عالم علمی خدمت طاہر مسعود

ایک ٹی وی چینل پر بہت مزے کا جملہ سنا۔ ٹی وی چینل اور خبر رساں خاتون کا نام کیا دینا۔ رپورٹ تھی پاکستانی خواتین کے بارے میں، جنہوں نے سالِ گزشتہ نمایاں کام کیے۔ ایسی ہی ایک خاتون کے بارے میں بتایا گیا کہ انہوں نے کوہ ایورسٹ کی ’’بلند و بانگ‘‘ چوٹی سر کی۔ ویسے تو یہ بلند و بانگ کے درمیان ’و‘ کی ضرورت نہیں، لیکن یہ بلند و بانگ چوٹی کیسی ہوگی جس کو سر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ ہمارے خیال میں یہ وہ چوٹی ہوگی جس پر چڑھ کر خود بانگ دی گئی ہو، یا مرغا ساتھ لے جایا گیا ہو، ہماری باہمت خواتین کچھ بھی کرسکتی ہیں۔
ایک اصطلاح بہت دن سے اخبارات کی زینت بن رہی ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی کے ایک اخبار کی سپر لیڈ تھی کہ راحیل شریف کو اسلامی فوج کا سپہ سالار بنادیا گیا۔ اس سے پہلے کہ ہم اُس اخبار کے حوالے سے کچھ لکھتے، گزشتہ پیر کو جسارت کے صفحہ 2 پر ایسی ہی سرخی لگی ہوئی تھی، یعنی ’’فوج کا سپہ سالار‘‘۔ جو صحافی حضرات ایسی سرخیاں نکالتے ہیں ان کو شاید ’’سپہ‘‘ کا مطلب نہیں معلوم۔ سپہ یا سپاہ تو فوج ہی کو کہتے ہیں۔ لاہور سے جازم صاحب نے مخبری کی ہے کہ ایک ٹی وی پر چل رہا ہے ’’لاہور میں سرشام ہی سے دھند کا راج‘‘۔ ان کا اعتراض ہے کہ اس جملے میں سے یا تو ’’سر‘‘ کاٹ دیں یا ’’سے‘‘ نکال دیں، یعنی لاہور میں شام ہی سے دھندکا راج۔ لیکن پورے پنجاب میں اِس بار جیسی دھند چھائی ہے اس میں اضافی الفاظ کھپ جائیں گے۔ ایسا ہی ایک جملہ ہے جسے جملۂ معترضہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’آصف زرداری واپس لوٹ آئے‘‘۔ جازم نے پوچھا ہے کہ کیا ’واپس‘ اور ’لوٹ آئے‘ اکٹھے استعمال ہوسکتے ہیں؟ بھائی، یہ آصف زرداری کی واپسی ہے، کسی ایرے غیرے کی نہیں۔ اور ممکن ہے لوٹ کے لام پر پیش ہو جس سے عزائم کا اظہار مقصود ہو۔
صوبہ خیبر پختون خوا کے شہر لتمبر سے ہمارے ممدوح جناب عدنان نے توجہ دلائی ہے کہ لغت میں چرند و پرند کی ’ر‘ پر زبر (بالفتح) ہے جب کہ ہم تو ان کو زیر کرکے پڑھتے ہیں۔ ان کے توجہ دلانے پر ہم نے بھی لغات دیکھیں۔ بات تو صحیح ہے لیکن عوام کی زبان پر چرند و پرند کا ’ر‘ بالکسر ہے چنانچہ اس کو فصیح سمجھنا چاہیے۔ یہ الفاظ فارسی سے آئے ہیں اور فارسی میں بروزن گزند، بند ہیں۔ امیر کا شعر ہے:
نہ انسان ہی کا ہو دل اس میں بند
ہوئے محو سن کر چَرند و پَرند
البتہ درندہ میں ’ر‘ بالکسر ہی ہے۔ شکر ہے۔ ہم لوگوں کو لغت دیکھنے کا مشورہ دیتے رہتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ہم خود کئی الفاظ کا غلط تلفظ کرتے رہے ہیں۔ مثلاً ایک لفظ ہے ’’بیخ‘‘۔ مطلب ہے جڑ، اصل، بنیاد وغیرہ۔ ہم نے اس کو ہمیشہ بَیخ یعنی پہلے حرف پر زبر ہی پڑھا۔ فارسی کا لفظ ہے لیکن بِیخ بکسر اول ہے یعنی ’ب‘ کے نیچے زیر ہے۔ لیجیے صاحب اور لغت دیکھیے۔ اسی طرح لفظ ’’بِید‘‘ہے۔ یہ بھی فارسی کا ہے اور بکسر اول ہے۔ ایک پہاڑی درخت جس میں پھل نہیں آتا۔ لوگ اس سے خوب واقف ہیں۔ گھروں میں بیدکا فرنیچر ہوتا ہے۔ حکیموں کے پاس ’’بیدانجیر‘‘، ’’بید مشک‘‘ بھی مل جائے گا۔ بید مجنوں بھی کہا جاتا ہے جس کے پتے باریک اور ٹہنیاں زمین کی طرف جھکی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس کی صورت دیوانوں کی سی معلوم ہوتی ہے، شاید اسی لیے اسے بید مجنوں کہا گیا۔ ذوق کا شعر ہے:
نام میرا سن کے مجنوں کو جماہی آ گئی
بید مجنوں دیکھ کے انگڑائیاں لینے لگا
ایسا شعر استاد ذوق ہی کہہ سکتے تھے۔ ان کے نام میں ایسا کیا تھا کہ مجنوں کو جماہی آگئی؟ قارئین میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے اسکول میں بید کی چھڑی کا مزہ چکھا ہوگا۔ اب تو لغت کھولتے ہوئے جی گھبرانے لگا ہے۔
اب دیکھیے، ہم اپنے آپ کو لکھاری نہیں سمجھتے، لیکن جو خود کو سمجھتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ لفظ ’’لکھاڑی‘‘ ہے، کھلاڑی کے وزن پر ہندی کا لفظ ہے۔ یہ نشاندہی ہمارے ایک ساتھی علیم الدین نے کی ہے۔ ہم تو لکھنے سے لکھاری کہتے اور پڑھتے لکھتے رہے ہیں۔ یہ لکھاڑی کہاں سے آگیا؟ کیا یہ کسی کھاڑی سے نکلا ہے۔ بھئی اس سے دوسرے الفاظ بھی تو بنے ہیں جیسے لکھت، پڑھت، لکھا پڑھا، لکھا پورا ہونا وغیرہ۔ یہ لفظ اسلام آباد میں ادیبوں کی کانفرنس کے حوالے سے سامنے آیا ہے جہاں بھانت بھانت کے لکھاڑی جمع کیے گئے تھے۔ بھلے لغت میں لکھاڑا اور لکھاڑی ہو، ہم تو لکھاری ہی کہیں گے، مگر لکھاڑا کو کیا کہیں!
