(خطابات رسول کا تذکرہ (ملک نواز احمد اعوان

کتاب
:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریریں
ترتیب و تدوین
:
پروفیسر عبدالقدیر سلیم
صفحات
:
184 قیمت 194روپے
ناشر
:
منشورات۔ منصورہ، ملتان روڈ۔ لاہور 54790
فون
:
042-35252210-11
موبائل
:
03205434909-03320034909
ای میل
:
manshurat@gmail.com
پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدیر سلیم حفظہ اللہ کسی زندہ قوم کے فرد ہوتے تو ان کی کیا شان ہوتی۔ آپ اُن لوگوں میں سے ہیں جن سے قومیں عزت پاتی ہیں، ان کی شان بڑھتی ہے، وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ عمر کا بڑا حصہ تدریس میں گزرا اور ایک خلقت کو فیض یاب کیا۔ ان کو اللہ تعالیٰ سے اِس کا اجر ان شاء اللہ ضرور ملے گا۔
10 مارچ 1935ء کو امراؤتی سی پی Central Province بھارت میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق غازی پور سے تھا جہاں سے ان کے دادا ہجرت کرکے منتقل ہوئے تھے۔ آٹھویں جماعت تک ان کی تعلیم امراؤتی میں ہوئی۔ کراچی میں دہلی پنجاب نیشنل ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ سندھ مسلم کالج سے انٹرمیڈیٹ اور بی اے کیا۔ کراچی یونیورسٹی سے فلسفے اور اسلامیات میں ماسٹر کیا، فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی۔ حضرت مجددؒ الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے فلسفے پر تنقیدی مطالعے کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔ گورنمنٹ کالج نواب شاہ اور سندھ کے کئی کالجوں کے علاوہ کراچی یونیورسٹی اور IBA، بحریہ یونیورسٹی، جناح خواتین یونیورسٹی، کامیکس انسٹی ٹیوٹ آف بزنس اینڈ ایمرجنگ سائنسز میں تدریسی فرائض انجام دیے۔
پروفیسر صاحب عمیق علمیت اور گہری مذہبیت کی حامل شخصیت ہیں۔ گاہے گاہے ان کے تبصرے اور مضامین ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور میں نظر سے گزرتے رہتے تھے جس کے مدیر اور نائب مدیر عبدالقدیر سلیم صاحب کے دوست پروفیسر خورشید احمد اور پروفیسر مسلم سجاد صاحبان تھے۔ پھر بند ہوگئے۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ مسلم نے میرا تحریر کردہ تبصرہ شائع نہیں کیا تو میں نے بھی لکھنا بند کردیا۔ میرے طلب کرنے پر انہوں نے وہ تبصرہ مجھے عنایت کیا۔ علامہ محمد اسد لیوپولڈ ویس کی تحریر پر مخالفانہ تبصرہ تھا۔ ملاقات پر میں نے ان سے عرض کیا کہ اگر میں بھی ترجمان القرآن کا مدیر ہوتا تو اسے شائع نہ کرتا، البتہ دوسری جگہ اسے چھپوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری درخواست پر فرائیڈے اسپیشل میں وہ شائع ہوگیا۔ ویسے بھی اُن کا فرائیڈے اسپیشل پر حق یوں ہے کہ وہ فرائیڈے اسپیشل کے خریدار اور قاری بھی ہیں۔ اسی تبصرے کو پڑھ کر مجھے سلیم صاحب کی گہری علمیت اور گہری مذہبیت کا ادراک ہوا۔ علم کے معاملے میں وہ شخصیات کے رعب میں نہیں آتے۔ ساتھ ہی مسلم صاحب کے احساسِ ذمہ داری کا علم ہوا۔ اپنی ایڈیٹر شپ اور ترجمان القرآن کے مقام کاکتنی باریک بینی سے خیال رکھتے کہ اتنی قدیم دوستی کو بھی اپنے فرض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ اللھم کثر امثالھم۔
