صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں 128میڈیکل کالج ہیں جن میں سے صرف 70 میں دماغ کے ڈاکٹر موجود ہیں۔ اس لیے اپنے دماغ کو صحت مند رکھیے۔ اس مضمون کو کسی کانفرنس کا احوال سمجھ کر مت پڑھیے گا۔ یہ ایک بڑے مشن، ایک عظیم سفر اور ایک بلند عزم پر مبنی ہدف کے حصول کے لیے کی گئی ایک چار روزہ کوشش کی داستان ہے۔ آپ بھی اس عظیم سفر پر گامزن ہوسکتے ہیں جس کا کلیدی مقصد ایک اچھا، صحت مند معاشرہ بنانا ہے۔
دنیا کے تمام ادیان میں انسانی زندگی کو بڑی اہمیت و مقام دیا گیا ہے۔ انسانی زندگی اور اچھی صحت دونوں کا تعلق بہت قریبی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی اس بے پناہ ترقی نے جہاں انسانوں کے لیے زندگی کو بے شمار آسانیاں فراہم کی ہیں، وہیں ہم دیکھتے ہیں کہ نت نئی بیماریاں، امراض اور ساتھ ساتھ مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اِن ایجادات کے فوائد یا نقصانات کے حوالے سے ایک جانب بحث جاری ہے تو دوسری جانب بڑھتے ہوئے امراض، اِن کے علاج اور بچاؤپر بھی تحقیقات و مباحث جاری ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں آج تک کسی بیماری کے حوالے سے کوئی حکومتی اعداد و شمار موجود نہیں، تاہم دیگر اداروں کی جانب سے کیے گئے سروے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں دماغی و اعصابی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں اور ملک میں ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ نیورولوجی، طب کا ایک وسیع شعبۂ علم ہے جس میں آئے دن تحقیقات کا سفر اس کی مزید شاخیں ترتیب دے رہا ہے۔ عام طور پر جنرل فزیشنز کو مخصوص اور جدید طریقۂ علاج کی تربیت نہیں دی جاتی، نہ ہی وہ خود اپنی ملازمت یا کلینک کی مصروفیات کی وجہ سے علیحدہ وقت نکال پاتے ہیں۔ اسی طرح مریضوں میں بھی یہ آگاہی اور شعور ہونا ناگزیر ہے کہ وہ کن حالات میں کس طرح کے معالج سے رجوع کریں۔
گزشتہ دنوں ڈاکٹر محمد وسع کی چیئرمین شپ میں پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی نے کراچی میں 22 تا25 دسمبر 16thنیورولوجی اپ ڈیٹ 2016ء کا انعقاد مقامی ہوٹل میں کیا۔ اس کانفرنس میں آٹھویں نیشنل اسٹروک (فالج) کانفرنس، دوسری نیشنل موومنٹ ڈس آرڈر کانفرنس اور چوتھی نیشنل ہیڈ ایک (سردرد) کانفرنس کے مشترکہ سیشن ہوئے۔ اس کانفرنس میں تین ورکشاپ اور سات سائنٹفک سیشن منعقد ہوئے، جبکہ ایجنڈے کے مطابق اس کانفرنس کے آخری روز نیشنل گائیڈ لائنز برائے مرگی کا اجراء بھی شامل تھا۔ کانفرنس کے مقاصد کے حصول میں آسانی کے لیے نیورولوجی سے متعلق ملک کی کئی معروف دوا ساز کمپنیوں نے اپنے خوبصورت اسٹال بھی لگائے تھے جو ڈاکٹروں کو نیورولوجی سے متعلق نئی دریافت شدہ ادویات کے بارے میں آگاہی دے رہے تھے۔
اس کانفرنس کے بنیادی مقاصد میں پاکستان میں کام کرنے والے نیورولوجسٹ کو ذہنی امراض سے متعلق 2016ء میں دنیا بھر میں ہونے والی نئی تحقیقات، علاج اور ادویات سے متعلق بنیادی آگاہی اور تربیت فراہم کرنا تھی۔ اس کانفرنس میں نیورولوجسٹ کے ساتھ ساتھ جنرل پریکٹیشنرز، ماہرینِ نفسیات، فزیو تھراپسٹ اور زیر تعلیم ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ مریضوں کو بھی مدعو کیا گیا۔
