(القاعدہ جیکٹ(میاں منیر احمد

سالِ نو کے آغاز پر ملک میں جس طرح اہم سیاسی پیش رفت سامنے آئی ہے، ملک میں بڑے سیاسی اتحاد بننے جارہے ہیں اور میثاقِ جمہوریت ایک بار پھر نظریۂ ضرورت بن کر سامنے آیا ہے، اس ہفتے اسی اہم موضوع پر قلم اٹھانا مقصود تھا، لیکن ملکی سلامتی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج خطرہ بن کر ابھرا ہے جس سے ہماری ملکی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی معلوم ہورہی ہے، لہٰذا یہ موضوع کسی قیمت پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پاکستان کے لیے کابل میں امریکی مداخلت ایک مسئلہ تھی، اب اس سے بھی بڑا خطرہ پیدا ہوگیا ہے جسے ان الفاظ میں بیان کرنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بھارت اور امریکہ نے مل کر ہمارے ایٹمی پروگرام کو گھیرنے کے لیے گٹھ جوڑ اور منصوبہ بندی کرلی ہے، اور اس کے مقابلے میں ہمارا دفتر خارجہ خاموشی اور بے حسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ میں یہ اہم ترین موضوع زیر بحث ہی نہیں آیا اور واشنگٹن نے بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھاکر اپنے چہرے پر دہلی کا ماسک چڑھاکر اس خطے میں نیا کھیل شروع کردیا ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو استعمال کیا اور پھر فراموش کردیا۔ اپنا مطلب نکال کر ٹشو پیپر کی طرح پھینک دینا امریکہ کا پرانا وتیرہ ہے۔ افغان جنگ کے بعد پہلے ضیاء الحق کو راستے سے ہٹایا اور پھر پریسلر ترمیم منظور کی گئی۔ اب کابل میں طالبان حکومت کے خلاف عالمی قوتوں کو ساتھ ملا کر تاریخ کے بدترین فوجی آپریشن کے بعد امریکہ نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو اوّل ترجیح دے دی ہے اور ہمارے ایٹمی پروگرام کو گھیرنے کے لیے الفا پراجیکٹ کی رپورٹ کی روشنی میں ایسے اداروں پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے جو ہمارے میزائل پروگرام اور ایٹمی پروگرام جیسے اداروں کے لیے مددگار کے طور پر کام کررہے ہیں، اور ساتھ ہی پاکستان اسٹیل ملز کے بھی پَر کاٹے جارہے ہیں۔ فرائیڈے اسپیشل نے جب اس انتہائی اہم پیش رفت پر دفتر خارجہ سے استفسار کیا تو وہاں سے روایتی جواب ملا کہ ’’ہم صورتِ حال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور خطے میں پیدا ہونے والے نئے حالات سے آگاہ ہیں‘‘۔
خاموشی کو نیم رضامندی کا نام کیوں دیا جاتا ہے اس کا فیصلہ قاری خود کریں، تاہم امریکہ کے فیصلے کا تجزیہ یہی ہے کہ اس خطے میں بھارت امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان، روس اور چین کے خلاف ایک نئے اتحاد کی تشکیل چاہتا ہے۔ اس اتحاد کو اسرائیل کی بھی حمایت اور مدد میسر ہوگی۔ امریکی انتظامیہ اگرچہ اس وقت اختیارات ٹرمپ انتظامیہ کے حوالے کرنے میں مصروف ہے، لیکن اس دوران اوباما انتظامیہ کیوں اتنا بڑا فیصلہ کرکے جارہی ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ واشنگٹن میں کوئی بھی حکمران ہو، وہ اپنے قومی مفاد کے کھونٹے سے بندھا ہوتا ہے۔ اس خطے میں ہر امریکی حکومت بھارت کی مددگار رہی ہے لیکن سی پیک منصوبے کے بعد تو دونوں ملکوں میں تعاون کے لیے غیر معمولی تیزی دیکھی جارہی ہے۔ اس پیش رفت کا جواب دینے کے لیے دفتر خارجہ، پارلیمنٹ، سینیٹ اور حکومت کو آگے آنا چاہیے تھا لیکن مسلم لیگ(ن) کو اگلے عام انتخابات میں کامیاب ہونے کی فکر لاحق ہے، اور اپوزیشن جماعتیں اقتدار چھین لینے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ دہلی اور واشگٹن اسلام آباد کے خلاف کہاں کہاں گھیرا تنگ کررہے ہیں کسی سیاسی جماعت کے صحن میں اس منصوبہ بندی کے جواب کے لیے مشاورت کی مجلس دکھائی نہیں دے رہی۔
