(قاضی حسین احمد(چودھری محمد اسلم سلیمی

قاضی حسین احمد سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان ہردلعزیز مجاہدِ ملت، کروڑوں مسلمانوں کے محبوب قائد اور پوری ملتِ اسلامیہ کے عظیم المرتبت رہنما تھے۔ ان کی پوری زندگی اعلائے کلمۃ اللہ، اقامتِ دین کی بھرپور جدوجہد، اتحادِ امت، وطنِ عزیز میں قانون کی بالادستی و حکمرانی، اور دنیا بھر میں جہاد کی پشتی بانی کے لیے وقف تھی۔ وہ ہر وقت مستعد اور متحرک رہتے تھے۔ اپنی صحت اور آرام کا بھی خیال نہیں رکھتے تھے۔ مختلف عوارض اور امراض میں مبتلا ہونے کے باوجود وہ دعوتِ حق پیش کرنے کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ بائیس سال تک جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کی ذمہ داری بحسن و خوبی ادا کی۔ جب وہ اپنے گھٹنوں کی بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے میں دقت محسوس کرنے لگے تو انہوں نے 2009ء میں منصبِ امارت کے نئے انتخاب کے موقع پر ملک بھر کے ارکانِ جماعت سے امارت کی ذمہ داریوں سے معذرت کرلی اور امارت کے منصب سے ریٹائر ہوگئے تھے تو یہ کہا کرتے تھے کہ میں منصبِ امارت سے تو ریٹائر ہوگیا ہوں لیکن دعوتِ الی اللہ کے کام سے فارغ نہیں ہوا۔ یہ کام تو میں آخری سانس تک کرتا رہوں گا۔ اُن کی یہ بات بالکل سچ ثابت ہوئی اور اپنی زندگی کے آخری ہفتے میں سانس کی بیماری میں چند روز مبتلا رہنے کے بعد جب انہیں قدرے افاقہ ہوا تو پشاور سے اسلام آباد آنے سے پہلے انہوں نے محترم امیر جماعت سید منورحسن صاحب سے لاہور فون پر بات کی کہ میں اب ٹھیک ہوگیا ہوں اور اسلام آباد روانہ ہورہا ہوں، تو محترم امیرجماعت نے انہیں کچھ دن آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن آرام کا لفظ قاضی حسین احمد کی لغت میں موجود ہی نہیں تھا۔
میرا قاضی حسین احمد ؒ سے تعلق 1970ء کی دہائی میں قائم ہوگیا تھا جب میں مرکز جماعت میں ذمہ داری ادا کررہا تھا۔ قاضی صاحب پہلے پشاور شہر کے امیر منتخب ہوئے، پھر کچھ عرصے بعد وہ قیم صوبہ کی ذمہ داری پر فائز ہوئے، اور پھر امیر صوبہ منتخب ہوئے۔ 1978ء میں جب وہ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے پشاور سے منصورہ لاہور میں منتقل ہوئے تو مجھے نو سال تک اُن کے ساتھ نائب قیم جماعت کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ 1987ء میں وہ امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہوئے تو انہوں نے مرکزی مجلس شوریٰ کے مشورے سے مجھے سیکرٹری جنرل مقرر کردیا۔ اس کے بعد 1992ء سے لے کر 2009ء تک سترہ سال میں اُن کے ساتھ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ چالیس سالہ تعلقات کے دوران میں نے انہیں ان تھک، سراپا حرکت اور جرأت مند، ہردلعزیز قائد، ایک نہایت شفیق اور مہربان بھائی، اُمتِ مسلمہ کا مخلص ہمدرد اور دنیا بھر میں جہاد کا پشتی بان پایا۔ 1979ء میں افغان جہاد کے آغاز سے لے کر روسی فوجوں کے انخلاء تک قاضی حسین احمد صاحب جہادِ افغانستان کے مکمل پشتی بان رہے۔ اور مختلف جہادی تنظیموں کے سربراہوں کے درمیان باہمی اختلافات کو دور کرانے کی کوشش بھی کرتے رہے۔
جہادِ کشمیر:
1989ء کے اواخر میں بھارتی قابض فوج کے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں پر بے پناہ مظالم اور انتہائی جبر و تشدد کے خلاف جموں وکشمیرکے مسلمان نوجوانوں نے بھرپور جرأت مندانہ مزاحمت کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کرلیا اور لاکھوں بھارتی فوجیوں نے مزاحمت کو کچل دینے کے لیے اور زیادہ ظلم و تشدد اور عفت مآب خواتین کی عصمت دری کے شرمناک واقعات کا اضافہ کردیا تو سینکڑوں کشمیری خاندان ہجرت کرکے آزاد کشمیر میں داخل ہونے لگے، اس موقع پر قاضی حسین احمد نے آگے بڑھ کر آزاد کشمیر کی حکومت اور وفاقی حکومت کو جھنجھوڑا کہ وہ مظلوم کشمیری مہاجرین کی مدد کریں۔ ان کی عدم توجہی کی بناء پر قاضی صاحب نے جماعت اسلامی پاکستان اور اس کی برادر تنظیموں کے کارکنوں کو مہاجرین کی امداد اور ریلیف کے کاموں پر لگادیا۔ 5 جنوری1990ء کو انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تمام سیاسی و دینی جماعتوں اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے دردمندانہ اپیل کی کہ وہ کشمیری مہاجرین کی مدد کے لیے دامے، درمے، سخنے تعاون کریں اور اس کے ساتھ مقبوضہ جموں وکشمیر میں تحریک مزاحمت سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے 5 فروری کو پورے ملک میں پہیہ جام ہڑتال کریں، سارے کام کاج چھوڑ کر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائیں، جلسے منعقد کریں، جلوس نکالیں اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو حوصلہ دیں۔ 1990ء سے لے کر اب تک 5 فروری کا دن کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اور کشمیری پورے جوش و خروش سے مناتے ہیں اور یہ قاضی حسین احمد ؒ کا صدقۂ جاریہ ہے جو کشمیر کی آزادی تک جاری ہے گا،ان شاء اللہ۔
