(عرفان احمد عبدالرؤف عبدلقدیر سلیم)

20-aqs
اﷲ کے فضل وکرم سے میری پیدائش ایک دین دار،علمی گھرانے میں ہوئی۔والد محمد سلیم عبداﷲؒ روایتی دین دار یامولوی نہیں تھے۔ان کاتعلق غازی پورسے تھا،اوروہ میرے دادامرحوم کے ساتھ وہاں سے ہجرت کرکے غیر منقسم ہندوستان کے صوبے سی پی۔Central province کے شہرامراؤتی میں بس گئے تھے۔یہاں اکثریت ہندؤوں کی تھی مسلمانوں کی آبادی 4فی صد کے لگ بھگ تھی۔ہندوستان کی زبان مراٹھی تھی،لیکن مسلمان جنوبی ہند/حیدرآباد دکن جیسی اُردو بولتے تھے۔تاہم ہمارے گھرانے پریوپی کی اُردو ہی کے اثرات رہے،اورہماری مقامی اُردو سے کچھ مختلف رہی۔میرے ننھیال کے بزرگ قاضی تھے اوردہلی سے یہاں آکربس گئے تھے۔
میرے والد رحمتہ اﷲ نے ابتدائی تعلیم امراؤتی ہی میں حاصل کی،پھرانہوں نے مولوی محمدشفیع مرحوم(اورینٹل کالج لاہور) سے خط وکتابت کی اوراُنہیں اس کالج میں داخلہ مل گیا۔مولوی محمدشفیع صاحب نے کہا کہ سی پی سے آکر یہاں داخلہ لینے والے آپ پہلے طالب علم ہیں۔وہاں اُنہیں ہاسٹل میں بھی داخلہ دیا گیا۔ وہاں سے والدصاحب نے فارسی میں فاضل کی سندلی۔امراؤتی میں انہیں نارمل سکول(ٹیچرز،ٹریننگ سکول)میں مُعلم ادبیات کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔انہوں نے اُردو کی درسی کتابیں(’’نئی کتاب‘‘)لکھیں جونول کشور پریس لکھنو سے شائع ہوئیں۔ان کے علاوہ اُردو کیسے پڑھائیں،اور مختلف موضوعات پرمنتخب قرآنی آیات کامجموعہ ال۔بینات شائع کیا۔وہ اپنے ادارے کے تعلیمی مُجلے’’بہارستان‘‘کے مدیربھی تھے۔یہاں انہوں نے ’’ادارہ قرآنیہ‘‘بھی قائم کیاتھا جوقرآنی احکام وآیات سے متعلق ذکریٰ کے عنوان سے چھوٹے چھوٹے رسائل بھی شائع کرتاتھا۔اس ادارے کاایک کتب خانہ بھی تھا۔
مطالعہ کاشوق مجھے والدین سے ورثہ میں ملاتھا۔والدصاحب جن جرائد کودیکھتے تھے،اُن میں جامعہ(دہلی)معارف(اعظم گڑھ) ترجمان القرآن(حیدرآباددکن /لاہور) ہمایوں (لاہور)،اورینٹل کالج میگزین( لاہور) نگار(لکھنو)اورصدق/صدق جدید شامل تھے۔والدہ صاحبہ اوربڑی بہن کے لیے’’عصمت‘‘ ’’تہذیب نسواں‘‘ آتے تھے۔راشد الخیری مولوی،ڈپٹی نذیر احمد اور خواجہ حسن نظامی کی تحریروں سے میرا تعارف لڑکپن ہی میں ہوگیا تھا۔اپنی خالہ جان سے ’’عذرا‘‘(She) اور’’عذراکی واپسی کی داستانیں کئی دن قسطوں میں سنیں نہ صرف گھرکا ماحول مطالعے میں ممدومعاون تھا،بلکہ جن مدارس میں میں نے تعلیم پائی،وہاں بھی اچھے کتب خانے دیکھے۔نارمل سکول کی لائبریری سے منسلک میرے والد مرحوم کاکمرہ تھا۔وہاں کتابیں دیکھنے کھولنے اوراُلٹ پلٹ کرنے پرکوئی پابندی نہ تھی۔گھرمیں بھی والد مرحوم کی اچھی خاصی نجی لائبیریری تھی۔تقسیم کے بعدہم اس ذخیرے کاایک مختصر ساحصہ ہی ساتھ لاسکے۔باقی کتابیں جہاں رکھوائی گئی تھیں کہ حالات بہترہوں گے تومنگوالیں گے۔فسادیوں کی لُوٹ مارمیں ضائع ہوگئیں۔
مطالعہ کاشوق چوں کہ بچپن سے تھا،اس لیے کسی خاص موضوع کوہدف بناکرنہیں پڑھا،جوکتاب سامنے آئی اُلٹ پُلٹ کردیکھی اورجہاں تک دل چسپی ہوئی مزہ آیا پڑھنے لگے ورنہ رکھ دی۔’’تذکرہ غوثیہ‘‘سے لے کر’’الف لیلہ‘‘ تک لڑکپن ہی میں پڑھ ڈالیں(والدہ صاحبہ نے میرے ہاتھ میں ’’الف لیلہ ولیلہ‘‘دیکھی توکہا کہاں سے یہ واہیات کتاب لے آئے ہو؟ابامرحوم نے کہا پڑھنے دو۔
