یورپین اسپیس ایجنسی ESA نے ’روزیٹّہ مشن‘ کی منصوبہ بندی پر بیس سال صرف کرنے کے بعد ۔۔۔ اس روبوٹک خلائی جہاز ’روزیٹّہ‘ (Rosetta)کا سفر ۲۰۰۴ء میں شروع کروایا، دس سال میں زمین سے پانچ ارب میل کے فاصلے پر اس سے بھی بہت زیادہ کے پانچ چکردار سفر کرکے اس نے ایک چھوٹے روبوٹک جہاز ’فیلائی‘ (Philae) کو ۱۲نومبر ۲۰۱۴ء کو ایک دمدار تارے پر اتار دیا ہے۔
اب تقریباً بارہ سال ہونے والے ہیں۔۔۔ یہ چھوٹا سا روبوٹک جہاز’فیلائی‘ اس دُمدار تارے پر اب بھی سوار ہے، اور ’روزیٹّہ‘ اس دُمدار تارے کے اطراف مدار میں گھومتے ہوئے اس کی نگرانی کررہا ہے، اور اس تارے کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے اور اس طرح دونوں اب بھی سفر مِیں ہیں۔۔۔!
اگرچہ ’روزیٹّہ‘ کو ایک ’دُمدار تارے‘ 46P/Wirtanen کے پیچھے جانا تھا۔۔۔لیکن روانگی میں اتنی تاخیر ہو گئی کہ ’وِرطانِن‘ آگے نکل گیا، انسان اپنے عزم کا پکا ہے،ایک نکل گیا تو کیا ہوا ، ہزاروں اور ہیں۔۔۔ اس نے جھٹ اس کا پروگرام بدل کر ایک دوسرے دُمدار تارے ’۶۷ پی/ چُریوموف ۔ جیراسی مِنکو‘ 67P/Churyumov-Gerasimenkoکے راستے پرڈال دیا۔
روایت کے مطابق جن ستاروں،سیاروں ، سیارچوں یا دُمدار تاروں کوجو فرد یا افراد دریافت کرتے ہیں اِن کے ناموں کو اُن سے ہی منسوب کر دیا جاتا ہے،اِس دُمدار تارے کودو روسی ماہرینِ فلکیات نے ۱۹۶۹ ء میں پہلی مرتبہ دریافت کیا اور اس کا حساب کتاب معلوم کیا تھا۔
اس کا حجم(volume) ساڑھے پندرہ معکب میل ہے(15 cubic miles) ،زیادہ سے زیادہ لمبائی تقریباً ساڑھے چار میل ہے اور وزن ۳؍ارب ٹن ہے۔
اِس دُمدار تارے کی رفتارجب یہ سورج سے دور جارہا ہوتا ہے توکم سے کم ہوکر ۷۸۱249۱۶؍میل اورجب سورج کی طرف آرہا ہوتا ہے تو زیادہ سے زیادہ ۳۰۹249۷۸؍ میل فی گھنٹہ ہوجاتی ہے ۔۔۔ [یعنی زمین کی رفتار سے بھی زیادہ تیز]،اس کا بیضوی مَدار ایسا ہے کہ سورج اس کے درمیان میں نہیں ہے، یہ ایک طرف جب سورج سے قریب ترین ہوتا ہے تو زمین سے کچھ دور جا کر پلٹ جاتا ہے اور دوسری طرف جب سب سے دُورہوتا ہے تو ۔۔۔ مشتری (جوپیٹر) سے تھوڑا آگے جاکر واپس لوٹ آتا ہے۔جب یہ دُمدار تارہ سورج سے قریب ترین ہوتا ہے تو یہ
) (1.24AU ہوتا ہے جب سب سے زیادہ دور ہوتا ہے تو یہ 5.68AU) (ہوتا ہے (نظامِ شمسی میں فاصلوں کو ناپنے لیے زمین سے سورج کا فاصلہ ایک’ اَیسٹرو نومیکل یونٹ‘ (Astronomical Unit-AU) مانا جاتا ہے)۔
اگرچے یہ دُمدار تارہ’ چُریوموف ۔ جیراسی مِنکو‘زمین کے قریب (0.24 AU)سے گزرتا ہے مگر ہمارا خلائی جہاز سیدھا اُس کی طرف نہیں جا سکتا، کیوں کے یہ جہاز سورج اور سیاروں کی کششِ ثقل کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس کو تو سورج کے گرد مدار میں گھومنے والے سیاروں اور دیگر اجسام ساتھ سورج کے مدار میں ہی گھومتے ہوئے ان ہی کی کششِ ثقل کی مدد سے جھولا جھول کر آگے بڑھتے رہنا تھا۔
