سولہ ماہ کا معصوم شہید عمر ابراہیم

تہذیب محبت ہے، عشق ہے، عقل ہے۔ تہذیب انسان کی حیات کا بہترین اسلوب ہے۔ تہذیب سے ہی انسانی معاشرے کی نمو ہے، آبیاری ہے، بقاء ہے، اور احیاء ہے۔ انسانوں کا سب سے مستحکم رشتہ تہذیب سے ہے۔ یہ سرحدوں، زبانوں، ثقافتوں، نسلوں، خاندانوں اور رنگوں سے ماوراء ہے۔ انسانی تہذیب کا رنگ کائنات کا رنگ ہے، یہ فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ وہ تہذیب جو اس رنگ سے عاری ہو، انسانی تہذیب نہیں ہے، ’’محض مہذب ‘‘نما ہے، نام نہاد ہے۔
سولہ ماہ کے معصوم شہید محمد شحیط کی ایک تصویر کی تمہید میں تہذیب کی تعریف کیوں؟ یہ سوال ان گنت سسکتے سوالوں سے پہلے سامنے آکھڑا ہوا ہے۔ خدارا یہ تہذیب کس بلا کا نام ہے؟ انسانی تہذیب کسے کہتے ہیں؟ یہ معصوم کیوں دنیا سے منہ موڑ گیا؟ اور یوں منہ موڑگیا کہ انسانی تہذیب کے علَم بردار منہ دکھانے کے لائق نہ رہے۔ سچ ہے، مہذب نما مجرم دنیا کی منافقت اور مظالم عالمی المیہ بن چکا ہے۔ روہنگیا خاندان کے معصوم بچے کی شہادت عظیم شہادت ہے۔ یہ شہادت ہے اس امر کی کہ بحیرہ روم کے کنارے ٹھیر جانے والا منظر تنہا نہیں، ایلان کُردی تنہا نہیں۔ انسانی تہذیب کے یہ معصوم امکانات نیل و فرات سے دریائے ناف اور حلب و موصل کی گلیوں سے کشمیر کی وادیوں تک، ہر جگہ مٹائے جارہے ہیں۔ اسلامی تہذیب کے امکانات پر مہذب نما جاہلیت بھرپور بے حسی اور سفاکی سے حملہ آور ہے۔ مسلمان دنیا کے بڑے بڑے فرزند بھی معصوم شہادتوں پر بارِ گناہ سے بوجھل ہیں، گفتار کی خود فریبیوں میں گرفتار ہیں۔ اس مضمون کی مانند لاکھوں الفاظ و احساسات یہاں سے وہاں بے کس، بے بس و بے اثر ہورہے ہیں۔
ایک دریا ہے، دریائے ’’ناف‘‘۔ یہ برما اور بنگلہ دیش کے درمیان بہتا ہے۔ یہ روہنگیا خاندانوں کو کشتیوں پر بنگلہ دیش کی سرحدوں تک لے جاتا ہے۔ کتنے ہی زندہ اجسام اس سفر میں موت سے جاملے ہیں۔ 4 دسمبرکی صبح بھی برما کی مظلوم مسلمان اقلیت کا ایک خاندان ریاستی دہشت گردی سے بچ بچاکر دریا تک پہنچا۔ ننھے محمد شحیط کے والدین کشتی میں سوار ہوئے، اچانک پشت سے برما کے فوجی نمودار ہوئے، انہوں نے اندھا دھند فائر کھول دیے۔ بہت سے لوگ وہیں گرپڑے، بہت سارے کشتی پر چڑھ دوڑے، کشتی بوجھ نہ سہار سکی۔ زندگی سے بھرپور ناؤ ڈوب گئی۔ محمد شحیط، اُس کی ماں، تین سال کا بڑا بھائی، اور چچا شہید ہوگئے۔ والد ظفرعالم تیرتا ہوا بنگالی مچھیروں کے ہاتھ جالگا۔ مچھیروں نے اس کی جان بچالی۔ رخائن کا ایلان کردی محمد شحیط دنیا سے منہ موڑنے کے لیے ساحل پر آلگا۔ ظفرعالم نے بیٹے کی تصویر دیکھ کر کہا کہ کاش وہ بھی مرہی جاتا۔ ظفر عالم بتاتا ہے کہ برمی فوج نے اس کے دادا دادی کو زندہ جلادیا تھا، ان کے گاؤں میں آگ لگادی تھی، وہ پھربنگلہ دیش ہجرت پر مجبور ہوئے، اور دریا میں سب ختم ہوگئے۔
ظفرعالم بتاتا ہے کہ محمد شحیط بہت محبت کرنے والا بچہ تھا، گاؤں بھرکا پیارا تھا۔ جنوبی بنگلہ دیش کی سرحد پر ایک سائبان تلے ظفر عالم گزری زندگی کی یاد میں زندگی بسر کررہا ہے۔ یہاں بھی زندگی کسمپرسی میں ہے، بس کوئی جان لینے نہیں آتا۔
میانمار کی دہشت گرد حکومت محمد شحیط کی المناک کہانی مسترد کرتی ہے۔ جمہوریت کی ملکہ آنگ سان سوچی دہشت گردوں کی پشت پناہ اور ہمنوا بن کر سامنے آتی ہے۔
نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی تہذیبِ مغرب کی جاہلیت کا بدترین نمونہ ہے۔ جمہوری ڈرامے کی چیمپئن خاتون خودنمائی اور امریکہ کی درآمد شدہ جمہوریت کی خاطر طویل قید وبند سے گزری۔ ایک دنیا کو مداح بنالیا۔ مگر روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی سچائیاں سچ سامنے لے آئیں۔ آنگ سان سوچی کا سوانگ دم توڑ گیا۔ مصلحتوں اور منافقتوں کے نقاب الٹ گئے۔ مغرب کی دو رنگی سمجھنے کے لیے آنگ سان سوچی کا کردار موزوں مثال ہے، بالکل اسی طرح بدھسٹ نسل پرست دہشت گردوں کا کردار وہی ہے جو مغرب کی طفیلی داعش کا ہے، اور دیگر قاتل مشنریوں کا ہے۔
تنہا ترکی ہے جس نے روہنگیا مسلمانوں کی خاطر خون جلایا، آنسو بہائے، اور جہاں تک ممکن ہوسکا آنسو پونچھے۔ تنہا ترکی مگر کیا کچھ کرسکتا ہے؟ شام و عراق کے مظلوموں کی مدد اسے مشکل ترین امتحان سے دوچار کرچکی ہے۔
غرض سمجھنے کی سادہ سی بات یہ ہے کہ ایلان کردی اور محمد شحیط انسانی تہذیب کے وہ امکانات ہیں، جن پر اسلامی تہذیب کی زندگی کا انحصار ہے۔ ان امکانات کا تحفظ ہی مہذب نما دنیا پر سے گناہ کا بوجھ اتار سکتا ہے، منافقت و مظالم مٹا سکتا ہے۔ یہ معصوم امکانات جتنے روشن ہوں گے، اتنا ہی روشن انسانوں کی دنیا کا مستقبل ہوگا۔
nn