زیرنظر کتاب کا کرم خوردہ مسودہ عبدالقدیر سلیم صاحب کے ہاں سے برآمد ہوا جو نہ جانے کب کا مرتب ہوکر کتابوں میں غائب رہا ہے۔ سلیم صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کی تو ساتھ ہی اسے اظہارِ فکر و احساس کے لیے ’بیان‘ کا سلیقہ بھی سکھایا۔ دوسرے حیوانات کے مقابل میں، جن کی آوازیں محدود اظہارات ہی کے لیے ہوتی ہیں، انسانوں کی فکری پرواز بھی لامحدود ہے، اور اس کے اظہار کے وسائل اور الفاظ بھی۔ ساری دنیا میں انسانی زبانوں کا تنوع واقعی حیرت انگیز ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے نام اپنے آخری پیغام کے لیے عربی زبان کو منتخب فرمایا اور اس پیغام کے حامل ہمارے نبی کو آخری پیام بَر صلی اللہ علیہ وسلم۔ عربی زبان کی خوبیوں اور خصوصیات کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اپنی فصاحت اور اثرانگیزی میں اس کا جواب نہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے پیغام کو ساری دنیا تک پہنچانے والے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان، گفتار اور طرزِ بیان کا بھی کوئی ثانی نہیں۔
دنیا میں بڑے بڑے مقرروں کے تذکرے ہیں۔ روم کے بروٹس اور مارک انطونی کی پُراثر تقریروں کے اقتباس ملتے ہیں۔ ایڈولف ہٹلر، ونسٹن چرچل، اور برصغیر کے شعلہ بیان مقرر، جو عشاء کے وقت تقریر شروع کرتے تو صبح تک جاری رہتی۔ اسی طرح آگ لگا دینے والے اور جذبات برانگیختہ کردینے والے خطیبوں کے تذکرے ملتے ہیں، مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انفرادیت کا جواب نہیں۔ زیادہ تر تقریر کرنے والے چیخ چیخ کر، ہاتھ اورجسم کی حرکات اور آوازوں کے زیرو بم سے سماں پیدا کرتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر، اس طرح کے کسی بھی انداز سے مبرا ہوتی تھی۔
ہم تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو خطابات پہنچے ہیں (یقیناًبہت سے اور بھی ہوں گے، مثلاً جمعہ کے خطبات) وہ اختصار کے ساتھ ابلاغ کا ایسا کامل نمونہ ہیں، جن کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ جو خطبات محفوظ رہ گئے ہیں، انہیں میں نے جمع کرنے کی کوشش کی۔ ہر تقریر کا پس منظر اور مختصر تعارف دیا، جس کے لیے مستند تاریخ و سیرت کی کتابوں سے مدد لی گئی ہے۔
اس کتاب کا مسودہ بہت عرصے سے میرے پاس رکھا ہوا تھا۔ میرے نہایت عزیز بھائی اور ہمدم دیرینہ پروفیسر مسلم سجاد نے یہ مسودہ دیکھا، تو فوراً اس کی طباعت پر آمادہ ہوگئے۔ بہت محبت سے مسودہ کمپوز کروا کے بھجوایا۔ میں نے پروف ریڈنگ مکمل کرلی اور ابھی بھیجنے والا ہی تھا کہ محترم ملک نواز احمد اعوان صاحب (کراچی) نے ان کے رخصت ہونے کی اطلاع دی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مرحوم بھائی کے عزائم کو پورا کریں اور انہیں بہترین اجر سے نوازیں۔
پھر چند روز بعد ہمارے محبِ عزیز سلیم منصور خالد نے اصرار کیا کہ جلد اس کتاب کی طباعت و اشاعت کا انتظام کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ان کی ہمت اور حوصلے میں اضافہ کریں، اور انہیں بہترین اجر سے نوازیں۔ اب یہ ان کے حوالے ہے‘‘۔
عبدالقدیر سلیم صاحب نے کتاب پر مبسوط مقدمہ بھی تحریر فرمایا ہے جو ایک جامع مقالہ ہے۔ کتاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جن تقریروں کو جمع کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