۲؍مارچ ۲۰۰۴ ء کو ’روزیٹہ‘ کاسفر شروع ہوا اوراس کو تین بڑے راکٹوں کی طاقت سے زمین کی کشش سے آزادکرکے سورج کے اطراف زمین ہی کے مَدار میں پہنچادیا گیا۔
۴؍مارچ ۲۰۰۵ ء تک،یعنی تقریباًایک سال اِن کو زمین کے مدار میں سورج کے گِرد ایک چکر لگوایا گیا،یہ پہلا چکر تھا۔
پھر پہلی دفعہ زمین کی کشش کی مدد سے جھولا لے کر سورج کے مدارمیں آ گے بڑھایا گیا،یہ اس جہاز کو دوسرا چکر تھا۔
۲۵؍فروری ۲۰۰۷ ء کودوسری دفعہ اس کو مریخ(مارس) کی کشش سے جُھولا لے کر سورج کے گرد اس سے بڑاایک اور چکر لگوایا گیا،یہ تیسرا چکر تھا۔
۱۳؍نومبر۲۰۰۷ ء کو تیسری بار پھر زمین کی کشش کی مدد سے جھولا لے کر سورج کے اطراف مدار میں اور آگے بڑھایا گیا،یہ چوتھا چکر تھا ۔
۵؍ستمبر ۲۰۰۸ ء کو’ روزیٹہ‘ ایک سیارچے ) (Asteroid ’اسٹینزے‘(Steins)کے قریب سے گزری اور اس کی تفصیلی نادرتصویریں جرمنی میں قائمESAکے مرکزDLR پر بھیجیں ۔
۱۳؍ نومبر۲۰۰۹ ء کو چوتھی بار پھرزمین کی کشش سے مدد لے کر ’روزیٹّہ‘کو اورآگے بڑھا کر دُمدار تارے’چُریوموف ۔ جیراسی مِنکو‘ کے سورج کے گِرد مدار پر ڈال دیاگیا،یہ ہوا پانچواں چکر۔
۱۰؍جولائی ۲۰۱۰ ء کو’روزیٹہ ‘ نے ایک اور سیارچے ’لوٹیشیہ ‘ (Lutetia) کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کی تصویریں بھی زمین پر اپنے مرکز کو بھیجیں۔
جب یہ سورج سے بہت دور آگئی،جہاں سورج کی روشنی اتنی کمزور ہو گئی تھی کہ جہازکی شمسی توانائی سے چلنے والی بیٹریاں ’ری چارج‘ ہو نے سے معزور ہوگئیں تو توانائی کی بچت کے لیے ان کے بہت سارے کام ملتوی کرکے۸؍جون ۲۰۱۱ ء سے ان کو ’ہائیبرنیشن‘ میں ڈالدیا گیا،یعنی جیسے سُلا دیا گیا ۔
یہ جہازتقریباً دوسال سات ماہ سوتا رہا،یعنی اس کا رابطہ جرمنی میں قائم زمینی مرکز DLRسے قائم نہ رہ سکا،ان کو بھیجنے والے سائنسدن ہاتھ پر ہاتھ دھرے پریشانی سے انتظار کرتے رہے ،ان کواس کی کوئی خبر نہیں تھی کہ یہ موجودہے کہ نہیں، اگر ہے بھی تواِس کی صحت کیسی ہے؟ اِس کے سب آلات کام کے قابل ہیں کہ نہیں ، زمین پر مہم کے مرکز DLRمیں۳۱ ماہ تک اُداسی چھائی رہی۔
جب۲۰؍جنوری ۲۰۱۴ ء کو’روزیٹہ‘نے بیدار ہو کر زمین سے رابطہ کیا تو وہاں زبردست خوشیاں منائی گئیں،روزیٹہ زمین سے اتنی دور تھی کہ جب وہ روشنی کی رفتار سے سگنل بھیجتی تب بھی اس کو زمین پر پہنچنے کے لیے۲۸منٹ لگتے ہیں[جبکہ اسی رفتار سے سورج کی روشنی زمین تک پہنچنے میں صرف ۸ منٹ لگتے ہیں] ، اللہ کے عطا کردہ علم کے زور پر انسان انہیں اتنی دور سے رِیموٹ کے ذریعہ چلا رہا تھااور چلا رہا ہے۔