NARF کے تحت اس کانفرنس کا انعقاد اسی مقصد کے لیے ہر سال کے اختتام پر کیا جاتا ہے تاکہ دنیا بھر میں ہونے والی نئی تحقیقات، علاج، طریقہ علاج اور دیگر معلومات کو مؤثر انداز سے متعلقہ ڈاکٹروں تک پہنچایا جا سکے۔ ان تحقیقات، معلومات اور تربیت کو مقامی ڈاکٹروں تک پہنچانے کے لیے دنیا بھر سے ماہرینِ دماغ و اعصاب شریک ہوتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، سعودی عرب، قطر، جرمنی، جاپان، سنگاپور کے علاوہ ملک بھر سے دیگر ماہر نیورولوجسٹ اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔
اس کانفرنس میں فراہم کی جانے والی معلومات و تربیت کے نتیجے میں بنیادی فائدہ مریضوں کو ہی پہنچتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت 200 نیورولوجسٹ کام کررہے ہیں۔ اس تعداد کو دیکھ کر ہی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ تیزی سے وسعت پاتی اس فیلڈ میں ڈاکٹروں کی کتنی کمی ہے۔ اس کے نقصانات کا اندازہ تیزی سے پھیلتی شرح اموات، بیماریوں اور سب سے بڑھ کر معذوریوں کی بڑھتی ہوئی شرح کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے، کیونکہ دماغی بیماریوں کے نتیجے میں معذوری کا پیدا ہونا سب سے عام بات ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں فالج کا شکار ہونے والے مریضوں کی عمریں دُنیا بھر کے مریضوں کی عمروں کے مقابلے میں دس سال کم ہیں۔ یہ تو ہم سب کا مشاہدہ ہوگا کہ عمومی محافل میں گفتگو کے دوران بلڈ پریشر اور شوگر کو پاکستان میں تیزی سے پھیلتے مرض قرار دیا جاتا ہے، مگر اس بات کی آگہی ابھی مزید ہونا ضروری ہے کہ اِس بلند فشار خون (بلڈ پریشر) کے نتیجے میں فالج سمیت کئی دماغی بیماریوں کی ترتیب بن جاتی ہے، جس کے لیے ملک میں ماہر، تربیت یافتہ نیورولوجی کے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔
نیورولوجی میں بہت سی بیماریاں جن میں چلنا پھرنا مشکل ہوجائے، ہاتھ یا پاؤں کانپیں، اعضاء کا حرکت کرنا مشکل ہوجائے۔۔۔ ایسی تمام اشکال کو Movement Disorders کے دائرے میں رکھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اس کانفرنس میں خصوصی سیشن رکھے گئے تھے جن میں Bottox Therapy کے لیے خصوصی طور پر مریضوں کو بھی بلایا گیا تھا۔ پاکستان کے معروف نیورولوجسٹ ڈاکٹر نادر نے شریک ڈاکٹروں کو اس کے انجیکشن لگانے کی خصوصی تربیت بھی دی۔ Bottox Therapy میں اکڑ جانے والے جسم کے حساس پٹھوں میں انجیکشن لگایا جاتا ہے جس کا اثر تین سے چار ماہ تک رہتا ہے، جو جسم کے ان پٹھوں کو آرام فراہم کرتا اور قابلِ استعمال بناتا ہے۔ چونکہ یہ حساس پٹھوں پر لگایا جاتا ہے اس لیے اس کی تربیت و مہارت ناگزیر ہے۔
اسی طرح فالج کے حوالے سے ڈاکٹر اسماعیل کھتری نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں جس تیزی سے فالج اور بلڈ پریشر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے وہ پاکستان کو ضعیف معذوروں کی آماجگاہ بنا سکتا ہے۔ تمباکو نوشی اور غیر صحت بخش طرزِ زندگی اس کی مرکزی وجوہات ہیں۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس سے قبل از وقت بچا جا سکتا ہے اور پاکستان میں سالانہ21 ارب روپے فالج کے علاج کی مد میں بچائے جا سکتے ہیں اگر صرف حکومت اس سے متعلق کوئی بہتر آگاہی پروگرام عوام الناس میں فروغ دے۔ سر درد کی شکایت پاکستان میں بھی عام ہے، اس کی ایک بنیادی شکل مائیگرین یا آدھے سر کا درد ہے جسے ہم اکثر سنتے ہیں۔ سر درد کے علاج اور دنیا بھر میں اس پر ہونے والی نئی تحقیقات اور علاج پر بھی ایک خصوصی سیشن رکھا گیا تھا جس میں برطانیہ سے آئے ہوئے ماہر ڈاکٹر فیاض شیخ نے کیس اسٹڈیز کی مدد سے سردرد کی نئی دریافت ہونے والی اقسام اور ان کے طریقہ علاج کو مفصل انداز سے شرکاء کو سمجھایا اور سوالات کے جوابات بھی دیئے۔