مطالعہ کے ضمن میں میراکوئی مخصوص موضوع نہ تھا۔تاریخ وسوانح سے لے کر دینیات ،سیاسیات،ادب(تنقید) شاعری،ناول،افسانے،غرض ہرطرح کارطب ویابس پڑھنے کی کوشش کی کچھ سمجھ میں آتا تھا اورکچھ نہیں۔شایدیہی وجہ ہے کہ پہلے ایم۔اے کے لیے میں نے ایک بہت ہی معمولی مضمون کے لیے’’تخصیص‘‘کی فلسفہ مابعد الطبعیات کے علاوہ اورکون سے علوم ہیں،جنہیں پھلانگنے کی کوشش نہیں کرتا؟
(Philosopher are the spectators of all time and all existence)
ایک طویل علالت کی وجہ ’’اُردو ہائی سکول‘‘امراؤتی میں آٹھویں جماعت ہی سے میرا رسمی تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا تھا،لیکن پڑھائی کاسلسلہ نہ رُکا۔
قرآن مجید توگھرپرمولوی صاحب آکرپڑھاجاتے تھے ،والدصاحب نے قرآن مجیدکاترجمہ پڑھایا۔اُ ن کاخیال تھاکہ اُردو جاننے والوں کے لیے قرآنی عربی کوسمجھ لینا زیادہ مشکل نہیں۔عربی زبان کے بہت سے الفاظ جوقرآن مجید میں ہیں،اُسی مفہوم یاملتے جلتے مفہوم میں اُردو میں بھی مُستعمل ہیں(حمد،اﷲ،رب،عالم/عالمین ایسے سینکڑوں الفاظ)تھوڑے ہی الفاظ ایسے ہیں۔جن سے اُردو داں قطعاً ناآشنا ہوں گے۔
عربی کے تھوڑے سے قواعد زبان سے آشناکرکے کسی طالب قرآن کوآسانی سے مضامین ومفاہیم قرآن تک لے جایا جاسکتاہے۔اس طرح انہوں نے نہ صرف مجھے بلکہ بہت سے شائقین کوقرآن کریم کی تعلیم دی اور اسی اُصول پر’’مصباح القرآن‘‘مرتب کی جوزیرطبع ہے۔یہ نہ صرف ایک منفرد قرآنی لُغت ہے،بلکہ قرآنی/عربی گرامرکی ایک ایسی کتاب ہے،جس سے استفادہ کرکے اُردو دان قرآن کے مطالب تک خودآسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔یعنی قرآن کاخود ترجمہ سمجھ اور کرسکتے‘‘ہیں۔
تقسیم ملک کے کچھ عرصے بعدہمیں’’آزاد‘‘ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آناپڑا۔والد صاحب نے وقت سے پہلے ہی پنشن لے لی تھی۔یہاں ہم اپنے عزیزوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں منتقل ہوگئے۔والد صاحب نے کراچی کے’’دہلی پنجاب نیشنل ہائی سکول‘‘میں میٹرک میں داخل کرادیا۔یہ ایک نجی تعلیمی ادارہ تھا۔مالکان جوپڑھے لکھے اورہمدرداستادبھی تھے۔دہلی سے تعلق رکھتے تھے اورپنجاب میں میٹرک کے طلبہ کوتیارکرتے تھے۔طلبہ ہوں اساتذہ کی شفقت ومحنت مثالی تھی۔سکول میں طلبہ کی نشست فرشی تھی۔دریاں صاف سُتھری ہوتی تھیں۔اُوپرٹین کی چھت تھی۔سکول میرے گھرسے کوئی5میل دُور ہوگا۔پیدل جاتے تھے اورراستے میں جیومیٹری کی تھیوریزدُہراتے اوردوسرے سبق یادکرتے جاتے تھے۔آج دیکھتا ہوں کہ بچے ایک آدھ کلومیٹرکے لیے بھی بس کے بغیرسفرنہیں کرتے۔
جتنی محنت اوریکسوئی سے پڑھائی کی،شایدپھرنصیب نہ ہوئی لاہورجاکرامتحان دیا۔سکول مالکان ساتھ گئے انہوں نے طلبہ کے ٹھہرنے کے لیے ایک سکول میں انتظام کیاتھارات کووہ’’کوچنگ‘‘کرتے اورصبح کوہم طلبہ امتحان دینے جاتے۔میٹرک میں میری فرسٹ ڈویژن آئی۔اس میں بڑا دخل مشفق اساتذہ اورسکول کے منتظمین کاتھا۔آج چاروں طرف نظرڈالتا ہوں توایسے نجی تعلیمی ادارے نظرنہیں آتے۔سرکاری سکول بدنام ہوگئے ہیں کہ ان میں پڑھائی نہیں ہوتی،اساتذہ دل چسپی نہیں لیتے۔اُنہیں اپنی کوچنگ/ٹیوشن میں زیادہ دل چسپی ہے،یااپنا کوئی دوسرا کاروبارہے۔جوان کے اوقات اورمحنت کابہترمتصرف ہے۔ہرطرف پرائیویٹ سکولوں اورکوچنگ سینٹروں کی بھرمارہے۔اچھے اورمیعاری سکول غریب توکیامتوسط طبقے کی پہنچ سے بھی دورہیں۔
