پاکستان میں اوّل تو بنیادی جمہوری نظام یعنی مقامی حکومتوں کے حق میں بہت کچھ کہا جاتا ہے، لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس میں مقامی حکومتوں کے نظام کا بری طرح سے سیاسی استحصال ہوا ہے۔ بدقسمتی سے یہ استحصال سیاسی اور جمہوری حکومتوں کے دور میں ہوا ہے اورکسی بھی جمہوری حکومت کا ریکارڈ مقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے اچھا نہیں ہے۔18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ ملک میں صوبائی حکومتیں اپنی اپنی سطح پر مقامی حکومتوں کے نظام کے ساتھ انصاف کرکے اس نظام کو مؤثر اور مضبوط بنائیں گی۔ لیکن 2008ء سے لے کر اب تک پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت اور نوازشریف کی موجودہ حکومت اور ان کی دیگر اتحادی جماعتوں نے بلدیاتی اداروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، بلکہ ان جمہوری ادوار میں مقامی ادارے معطل رہے اور ہر جماعت نے ان اداروں کے انتخابات کروانے سے گریز کیا۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں مقامی بلدیاتی اداروں کے جو انتخابات 2014-15ء میں ہوئے وہ صوبائی حکومتوں کے فیصلے سے زیادہ سپریم کورٹ کے دباؤ کا نتیجہ تھے۔ سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں کو پابند کیا تھا کہ وہ مقررہ تاریخ تک مقامی انتخابات کروائیں وگرنہ وہ سابقہ ادارے بحال کردے گی۔ اس لحاظ سے جو مقامی انتخابات ہوئے وہ سپریم کورٹ کی مرہونِ منت ہیں۔ 1973ء کے آئین کی شق 140-A تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ ان مقامی اداروں کو سیاسی، انتظامی اور مالی خودمختاری دیں۔ لیکن مجموعی طور پر چاروں صوبائی حکومتوں نے آئین کی اس شق کی خلاف وزری کی، کیونکہ وہ کسی بھی طور پر نہیں چاہتیں کہ مقامی اداروں کو مضبوط بناکر اصل اختیارات ان کو دیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصل مقامی اختیارات سلب کرکے صوبائی حکومتیں اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہیں۔ اگرچہ چاروں صوبوں میں خیبر پختون خوا کا نظام قدرے بہتر ہے، لیکن وہاں پر بھی نظام پر عملدرآمد کے حوالے سے کئی مسائل ہیں اور مقامی منتخب نمائندے صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔
پنجاب کی مقامی حکومتوں کے نظام کو اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ منتخب نمائندوں کے مقابلے میں ماضی کی طرح افسر شاہی یا بیوروکریسی کو بہت زیادہ طاقت ور بناتا ہے۔ پنجاب نے کچھ عرصے میں مقامی حکومتوں کے نظام میں کئی طرح کی تبدیلیاں کرکے اور بالخصو ص مختلف اتھارٹیاں بناکر پہلے ہی نظام کو عملی طور پر اپنے کنٹرول میں کرلیا تھا۔ رہی سہی کسر پنجاب کے جمہوری حکمرانوں نے چند دن قبل ’’پنجاب سول ایڈمنسٹریشن آرڈی نینس 2016ء‘‘ جاری کرکے ڈپٹی کمشنرز کا نظام بحال کردیا ہے۔ اس تبدیلی کے تحت اب ضلع کا مکمل اختیار ضلع کے چیئرمین اور وائس چیئرمین یا منتخب نمائندوں کے بجائے ڈپٹی کمشنر کے پاس ہوگا اور وہ ضلع کا سربراہ ہوگا۔ اسی طرح صوبے میں ڈسٹرکٹ تعلیم اور صحت کی جو اتھارٹیاں قائم کی گئی ہیں ان کی سربراہی بھی ڈپٹی کمشنر کو دے دی گئی ہے۔ اس تبدیلی سے ضلع اور تحصیل میں ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر وسائل کی مؤثر فراہمی، امن و امان کے معاملے میں پولیس سے مشاورت اور مالیاتی امور سمیت دیگر معاملات کا جائزہ لے کر مناسب ہدایات جاری کریں گے۔ اسی طرح ڈی سی کو یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ اگر اس کی ہدایات پر عمل نہ کیا گیا تو وہ صوبائی حکومت کو قانونی کارروائی بھی تجویز کرسکتا ہے۔ اسی طرح اسے انکوائری کا بھی اختیار ہوگا۔