جہادِبوسنیا:
1992ء میں یورپ کے قلب میں واقع ایک مسلمان ملک بوسنیا ہرزیگووینا کے آزاد ہونے کے بعد سرب مسلح درندوں کے حملوں اور بے پناہ تشدد کے نتیجے میں سینکڑوں بوسنیائی مسلمان شہید کردیئے گئے اور ہزاروں کو زخمی کرکے اپنے گھروں اور جائدادوں سے زبردستی بے دخل کردیا گیا۔ ان کی املاک کو جلادیا گیا۔ مساجد تک کو شہید کردیا گیا۔ قاضی حسین احمدان بے پناہ مظالم پر تڑپ اٹھے، انہوں نے یورپ میں قائم مسلمان فلاحی تنظیموں سے بوسنیا کے مسلمانوں کی مدد کرنے کی اپیل کی۔ برطانیہ میں قائم فلاحی تنظیم ’’مسلم ایڈ‘‘ نے خصوصی مہم چلائی اور بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کے ریلیف کے لیے گرم کپڑے، سامانِ خوراک اور نقد امداد بڑے پیمانے پر جمع کرکے قاضی حسین احمد کو دعوت دی کہ وہ ان کے ساتھ بوسنیا جاکر ریلیف کے سامان کی تقسیم اور نقد امداد پہنچانے کے کام کاآغاز اپنے ہاتھوں سے کریں۔ قاضی صاحب کی صحت اُن دنوں خراب تھی مگر وہ فوراً بوسنیا جانے کے لیے تیار ہوگئے اور پاکستان کے کچھ نوجوان رضا کاروں اور یورپ میں مقیم مسلمان رضا کاروں کے ساتھ بوسنیا کا دشوارگزار سفر اختیار کیا اور مظلوم مسلمانوں اور اُن کے رہنماؤں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے نقد رقوم اور ریلیف کا سامان تقسیم کرایا۔ قاضی صاحب نے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے ڈاکٹروں سے بھی اپیل کی کہ وہ بوسنیا جاکر زخمیوں اور بیماروں کا علاج کریں۔ چنانچہ کئی ڈاکٹر قاضی حسین احمد کی اپیل پر بوسنیا جاکر اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور ہزاروں لوگوں کا علاج کیا۔
جہادِ فلسطین:
جہادِ فلسطین کے ساتھ مکمل اظہارِ یکجہتی کے لیے انہوں نے پاکستان کے علاوہ ترکی، سعودی عرب، اُردن، قطر اور متحدہ عرب امارات اور بعض دوسرے اسلامی ممالک کے دورے کیے اور فلسطینی مہاجرین اور مجاہدین کی امداد کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔
پاکستان میں مختلف مسالک کے درمیان یکجہتی پیدا کرنے اور مشترکات پر سب کو جمع کرنے کے لیے قاضی صاحب کی جہدوجہد قابلِ ستائش ہے۔ انہوں نے ملّی یکجہتی کونسل کے قیام کے لیے بھرپور جدوجہد کی اور مختلف مسالک کے جیّد علمائے کرام، مشائخِ عظام اور دینی تنظیموں کے سربراہوں سے کئی کئی مرتبہ ملاقاتیں کیں۔ ان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے سیکولر عناصر کا مقابلہ کرنے اور ملک میں شریعتِ اسلامی کے نفاذ کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ ملّی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے ایک متفقہ ضابطۂ اخلاق طے کروایا اور اس پر تمام مسالک کے جیّد علمائے کرام کے دستخط کروانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے نتیجے میں اغیار کی سازشیں ناکام ہوئیں اور پاکستان میں یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا پیدا ہوئی۔ اپنی وفات سے چند ماہ قبل انہوں نے اسلام آباد میں کامیاب انٹرنیشنل کانفرنس منعقد کرائی۔
قاضی حسین احمد میرے انتہائی شفیق بھائی تھے، ہمارے خاندانوں کے درمیان محبت و الفت کے تعلقات قائم رہے۔ ان کی بیٹیاں میری بیٹیوں کی بہنوں کی طرح ہیں اور میرا ایک بیٹا قاضی صاحب کے بیٹے ڈاکٹر انس فرحان قاضی کا گہرا دوست ہے۔ میرے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کا نکاح قاضی حسین احمد نے پڑھایا تھا۔ مجھے 3 جنوری (2013ء)کو معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت ناساز ہے۔ میں نے 4 جنوری کو فون کرکے عیادت کی تو معلوم ہوا کہ انہیں سانس کی تکلیف سے افاقہ ہے۔ میں ان کی مکمل صحت یابی کے لیے 5 جنوری کی نماز عشاء تک دعائیں کرتا رہا۔ اُسی رات نصف شب کے بعد یہ افسوسناک اطلاع مل گئی کہ وہ خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ قاضی صاحب کی عمر بھر کی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبولیت بخشے، ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے، انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلائے، آمین۔
nn