جب ۷؍مئی ۲۰۱۴ ء سے ’روزیٹّہ‘نے دمدار تارے ’چُریوموف ۔ جیراسی مِنکو ‘ کی تصاویردوبارہ بھیجنا شروع کیں تو ہم نے پہلی دفعہ اس کی اصل شکل دیکھی کہ یہ کیسا ہے۔ ورنہ جب بھی کوئی جھاڑو تارہ سورج کی طرف آتا ہے تو روشن ہو کرہی نظر آتا ہے ،اس وقت ان کے اطراف گرد،گیسیں اور بخارات ہو تے ہیں اورسورج سے دوسری طرف لاکھوں میل لمبی جھاڑو جیسی دُم ہوتی اور انسان اِن کی اصل شکل دیکھ ہی نہیں پاتا۔
اس تارے کی شکل ربڑ کی بطخ جیسی ہے، ایک چھوٹا چپٹاسر کی طرح دوسرا بڑا تیڑا میڑا جسم کی طرح بیچ میں جیسے گردن سے جُڑاہوا، اس کا رنگ کوئلے جیسا کالا سیاہ ہے۔یہ ساڑھے بارہ گھنٹے میں اپنے محور پر لٹو کی طرح گھوم رہا ہے،اس کا قطب شمالی و جنوبی بیچ کی گردن والے حصے میں ہے جبھی یہ آڑا ترچھا گھومتا ہے،اور یہ سورج کے گِرد بیضوی مدار میں تقریباً ساڑھے چھ سال میں ایک چکر پورا کرتا ہے، مشتری(جوپیٹر) کے مدار سے تھوڑا ہی آگے جا کر پلٹ آتا ہے اس لیے یہ مشتری کے خاندان کا فرد مانا جاتا ہے اور جب سورج کی طرف آتا ہے تو زمین کے مدار سے تھوڑا آگے جا کرپھرواپس پلٹ جاتا ہے۔
روزیٹہ دس سال سے زیادہ چکر دارسفر کر کے آخر کار ۶ ؍
اگست ۲۰۱۴ ء کو اس دُمدار خلائی جہاز’روزیٹّہ‘ کو اس دمدار تارے کے مَدار کے قریب پہنچی ۔
ر وزیٹہ کودُمداتارے کے مدار میں داخل کر نے کے لیے بڑے جتن کروائے گئے،پہلے تو اس کو اپنی رفتار کو کم کرنا تھا۔۔۔ جب یہ دور جا نے لگتی ہے تو اس کا جٹ انجن چلاکر واپس موڑنا پڑتا ہے، اس طرح مُوڑمُوڑ کراور کئی کئی بار تکو ن قوس بنا کرکے اس دُمدار تارے کے قریب دائری مَدار میں پہنچائی گئی،جبکہ ہر لمحہ دُمدار تارے کی رفتاربھی تیز ہوتی جا رہی تھی، کیوں کہ یہ سورج کی طرف آرہا تھا۔
روزیٹّہ دُمدارتارے کی ہزاروں تصویریں زمین پر اپنے مرکز کو بھیجتی جا رہی تھی،ان تصاویر کی مدد سے دو ماہ سے زائد صرف کر کے اس کا تفصیلی نقشہ بنایاگیا،اس کے سب منطقوں کے الگ الگ نام تجویز کئے گئے۔ اس نقشے کی مدد سے چھوٹے روبوٹک جہاز ’فیلائی‘ (Philae) کو دُمدار تارے’چُریوموف ۔ جیراسی مِنکو‘ پر اُتر نے جگہ کا فیصلہ کیاجانا تھا، پہلے مرحلے میں دس مقامات تجویز کئے گئے، پھر ان میں سے چھانٹتے چانٹتے ایک مقام کا فیصلہ کیا گیا، اس کو ایسی جگہ اُتارنا مقصود تھا جوہموار ہو تاکہ فیلائی ٹیڑی ہوکر گر نہ جائے اور یہ جگہ ایسی بھی ہو کہ وہاں اِسے سورج کی روشنی ملتی رہے تاکہ اس کی شمسی تونائی سے چلنے والی بیٹریاں چارج ہوتی رہیں اور کسی غار یا پہاڑ کے سائے میں اُتر کربے کار نہ ہو جائے۔
