(اقبال کا مرد مومن اور جرمن فلسفی کا فوق (البشر عمر ابراہیم

آدمیوں کی دنیا انسان کی آرزومند ہے، انسانیت کی جستجو میں ہے۔ تاریخِ آدم کا سارا سفر اسی آرزو، جستجو اور تکمیل کا ہے۔ راہیں اطوار اور تفہیمات سے مختلف اطراف نکل گئیں۔ یہاں مشرق ومغرب سے دو اصطلاحات پر انسان کی جستجو کا درست فہم حال کی مشکل آسان بناسکتا ہے۔ یہ اصطلاحات ’’مردِ مومن‘‘ اور ’’فوق البشر‘‘ ہیں۔ ان دونوں کا سفر مخالف سمتوں میں ہوا، جدا راہوں پر ہوا۔
’’فوق البشر ‘‘ کا تصور جرمن فلسفی فریڈرک نطشے نے پیش کیا۔ اس سے مراد عیسائیت کی رہبانیت اور بے عملی سے آزاد ایسا باعمل اور طاقتور انسان ہے جو دنیا کو بھرپور انداز میں برتتا ہے، دنیا کے معاملات سے اپنا حصہ بزور طاقت حاصل کرتا ہے، اورآخرت کی زندگی کے وعدوں پر انحصار نہیں کرتا، اور موجودہ دنیا سے لاتعلق نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسا انسان ہے جو انسانیت کی منزل ہے، جو زمین پر قوتِ عمل کے ذریعے وسائلِ زندگی سے فیض یاب ہوتا ہے، اور اس دوران یہ روایتی و عیسائی تعلیمات و اقدارسے بے نیاز ہوتا ہے، بلکہ انہیں راہ کا کانٹا سمجھتا ہے۔ تاہم نطشے کا یہ برتر انسان نسل پرست ہے، یہ برتر نسل سے ہی ابھرسکتا ہے، یہ اخلاقیات کا پابند نہیں، کسی کو جواب دہ نہیں۔ اردو کے مشہور ترقی پسند افسانہ نگار پروفیسر عزیز احمد کہتے ہیں: ’’نطشے کے فوق البشر کی تین خصوصیات ہیں: قوت، فراست اور تکبر‘‘۔ نطشے کا یہ فوق البشر گوکہ ظلم اور فساد کے لیے نہیں تراشا گیا، مگر متضاد صفات نے فوق البشرکا حشرکردیا۔
جبکہ علامہ اقبال کا مردِ مومن عشق، جہدِ عمل، جمال وجلال، حق گوئی و بے باکی، اور فقر و استغنا کا پیکر ہے۔
مشرق میں یہ مردِ مومن مثالی انسان کی صورت میں سامنے آیا، انسانِ کامل کا یہ کامل نمونہ دلیلِ کامل ہوا، صدیوں زمانے نے انسانی تہذیب سے نمو پائی، اور معراجِ انسانیت سے فیض یاب ہوا۔ پھر زمانے کا پھیر زوال پذیر کرگیا، مردِ مومن کی نگاہوں سے نمی رخصت ہوئی، تہذیبِ جہاں بانی گئی، روحِ آسمانی گئی، اور پھر فکر کی روانی گئی۔ عمل معطل اور علم الوداع ہوا۔ انسانی تہذیب کے تحقیقی و تخلیقی سوتے خشک ہوئے۔ قوتِ عشق ماند پڑگئی، مردِ مومن شعروادب میں جکڑگیا، تصور بن کر مافوق العقل ہوگیا، عمل کی دنیا سے مردِ مومن معدوم ہوکر رہ گیا۔ مسلمانوں پر چھبتا ہوا طنز ہوگیا۔
دوسری جانب مغرب میں بھی مذہب معطل ہوگیا، مکر و فریب کا فنکار ہی کردار کا معیار ہوگیا، اور یوں یہ مجذوب فرنگی کا مغرب پر نوحہ ہوگیا۔ عیسائی خدا ناقابلِ قبول ہوا۔ نطشے نے موجودہ انجیل کو مستردکردیا۔ اسے خوشخبری کے بجائے بُری خبر قرار دیا۔ اُس نے کہا یہ انجیل وہ ہے ہی نہیں، جو عیسیٰ علیہ السلام نے دی۔ نطشے عیسائیت میں بگاڑ کا سارا ذمہ سینٹ جان پال پر ڈالتا ہے۔ وہ کہتا ہے جان پال اقتدار کا بھوکا تھا، اس کے لیے اُس نے عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات اور سوانح میں تحریفات کیں۔ سو خدا تک پہنچنے کا راستہ گم ہوگیا۔ جو خدا پاپائیت نے ہمارے لیے تراشا ہے، اسے انسانوں کے معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، ہم اس خدا کے سہارے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ خدا کا خلاء پیدا ہوگیا، المیہ ہوگیا۔
نطشے نے خدا کا خلاء پُرکرنے کی ناکام سعی کی، آدمی کو فوق البشر تک پہنچا دیا، خودی نہ پاکر خدا بنادیا، مگر یہ خدا تفاخر سے نہیں مایوسی سے پیدا ہوا۔ متضاد جذبات سے ٹکڑے ہوگیا۔ یاس اور تکبر کے ساتھ فوق البشر بننا ممکن نہ تھا، سو پہلے نازی ہٹلراعظم وجود میں آیا، پھر مغرب کا سپرمین سامنے آیا۔ فوق البشر کا وہ وہ حشر ہوا کہ آدمی بیٹ مین بنا، آئرن مین بنا، اسپائیڈر مین بنا، مگر انسان نہ بن سکا۔