میٹرک کے بعدسندھ مسلم کالج کراچی میں داخلہ لیا۔معاشیات،شہریت اورعربی میرے مضمون تھے۔یہاں بھی اساتذہ اچھے اورمحنتی تھے۔میٹرک اورانٹرمیڈیٹ کے امتحان بھی جامعہ کراچی لیا کرتی تھی،ابھی ان کے لیے بورڈ وجودمیں نہیں آئے تھے۔انٹرمیں بھی میں نے فرسٹ ڈویژن میں کیا اورپہلی پوزیشن لی۔اس زمانے کاایک واقعہ میرے دل پرنقش ہے۔ہماری مالی حالت بہت اچھی نہ تھی۔سال کی 144روپے فیس بھی ایک بڑی رقم محسوس ہوتی تھی۔کالج میں داخلے کے کچھ دن بعدنوٹس بورڈ پراطلاع دیکھی کہ فیس کی معافی یانصف فیس کے لیے درخواست کے فارم دفترسے لیے جاسکتے ہیں۔میں نے ایسافارم لیا اُسے پُرکیا۔ایک جگہ والد کے دستخط ہونے تھے۔ابامرحوم کے پاس لے گیا۔پوچھا کاہے کافارم ہے؟میں کہا فیس کی معافی کے لیے درخواست ہے۔فرمایا ہم نے تمہیں کالج میں داخل کرایا تواخراجات کااندازہ کرلیاتھا۔ہم فیس معاف نہیں کروائیں گے۔یہ رقم کسی حقیقی مستحق کے کام آئے گی۔
بی۔اے میں میرے اختیاری مضامین معاشیات اورفلسفہ تھے۔فلسفہ میں ایک پرچہ’’نفسیات‘‘کابھی ہوتاتھا۔جسے پروفیسر فضل الرحمن پڑھاتے تھے وہ عرصے تک انگلستان میں رہے تھے۔اورسنہرے بالوں اورنیلی آنکھوں سے یورپین معلوم ہوتے تھے۔سائیکل پرکالج آتے۔اس زمانے میں اساتذہ بسوں اورسائیکلوں ہی پرکالج آتے تھے۔دوسراپرچہ ’’اخلاقیات‘‘پروفیسر جمیلہ خاتون پڑھاتی تھیں۔بعدمیں انہوں نے اقبال پرتحقیقی مقالہ لکھا اورپی ۔ایچ ۔ڈی کی سندلی۔اسلامیات جولازمی مضمون تھامولانا یحیٰ ندوی جیسے قابل استادپڑھاتے تھے۔یہیں میری ملاقات اوردوستی ظفراسحق انصاری، منظوراحمد، معروف فلسفی سابق ریکٹر انٹرنیشنل اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد، ڈائریکٹر ادرہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد، خورشیداحمد معروف سکالر سینیٹیئر، خرم جاہ مراد ،محمدمسلم سجاد معروف سکالر،سیدمحمدیسٰین اوربہت سے دوستوں سے ہوئی۔ظفراسحق کے والدصاحب،مولاناظفراحمدانصاری کے ہاں اکثرآناجانارہتا تھا۔وہیں ماہرالقادری مرحوم اوربہت سے دوسرے لوگوں سے تعارف ہوا۔سندھ مسلم کالج ہمارے گھرسے کوئی ڈھائی میل دورتھا۔پیدل ہی آناجانا رہتا تھا۔
جامعہ کراچی میں ایم۔اے شعبہ فلسفہ میں داخلہ لیا۔ڈاکٹرمحمدمحموداحمد(ایم۔ایم۔احمد) صدرشعبہ تھے۔اساتذہ میں طیب حسین انصاری معروف فلسفی سابق اورانیس احمدصاحب کے علاوہ مولانا فضل الرحمن(اسلامک مشن) اورفادرریمنڈ(سینٹ پیڑکس،نفسیات) سے پڑھنے کاشرف بھی حاصل ہوا۔جامعہ کراچی کی اپنی کوئی عمارت نہیں تھی۔پرنس اسٹریٹ(ڈاؤمیڈیکل کالج/سول ہسپتال کے قریب رنچھوڑ لین کی کچھ متروکہ عمارتوں میں جامعہ کے مختلف شعبے اوردفاترتھے۔وائس چانسلراے۔بی۔اے۔حلیم(اباحلیم) بھی یہیں بیٹھتے تھے۔اساتذہ اورانتظامیہ کے افراد میں بڑی سادگی تھی۔ہمارے صدر شعبہ تانگے/گھوڑاگاڑی میں کینٹ اسٹیشن کے قریب اپنی رہائش گاہ سے جامعہ آتے،اوراسی طرح واپسی ہوتی۔اکثرشیروانی اورترکی/رومی ٹوپی میں ہوتے۔کبھی کبھی سوٹ یاآکسفورڈ کابلیزربھی پہن کرآتے۔وہ وائس چانسلرپروفیسراے بی حلیم کے بھانجے تھے اوردونوں ایک ہی متروکہ(دومنرلہ) عمارت میں رہائش پذیرتھے۔لیکچربننے کے بعدبھی اکثرڈاکٹرصاحب کے گھرجاناہوتاتھا۔گاندھی گارڈن کے قریب جہاں ہمارافلیٹ تھا،وہاں سے پیدل ہی آمدورفت ہوتی تھی۔ناظم آبادمنتقل ہوگئے توصدرتک بس میں اوروہاں سے پیدل اپنے استاد کے گھرجاتے تھے۔
