ‘‘ کے خشک، بے رنگ اور بے جان اداریے کو بھی بہتر بنانے کی فکر ہوئی۔ ’’جسارت‘‘ کے اداریے تب بھی پڑھے جاتے تھے۔ چناں چہ وہ متین صاحب کا سراغ لگاکے ان کے گھر جاپہنچے اور انھیں بھاری معاوضے پر ’’جنگ‘‘کے لیے اداریہ لکھنے کی پیش کش کی۔ متین صاحب نے مسکرا کر ان کی ’’آفر‘‘کو سنا اور پھر فرمایا:
’’میر صاحب آپ ’’جنگ‘‘کے لیے لکھنے کی آفر لے کر آئے ہیں کہ میں ’’جسارت‘‘کے بجائے ’’جنگ‘‘کے لیے اداریہ لکھوں۔ اب اس معاملے میں فرق صرف اتنا ہے کہ آپ نے ’’جنگ‘‘ کی آغوش میں آنکھ کھولی ہے اور ’’جسارت‘‘ میری گود میں پروان چڑھا ہے۔ کیا آپ اس فرق کو محسوس نہیں کرتے؟ بھلا ’’جسارت‘‘چھوڑ کر ’’جنگ‘‘ کیسے جوائن کرسکتا ہوں‘‘۔
یقیناًمیر شکیل صاحب کے ’’بھاری نوٹوں‘‘ نے پہلی بار ہزیمت اٹھائی ہوگی اور میر صاحب کو بھی اندازہ ہوا ہوگا کہ اس ملک میں جسے تجارت پیشہ عیارو چالاک لوگوں نے بتدریج ایک نیلام گھر میں بدقسمتی سے تبدیل کردیا ہے، جہاں نیلامی بولی دے کر ہر ’’صلاحیت‘‘ خریدی جاسکتی ہے، ابھی کچھ اصول پسند لوگ بھی بستے ہیں جو اپنی صلاحیت اور اپنی روح کے ہر سودے سے انکاری ہیں۔ چاہے یہ انکار، یہ معذرت کروڑوں اور اربوں کھربوں کی دولت میں کھیلنے والے مالکان میڈیا ایمپائر کی نظروں میں ناقابل فہم ہی کیوں نہ ہو، اور اس سے بڑھ کر وہ اسے سادگی یا حماقت ہی کیوں نہ سمجھیں۔
’’جسارت‘‘ الطاف حسن قریشی صاحب نے پہلے پہل ملتان سے جاری کیا تھا اور متین صاحب اس کو جاری کرنے والی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے ملتان گئے تھے اور ایک عرصے تک وہیں قیام کرکے جسارت کے لیے کام کرتے رہے۔ اس لحاظ سے ان کا یہ کہنا کہ جسارت میری گود میں پلا بڑھا یا پیدا ہوا، عین مبنی برحقیقت تھا، اس میں ذرا بھی مبالغہ نہ تھا۔
متین صاحب کو میں نے بہت قریب سے دیکھا، انھیں برتا، خوشی اور غم کے مواقع پر ان کے جذبات، احساسات اور تاثرات کا مشاہدہ کیا۔ انھیں میں نے ہمیشہ ایک متحمل مزاج، غیر جذباتی اور تعقل پسند انسان پایا۔ ایک اچھے اور عمدہ آدمی میں جو اوصاف ہونے چاہئیں مثلاً شرافت و نجابت، وضع داری، اصول پسندی، دوسروں کی عزت و تعظیم، چھوٹوں سے شفقت، بڑوں کا احترام، غیبت اور دل آزاری سے اجتناب، سچی اور اچھی باتوں کا ابلاغ، بُری اور بدنما باتوں کے اظہار سے گریز، فرض شناسی، ایمان داری، امانت و دیانت کی پاس داری، یہ سب خوبیاں ان میں بدرج�ۂ اتم ہیں۔ انھیں جیسی محبت و الفت صلاح الدین صاحب سے تھی، شاید کسی اور سے نہ تھی، لیکن ان کی شہادت کے موقع پر بھی میں نے انھیں اشکبار نہ پایا۔ اس لیے کہ میرے اندازے کے مطابق جو ممکن ہے درست نہ ہو، متین صاحب میں جذبات اگر ہیں تو وہ سرد ہیں، یا ان کی تعقل پسندی اظہارِ جذبات میں آڑے آتی ہے۔ جنرل ضیاء کی اسلام دوستی، عاجزی و انکسار اور اخلاصِ نیت کے وہ صلاح الدین صاحب ہی کی طرح بہت قائل رہے۔ اور یہ بھی اتفاق ہی ہے کہ جنرل ضیاء کے طیارے کی تباہی کے سانحے کی خبر جب ٹیلی ویژن سے آرہی تھی تو میں ان ہی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔ انھوں نے یہ اندوہ ناک خبر سنی اور پھر میں نے انھیں انتہائی تشویش اور اذیت میں مبتلا پایا۔ اسی طرح صلاح الدین صاحب کی شہادت کے دن بھی دوسروں کی طرح بے قابو ہوکر روتے نہ دیکھا لیکن ایک ایسی تکلیف سے وہ بے چین نظر آئے جس کا کوئی مداوا نہ ہو۔ ذہنی دباؤ کے سبب ان کا شوگر لیول بڑھ گیا تھا، چہرے پر اسی دباؤ سے اذیت کے آثار نمایاں تھے، کنپٹی کی رگیں ابھری ہوئی اور پیشانی پریشانی سے سلوٹوں سے عبارت ہوگئی تھی۔ کئی دن تک آنکھیں نیند سے خالی رہیں۔ انھیں ہر ناگہانی آفت کا سامنا ایک وقار اور سلیقے سے کرتے دیکھا۔ ایک مرتبہ انھوں نے گفتگو کرتے ہوئے صحافت اور ادب کا فرق یہ کہہ کر واضح کیا تھا کہ صحافت ریت پر کھینچی ہوئی لکیر ہے جسے ہوا جلد ہی مٹادیتی ہے لیکن ادب کی مثال چٹان پر لکھی جانے والی تحریر جیسی ہے جو لکھ دی جائے تو مشکل ہی سے مٹتی یا معدوم ہوتی ہے۔ متین صاحب مزاجاً تو صحافی ہی تھے اور اعلیٰ پائے کے صحافی تھے کہ حالاتِ حاضرہ پر ان کی نظر گہری اور معلومات میں وسعت تھی، لیکن ان کے ذہن اور حافظے کی جہاں تک بات ہے، اس کی مثال بھی چٹان ہی سے دی جانی چاہیے کہ فرد ہو یا کوئی واقعہ، کوئی رائے، کوئی تجزیہ۔۔۔ جب ایک بار وہ کرلیتے تو پھر اس سے کسی طرح دست کش نہ ہوتے تھے، الّا یہ کہ وہ شخص نئے سرے سے اپنے برتاؤ اور صورتِ معاملہ سے ان کی رائے کو بالکل ہی عاجز کرکے بدلنے پر مجبور نہ کردے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ بہت سوچ سمجھ کر کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے ہیں اور چوں کہ آدمی کو گہرائی سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں تو رائے بعد میں بھی درست اور صائب ہی نکلتی ہے۔ مثلاً یاد ہے مجھے کہ جب بے نظیر بھٹو کے شوہر ہونے کے ناتے آصف زرداری پہلی بار وزیر بنے اور تب تک ان کی سیاسی سوجھ بوجھ سامنے بھی نہ آئی تھی، بدعنوانی کے حوالے سے بہت سی باتیں البتہ مشہور تھیں۔ پی ٹی وی سے ان کا پہلی بار انٹرویو ٹیلی کاسٹ ہوا۔ اگلے دن متین صاحب کہنے لگے: ’’بھئی تم نے آصف زرداری کا انٹرویو دیکھا؟