2001ء میں اُس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویزمشرف نے مقامی حکومتوں کے نظام میں ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ختم کرکے ضلعی رابطہ افسر یعنی ڈی سی او کا تقرر کیا تھا۔ اُس وقت کی بیوروکریسی نے جنرل پرویزمشرف کے اس اقدام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس کا مقصد ان کی حیثیت کو کمزور کرنا ہے۔ اب پنجاب کے جمہوری حکمران شہبازشریف نے واپس بیوروکریسی کو دوبارہ اس کی سابقہ شکل میں بحال کرکے عملی طور پر ’’بالادست افسر شاہی‘‘ یا ’’ڈی ایم جی گروپ‘‘ کو دوبارہ پنجاب میں منتخب نمائندوں پر بالادستی دے دی ہے۔ بنیادی طور پر حکمران طبقے کی یہ سوچ ظاہر کرتی ہے کہ ان کے طرزِ حکمرانی کا محور انتظامی افسران یا بیوروکریسی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری افسران کی مدد سے صوبے کے نظام کو کنٹرول کرنے میں اُن کے سیاسی مفادات کو زیادہ تقویت ملتی ہے۔ اگرچہ پنجاب میں روزانہ کی بنیاد پر اخبارات میں تشہیر کی جارہی ہے کہ صوبائی حکومت نے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرکے جمہوریت کو مضبوط کیا ہے۔ جبکہ حقیقی تجزیہ یہ ہے کہ پنجاب کے حکمران طبقے نے ان مقامی جمہوری اداروں کو عملاً مفلوج بنادیا ہے۔ ان کے حالیہ اقدامات آئین کی شق 140-Aکی خلاف ورزی ہیں جو اِن اداروں کو انتظامی، سیاسی اور مالی اختیار دیتی ہے۔ اب جو اختیارات انتظامی طور پر صوبائی حکومت نے ڈپٹی کمشنرز کو دیے ہیں وہ کیسے آئین کی شق پر پورا اترتے ہیں، یہ توجہ طلب مسئلہ ہے۔ جب ہماری سیاسی جماعتیں بڑی شدت سے سیاسی محاذ پر صوبائی خودمختاری کی دلیلیں دیتی ہیں تو ضلع کو بااختیار بنائے بغیر کیا صوبائی خودمختاری کا اصول پورا ہوسکتا ہے، یہ کسی بھی طور پر ممکن نہیں۔ یہ فیصلہ بنیادی طور پر آئینِ پاکستان سمیت 18ویں ترمیم کی روح کے بھی منافی ہے۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بیوروکریسی کو شامل کیے بغیر مقامی ترقی ممکن نہیں، اور اس میں عوامی منتخب اداروں کی صلاحیتوں پر سوال بھی اٹھایا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ بحث موجود نہیں کہ سابقہ ڈپٹی کمشنر کے نظام میں بھی مقامی ترقی کا عمل کوئی اچھی کارکردگی پیش نہیں کرسکا تھا۔ اس پر بہت سا ایسا تحقیقی، علمی و فکری کام موجود ہے جو سابقہ ڈپٹی کمشنر کے نظام کو مقامی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتا تھا۔ یاد رہے کہ بیوروکریسی کسی بھی سطح پر عوام کو جوابدہ نہیں، جبکہ منتخب عوامی نمائندہ بہر صورت مقامی سطح پر اپنے ووٹرز کو جوابدہ ہوتا ہے۔
اسی طرح صوبائی حکومت نے ارکانِ قومی اور صوبائی اسمبلی کی مقامی نظام میں شمولیت سے صوبائی اور مقامی منتخب نمائندوں کے درمیان نئی سیاسی رسّا کشی کی بنیاد بھی ڈال دی ہے۔ ارکان اسمبلی کی مقامی ترقیاتی امور میں مداخلت سے مقامی نظام کسی بھی صورت میں خودمختار نہیں ہوسکتا۔ یاد رہے کہ ہماری سیاسی قیادت یا سیاسی جماعتوں بالخصوص بڑی حکمران جماعتوں کی دلچسپی اور ترجیحات میں کبھی بھی مقامی نظام شامل نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مقامی نظام بدقسمتی سے جمہوری حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان نہ تو کوئی تسلسل قائم کرسکا اور نہ ہی اس کے نفاذ میں کوئی سنجیدہ کوششیں نظر آتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں حکومتوں نے مقامی سطح پر اختیارات کی منتقلی کا قانونی اور سیاسی نظام نافذ کرنے کے بجائے ایک متبادل راستہ اختیار کیا جو بیوروکریسی کے گرد گھومتا ہے۔ پنجاب میں مختلف اتھارٹیوں کے قیام سے عملی طور پر یہ نظام پہلے ہی اپنی اہمیت کھوچکا تھا۔ اب ضلع اور تحصیل کی سطح پر ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کا متبادل نیا انتظامی ڈھانچہ بڑے پیمانے پر بڑا پروٹوکول، ایک ہی سطح پر ایک دوسرے سے متبادل نظام اور نیا ٹکراؤ پیدا کرے گا۔ پولیس کو بھی عملاً ڈپٹی کمشنر کے تابع کردیا گیا ہے اور اس پر پولیس میں بھی خاصے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ نظام اب عملی طور پر مقامی حکومتوں کے قانون، پنجاب سول ایڈمنسٹریشن آرڈی نینس 2016ء، پولیس آرڈر 2002ء اور سول بیوروکریسی کے درمیان قائم ایک سے زیادہ نظام، ضلع اور تحصیل کی سطح پر ایک نیا سیاسی اور انتظامی الجھاؤ پیدا کرکے مقامی حکمرانی میں مزید انتشار اور بدنظمی پیدا کرے گا۔ حکومت کے مطابق اس برس مقامی نظام کو گزشتہ برس دیے جانے والے 274 ارب روپے کے مقابلے میں 391 ارب روپے دیے جائیں گے جو کہ 44 فیصد زیادہ ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان وسائل کا نظام اور فیصلہ سازی کا کنٹرول اگر عوام کے منتخب نمائندوں کو دینے کے بجائے انتظامی افسروں کو دینا ہے تو عوامی ترجیحات پر مبنی ترقی بہت پیچھے رہ جائے گی۔ اصل میں حکومت 2017ء کو انتخابی مہم کے طور پر چلانا چاہتی ہے، اسی وجہ سے مقامی نظام کو بحال کیا گیا اور اب ان وسائل کو ڈپٹی کمشنرز کی مدد سے استعمال کرکے اپنے حق میں انتخابی نتائج کو حاصل کرنا ہے۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ ماضی میں ڈپٹی کمشنرز کی مدد سے سیاسی حکومتیں اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے، مخالفین کے لیے مشکلات پیدا کرنے، سیاسی مفادات کو انتظامی طاقت سے کنٹرول کرنے جیسے دیگر اقدامات کو اس نظام میں بطور ہتھیار استعمال کرتی رہی ہیں۔ اس لیے مقامی نظام میں جو حالیہ تبدیلی اور ڈپٹی کمشنرکا نظام سامنے آیا ہے اس کو حکومتی جماعت کی انتخابی مہم کے تناظر میں جوڑ کر دیکھا جائے تو مسئلے کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
لوگوں کو یاد ہوگا کہ ماضی میں ڈپٹی کمشنر کے نظام میں مقامی نمائندے تو کجا ارکانِ اسمبلی کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تھی۔ ماضی میں ہی کئی مقامی اداروں میں عوام کے منتخب نمائندوں کے تیار کردہ سالانہ بجٹ کو بھی ڈپٹی کمشنر ایک منٹ میں مسترد کردیتا تھا۔ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے شاہی پروٹوکول کی بنا پر عام آدمی کی ان بڑے انتظامی اداروں تک رسائی بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ پنجاب میں جو ارکان منتخب ہوکر آئے ہیں وہ بے بسی کا شکار ہیں، ان کو احساس نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہورہا ہے، یا وہ کمزور بن کر شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا بھرم رکھ کر خاموش نظر آتے ہیں۔
جس طرح پنجاب کے حکمران ان اداروں کو چلانا چاہتے ہیں وہی رویہ سندھ سمیت دیگر صوبوں میں بھی ہے۔ بلوچستان جہاں سب سے پہلے مقامی انتخابات ہوئے تھے، وہاں پر ابھی تک ایک مؤثر نظام کی ابتدا بھی نہیں ہوسکی ہے۔ بلوچستان کا نظام سب سے کمزور ہے اور ان مقامی اداروں کے پاس اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خیبر پختون خوا میں بھی جہاں تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ(ن)، جماعت اسلامی اور جمعیت العلماء اسلام فضل الرحمن موجود ہیں وہاں بھی ان اداروں کے حوالے سے مسائل ہیں۔ خیبر پختون خوا کے منتخب نمائندے خود عمران خان کی موجودگی میں اختیارات نہ ملنے پر ایک سے زیادہ مرتبہ احتجاج کرچکے ہیں۔
جو لوگ بھی مقامی حکمرانی کے نظام سمیت مقامی جمہوریت کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں ان کو پنجاب حکومت سمیت دیگر صوبائی حکومتوں کے اقدامات پر مزاحمت کرنی چاہیے،کیونکہ اس فیصلے سے مقامی اداروں کا مستقبل ہی داؤ پر نہیں لگا بلکہ مقامی طرزِ حکمرانی کو بھی ایک بری طرزِ حکمرانی کی صورت میں بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ اگر ہماری سیاسی قیادت نے عوام کے مسائل کا اندازہ نہ لگایا اور ان اداروں کو واقعی قانون کے مطابق خودمختاری نہ دی تو یہ ادارے اپنی افادیت کھو دیں گے اور مقامی سطح پر عوام کے مسائل میں اضافہ ہماری حکمرانی کے نظام کو اور زیادہ برباد کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔
nn