ایم۔اے کرنے کے فوراً بعدہی مجھے عثمانیہ کالج میں فلسفہ پڑھانے کے لیے ملازمت مل گئی۔ایک دن والدہ صاحبہ نے اخبارمیں اشتہاردیکھا توکہا سرکاری کالج میں لیکچرشب کے لیے درخواست کیوں نہیں دے دیتے؟میں سندھ کی نظامت تعلیم(سعیدمنزل،بندروڈ) گیا۔ڈائریکٹر نظامانی صاحب سے ملا،اﷲ انہیں جنت نصیب کریں۔بڑی محبت سے ملے اورجلدہی مجھے تقرری خط مل گیا۔اس زمانے میں ’’رسمیات‘‘ نہ ہونے کے برابرتھیں اس طرح گورنمنٹ کالج نواب شاہ میں میری پہلی (سرکاری) تقرری ہوئی۔اس کے بعدسندھ کے کئی کالجوں میں تدریس کے لیے جانا ہوا۔میرامشاہدہ تھا کہ سندھ کے سرکاری کالجوں کے کتب خانے بڑے معیاری ہوتے تھے۔نہ صرف کتابیں بلکہ ملکی اورغیرملکی جرائدکی خریداری عام بات تھی۔کتب خانوں کے لیے بڑی رقوم رکھی جاتی تھیں اورانگریزی اوراُردوکتابوں کی خریداری کوئی مسئلہ نہیں تھی۔بدقسمتی سے یہ بات اب ماضی کی داستان ہے۔
اﷲ کافضل وکرم ہی ہے کہ میرابچپن لڑکپن اورموجودہ عمرکوکتابوں کاماحول میں مُیسر ہوا۔لڑکپن میں عرب شاعرمتنبی کاایک شعرپڑھا تھا کہ دنیا میں نشست کے لیے برق رفتار گھوڑے کی پیٹھ سے بہترکوئی جگہ نہیں اورزمانے میں بہترین دوست کتاب ہے۔مختلف ادوارمیں میری پسندیدہ کتابوں میں الف لیلہ،قصرصحرا(عظیم بیگ)صنوبرکے سائے،میری ناتمام محبت(حجاب امتیازعلی) فسانہ آزاد(رتن ناتھ سرشار)واردات،دودھ کی قیمت(منشی پریم چند)میرے بھی صنم خانے آگ کادریا(قراۃ العین حیدر) Portait of a lady(ہنری جیمز) آرتھرکائن ڈائل(شرلاک ہومز والے)کی ساری کتابیں،جیمرمچنرکی اور ابن صفی کی ساری کتابیں،ایم اسلم اور نسیم حجازی کے ناول،پطرس بخاری قدرت اﷲ شہاب، مختار مسعود، ممتاز مفتی،اشفاق احمد کی کہانیاں نوجوانی میں پڑھیں۔انگریزی میں رسائل میںReader’s Digestاورپھربعدمیں New weekمیرے پسندیدہ رسائل تھے۔بعدمیںEconomistسے تعارف ہواورمیرا خیال ہے کہ ہفت روزوں میں یہ بہت اچھا رسالہ ہے۔
میرازیادہ ترمطالعہ اُردواورانگریزی زبانوں میں ہے۔ابتدامیں کچھ کلاسیکی عربی ادب سے شناسائی ضرورتھی۔اس کے علاوہ فارسی کی بھی کچھ ابتدائی کتابوں کامطالعہ کیاتھا۔میراخیال ہے کہ اچھی اُردوکے لیے عربی اورفارسی سے آشنائی بھی ضروری ہے۔بدقسمتی سے آج ہم تعلیم کی شاہراہ(mainstream) میں ان دونوں زبانوں سے بے اعتنائی برتی جارہی ہے،لیکن وہ معیاری/علمی اُردو سے نابلدہوگئے ہیں،اور نہ صرف یہ کہ وہ پچھلی(بیسویں)صدی کے اُردوعلمی ورثے سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔بلکہ سنجیدہ علمی افکارکواپنی’’قومی‘‘سرکاری زبان میں اظہارکے قابل بھی نہیں رہے۔