ایسے ہی ایک لفظ ’سسر‘ ہے۔ بہت عام ہے۔ اردو میں ’س‘ پر پیش ہے۔ ہمارے ایک اور ساتھی متین صاحب کی تحقیق ہے کہ یہ ہندی کا لفظ ہے اور ان کے سسر کے سر پر زبر ہوتا ہے یعنی سَسُر۔ لیکن وارث سرہندی کی علمی اردو لغت، فیروز اللغات اور نوراللغات میں سُسر (س بالضم) ہی ہے۔ ہندی کا سُسر فارسی میں جاکر خسر ہوجاتا ہے۔ البتہ ان سے قدیم لغت فرہنگِ آصفیہ اور اردو ہندی لغت میں سَسُر ہے یعنی پہلا سین بالفتح ہے۔ اب یہ سسر پر منحصر ہے کہ وہ کیا ہے، یا اس کی بہو اور داماد اسے کیا کہنا چاہتے ہیں، ہمیں کیا۔
ایک مخبر نے اطلاع دی ہے کہ ٹی وی چینل 92 پر شہبازشریف کے ایک اقدام پر مشہور ضرب المثل پر ضربِ شدید لگائی گئی اور بتایا کہ ’’گرا گدھے سے، غصہ کمہار میں‘‘۔ ہوسکتا ہے کہ ’’کمہار پر غصہ‘‘ اتارنے میں کسی قسم کی احتیاط کا دخل ہو۔ اس محاورے یا ضرب المثل پر غصہ اس خبر میں اتارا گیا جس کے مطابق جناح اسپتال میں ایک عورت بغیر علاج کے اسپتال کے ٹھنڈے فرش پر پڑی پڑی دم توڑ گئی۔ خادم اعلیٰ نے فوری نوٹس لیتے ہوئے اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو معطل کردیا۔ اب اس میں گدھا کون ہے اور کمہار کون۔ اور پھر گرا کون ہے؟ دولتی تو ایم ایس نے کھائی ہے۔
ابوالاثر کا لقب حاصل کرنے والے حفیظ جالندھری کی 34 ویں برسی پر ایکسپریس نیوز کی رپورٹر بتا رہی تھیں کہ ان کی غزل ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ بہت مشہور ہوئی۔
بی بی شہر بانو، یہ غزل نہیں نظم ہے۔ ایک قومی شاعر کے بارے میں چند سطر کی خبر تو ٹھیک سے دے دی ہوتی۔ پتا نہیں ان کو بعد میں کسی نے غزل اور نظم کا فرق سمجھایا یا نہیں۔ حفیظ جالندھری اپنی شاعری کے بارے میں بڑے حساس تھے۔ آج وہ زندہ ہوتے تو جانے کیا کر گزرتے۔
اخبارات میں طلبہ بار بار طلبا ہوجاتے ہیں۔ جب کہ طُلبا طلیب کی جمع ہے۔ عربی میں طالب کی جمع طُلاب ہے جو اردو میں عام نہیں ہے۔ طلیب کا مطلب ہے بہت ڈھونڈنے والا۔ اب طلبہ، علم نہیں کچھ اور ڈھونڈتے ہیں۔ اور طالب کہتے ہیں طلب کرنے والے کو۔ وہ طالبِ علم بھی ہوسکتا ہے اور طالبِ دنیا بھی۔ ایک سیاسی جلسے کے حوالے سے ایک اخبار میں پھر جامع تلاشی نظر سے گزرا۔ غالباً جامہ تلاشی لکھتے ہوئے ہمارے ساتھیوں کو شرم آتی ہے۔
انگریزی کا لفظ بنچ اور بینچ بھی خلط ملط ہورہے ہیں۔ انگریزی میں دونوں کے ہجے مختلف ہیں لیکن اردو اخبارات میں یہ ایک ہوگئے ہیں۔ بنچ (BUNCH) تو گچھے کو کہتے ہیں، جب کہ بینچ کے ہجے BENCH ہیں۔ چنانچہ یہ عدالتِ عالیہ کا ہو یا عدالتِ عظمیٰ کا، بہتر ہے کہ بینچ لکھا جائے، گو کہ اس میں ججوں کا گچھا تو ہوتا ہے۔