کانفرنس کے آخری دن پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کی جانب سے مرگی کے علاج اور تشخیص میں معاونت کے لیے قومی سطح کی سفارشات جاری کی گئیں جنہیں ’گائیڈ لائنز‘ کا عنوان دیا گیا۔ گائیڈ لائنز کی تیاری میں ملک کی معروف نیورولوجسٹ اور مرگی کے علاج میں وسیع تربیت، تجربہ ومہارت رکھنے والی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کلیدی کردار تھا، اور انہوں نے اس کی تفصیل بھی شرکاء کو پیش کی۔ اُن کے مطابق پاکستان میں موجود 20 لاکھ مریضوں کے علاج کے لیے یہ سفارشات بھرپور معاونت کریں گی، جن میں علامات، علاج، ادویات کی تفصیل بھی فراہم کردی گئی ہے۔ اس کے ذریعے بچوں، عورتوں، مردوں میں پائی جانے والی مرگی کی مختلف اقسام کو الگ الگ طریقے سے شناخت کرنے میں مدد ملے گی۔
کانفرنس میں جہاں سائنٹفک سیشن اور دیگر ورکشاپ ہوتی رہیں، وہیں حاضرین اور شرکاء کے لیے ملک کے معروف شعراء کرام کے ساتھ ایک خوبصورت فیملی مشاعرہ بھی رکھا گیا تھا۔ اس مشاعرے کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم (وائس چانسلر ضیاء الدین یونیورسٹی، سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی) کررہے تھے، جبکہ اُن کے ہمراہ پاکستان کے صفِ اول کے شعراء امجد اسلام امجد اور مسعود انور تھے۔ مشاعرے کی نظامت کے فرائض نہایت دلچسپ انداز سے ڈاکٹر نصرت علی نے انجام دیئے۔ امجد اسلام امجد نے مشاعرے کا آغاز کرتے ہوئے محفل کا رنگ جمایا، جس کے بعد شعراء کرام خصوصاً ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے ترنم میں بھی اپنا کلام پیش کیا، جبکہ مزاحیہ شاعری میں مسعود انور نے محفل مشاعرہ کا خوب رنگ جمایا اور حاضرینِ محفل سے خوب داد وصول کی۔
کانفرنس میں شرکاء کی بڑی تعداد اور دلچسپی پر منتظمین اور مہمان ڈاکٹر خوش نظر آئے۔ جو کچھ سیکھ سکتے تھے چار دنوں میں سیکھا، جانا اور اپنے محاذوں پر چلے گئے، لیکن حقیقت یہ تھی کہ اپنی بساط کے مطابق یہ ایک معمولی سی کوشش تھی، حقیقت میں متوجہ ہونا حکومتِ وقت کا اصل کام ہے۔ حکومت کی بات کی جائے تو ’’صحت‘‘حکومت کا کبھی دردِسر رہا نہیں، کیونکہ ہمارے حکمران تو اپنے کھانسی نزلے کا علاج کرانے بھی فوراً بیرونِ ملک روانہ ہوجاتے ہیں۔ عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کا وعدہ ہماری ہر حکومت کسی نہ کسی شکل میں کرتی ہے مگر افسوس کہ اس شعبے میں کوئی سنجیدہ کوشش کسی حکومت نے کبھی نہیں کی۔ ماہرینِ دماغ و اعصاب کی تعداد پاکستان میں ویسے ہی کم ہے، دوسرا یہ کہ پاکستان میں ہونے والے برین ڈرین یعنی تیار ہونے والے ماہرینِ دماغ و اعصاب کو پاکستان میں اچھے انداز سے روکنے، یا بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ڈاکٹروں کو پاکستان واپس لانے کے لیے حکومت کی جانب سے بھی مؤثر اقدامات نہیں کیے جاتے۔ حکومت اگر ایک صحت مند پاکستان بنانے کے لیے کچھ کرنا چاہے تو اس کے لیے ہر ضلع میں کم از کم ایک ہسپتال کا قیام اور اُس میں دماغی واعصابی امراض کا شعبہ لازمی رکھا جائے تاکہ ضلعی بنیادوں پر اس سے متعلق مریضوں کو بہتر علاج اور سہولیات مل سکیں،ساتھ ساتھ نوکریوں کی گنجائش کی وجہ سے مقامی ڈاکٹروں کی تیاری بھی ممکن ہو سکے۔
nn