’’اہلِ مکہ کو دعوتِ اسلام‘‘، ’’اہلِ خاندان کو نصیحت‘‘، ’’عرب کے بعض قبائل کو تبلیغ‘‘، ’’خطاب بیعتِ عقبہ‘‘، ’’بیعتِ عقبہ کا عہد: دوسری روایت‘‘،’’ مدینہ کا پہلا اجتماعِ جمعہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی تقریر،موضوع تقویٰ‘‘، ’’مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی تقریر آخرت کے بارے میں‘‘،’’ دوسرا خطبہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اعمالِ صالحہ‘‘، ’’جنگِ بدر کے دن تقریر‘‘، ’’بدر میں بعض مشرکین کے قتل کی ممانعت‘‘، ’’بدر کے دن مشرک مقتولوں سے خطاب‘‘، ’’جنگ کے موقع پر خطاب و دُعا‘‘، ’’ایک خطبۂ جہاد‘‘، ’’یہودیوں سے خطاب‘‘، ’’بنی قینقاع کے بازار میں یہود سے خطاب‘‘، ’’واقعہ افک‘‘، ’’جنگِ خیبر کے دن تقریر‘‘، ’’عمرہ کے بعد خطاب‘‘، ’’مکہ مکرمہ کی حرمت‘‘، ’’حرمتِ مکہ مکرمہ‘‘، ’’فتح مکہ کے دن خطاب‘‘، ’’حنین میں خطبۂ تقسیم غنیمت‘‘،’’ ہوازن کے قیدیوں کی آزادی‘‘، ’’سائلین کی شدت‘‘،’’ غزوۂ ہوازن کا مالِ غنیمت اور انصار‘‘،’’غزوۂ موتہ کے شہداء‘‘، ’’تبوک میں خطاب‘‘، ’’خطبہ حج سن 9 ہجری‘‘، ’’خطبۂ حجتہ الوداع‘‘، ’’خطبہ حجتہ الوداع، روایت ابن ہشام و طبری‘‘، ’’خطبۂ حجتہ الوداع، تیسری روایت‘‘،’’علیؓ کے بارے میں‘‘، ’’غدیر خم کی تقریر‘‘، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب، طہفہ بن ابی زہیر نہدیؓ کی تقریر پر اوس و خزرج سے خطاب، جنگ روکنے کے لیے‘‘، ’’خطبۂ استسقا‘‘، ’’استسقاء کے موقع پر تقریر‘‘، ’’حلال و حرام‘‘، ’’اخلاقِ حسنہ‘‘، ’’ابن عوف کوجنگ پر بھیجتے وقت خطاب‘‘، ’’خواتین سے خطاب‘‘، ’’عورتوں کو نصیحت‘‘، ’’زیور کی زکوٰۃ‘‘، ’’شرم و حیا‘‘،’’ خطبہ کسوف۔1‘‘، ’’خطبہ کسوف۔2‘‘، ’’کچھ امورِ غیب‘‘، صاحبِ اختیار، چرواہوں کی طرح ہیں‘‘، ’’غنیمت کی تقسیم‘‘، ’’خطبۂ رمضان‘‘، ’’خطبۂ عیدالاضحی‘‘، ’’عیدالاضحی میں قربانی‘‘، ’’اموالِ دنیا کی طمع کا خوف‘‘، ’’مالِ یتیم سے تجارت‘‘، ’’انسان کی بے ثباتی‘‘، ’’حقیر تحفہ‘‘، ’’تحفہ رشوت‘‘، ’’فتنۂ فراوانی‘‘، ’’فقر و تونگری‘‘، ’’تقریر برائے امداد فقرائے مُضر‘‘، ’’خفیف میں تقریر: عمل‘‘،’’ اہلِ اسلام کے لیے اجر‘‘، ’’سونے کی انگوٹھی کی ممانعت‘‘،’’ دنیا اور اس کی دلچسپیاں‘‘، ’’دنیا اور آخرت‘‘،’’ مقامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، ’’خواب کے بارے میں‘‘، ’’اہلِ قبور سے خطاب‘‘،’’اسامہؓ کی امارت‘‘، ’’وداعی تقریر‘‘، ’’انصار کے لیے وصیت‘‘، ’’آخری مرض میں خطاب‘‘، ’’آخری مرض میں خطاب دوسری روایت‘‘، ’’اعلانِ رحلت اور وصیت‘‘۔
مناسب تویہی تھا کہ ہم کتاب میں سے کچھ اقتباسات قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے۔ وقت کی کمی کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوا۔ جو کتاب پڑھے گا وہ کتاب کے مضامینِ عالیہ سے مستفید اور مستفیض ہو گا۔ خطباتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سیرت کا ایک پہلو ہیں۔
کتاب اہتمام کے ساتھ سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے۔ خوبصورت سرورق سے مزین ہے۔
۔۔۔۔۔۔**۔۔۔۔۔۔