سنجیدہ ادب میں جن مصنفین اورتحریروں نے مجھے متاثرکیا،ان میں شیخ احمدسرہندی(مکتوبات اوردوسرے رسائل) شاہ ولی اﷲ کی بعض تحریریں،مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی،مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا عبدالماجد دریاآبادی،مولانا جعفرپھلواری،مولوی محمدعلی لاہوری(خصوصاً سیرۃ پر اُن کی تصنیف اُن کی تفسیرکے بعض افکارسے مجھے اختلاف ہے۔ وہ جہاں سیداورجدیدیت سے متاثر محسوس ہوتے ہیں۔ڈاکٹرحمیداﷲ(خصوصاً عہدنبوی میں نظام حکمرانی اورخطبات بہاولپور،شبلی اورسیدسلیمان ندوی کی (سیرت النبی)تفاسیرمیں مولانا سیدابواعلیٰ مودودی کاایک منفردمقام ہے۔ان کی تفہیم القرآن بلاشبہ تفسیری ادب میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔تاہم ایک طویل دورانیے میں تکمیل پذیرہونے کی وجہ سے بعض مقامات پروہ اپنی ابتدائی انقلابی فکرسے ہٹے ہوئے نظرآتے ہیں۔
مطالعہ فلسفہ کے ابتدائی دورمیں ،میں اقبال کے خطبات سے بھی متاثرتھا۔لیکن بعدمیں زیادہ مطالعہ سے اُن کی’’نثرفکر‘‘کی کمزوریاں بھی نظرآئیں،خصوصاً اُن کے بعض اجتہادات جن کو لڑکپن میں دیوان حماسہ،متنبی اورمقامات بدیع الزمان حمدانی اوراس طرح کے عربی ادب کے کچھ حصے پڑھے تھے۔فارسی میں گلستان بوستان اورکچھ غالب کاکلام(فارسی)آج اقبال کی اصل اسلامی فکراوراُن کی’’ روشن خیالی‘‘کے ثبوت کے طورپرپیش کیاجاتا ہے جب کہ’’ جدیدترکی‘‘کی جمہوریت سے اُن کی اثرپذیری کوبعض لوگ مرعوبیت کانام بھی دے سکتے ہیں،جب کہ یہ اُن کی حقیقی فکرنہ تھی اپنے شعر میں توعلامہ نصیحت فرماتے ہیں۔
گُریزازطرزجمہوری غلامے پختہ کارے شو
کہ ازمغزدوصدخرفکرانسانی نمی آید
اس طرح اوربھی کئی باتیں ہیں اورمسائل پراُن کے اجتہاد نیم پختہ ہی محسوس ہوتے ہیں،تاہم شعرمیں اُن کی فکراکثر’’الہامی‘‘محسوس ہوتی ہے،اورخیال ہوتاہے کہ ’’آفاقی دانش‘‘جوایک ماورائی تصور ہے اپنے اظہارکے لیے کسی کواپنا ذریعہ(medium)بنالیتی ہے،چاہے وہ شخص اپنی عمومی ذہانت اورزندگی میں اُس معیار،افتاد اورکردارکانہ ہو جیساکہ وہ اپنے کلام میں نظرآتاہے،بقول غالب آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں غالب ‘صریرخانہ نوائے سروش ہے وہ کتابیں جوعموماًمیرے بسترہوتی ہیں،کلیات اقبال اوردیوان غالب ہیں ہندوستان میں جہاں ہمارے لیے کتابیں آسانی سے دست یاب نہ تھیں۔والدصاحب نے اچھے کاغذکی ایک مجلہ کاپی مجھے دی اوراقبال کی ’’اسرارخودی‘‘اورفرمایاکہ اس کتاب کونقل کرلو(فوٹوکاپی اس زمانے میں نہیں ہوتی تھی) کچھ صفحات ابانے لکھے اوربیشترمیں نے،اس طرح اقبال کے فارسی کلام کی کچھ شدبدلڑکپن ہی میں ہوگئی تھی۔’’اسرارخودی‘‘کاوالدصاحب نے اُردومیں ترجمہ کیا تھا۔یہ اور’’رموزِخودی‘‘دونوں مجھے بے حدپسند ہیں۔اقبال کی نطموں میں’’شکوہ‘‘اورجواب شکوہ‘‘’’مسجدقرطبہ‘‘ اورسوزوساز‘‘طلوع اسلام‘‘میرے خیال میں فکروفن کویک جا کرکے دیکھا جائے،تومحمداقبال دنیاکے سب سے بڑے شاعر ہیں۔کم ازکم اُردواورانگریزی شاعری میں جس کاکچھ میں نے مطالعہ کیاہے،اس کے حوالے سے یوں غالب،ذوق،داغ اورمیردردمیرکی کچھ غزلیں (کلیات میرکودیکھ کرمایوسی ہوئی)نئے شعرامیں فیض احمدفیض(جوش کے ہاں الفاظ کاشکوہ اورجادوزیادہ ہے)۔انگریزی شاعری عموماً پھیکی اورطفلانہ محسوس ہوتی ہے۔شیکسپےئرکے کئی ڈرامے پڑھے لیکن اس کاجولیس سیریز مجھے اچھالگا۔