الفا پراجیکٹ کے خلاف اسلام آباد میں سب سے پہلے ساسی تنظیم کی سربراہ ڈاکٹر ماریہ سلطان نے آواز اٹھائی۔ فرائیڈے اسپیشل اُن سے مسلسل رابطے میں ہے۔ اُن کا مؤقف ہے کہ ’’9 بھارتی ادارے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حوالے سے خلاف ورزیوں کی وجہ سے حالیہ عرصے میں امریکہ کی درآمدی کنٹرول کی فہرست کا حصہ تھے۔ تاہم اس کے باوجود موجودہ اوباما انتظامیہ جاتے جاتے بھارت کی نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے لیے مددگار بن کر سامنے آئی ہے، اور امتیاز کا مظاہرہ اور بدترین تعصب کا مطاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے خلاف کسی معتبر شہادت کے بغیر ہی سوشل میڈیا اور انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر پاکستان پر الفا پروجیکٹ کی روشنی میں پابندی لگانے کی سفارش کردی ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں شکوک و شبہات اور خدشات پیدا کرنا ہے تاکہ پاکستان کی نیوکلیئرسپلائر گروپ میں شمولیت کا کیس پیچیدہ ہوجائے اور پاکستان کی دفاعی، نیوکلیائی اور عمومی صنعتیں بری طرح متاثر ہوں۔ بے بنیاد، کمزور اور مشکوک معلومات کو بنیاد بناکر امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے شکار اداروں کی فہرست میں توسیع پاکستان کی تجارت اور ترقی پر منفی اثرات ڈالے گی۔ اس طریقے سے بغیر کسی اصول اور معیار کے بین الاقوامی برآمدی کنٹرولز کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا باعثِ تشویش ہے۔ اسی طرح اگر بھارت کو ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے کا قانوناً پابند نہیں کیا جاتا تو اس سے سب سے زیادہ نقصان نان این پی ٹی ممالک کو ہی ہوگا۔ پروجیکٹ الفا کے ذریعے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان کو این ایس جی کی حیثیت نہ دی جائے کیونکہ پاکستان خفیہ طور پر ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ پروجیکٹ الفا نہ صرف ٹھوس مواد سے محروم ہے بلکہ اس میں توازن کا خیال بھی نہیں رکھا گیا اور بظاہر اس پروجیکٹ کے ذریعے امریکہ۔ بھارت دفاعی صنعتوں کے مابین تعاون میں اضافے کے لیے راہ ہموار کرنے اور بھارت کو نیوکلیئر سپلائرگروپ کی رکنیت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ بھارت اور امریکہ کا باہمی تعاون بھارت کے لیے این ایس جی کی رکنیت کی درخواست تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد دونوں ملکوں کے مابین دفاعی تجارت اور ٹیکنالوجی میں تعاون بھی ہے۔ اس تعاون کی چار جہتیں ہیں یعنی یو اے ویز کی بھارت میں پیداوار، بحرِ ہند میں بھارتی بالادستی کے لیے اقدامات، ایف سولہ کی فراہمی کا دفاعی معاہدہ اور جیٹ پرپلژن سسٹم جس سے بھارت اور امریکہ کے درمیان ہمیشہ کے لیے دفاعی معاہدہ تشکیل پا جائے گا۔ بھارت اور اسرائیل کا برّی، فضائی اور بحری فوجی تعاون بشمول انٹیلی جنس کا تبادلہ بھی جاری ہے۔ ’موساد‘ اور ’را‘ کے مابین تعاون صرف انٹیلی جنس کے تبادلے تک محدود نہیں ہے بلکہ اسرائیل بھارتی فوجیوں کو سرجیکل اسٹرائیکس کا اہل بنانے کے لیے بھی تربیت دے رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے دفاعی اور سیکورٹی مفادات مشترکہ ہوتے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں دونوں ملک وسیع پیمانے پر تعاون کررہے ہیں، جن میں بھارتی فضائیہ کے لیے جدید لڑاکا سسٹمز کی فراہمی، مگ کی اوور ہالنگ، طویل فاصلے تک نشاندہی کرنے والے ٹریکنگ راڈار، زمین سے فضا میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل، بحریہ کو جدید جنگی کشتیوں کی فراہمی اور بہتری میں تعاون، اینٹی سب میرین ہیلی کاپٹروں کے لیے تعاون، جاسوس سٹیلائٹ اور اینٹی بلاسٹک میزائل ٹیکنالوجی میں تعاون شامل ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان دفاعی اور ہائی ٹیک صنعتوں میں تعاون تقریباً 9 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ امریکہ نے بھارت کے اصرار پر ان 9 بھارتی اداروں کو پابندی کے شکار اداروں کی فہرست سے نکال دیا جو نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حوالے سے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں، جس سے بھارت پر عائد تجارتی پابندیاں ہٹا لی گئی ہیں۔ یہ تمام ادارے بھارت کے میزائل اور خلائی پروگرام میں مشغول ہیں۔ مزید یہ کہ بھارت کو امریکہ کے تجارتی پروگرام میں ترقی دیتے ہوئے اے گروپ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ بھارت اور امریکہ کی مشترکہ صنعت ہوگی جس سے بھارت کے بغیر ایس سی او ممالک کے مابین دفاعی تعاون کم مؤثر ہوجائے گا۔
لگتا ہے کہ بھارت کے بغیر ایک علاقائی بلاک بننے جارہا ہے۔ اس محاذ پر ہمارا دفتر خارجہ ناکام نظر آیا ہے۔ لیکن دفتر خارجہ میں جنوبی ایشیا ڈیسک کی ٹیم نے کچھ بہتر کارکردگی دکھائی جس کے نتیجے میں بھارت کو اس وقت پاکستان مخالف اقدامات میں ایک بار پھر منہ کی کھانا پڑگئی جب اقوام متحدہ میں پاکستان پر پابندی لگانے کی بھارتی قرارداد مسترد کردی گئی۔ بھارت کی طرف سے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے قرارداد جمع کرائی گئی جس میں پاکستان پر داعش اور القاعدہ کی مدد کا الزام لگایا گیا، جو سلامتی کونسل کی 1267 ویں پابندیوں کی کمیٹی نے مسترد کردی۔ بھارت کی مسعود اظہر پر پابندیوں کی قرارداد چین نے تیسری بار ویٹو کردی تھی جس سے بھارت کو بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بلاشبہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ چین بعض اوقات پاکستان کے مفادات کی خاطر اس حد تک چلا جاتا ہے، جہاں تک خود پاکستانی حکام اور حکمران بھی نہیں جا پاتے۔ مسئلہ کشمیر پر چین پاکستان سے بھی زیادہ سخت مؤقف رکھتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے شہری کے لیے چین میں انڈین ویزا قبول نہیں کیا جاتا، مقبوضہ وادی کے شہری کو سادہ کاغذ پر دی گئی درخواست پر ویزا جاری کردیا جاتا ہے۔ یہ ٹیمپو جاری رہتا ہے تو کشمیریوں کو صبحِ آزادی کی نوید جلد ملنے کا امکان ہے۔
nn