‘‘ میں نے لاعلمی ظاہر کی تو فرمایا: ’’بھئی یہ شخص تو مجھے بے نظیر صاحبہ سے زیادہ گھاگ اور سیاسی سمجھ بوجھ میں ان سے کہیں آگے محسوس ہوا۔ جتنے سلیقے اور ذہانت سے اس نے سوالوں کے جواب دیے، وہ میری توقع سے کہیں بڑھ کر تھے‘‘۔ اُس وقت تو آصف زرداری کی بابت ان کی یہ رائے کم از کم میرے فہم سے بالاتر تھی، لیکن بعد کے حالات و واقعات نے ثابت کیا کہ استادِ محترم کا تجزیہ درست تھا۔ خصوصاً محترمہ کی شہادت کے سانحے کے بعد جس طرح آصف زرداری نے خود کو صدر منتخب کرایا اور نہایت سلیقے سے اپنے کارڈ کھیل کر پانچ سال بہ حیثیت صدر گزار کر بہ عزت وآبرو اقتدار منتقل کرکے رخصت ہوئے، سچ پوچھیے تو یہ کارنامہ ان کے سسر مرحوم بھی جن کی سیاسی ذہانت اور علمی لیاقت و خطابت کے ایک جہاں میں چرچے ہیں، انجام نہ دے سکے۔ اقتدار کی غلام گردشوں سے باہر ایام اسیری بھی انھوں نے اس مستقل مزاجی سے کاٹے کہ مجید نظامی مرحوم جو اپنی کھری سچائی اور حکمرانوں کو کڑوی کسیلی باتیں سنانے میں مشہور رہے، ان جیسے دبنگ ایڈیٹر سے ’’مردِ حُر‘‘کا خطاب حاصل کیا۔ یہ کامیابی ان کے کردار کے کسی وصف کی وجہ سے نہیں بلکہ معاملہ فہمی، سوجھ بوجھ اور سیاسی فہم و فراست ہی کی وجہ سے ملی۔ جیل میں رہے تو سہولتیں اور مراعات ایسی حاصل رہیں کہ جیل اور گھر میں فرق ہی نہ رہا۔ بات دور نکل گئی۔ کہنا یہ چاہتا تھا کہ متین صاحب کو خداوند تعالیٰ نے ایسی نظر اور سوچنے اور تجزیہ کرنے والا ایسا ذہن عطا کیا تھا کہ وہ جو کچھ بولتے اور لکھتے تھے اس میں روشنی سی ہوتی تھی جیسے معاملے کا کوئی تاریک پہلو ایک دم روشن ہوگیا ہو، مسئلہ پانی ہوگیا ہو۔ ایک مرتبہ مختلف قومیتوں کے حوالے سے باتیں ہورہی تھیں۔ فرمانے لگے:’’حالاں کہ میں خود پنجابی ہوں لیکن میرا تجزیہ یہ ہے کہ پنجابیوں میں معاشی، بنگالیوں اور سندھیوں میں لسانی اور مہاجروں میں تہذیبی تعصب پایا جاتا ہے‘‘۔ سیاسی اور قومی مسائل سے ہٹ کر ان کی رائے فرد کی نجی زندگی، اس کی کامیابی اور ناکامی کے حوالے سے گہری سوچ اور مشاہدے پر مبنی ہوتی تھی۔ کسی کی طلاق پر بات ہورہی تھی تو کہنے لگے:’’بھئی لڑکی میں سو عیب ہوں، گزارا ہوجاتا ہے۔ لیکن ایک عیب ایسا ہے کہ اگر وہ ہو تو الجھے ہوئے معاملات سلجھائے نہیں سلجھتے‘‘۔
پوچھا:’’بھلا وہ کون سا ایسا عیب ہے؟‘‘
فرمایا: ’’لڑکی میں ضد نہیں ہونی چاہیے۔ ضدی لڑکی اپنی ضد کے ہاتھوں اپنی زندگی برباد کرلیتی ہے‘‘۔ ان کی بات سن کے غور کیا تو احساس ہوا کہ واقعی اکثر طلاقوں کی وجہ لڑکی کی ناسمجھی یا ضدکے سبب حالات سے سمجھوتا نہ کرنا ہی ہوتا ہے۔ یہاں مراد اُن واقعات سے ہرگز نہیں ہے جن میں شوہر کے ظلم و زیادتی اور ناانصافی کی وجہ سے عورت خلع لینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ ایک ذہین طالب علم کی شرارتوں بلکہ شرانگیزی کا ذکر آیا تو کہنے لگے: ’’بھئی بابائے اردو کہا کرتے تھے: جن میں بگڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے ان ہی میں بننے کے بھی گُن ہوتے ہیں‘‘۔