حالی کی مسدس مدوجزراسلام اس کاکافی حصہ بچپن میں زبانی یادتھا۔خصوصا وہ نعتیہ اشعار،وہ نبیوں میں رحمت لقب بنانے والا،مرادیں غریبوں کی برلانے والا میرے خیال میں اُردو کی بہترین نعتیہ شاعری میں شمارکیے جانے کے لائق ہیں۔اپنے فکری تضادات؟کااعتراف ہے۔ایک طرف توروایتی علماء میں مولانا اشرف علی تھانوی،ان کی’’ بہشتی زیور‘‘ہمارے ہاں جہیز میں ضرور دی جاتی تھی،اورمیراخیال تھاکہ اس طرح کی کوئی کتاب یا اس کاکوئی’’نظرثانی شدہ/ترمیم شدہ ایڈیشن اب بھی اس مقصدکے لیے کارآمد ہوگا۔پسند تھے،اوردوسری طرف سرسید ابوالکلام آزاد،مولانا مودودی،شبلی نعمانی،سیدسلیمان ندوی،گاندھی جی کی (تلاش حق)علی شریعنی(On the sociology of islam Hagerism) کارل مارکس،میکس ویبرجیسے مفکراورمصنف۔
مفکرین میں مجھے سقراط/افلاطون اورکانٹ نے متاثر کیا۔سقراط کی زندگی اورتعلیمات اگراس میں سے افلاطون کے حشووزوائد نکال دیے جائیں)پیغمبروں کی سی نظرآتی ہے۔کانٹ کے فلسفہ،اخلاق کی اسلامی تعلیمات سے کافی مماثلت ہے۔ان کے علاوہ جارج برکلے کی تصوریت پڑھنے میں مزاآتاتھا۔اگرچہ میں نے اس کی’’نتائجیت‘‘کے فلسفے سے کبھی کلی طور پراتفاق نہیں کیا۔کارل مارکس اوراینجلزکے فلسفے کی تمام ترجزئیات سے مجھے اتفاق نہیں لیکن میں انہیں عظیم(اورمخلص) فلاسفرمیں شمارکرتا ہوں۔میں نے مارکس کیCapitalکی پہلی جلد اورکئی دوسری تحریریں پڑھیں،اوراُن سے متاثرہوا۔عصری مفکرین میں سی۔ڈبلیو،ملزکی تحریروں میں گہرائی اورسچائی محسوس کی۔کمرہ جماعت میں ایک دفعہ رُشدی کیThe Satanic versaکاذکرآیا میں نے نہیں پڑھی تھی۔ایک طالبہ نے مجھے پڑھنے کودی۔غصہ توکیاآتا،سچ تویہ ہے کہ یہ کتاب مجھ سے پوری پڑھی ہی نہیں گئی۔نہایت غیردل چسپ اور غیر معقول لگی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کی ایک طرح کی شہرت اور’’پذیرائی‘‘کیوں ہوئی۔
جوکتابیں اورتحریریں مجھے اچھی لگتی ہیں،میں چاہتاہوں کہ دوسرے بھی انہیں پڑھیں اس کے لیے میں اکثروہ کتابیں تحریریں اپنے عزیزوں اورحلقہ احباب میں دیتاہوں یاانہیں متعارف کراتاہوں۔اگرتحریرچھوٹی ہو تواس کی تصویریں نقل دے دیتاہوں۔کتابیں تحفتاً بھی دیتارہتاہوں۔ایک عرصے سے شادی اورخوشی کے دوسرے مواقع پرمیں قرآن مجید(خصوصاً مولانا مودودی کی ’’ترجمانی‘‘کے ساتھ)ہدیہ کرتاہوں۔اس کے علاوہ اب وہCDsبھی تحفے میں دیتاہوں،جن میں قرآت قرآن مجیدکے ساتھ ساتھ مولانا کی تفسیر’’تفہیم‘‘ ہے۔ میری تعلیم کاآغازتوہندوستان میں میرے والدمرحوم کی اُردواوراسلامیات کی کتابوں سے ہواتھا،جواس وقت وہاں سکولوں میں مروج تھیں۔میری خوش قسمتی اوراعزازتھاکہ پاکستان میں آکریہاں درسیات کی تدوین اورتالیف میں میں نے ان کے ساتھ کچھ کام کیا۔حقیقت تویہ ہے کہ میں اُن کی فکراورفہم دین اوراسلوب زندگی سے سب سے زیادہ متاثرہوا۔شیخ احمدسرہندیؒ سے اُنہی نے مجھے متعارف کرایاتھا،اوراُن کی فکرپرکام کرنے کوآمادہ کیاتھا۔اُن کے دوست اورمیرے بزرگ ڈاکٹرغلام مصطفی خاںؒ ،مجھے حضرت مجددکے ’’مکتوبات‘‘کا مشہورامرتسرایڈیشن اوران کی کئی فارسی تحریریں دیں۔کچھ کتابیں اس سلسلے کے ایک اوربزرگ حاجی محمداعلیٰ نے بھی عنایت کیں میرے دوست خالد اسحق ایڈووکیٹ مرحوم نے نے مجھے اپنانہایت قیمتی اوربہت منظم کتب خانہ استعمال کرنے کی کھلی اجازت دی تھی۔اورمیرے لیے ایک گوشہ مخصوص کرادیا تھا جہاں میں نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کی نوک پلک درست کی،اوراسے تکمیل کوپہنچایا۔خالد اسحق صاحب میرے خیال میں پاکستان یاشاید آج کی دنیا میں(خدابخش لائبریری) ٹپنہ کے استشنیٰ کے ساتھ جومیں نے نہیں دیکھی سب سے بڑی نجی لائبریری رکھتے تھے۔ان کی خواہش تھی کہ یہ کتب خانہ کراچی ہی میں رہے اوریہاں لوگ اس سے مستفید ہوں۔مگران کی وفات کے بعد(اُن کے قریبی دوست سعیدصاحب کی کوششوں کے علیٰ الرغم)اُن کے بچوں کی مرضی سے کتابوں کایہ قیمتی ذخیرہ لاہورکے ایک تعلیمی ادارے کی تحویل میں چلاگیا۔