آج کے مغرب کا متکبر آدمی، فوق البشر ہی کا وہ حشر ہے، جو مجذوب فرنگی نطشے کو ہرگز مطلوب نہ تھا، بلکہ جس انسان کی تلاش نے اُسے فوق البشرکی تراش خراش پر مجبور کیا، اسی انسان کی تلاش پھرآج مغرب کا مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ مسئلۂ انسان کیسے حل ہو؟
علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا، کہ نطشے وہ مجذوب فرنگی ہے، جس کا دل مومن اور دماغ کافر تھا۔ اقبال نے درست کہا تھا۔ فوق البشر نطشے کے دماغ کا کمال تھا، جس کا ذکر ہوچکا ہے۔ اب مجذوب فرنگی کے دل سے رجوع کرتے ہیں، اور مسئلہ انسان کا حل سمجھتے ہیں۔
تصنیف ’اینٹی کرائسٹ‘ میں نطشے لکھتا ہے:
’’اگلے زمانے کی تہذیب وتمدن سے ہمیں جو پھل ملنے والا تھا، مسیحیت نے اس کا ستیاناس کردیا، اور پھر بعد کو تمدنِ اسلام سے جو پھل ہمیں مل رہا تھا، اس کو بھی مسیحیت نے روند ڈالا۔ مسیحیت نے اندلس کی شاندار تہذیب وتمدن کا گلا گھونٹ دیا۔ اندلس کا حیرت انگیز اسلامی تمدن جو فطری طور پر ہم سے زیادہ قریب تھا، جو ہماری حسیات اور جمالیات کو روم اور یونان سے کہیں زیادہ متاثر کرتا، اسے برباد کردیا گیا۔ صلیبیوں نے مسلمانوں سے بارہا لڑائیاں لڑیں۔ اس سے کہیں بہتر ہوتا کہ زمین پھٹ جاتی اور وہ اندر سما جاتے۔ صلیبی جنگیں انتہا درجے کی رہزنی تھیں۔‘‘
نطشے جیسا انسان، جیسا تمدن، اور جیسا معاشرہ تعمیرکرنا چاہتا تھا، اسے اس کی صورت اسلامی تہذیب میں نظر آئی، مگر وہ بھرپور خواہش کے باوجود اسلام سے فیض نہ پاسکا۔ مستشرقین کی مسخ شدہ اور متعصبانہ اسلامی تاریخ پر اُسے بالکل بھروسا نہ تھا۔ نطشے نے ایک دوست کوخط میں لکھا:
’’میں مسلمانوں کے درمیان زندگی کا کچھ وقت گزارنا چاہتا ہوں، بالخصوص ایسے مقامات پر، جہاں اسلام کا بغور مشاہدہ آسان ہو، تاکہ اسلام کے بارے میں میری رائے یورپی اثرات سے پاک ہوسکے۔‘‘
مگر نطشے کی کم نصیبی کہ موقع نہ مل سکا، وہ حالتِ جنون میں چلا گیا، زندگی کے آخری دس سال ذہنی معذوری میں بسر کیے۔ اُس کے نقاد کہتے ہیں کہ اگر وہ موقع پاتا، تو یقیناًاسلام پر مستحکم رائے تک پہنچ پاتا۔ جیسا کہ اُس نے ایک موقع پرکہا: ’’اگر اسلام عیسائیت کو مسترد کرتا ہے، تو اسے ایسا کرنے کا ہزار بار حق حاصل ہے، کیونکہ اسلام کم از کم انسانوں سے معاملات کی بات کرتا ہے‘‘۔ غرض علامہ اقبال نے نطشے کو انتہائی اہم مفکر سمجھا ہے، اور خواہش ظاہر کی کہ کاش وہ اُسے مقام کبریا سے آشنا کرپاتے۔
مدعا مضمون کی جانب پلٹتے ہیں، جو آج پھر مجذوب فرنگی کی زبان سے مسئلہ انسان کا حل تلاش کرنا چاہتا ہے۔ آج آدمیوں کی دنیا انسان کی آرزومند ہے۔ صلیبی مغرب آج پھر اسلامی تہذیب پر حملہ آور ہے۔ خدا کے اعلیٰ و ارفع تصور سے محروم نطشے پھر صدا لگا رہا ہے کہ اُسے مردِ مومن سے کوئی آشنا کردے، کوئی اُسے فوق البشرکی حشر سامانیوں سے نجات دلادے، کوئی اسلامی تہذیب وتمدن سے مغرب کو مالامال کردے، کوئی مجذوب فرنگی کو جنون سے بچالے، کوئی اس آدمی کو انسان سے ملادے، کوئی اس بے چین روح کو پُرسکون کردے۔
صاف نظر آرہا ہے کہ اسلام مغرب پرغالب آرہا ہے۔ نطشے کی ادھوری آرزو پھر آزمائشوں کی زد میں ہے، صلیبی وصہیونی رہزن پھر انسانی تہذیب کو تہس نہس کرنا چاہتے ہیں۔ مگر جلد یا بہ دیر نطشے کی یہ آرزو تکمیل پائے گی، اسلامی تہذیب مجذوب فرنگی کی روح تک رسائی پائے گی، جنون نفسِ مطمئنہ سے رہنمائی پائے گا۔
nn