(پلی بارگیناخوند زادہ(جلال نور زئی

قومی احتساب بیورو نے مشتاق رئیسانی کو مع بھاری رقم، حراست میں لیا تو اس پر ملک بھر میں نیب کی داد و تحسین ہونے لگی۔ بلوچستان میں حکومت مخالف جماعتیں مسرت سے کھل اُٹھیں کیونکہ انہیں صوبائی حکومت یا نیشنل پارٹی کے خلاف بولنے کا سنہری موقع ملا۔ ایک زبردست بحث ذرائع ابلاغ پر بھی شروع ہوئی۔ جس کی وجہ بلاشبہ نیشنل پارٹی دفاعی پوزیشن میں چلی گئی۔ نوازشریف کے مخالفین نے اس بڑی بدعنوانی کو ان کی حکومت کے خلاف پروپیگنڈے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، کیونکہ صوبے کا وزیراعلیٰ مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ پھر جب 21 دسمبر 2016ء کو نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے مشتاق رئیسانی اور سہیل مجید کی پلی بارگین کی درخواست منظور کرلی تو ان حلقوں نے اپنی توپوں کا رُخ نیب کی طرف کرلیا۔ اعتراضات و الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی۔ نیب پر بھی بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے۔ گویا ہر جانب سے اُنگلیاں اُٹھائی جانے لگیں۔ حتیٰ کہ بڑی قومی جماعتوں کے سربراہان تک نے اس موضوع پر تلخ الفاظ میں تبصرہ کیا۔ حالانکہ نیب نے سرے سے کوئی کام خلافِ قانون کیا ہی نہیں ہے۔ اس نے جو کچھ بھی کیا مروجہ قانون کے مطابق حاصل اختیارات کے تحت کیا۔ اس تناظر میں ذرائع ابلاغ کو بھی داد دینی چاہیے کیونکہ سینئر نمائندوں اور بڑے نامور لکھاریوں اور ٹی وی پروگراموں کے میزبانوں نے بھی جہاں سے جو کچھ سنا، بلاتحقیق و تصدیق اُسے آگے بڑھایا۔ یعنی اب تک چالیس ارب روپے کی بدعنوانی کا گمراہ کن واویلا ہورہا ہے کہ کیسے ہڑپ کی گئی اتنی بڑی رقم میں دو یا تین ارب کی پلی بارگین کی گئی۔ دیکھا جائے تو روزِ اوّل سے نیب کی جانب سے اس کیس میں چالیس ارب یا چھے ارب کی خوردبرد کا دعویٰ نہیں کیا گیا۔ خود نیب بلوچستان کے ڈی جی طارق محمود ملک کئی بار ذرائع ابلاغ پر اصل صورت حال بیان کرچکے ہیں، مگر اس کے باوجود ہنوز سنی سنائی باتوں پر کان دھرے جارہے ہیں۔ سو ان حضرات کی عقل اور فہم پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
صورتِ احوال یہ ہے کہ 2015-16ء کے بجٹ میں 726 بلدیاتی اداروں کو شہری سہولیات کی فراہمی کے لیے چھے ارب روپے مختص کیے گئے تھے، جس میں دو ارب اکتیس کروڑ روپے ’’مچھ‘‘ اور’’ خالق آباد‘‘ کے لیے جاری کرائے گئے۔ چنانچہ دو ارب چوبیس کروڑ کی بدعنوانی ہوئی ہے، اور اس بنیاد پر نیب نے پہلے پہل مشتاق رئیسانی کے گھر پر چھاپہ مارا اور وہاں سے 65کروڑ روپے سے زائد کی رقم اور سونا برآمد کرلیا۔ رفتہ رفتہ مزید گرفتاریاں ہوئیں، یہاں تک کہ سابق مشیر خزانہ میر خالد لانگو بھی پیش ہوگئے۔ مشتاق رئیسانی اور ٹھیکیدار سہیل مجید نے جرم تسلیم کرلیا اور پلی بارگین کی درخواست دے دی۔ یعنی وہ دو ارب روپے سرکار کے حوالے کریں گے۔ گیارہ جائدادیں جو نیب کے قبضے میں ہیں، ان کی قیمتِ خرید ایک ارب پچیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ دو قیمتی گاڑیاں الگ ہیں۔ سہیل مجید بھی ایک ارب روپے نیب کے حوالے کریں گے۔ سہیل مجید کی کچھ وراثتی جائدادیں ہیں اور کچھ انہوں نے خود بنائی ہیں۔ لہٰذا جو خود بنائی ہیں وہ جائدادیں بھی ضبط کرلی جائیں گی۔ شنید ہے کہ اب تک ان دونوں افراد سے دو ارب روپے سے زائد کی رقم وصول کی جا چکی ہے اور یہ وصولی مزید تین ارب یا اس سے زائد تک ہوجائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ وصولی اور کارروائی غیر معمولی ہے؟ اور مشتاق رئیسانی دوبارہ اپنے عہدے پر بھی نہیں رہیں گے۔ وہ دس سال تک سرکاری ملازمت کے لیے نااہل ہوچکے ہیں۔کوئی بھی مجرم اتنا ہی عرصہ انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہوگا، اور نہ ہی اسٹیٹ بینک کے تحت کسی بھی بینک سے قرضہ حاصل کرسکے گا۔ غرض میر خالد لانگو سمیت باقی ملزمان کا کیس عدالت کے سپرد ہوگا۔