متین صاحب آزادی کے وقت آگ اور خون کے دریا کو عبور کرکے آزاد وطن کی سرحدوں میں جس خستہ تنی اور سراسیمگی و افراتفری کی حالت میں داخل ہوئے اس کی خونچگاں داستان انھوں نے ایک مختصر سی کتاب ’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ میں بیان کی ہے۔ یہ داستان جس دردمندی، خلوص اور سچائی سے لکھی گئی ہے اور اس میں 1947ء کے فسادات سے پیدا ہونے والی الم ناکی، بے بسی اور انسانی حرماں نصیبی کی جو تصویر دکھائی گئی ہے، اسے ہر پاکستانی خصوصاً نئی نسل کو ضرور دیکھنا چاہیے، تاکہ معلوم ہو کہ یہ ملک ہمیں اغیار نے طشت میں سجا کر پیش نہیں کیا۔ اس داستان کے دوسرے کردار ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر معین الرحمن ہیں جو اردو ادب کے ممتاز نقاد اور محقق گزرے ہیں۔
متین صاحب کے گھرانے نے یہاں آکر بھاول پور میں قیام کیا۔ اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد متین صاحب کراچی آگئے اور یہاں انھوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے قائم کردہ اردو کالج میں داخلہ لیا۔ مولوی صاحب زندہ تھے، ان سے ارادت پیدا ہوئی جو آخری وقت تک قائم رہی۔ متین صاحب اکثر ان کے قصے اور واقعات بیان کیا کرتے تھے۔ ایک قابلِ ذکر بات جس کو بیان کرنا اشد ضروری ہے، یہ کہ بابائے اردو وقت ضائع کرنے، فضول کی گپ شپ اور بے مقصد وقت گزارنے پر سخت خفا ہوتے تھے۔ مثلاً اگر کسی سے پوچھتے کہ آج کل کیا کررہے ہو؟ اور وہ جواب میں شامتِ اعمال سے یہ کہہ دے کہ کچھ نہیں یا کوئی خاص نہیں تو پھر اس کی ایسی خبر لیتے کہ توبہ ہی بھلی۔ یہ الگ بات کہ اردو کالج میں جب بابائے اردو اور میجر آفتاب حسن کے درمیان قضیہ چھڑا تو متین صاحب کی ہمدردیاں مولوی صاحب سے زیادہ میجر صاحب کے ساتھ تھیں۔ چوں کہ بعض مصالح کی بناء پر مولوی صاحب پر انجمن کے کتب خانے کے استعمال تک پر پابندی لگادی گئی تھی جس پر انھوں نے صدر ایوب کو شکایتی خط لکھا اور قدرت اللہ شہاب نے اس معاملے کا تصفیہ کرایا اور یہ پابندی اٹھائی گئی، لیکن مولوی صاحب میجر صاحب سے ایسے بدظن ہوئے کہ ان کی صورت تک دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ متین صاحب میجر صاحب کے دفاع میں بتاتے ہیں کہ میجر آفتاب نے ایسا مولوی صاحب کی دشمنی میں نہیں، لائبریری کے مفاد میں کیا تھا۔ ان کی شرافتِ طبع کے حق میں یہ واقعہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جب مولوی صاحب بیمار ہو کے ہسپتال میں داخل ہوئے تو میجر صاحب روزانہ پابند�ئ وقت کے ساتھ ہسپتال جاتے اور نیچے ہی سے ان کی صحت کا حال احوال دریافت کرکے رخصت ہوجاتے تھے کہ عیادت کے لیے حاضری کی اجازت نہ تھی۔