میرے پاس کتابوں کاکوئی بڑاذخیرہ تونہیں۔والدمرحوم کی وہ کتابیں ہیں،جوہندوستان سے یہاں آسکیں۔چند سومیری کتابیں ہوں گی۔ان میں شبلی،سیدسلیمان ندوی،مولانا مودودیؒ کی کتابیں،فلسفہ تاریخ اورمتفرق موضوعات پرکتابیں اورجرائد،دائرہ معارف اسلامیہ جیسی کتابیں شامل ہیں۔لیکن اب کتابوں کوسنھبالنا مشکل ہوتاجارہاہے۔
میں عاریتاً کتابیں صرف ’’معتبر‘‘لوگوں ہی کودیتاہوں۔تاہم محسوس ہوتاہے کہ میرے علم وایماکے بغیربھی بعض ’’شائقین‘‘کتابیں لے جاتے ہیں،اورواپس نہیں کرتے۔اس کاعلم اُس وقت ہوتا ہے،جب اُس کتاب کی ضرورت پڑتی ہے،اوروہ ’’غائب پائی جاتی‘‘ہے۔میری لکھی ہوئی بعض کتابیں بھی اب میرے پاس نہیں۔ایک اہم کتاب جس کااب بدل شایدنہ مل سکے۔’’تفہیم القرآن‘‘(مولانا مودودی)کے پہلے ایڈیشن کی وہ پہلی جلد ہے،جس پرخودمولانامودودیؒ اورپبلشرقمرالدین صاحب کے دستخط تھے۔ایک صاحب ’’درس‘‘کے لیے گئے۔اورپھرواپس نہ آئی۔
معالعہ کے لیے کوئی مخصوص اوقات نہیں جب بھی موقع مل جائے اورجو موزوں کتاب دست یاب ہو،پڑھ لیتا ہوں،لیکن رات،سونے سے پہلے(بعض اوقات دیر تک)پڑھنے کی عادت ہے۔دن میں پڑھنے کی نشست عموماً میز،کرسی پراوررات میں بھی اس طرح یالیٹ کرمطالعہ کرتاہوں۔
عام تعلیم یافتہ افرادکے لیے میرامشورہ یہ ہے کہ وہ رات میں یادن کے فرائض میں سے جوقت وہ نکال سکیں۔مطالعے کی عادت ڈالیں۔اخبارات اورہنگامی،وقتی تحریروں اورٹی وی پرزیادہ وقت صرف نہ کریں،اپنے محلے یاسہولت کے مقام پرکوئی کتب خانہ تلاش کریں جہاں کتابیں عاریتاً مل سکتی ہوں۔پرانی یااپنی کتاب کوتختہ مشق نہ بنائیں۔اس پرکچھ لکھنے یانشان لگانے سے پرہیزکریں۔میں نے بعض اچھے کتب خانوں کی قیمتی کتابوں کودیکھا ہے کہ ان میں بعض ’’قارئین‘‘نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔اپنی قیمتی آراء درج کی ہیں۔اوربعض ظالموں نے ورق پھاڑلیے یابلیڈ سے تراش لیے ہیں۔یہ بہت افسوس ناک ہے۔اخبارکابل کم کرکے کچھ رقم کتابوں پرصرف کریں۔تفریحی ادب میں پہلے ہمارے کلاسیکی ادب کوپڑھنے کی کوشش کریں۔ساتھ ہی سنجیدہ علمی تحریروں کے لیے بھی وقت نکالیں۔ادب عالیہ سے غیرمحسوس طورپر ہماری فکری رہ نمائی ہوتی ہے،اوربالواسطہ طورپروہ ہمارے اخلاق وعادات پراثراندازہوتاہے۔ہمارے رویوں کی تراش خراش کرتاہے۔اوراعلیٰ آفاقی اقدارتک سہولت کے راستے لے جاتاہے۔جب کہ گھٹیا ’’بازاری ادب‘‘ فکشن،نثر اورشعر غیرمحسوس طریقے سے ہمیں ’’اسفل‘‘کے گڑھوں میں اُتارتاچلاجاتاہے اوراگراُس کی چاٹ پڑجائے توپھراس کے اثرات عام زندگی اوررویوں میں بھی نظرآنے لگتے ہیں۔