۱۲ نومبر ۲۰۱۴ ء کو آخر کار زمینی مرکزکے لوگوں نے بڑی ہمت کی اور’ روزیٹّہ‘ کو سگنل بھیجا کہ’ فیلائی‘کو دُمدار تارے پر اُتار نے کے لیے ایک خاص زاویہ بنائے اور اس کو دُمدار تارے کی طرف آہستہ سے ٹپکا دے ۔
ان کوخوف اور ڈر تھا۔۔۔ کیوں کہ’فیلائی‘کو ایسی جگہ اُتارا جارہا تھا کہ جہاں اس سے پہلے کوئی انسان تو کیا روبوٹ بھی نہیں گیاتھا اور جس بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ یہ کیسی ہوگی ۔۔۔ ہو سکتا ہے یہ جگہ اتنی نرم یادلدلی ہو کہ وہ اس میں دھنس جائے اور ساری محنت بے کار جائے۔۔۔ یہ بھی ہو سکتا تھاکہ یہ جگہ اتنی سخت ہو کہ وہ اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے اور کسی کام کی نہ رہے۔
ساڑھے بارہ میل کے فاصلے کو بھی ’فیلائی‘ نے آہستہ آہستہ سات۷ گھنٹوں میں طے کیا، یعنی تقریباً پونے دو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ،انسان کی عمومی رفتار چار میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔
زمین پراس کا وزن سو کلو تھا مگر اس دُمدار تارے کی کششِ ثقل اتنی کم تھی کہ وہ ایک کاغذ کے ٹکڑے کی طرح گر رہی تھی،
[کیونکہ اس کی کششِ ثقل بہت ہی کمزور تھی، یہاں پر محمد علی کلے جیسے باکسر کا وزن ایک تتلی کے برابر ہوگا] ۔
ایک تواس کے تین پیروں میں پینچ( اسکریو) لگے تھے کہ جو اس کو تارے کی سطح پرٹکتے ہی گھوم کرجما دیتے۔
دوسرا: اس کے نیچے ایک رسی سے بندھا لنگر تھا جس نے گولی کی طرح نکل کر تارے کی سطح کے اندر پیوست ہو کر اس کو پکڑ لینا تھا ۔
تیسرا: اِس کے اُوپر ایک جٹ لگا تھا جو’فیلائی‘ کو اس دُمدار تارے کی سطح پراُوپر سے نیچے کی طرف دباؤ ڈال کر فیلائی کواس کی سطح پر جمنے میں مدد دیتا۔
اس منظر کو دیکھنے کے لیے یورپ کے ایک شہر سے چوبیس گھنٹے کی نشریات پوری دنیا کو دکھائی جا رہی تھی۔
مگر صد افسوس ہم نے جو فیصلہ کیا تھا وہ دھرا کادھراہ رہ گیا، مقررہ جگہ پرجیسے ہی فیلائی نے پہلا ٹپہ کھایا یہ تینوں انتظامات نا کام ہو گئے اوروہ اُچھل گئی۔۔۔دوسرا ٹپہ کھایا ۔۔۔پھر اُچھل گئی ۔۔۔دو گھنٹے تک کئی دفعہ اُلٹ پُلٹ ٹپے کھانے کے بعد اللہ کا شکر کہ وہ سیدھا ہوکر ٹِکنے میں کامیاب ہو گئی۔
لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں اُتارنے کا فیصلہ کیا تھا بے شک اس نے پہلا ٹپہ وہیں کھایامگروہیں جمنے کے بجائے وہ اُچھلتی کودتی تقریباً ایک کلو میٹر آگے نکل گئی۔
اس وجہ سے پریشانی یہ ہوئی کہ وہ صاف سیدھی روشن جگہ کے بجائے گہرائی میں اُتر گئی جہاں سورج کی روشنی بہت کم تھی اوروہ شمسی توانائی سے چلنے والی بیٹریوں کو ری چارج کر نے سے معذور ہوگئی۔