اگر ہم بلوچستان کی حد تک بات کریں تو اب تک نیب کئی سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کو دھر چکا ہے۔ ان سے بڑی بڑی رقمیں وصول کرکے ملکی خزانے میں جمع کرائی جاچکی ہیں، اور کئی بدعنوانوں کو جیل بھی جانا پڑا۔ دراصل قومی احتساب بیورو سیاست دانوں کے سروں پر لٹکتی ہوئی تلوار ثابت ہوا ہے۔ اور سیاست دان اس ادارے سے مستقل گلوخلاصی کی تاک میں ہیں۔ یہ امر ہمارے مشاہدے میں ہے کہ مختلف ادوار میں وزراء اور اراکین اسمبلی نیب کے زیرعتاب رہے ہیں، اور انہیں اس بات کا اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ کسی بھی لمحے ان پر نیب کی گرفت ہوسکتی ہے۔ یہ پہلو بھی مدنظر رہے کہ سیاست دان ہی درحقیقت محکموں اور اداروں کو زیردست بنانے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور انہیں اس ذیل میں کامیابی بھی ملی ہے۔ بلوچستان میں آج بھی ایک معمولی سی تعیناتی اور تبادلہ وزراء کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ صوبے بھر کے کمشنروں کو غلام نہیں بلکہ لونڈیاں بنا چکے ہیں۔ کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ بلوچستان کے تمام اضلاع میں ڈپٹی کمشنروں کی تعیناتی ضابطے اور قاعدے کے مطابق ہوتی ہے۔ ڈپٹی کمشنروں کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نمائندوں کی مرضی کے بغیر پوسٹنگ نہیں ملتی۔ اس ذیل میں ایک تازہ مثال ڈپٹی کمشنر’’واشک‘‘ کی ہے کہ جن کا تبادلہ وفاقی وزیر جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ نے محض اس بناء پر کرایا کہ ڈی سی نے انہیں ضلع آمد پر پروٹوکول نہیں دیا۔ اس لیے ڈی سی صاحب راندۂ درگاہ بنادئیے گئے ۔گویا سیاست دان نیب کے شکنجے سے بچنے کے لیے نیب ہی کو شکنجے میں کسنے کی تدبیریں کررہے ہیں۔ اعتراض اگر پلی بارگین کے مروجہ طریقہ کار پر ہے تو اس میں تبدیلی کی گنجائش موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ نیب خود قانون نہیں بناتا، قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے جہاں عوامی نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ لہٰذا وہ قانون میں تبدیلی لے آئیں تاکہ اُس کے مطابق احتساب کا عمل آگے بڑھایا جائے۔ اور یقیناًنیب قانون کا پابند ہے، اگر کہیں بدعنوانی کی بات ہوتی ہے تو یقیناًنیب کے ملازمین بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ پلی بارگین کے طریقہ کار پر دنیا کے مختلف ممالک میں عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی، بھارت، ہانگ کانگ اور سنگاپور میں غبن کی ہوئی رقم پلی بارگین کے تحت وصول کرلی جاتی ہے۔ امریکہ میں پلی بارگین ’’کرمنل جسٹس سسٹم‘‘ کا حصہ ہے اور نوے فیصد مقدمات پلی بارگین کے ذریعے ہی حل کیے جاتے ہیں۔ یعنی ان ممالک میں جو قوانین مروج ہیں، ان کے تحت رقم وصول کی جاتی
(باقی صفحہ 41 پر)
ہے اور سزا کا تعین کیا جاتا ہے۔ چنانچہ 7 جنوری کو وزیراعظم نے نیب آرڈیننس میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے، اس سلسلے میں نیب آرڈیننس کی شق25۔ Aکو تبدیل کیا جارہا ہے۔سرکاری خزانے میں لوٹی گئی رقم کی رضا کارانہ واپسی پر ایک ہی سزا کا طریقہ کار اپنایا جائے گا۔چیئرمین نیب کا صوابدیدی اختیار ختم کردیا گیا جو رقم کی رضا کارانہ واپسی سے متعلق تھا۔ رقم کی رضا کارانہ واپسی کے عمل کے لیے بھی احتساب عدالت کی منظوری ضروری ہوگی۔ سزاؤں کو مزید سخت کردیا گیا ہے۔چونکہ اس سلسلے میں بل پاس کیا جانا ہے تو اس میں تاخیر کو مدنظر رکھتے ہوئے آرڈیننس لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پارلیمانی کمیٹی نیب قانون میں ترمیم کرے گی۔گویا بد عنوانی میں ملوث افراد تاحیات سرکاری ملازمت اور عوامی عہدے کے لیے نااہل ہوجائیں گے۔تاہم اس آرڈیننس کا اطلاق ماضی کے مقدمات پر نہیں ہوگا۔ تو بھئی قومی احتساب بیورو کی موجودگی لازم ہے۔یقینااس ادارے میں مزید بہتری لانے کی مساعی ہونی چا ہیے۔