ایک عام قاری کے لیے ایک زمانے میں انگریزی میں کلاسیکی ادب(اوردوسری کتابیں)’’ پیپربیک‘‘میں بہت ارزاں مل جاتی تھیں۔پاکستان میں بھی بعض اشاعتی اداروں نے یہ سلسلہ شروع کیاتھا۔لیکن محسوس ہوتاہے کہ اب ایسا نہیں ہورہا۔اچھی کتابوں کے ارزاں ایڈیشن دست یاب ہوں گے توطلبہ اورعام لوگوں تک اُن کی رسائی ہوگی۔اچھے غیرملکی ادب اورسنجیدہ علمی کتابوں کے تراجم کوبھی فروغ دینا چاہیے۔اس سلسلے میں جاپانی قابل تقلید ہیں۔وہاں کتابیں نہ صرف ارزاں ہیں بلکہ قابل ذکرکتابوں کے تراجم حیرت انگیزسرعت کے ساتھ بازارمیں آجاتے ہیں اوردل چسپی رکھنے والے افرادکوغیرملکی زبانوں سے محرومی کااحساس نہیں ہوتا۔تقسیم ہند سے پہلے مرحوم حیدرآباددکن کی ریاست میں سرکاری سرپرستی میں جو دارالترجمہ قائم تھا۔اس نے اُردو جاننے والوں کی وہ خدمت کی جس کی نظیرنہیں ملتی۔افسوس کہ پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کے باوجود ہم اس کاعشرعشیربھی نہ کرسکے۔جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ میں بھی زیادہ کام نہیں ہورہا۔یوں محسوس ہوتاہے کہ شعوری(غیرشعوری)طورپرہم اُردو کوختم کررہے ہیں۔رسم الحظ بدل کرانگریزی حروف میں اُردولکھی جارہی ہے۔درسیات میں اعلیٰ جماعتوں کے لیے اُردو کتابیں دست یاب نہیں۔انگلش میڈیم سکولوں کافروغ ہے۔اوراُردوصرف بول چال کی زبان بنتی جارہی ہے۔اچھے تعلیمی اداروں اور جامعات کے بچے اورنوجوان بھی اُردوکی علمی یاشعری زبان کوسمجھنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔(یہ لطیفہ نہیں واقعہ ہے کہ ایک مشہوراعلیٰ تعلیمی ادارے کے ذہین اورصاحب ذوق نوجوان کومیں نے ’’بال جبریل ‘‘پڑھنے کے لیے کہا،تووہ حیران تھا کہ حضرت جبریل کے’’مُوئے مبارک‘‘ کوایک کتاب کاعنوان کس طرح بنایا جاسکتا ہے؟
میں کوشش کررہا ہوں کہ سکولوں اورکالجوں کے طلبہ کے لیے آٹھویں جماعت اورآگے کے لیے کچھ ایسی کتابوں کاانتخاب کروں جوہرجماعت میں(لازمی اوراختیاری مضامین کی کتابوں کے علاوہ)اُنہیں مہیاکی جائیں اورانہیں لازماً پڑھائی جائیں۔اس طرح وہ نہ صرف اُردوزبان کے معیاری ادب سے آشناہوں گے۔بلکہ اُنہیں اپنی اصل ثقافت،زبان اورتہذیب سے بھی موانست ہوگی۔
بدقسمی سے آج بیشتراعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم نوجوان اوراساتذہ بھی اُردو اوراُردو ادب سے اتنے ہی واقف ہیں،جتنا انہوں نے اپنی درسی کتاب میں پڑھ لیاہے۔اس کے علاوہ انہیں نہیں معلوم کہ ڈپٹی نذیراحمدکون تھے اورمرزافرحت اﷲ بیگ کون۔پنڈت رتن ناتھ سرشارکون تھے،اورمیاں آزاداورخوجی صاحب کون ہیں۔نانی عشوکون تھیں اورمرزا ظاہرداربیگ کون؟اپنے کلاسیکی ادب (اورنتیجتاً ثقافتی ورثے اوراقدار سے کٹ کرجونئی نسل وجود میں آرہی ہے اس کے ناخوش گوار اثرات بظاہرتوکچھ ابھی دیکھنے میں آرہے ہیں لیکن میراخیال ہے کہ آئندہ اس کے بڑے نقصان ہوں گے کہ اس طرح ایسی قوم وجود میں آجائے گی جس کی نہ اپنی زبان ہوگی،نہ اپنی ثقافت نہ اپناذخیرہ اقدارنہ خیروشرکے لیے اپنا کوئی پیمانہ۔
قرآن کریم کے علاوہ تین کتابیں کون سی ہوں گی جومیں اپنے پاس رکھنا چاہوں گا؟یہ بہت مشکل سوال ہے۔ہزاروں خواہشیں(یہاں کتابیں پڑھیے)ایسی کہ ہرخواہش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال میراخیال ہے کہ موطاامام مالک سیرۃ النبیﷺ، شبلی اورکلیات اقبال(اُردووفارسی)ایسی تین کتابیں ہوسکتی ہیں۔ایک کتاب کی اوراجازت ہوجائے!Dailague of platoکسی نے سچ کہا ہے کہ افلاطون کے بعدبیشترفلسفہ اسی پرتبصرہ وتنقید ہے۔
***