مگرمرکزDLR کے سائنسدانوں نے ہمت نہیں ہاری، اُس کی لگ بھگ چونسٹھ۶۴ گھنٹوں کی جو توانائی محفوظ تھی اِسی کو استعمال کرکے پہلے مرحلے پر تقریباً اَسی ۸۰ فیصد کام کر والیا۔
فیلائی جوایک روبوٹ تھی،روزیٹّہ کو اپنا تجزیہ بھیجتی اور روزیٹّہ اس پیغام کو NASA’ناسا ‘کی مدد سے ESA ’ایسا‘ (یوروپیئن اسپیس ایجنسی) کے مرکز DLRکو بھیج دیتیں۔
’فیلائی‘ نے پہلی پکی خبر یہ دی کہ یہاں سطح پر جمی ہوئی جو برف سی چیزنظر آرہی ہے وہ پانی ہی ہے مگر اس کا ذائقہ مختلف ہے کیوں کہ اس میں سادے عناصر کی جگہ اِن کے ہمجا،یعنی ائیسو ٹوپس ہیں۔
فیلائی میں دس قسم کے تجربات کر نے کے آلات رکھے گئے ہیں،تاکہ وہ ا س دُمدار تارے کے مرکزے اور اس کے گِرد فضا کی کیمیا معلوم کرے کہ یہ کن کن عناصر اور سالموں یا مرکبات سے بنا ہوا ہے،اس نے پیغام دیا کہ اس کی کثافت (ڈنسٹی )پانی سے بھی کم ہے،اگر اس کو کسی طرح پانی پر رکھا جائے تو یہ۹۰فیصد پانی سے باہر ہوگا جبکہ برف پانی میں صرف ۱۰ فیصد باہر ہوتی ہے، اس کا مطلب یہ بہت بُھر بُھرا(porous) ہے،سیارہ زحل (سیٹرن) کی بھی کم و بیش تقریباً یہی کثافت ہے۔
پھر’فیلائی‘ نے دمدارتارے کی سطح کے اندر کھدائی(ڈرل) کر کے اس کا تجزیہ کیا،اس کی رپورٹ کے مطابق اس میں کئی قسم کے ’نامیاتی مرکبات ‘ (Organic Compounds) پائے گئے(حیرت ہے کہ یہ اس میں کہاں سے آئے)۔۔۔یہ ایسے ہیں جو زمین پر زندگی کی ابتدا کر نے کے لیے بے حد ضروری تھیں،لیکن اس کی کیمیا کے لیے زمین کی پیدائش کے وقت اس کا ماحول اور حالات سازگار نہیں تھے،حیاتیاتی سائنسدان پریشان تھے کہ یہ کیسے بنے یا کہاں سے کیسے آئے۔
جب اس تارے کے ایک طرف فیلائی اوردوسری طرف روزیٹّہ تھی’لا ‘ اَشعاع (ایکس ریز) کو تارے کے درمیان سے گزار کراس کے اندر کا بھی مکمل تجزیہ کیا گیا۔
اس کے علاوہ اس نے اس تارے کے متحرک (active) ہونے کے بعد اطراف کی فضا کا تجزیہ کیاتواس میں پانی کے بخارات، کاربن مونو آکسائیڈ ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، امونیہ، میتھین، میتھنال ،سوڈیئم،’میگنی شیئم‘اَرگوان اور کوئلے (کاربن) کے ذرّات تھے۔
سائنسدانوں کااس ساری بکھیڑ میں پڑنے کا مقصدکیا ہے؟ جبکہ اس پرتقریباًایک ارب ڈالر خرچ کیے گئے ہیں،کئی ماہرینِ فلکیات ، اَرضیات، خلائی حیاتیات (Astro biology) ، ریاضی ،کیمیااور طبیعات نے اپنی پوری جوانی ۔۔۔ یا زندگی کے بیس پچیس سال اِس ’روزیٹّہ مُہم‘ (Rosetta Mission)پر صرف کر دیئے،اس طرح بہت سارے لوگ اس مہم کے دوران رٹائر ہو گئے،بیس سال تو صرف اس کی منصوبہ بندی پر صرف ہوئے،اور اب تک بارہ سال اس عمل کرنے میں خرچ ہو چکے ہیں۔
