افسوس علوم اسلامیہ کے ممتاز دانشور ڈاکٹر اسحاق انصاری کا اسلام آباد پاکستان میں انتقال ہوگیا۔ ان اللہ و انالیہ راجعون۔ ان کی وفات پر اپریل میں ہوئی‘ ہم کو اس سانحہ کی خبر بڑی دیر سے ملی‘ پاکستان کے موقر رسالہ فرائیڈے اسپیشل میں جب ان کی وفات پر ایک تعزیتی تحریر دیکھی تو ان کا وجیہ و خوبصورت سراپا نظر کے سامنے آگیا‘ جب وہ 1982 ء میں اسلام اور مستشرقین بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کے لیے دارالمصنفین تشریف لائے تھے۔ اس وقت وہ ظہران یونیورسٹی میں تھے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر قریب چوراسی کی سال تھی۔ اب سے قریب چونتیس سال پہلے وہ ایک ادیب‘ مصنف اور عصری تحقیقی تقاضوں کی روشنی میں اسلام کے پیغام کی اشاعت کے لیے شہرت پاچکے تھے اور ان کو اس کا حق بھی تھا۔ پاکستان اور کناڈامیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ انہوں نے جرمن ‘ فرانسیسی زبانوں پر بھی عبور حاصل کرلیا تھا۔ مختلف ملکوں میں انہوں نے تدریسی فرائض انجام دیے‘ بعد میں وہ پاکستان میں اسلام آباد کے مشہور ادارے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر بھی ہوئے۔ ان کی علمی خدمات کے بیان کے لیی ایک مفصل مضمون چاہیے‘ جس میں ان کی متعدد کتابوں اور ان سے کہیں زیادہ تحقیقی مقالوں کا ذکر ہو‘ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا اور ریلیجنس مین ان کے مضامین کی بات ہو اور سب سے بڑھ کر مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کے انگریزی ترجمہ کا ذکر ہو اوراس کتاب کا بھی ذکر ہوجوانہوں نے مولانا مودودی کے افکار و خڈمات پر پروفیسر خورشید احمد کے اشتراک سے تیار کی۔ کاش ان کے کسی قریبی کے ذریعہ یہ معلومات معارف میں آسکیں۔
وہ جب اعظم گڑھ آئے تو سید صباح الدین عبدالرح۴ن مرحوم نے لکھا کہ وہ اپنی بیگم کے ہمراہ اپنی نیکی‘بھلمنساہت اور شرافت اخلاق کے ساتھ آئے‘ ایک نشست کی نظامت کی اور کرسی صدارت پر حکیم محمد سعید شہیدجلوہ افروز تھے۔ اب صرف یادیں رہ گئی ہیں‘ اللھم ارحمہ۔ تعزیت میں تاخیر کا ایک سبب معارف صدی کے دو خصوصی شماروں کی اشاعت کا عمل بھی تھا۔ امروہہ کے مشہور مخطوطہ شناس اور کتابی انسان جناب توفیق احمد قادری چشتی بھی راہی عالم بقا ہوئے۔ ان کا ذکر ان شاء اللہ آئندہ