اردو کالج سے گریجویشن کرکے متین صاحب نے شعبۂ صحافت کراچی یونی ورسٹی میں داخلہ لیا، پروفیسر شریف المجاہد چیئرمین تھے۔ یہیں سے ان سے مراسم قائم ہوئے اور مجاہد صاحب ہی انھیں بہ صد اصرار شعبے میں بہ طور استاد لے کر آئے۔ استاد کے طور پر متین صاحب نے شعبے اور طلبہ کو جو کچھ علم اور تربیت کے حوالے سے دیا، اس کا کچھ تذکرہ تو پیچھے آچکا ہے لیکن ایک کام وہ ایسا کرگئے جو پاکستان کی کسی یونی ورسٹی کے بہ شمول شعب�ۂ صحافت کسی مضمون کے بھی شعبے میں نہیں ہوا۔ انھوں نے اردو زبان میں صحافت اور ابلاغ عامہ کے مضامین کے حوالے سے تقریباً ایک درجن نصابی کتابیں تیار کرکے شعبے ہی سے شائع بھی کیں۔ اس گراں قدر تعلیمی و نصابی خدمت میں انھوں نے اپنے طلبہ و طالبات کو راغب کرکے ان سے سا را کام لیا۔’’نیوز پیپر میگزین اینڈ بک پروڈکشن‘‘ کے نصاب کے تحت ہونے والا یہ شاندار کارنامہ خود ان کے شعبے اور جامعات کے دوسرے شعبوں کے لیے ایک لائقِ تقلید مثال ہے۔ افسوس کہ ہماری اپنی یونی ورسٹی کی انتظامیہ اور کسی وائس چانسلر نے اس خدمت کی کوئی تحسین یا اعترافِ خدمت کی ضرورت محسوس نہ کی۔ حالاں کہ یہ کتابیں آج ملک کی دوسری جامعات کے طلبہ و طالبات کی نصابی ضرورتوں کو پورا کررہی ہیں۔ اور تو اور ان ہی کے بھائی کے بیٹے جو ماشاء اللہ سے لاہور میں ایک اشاعتی ادارے کے مالک ہیں، اپنے چچا کی مرتبہ کتابوں کو اپنی ملکیت تصور کرکے دھڑلے سے چھاپ چھاپ کر مال کما رہے ہیں اور اس کے لیے انھوں نے اپنے چچا یعنی متین صاحب سے اجازت طلبی بھی ضروری نہ سمجھی۔ رائلٹی دنیا یا منافع میں چچا کو شریک کرنا تو دور کی بات ہے۔
آج متین صاحب شوگر کے ہاتھوں ثقلِ سماعت، نقابت کا شکار چلنے پھرنے سے بھی بڑی حد تک عاجز ہوچکے ہیں۔ ان کی امانت و دیانت کی بابت ایک اور واقعہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ یونی ورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے جناح ویمنز یونی ورسٹی میں شعب�ۂ ابلاغ عامہ کی بنیاد رکھی، پھر جامعۃ الرشید میں یہ شعبہ قائم ہوا تو وہاں عرصۂ دراز تک پڑھاتے رہے، ساتھ ہی ’’اسلام‘‘ اخبار میں کالم نگاری کا فریضہ بھی ادا کرتے رہے، اردو نیوز جدہ میں ان کے کالم ایک عرصے سے چھپ رہے تھے لیکن ذیابیطس نے ان کی آواز کو متاثر کیا تو وہاں سے اجازت لے لی۔