اس مہم کی اہمیت یہ ہے کہ یہ دُمدار تارے(Comets) اور سیارچے(Asteroids) ’ٹائم کیپسول‘ ہیں، اس میں وہ مادّے جس سے تقریباًساڑھے چار ارب سال قبل ہمارایہ نظامِ شمسی بنا تھا بغیر کسی تبدیلی و تغیرکے محفوظ حالت میں موجود ہیں ۔ اِن کے تجزیہ سے انسان جان سکے گا کہ یہ زمین و آسمان کیسے تشکیل پائے خاص کر اس زمین پر زندگی کیسے وجود میں آئی ۔۔۔ یعنی شایدکہ ہزاروں سال سے ہمارے ذہن میں پیدا ہونے والے بہت سے سوالات کا جواب مل سکے۔
اب فیلائی کا چارج ختم ہونے لگا،ایک ایک کر کے اس کے آلے بند ہونے لگے اور پھر وہ مکمل سو گئی۔
پھر۱۳جولائی۲۰۱۵ ء کو جیسے ہی یہ دُمدارتارہ’چُریوموف ۔ جیراسی مِنکو‘ سورج کے قریب آنے لگااور اس کی رفتار بھی تیز ہو نے لگی، نہ معلوم کیسے یہ تارہ سورج کی طرف ایساگھوم گیا کہ ’فیلائی ‘ کی بیٹریاں چارج ہو نے لگیں جس کے ساتھ ہی وہ نیند سے بیدار ہونے لگی۔
جب کوئی دُمدار تارہ سورج کے قریب آ تا ہے،گرم ہونے لگتا ہے۔۔۔اس میں جو مادّے ٹھوس تھے مائع کے بجائے گیس بن کر لمبی جھاڑو جیسی دُم بنتی جاتی ہے۔
روزیٹّہ جوفیلائی کو اُتارنے کے لیے دُمدار تارے کے قریب آئی ہوئی تھیں، اس سے نکلنے والی گیسوں، گرد اور بخارت کی دُھند میں آگئیں اور اس پر کوئلے کی کالک جم گئی،اس لیے اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھاکہ وہ کہاں ہے اور کدھر جائے؟
زمین سے راہ نمائی دے کراس کو بڑی مشکل سے باہر نکالا گیا اور۴۴؍میل دور ایک محفوظ مدار میں پہنچا دیا گیا۔
اس مُہم کا ایک کام یہ بھی ہے کہ دیکھے کہ یہ سورج کی گرمی سے کیسے متاثر ہوتا ہے،اس کی دُم کیسے نکلتی ہے سورج کے قریب ترین یہ کیسے اورکتنا متحرک ہو جاتا ہے اور حساب کیا جائے کہ کن کن مادّوں کا کتنا کتنا اخراج کرتا ہے۔
یہ موقعہ اس کو ایک ہی بار ۱۳ جولائی سے۱۳ ستمبرتک صرف دوماہ کے درمیان ہی ملنا تھا،اس میں ہی اس کے دُم کی فضا کا تجزیہ مکمل کرنا تھا۔ یہ دمُدار تارہ۱۳؍ اگست ۲۰۱۵ ء کو سورج کے قریب ترین تھا۔
انہوں نے رپورٹ کیا کہ سورج کی تپش سے گرم ہو کر اس کے اندر سے بہت سارے ٹھوس مادّے، مائع بننے کے بجائے براہِ راست گیس بن کر،گَرد اور بخارات کے ساتھ نکل کرخلا میں گم ہوتے جا رہے ہیں،اس تارے سے ایک سیکنڈ میں ۶۰ کلو مادّہ خلا میں گم ہو تا جا رہا ہے۔
مرکز کے سائنسدان یہ سن کر گھبرا گئے ۔۔۔یہ چھوٹاسا جھاڑو تارہ تو بہت جَلد اپنا سب مادّہ خلا میں پھینک کر ختم ہو جائے گا ۔۔۔ اور’ فیلائی‘ و’ روزٹّہ‘ بھی اس کے ساتھ فنا ہوجائیں گے۔
