(ایک شام عبدالتواب شیخ کے نام (عبدالرحمن شیخ سکرنڈ)

ضلع بے نظیر آباد کے سینئر صحافی عبدالتواب شیخ کی صحافتی زندگی کے 37 سال پورے ہوئے تو میڈیا سیل سکرنڈ نے اسٹارکیبل سروسز سکرنڈ کے تعاون سے اُن کے ساتھ ایک شام منانے اور اُن کی تصانیف سندھ کی ’’ریتیں اور رسمیں‘‘، قلم کہانی اور باب الاسلام سندھ داناؤں کی نظر میں کی رونمائی کا ایک پروگرام ترتیب دے ڈالا۔ اس تقریب کا مہمان خصوصی سید زین شاہ کو بنایا گیا اور پروگرام کو براہِ راست کیبل کے ذریعے ناظرین و سامعین کو دکھانے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا، یہ سعادت راشد مکرم کے حصے میں آئی۔ پروگرام کے میزبان قربان عمرانی نے خیرمقدمی جملے کہتے ہوئے کہا کہ عبدالتواب شیخ نے صحافت کے میدان میں سچ اور حق کا علَم بلند کیا۔ یہ سماج دشمن عناصر سے لے کر ہر ظلم کے خلاف لکھتے رہے۔ ان کی تحریروں سے مجھے کئی مرتبہ یہ ڈر لاحق ہوا کہ اب ان کی خیر نہیں۔ مگر یہ خیر کے ساتھ نتائج سے بے پروا ہوکر اب تک اپنی سوچ کے مطابق صحافت کررہے ہیں۔ ہم نے ان سے سیکھا ہے اور ان کی صحافت کے میدان میں خدمات کے اعتراف میں یہ شام منائی اور کتابوں کی رونمائی کی جارہی ہے جو ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے۔ سینئر صحافی اور چینل کے بیورو چیف محمد اکرم شہزاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ میرے استاد عبدالتواب شیخ نے سکرنڈ، ضلع بے نظیر آباد جیسے چھوٹے سے مقام پر بیٹھ کر ملک بھر میں اپنے مضامین اور رپورٹوں سے خوب شہرت کمائی ہے۔ میں اسلام آباد میں ایک پروگرام میں شریک تھا، وہاں جب میں نے ایک حساس ادارے کے افسر کو سکرنڈ کے حوالے سے تعارف کرایا تو اس نے برجستہ پوچھا کہ آپ سکرنڈ ضلع نواب شاہ کے عبدالتواب شیخ سے تو بخوبی واقف ہوں گے۔ میں نے بتایا کہ وہ میرے استاد ہیں اور فقیر منش انسان ہیں، تو اس افسر نے مجھے کہا کہ ان سے ملاقات ہو تو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ ’’ذرا ہاتھ ہولا رکھا کریں‘‘۔ اگر عبدالتواب شیخ کسی بڑے شہر میں ہوتے تو بہت بڑوں میں ان کا شمار ہوتا۔ ان کی تصانیف نے انہیں صاحبِ کتاب صحافی کا اعزاز بھی بخشا ہے۔ پریس کلب سکرنڈ کے صدر اور گولڈ میڈل ایوارڈ یافتہ ادیب محمد صدیق منگیو نے اپنے خطاب میں کہا کہ شیخ صاحب مجھ سے کافی سینئر ہیں اور میرے ان سے خاصے پرانے تعلقات ہیں، ان کے اندر ایک حساس ادیب پوشیدہ ہے، ان کی صحافت کاٹ دار اور بڑی گہرائی والی ہے، ان کی تحریر میں ادب اور صحافت کی چاشنی پائی جاتی ہے اور انہوں نے صحافت کے میدان میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔ ایک کثیرالاشاعت روزنامہ کے نمائندہ اور میڈیا سینٹر کے سرپرست عاجز جمالی نے اپنے خطاب میں کہا کہ عبدالتواب شیخ میرے بڑے بھائی عبداللطیف جمالی کے صحافت کے ساتھی ہیں، میں بچپن سے جب اسکول میں زیر تعلیم تھا ان کی تحریریں پڑھ رہا ہوں، انہوں نے جو سچ سمجھا اس کو لکھ دیا اور ایک بڑے حلقے کو اپنی رپورٹوں سے متاثر کیا۔ پریس کلب سکرنڈ کے سرپرستِ اعلیٰ راؤ عبدالمنان نے اپنے خطاب میں کہا کہ شیخ صاحب نے سندھ کی عمرانیت پر کام کیا، ان کی صحافت نے سندھ کے اصل مسائل کو اجاگر کیا۔ شہری اتحاد کے صدر محمد مراد خانزادہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ شہر کے مسائل پر عبدالتواب شیخ نے جس بے باکی کے ساتھ ترجمانی کی یہ ان کا ہی خاصہ ہے، یہ ایک ہمدرد انسان ہیں، ان کی سماجی میدان میں بھی خدمات ہیں، یہ ہر مظلوم کے ساتھ اس کے مسئلے کے حل کے لیے چل کھڑے ہوتے ہیں۔ شہری اتحاد کے رہنما نثار خاصخیلی نے اپنے خطاب میں کہا کہ شیخ صاحب سکرنڈ کی شناخت ہیں اور انہوں نے بنا لالچ اور بغیر خوف کے صحافت کے میدان میں اپنے آپ کو منوایا۔ معروف ادیب محمد ملوک انڑ نے اپنی تقریر میں کہا کہ عبدالتواب حق اور سچ کے علَم بردار ہیں۔ راشد مکرم جو الخدمت کے ڈویژنل عہدیدار اور صحافی ہیں، انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ میرے والد مکرم علی شاہین کے قریبی رفقا میں سے ہیں، انہوں نے صحافت میں حرارت پیدا کی اور قلم کی حرمت کا خیال رکھا۔ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور پروگرام کے مہمان خصوصی سید زین شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں عبدالتواب شیخ کے مضامین پڑھتا رہتا ہوں۔ یہ اپنی رپورٹوں میں ماضی کے حوالے سے تذکرہ کرکے قاری کو سیراب کرتے ہیں، انہوں نے روایتی صحافت نہیں کی۔ اور میں افسران سے ملتا رہتا ہوں، وہ بتاتے ہیں کہ فلاں صحافی نے فلاں مراعات لیں، مگر مجھے آج تک کسی بھی افسر نے یہ نہیں کہا کہ عبدالتواب شیخ نے بھی کوئی مراعات لیں۔ انہوں نے ہر موضوع پر لکھا اور خوب لکھا۔ ان کی تحریر اور سوچ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان کی صحافت پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔ میری اور ان کی سوچ ندی کے دو کناروں کی طرح ہے اور درمیان میں سندھ کا بہنے والا پانی ہمیں جوڑے ہوئے ہے۔ اس مجلس کے ’میر‘ عبدالتواب شیخ نے اپنے خطاب میں کہا کہ جو کچھ میں نے کیا اور کررہا ہوں یہ اللہ کی عنایت ہے، اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ میں کم تعلیم یافتہ ہوں۔ میں نے صحافت کا آغاز روزنامہ جسارت سے کیا جس کی لوح پر قرآن کی آیت کا ترجمہ ہوا کرتا تھا کہ’’ اگر تم نے لگی لپٹی کہی اور سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو جو تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔‘‘ یہ آیت صحافت کے میدان میں میرا رہنما اصول آج تک بنی ہوئی ہے۔ صحافت میں اللہ کی رضا کی خاطر میں نے لکھا اور اللہ رحمان و رحیم نے مجھے شر سے محفوظ رکھا۔ میں نے صحافت کاربن سے سیکھی۔ میں کاربن کاپی خبر کی بناتا اور خبر شائع ہونے کے بعد تقابل کرتا اور اپنی درستی کرتا۔ آپ ساتھیوں نے میرے ساتھ شام منا کر مجھے بتادیا ہے کہ اب نئی سحر طلوع ہوگی جو میں اپنے ساتھیوں کے روپ میں دیکھ رہا ہوں۔ ویسے بھی شمع کی زندگی ایک شب کی ہوتی ہے۔ یہ شام آپ نے منا ڈالی۔ میرے ساتھیو چراغ جلائے رکھنا، یہ شمع بجھنے نہ دینا۔ کامیاب وہ ہے جو آخرت میں کامیاب ہوجائے۔ قلم کی حرمت بڑھ چڑھ کر ہے۔ اللہ نے قرآن میں قلم کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ قلم آپ کو اللہ نے تھمایا ہے، اس کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ اسٹار کیبل کے شبیر احمد راجپوت، ذوالفقار علی عرف پپو کوری، خلیل احمد راجپوت اور قربان عمرانی نے عبدالتواب شیخ کو اجرک اور سندھی ٹوپی کا تحفہ دیا۔ نثار خاصخیلی نے قرآن پاک مترجم ہدیہ کیا، اور سید زین شاہ نے میڈیا سیل سکرنڈ کی طرف سے عبدالتواب شیخ کو شیلڈ دی۔ یہ پروگرام دو گھنٹے جاری رہا اور براہِ راست ہزاروں افراد نے گھر بیٹھے اس کو دیکھا اور مقامی اخبارات نے خوب کوریج دی۔
nn