مجھے معلوم ہوا تو اس خیال سے کہ گھر پر پڑے پڑے اور بیمار نہ ہوجائیں، ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ شام کے پروگرام میں دو ایک کورس پڑھانے کی ذمہ داری قبول فرما لیں۔ جواباً یہ عذر پیش کیا کہ آواز میں دور تک جانے کی سکت ہی نہیں رہی، پڑھاؤں گا کیسے؟ آواز پہلے بھی ان کی دھیمی تھی اور طالب علموں کو کم سنائی دینے کا گلہ پرانا تھا۔ عرض کیا’’آپ کو عملی
(باقی صفحہ 41پر)
مضامین دے دیے جائیں گے جس میں لیکچر وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی، کلاس بھی چھوٹی ہوگی‘‘۔ یہ سن کے آمادہ ہوگئے۔ لیکن ابھی سمسٹر کا اختتام بھی نہ ہوا تھا کہ ایک دن ملاقات پر آئندہ سمسٹر میں پڑھانے سے معذرت کرنے لگے۔ وجہ یہ بیان فرمائی کہ حافظہ اب کسی قابل نہ رہا۔ یاد ہی نہیں رہتا کہ آج کس نصاب کی تدریس کا دن ہے۔ کبھی حاضری رجسٹر غلط اٹھا لیتا ہوں اور کبھی ایک کورس کی جگہ دوسرا نصاب پڑھانے لگتا ہوں۔ طلبہ ادب اور احتیاط میں ٹوکتے نہیں۔ بعد میں کسی استفسار کے جواب میں کھلتے نہیں کہ غلط کورس پڑھاتا رہا ہوں۔ میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ محض معاوضے کی خاطر طلبہ اور ان کی تعلیم کے ساتھ انصاف نہ کروں۔ میں کیا کہتا، چپ رہا۔ جانتا تھا کہ اخراجات پنشن سے پورے ہوتے ہیں۔ ابھی ایک آدھ ذمے داری بھی ہے جس کے فریضے سے سبک دوش ہونا باقی ہے۔ لیکن اب کیاکہوں۔ ایک ایسے استاد، اداریہ نگار، محقق، دانش ور، ساری زندگی صحافت اور تدریس و تحقیق کی ذمہ داری نہایت دیانت داری، اصول پسندی اور فرض شناسی سے انجام دینے کو اس جامعہ، معاشرے اور حکومت سے کیا ملا جس سے ملنے اور پانے کی استادِ محترم نے کبھی امید باندھی اور نہ کبھی بھولے سے بھی کوئی گلہ شکوہ ہی کیا۔ کوشش و سفارش تو ان کی لغت کے الفاظ ہی نہیں۔
میں سوچتا ہوں استادِ محترم متین صاحب جیسی بے نفسی اور بے طلب طبیعت و مزاج کا انھیں فائدہ پہنچا، یا وہ سراسر گھاٹے میں رہے۔ جس ملک اور معاشرے میں مادّی ترقی اور خوش حالی، شہرت و ناموری کے لیے آدمی کاAmbitionsہونا، حریص و لالچی ہونا اور ڈھٹائی اور بے حیائی سے اپنا حق ہی نہ چھیننا، وہ سب کچھ بھی چھین جھپٹ کر اپنے قبضے میں کرلینا جس پر سرے سے کوئی حق ہی نہ بنتا ہو، وہاں متین صاحب جیسی ہستیوں کی موجودگی کے کیا معنی ہیں؟ معاشرے کے لیے، خود ان کے اور ان کے گھرانے کے لیے۔ان باتوں پر آپ کو سوچنا چاہیے۔ آپ پڑھنے والوں کو کہ یہ معاشرہ اور ملک، اس کی ذمّہ داری کچھ آپ پر بھی تو عائد ہوتی ہے۔