یہ تقدیرِ مطلق ہے، اس کائنات کی ہر شے ایک دن لازمی ختم ہو جانے والی ہے، اس مہم کے ذریعہ انسان نے پرور دگار کے اس حکم کو پورا کرنے کا بڑا بنیادی کام کر دیا ہے ۔۔۔ اللہ نے قرآن میں انسان کو پندرہ سوسال پہلے حکم دیا تھا کہ ’’زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ میں(اللہ) نے کس طرح اس کائنات اور اس میں زندگی کی تخلیق کی ابتدا کی ہے۔۔۔ تم کو معلوم ہو جائے گا کہ میں اسی طرح اس کو اور تم کو دوبارہ بھی پیدا کر سکتا ہوں‘‘ (سورہ عنکبوت آیت ۲۰) ۔۔۔ یہ صرف دو چار آیات نہیں پورا قرآن انسان کو غور و فکر اور وجودِ حق کی نشانیوں کی تلاش کا حکم دیتا ہے،اس نتیجے تک پہنچنے کا اشارہ کرتا ہے کہ اللہ نے اس کائنات میں کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی ہے(سورہ آلِ عمران ،۱۹۱) پھر لازماً اِس نے انسان کو بھی کسی مقصد سے پیدا کیا ہے اور یہ مقصداِس کو کسی انسانی ’علم‘ یا تجربے سے معلوم نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ اللہ خالقِ کائنات خود بتائے اور یہ صرف انسانوں میں سے چُنیدہ فرد یعنی ایک رسول پر وحی کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے ۔۔۔ مگر صد افسوس جن کو یہ حکم دیا گیا تھا وہ بحیثیت مجموئی اس کام سے غافل ہیں اور سو رہے ہیں شایدکہ کچھ مسلمان انفرادی طور پر ضرور اس تحقیق میں شامل ہوں گے ۔
روزیٹّہ بھی اب زمین پرکبھی واپس نہیںآ سکتی ہے، ستمبر ۲۰۱۶ ء کے آخر تک شایداس کو بھی’ فیلائی‘ کے پاس اِس دُمدار تارے پر پہنچا دیا جائے ۔۔۔ اور شاید اس عرصے میں انسان ان سے کچھ اور خدمت لینا چاہے ۔
(باقی صفحہ 41پر)
اللہ رب العالمین نے انسان کی پیدائش کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ میں نے انسان کو اپنا نائب بنارہا ہوں ۔۔۔پھراُس نے فرشتوں اورجنوں سمیت ساری کائنات کو حکم دیا کہ انسان کوسجدہ کریں۔۔۔۔۔۔اوراس سجدے کے ذریعہ ساری کائنات کو پابند کیا کہ وہ انسان کا ہر حکم مانیں اور اس کی ہر خواہش پوری کریں، جبکہ انسان سمیت اس کائنات کی ہر شے اللہ کی تخلیق اور ملکیت ہے۔۔۔ خالق و مالک نے انسان کو تھوڑی سی آزادی دی ہے تاکہ وہ اِس کو آزمائے ۔۔۔ تبھی تو اِس نے کائنات کا کوئی مادّہ ہویا توانائی انسان کے سوا کسی کو استعمال کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا!
انسان کے سوا فرشتوں اور جنوں سمیت کوئی جاندارایسا نہیں ہے جو اس کائنات کے کسی مادّے کو استعمال کر کے
* کپڑے بناکر پہنتا ہو!
* یا اَوزار بناکر کاریگری کرتا ہو!
*یا کوئی ہتھیار بنا کرآپس میں یا انسان سے لڑتا ہو! لیکن ۔۔۔جب مالک نے انسان کو اپنا نائب بناکرپوری کائنات اس کے اختیار میں دے دی ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ضروربہ ضرور ایک دن وہ اِس کو پھر پیدا کرے گااور اِس سے اِس زندگی کاحساب بھی لے گا،پھراِس کو اپنے اَچھے اور بُرے کاموں کا نتیجہ بھی بھگتنا ہوگا!!!