بدلتے عالمی حالات اور پاکستان

عسکری اور انٹیلی جنس قیادت کی تبدیلی کے بعد وزیراعظم میاں نوازشریف کی سربراہی میں سیاسی اور عسکری قیادت کا پہلا مشترکہ اجلاس منگل کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں پاکستان کے دو پڑوسی ممالک افغانستان اور بھارت سے کشیدہ تعلقات پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ پاکستان کے نئے عسکری قائد جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے منصب پر فائز ہونے کے بعد افغانستان کے سیاسی قائدین یعنی صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ٹیلی فون پر گفتگو بھی کی ہے۔ یہ گفتگو اس پس منظر میں ہوئی ہے کہ افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت اور بھارت مسلسل پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسی دوران میں امریکی انتخابات کا روایتی عمل مکمل ہوچکا ہے۔ بارک اوباما اپنی دوبار کی مدتِ صدارت مکمل کرچکے ہیں، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب نے امریکی انتخابات کو روایتی نہیں رہنے دیا ہے اور خود امریکی حکومت اور عوام کے ایک بہت بڑے طبقے کو حیران کردیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے منصبِ صدارت پر فائز ہونے سے قبل وزیراعظم میاں نوازشریف کے معاونِ خصوصی برائے امورِ خارجہ طارق فاطمی واشنگٹن کے دورے سے ہوکرآچکے ہیں۔ خبروں کے مطابق انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان کے دو پڑوسیوں افغانستان اور بھارت کی جانب سے کشیدگی کے موجودہ رویّے کی پشت پر امریکہ ہے۔ امریکہ اور بھارت کا اتحاد نیا نہیں ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں نے سابقہ نوآبادیاتی دورکی ذہنیت کے مطابق نئے امریکی سامراج کے ساتھ جو تعلق اور رشتے قائم کیے تھے وہ بھی غلامی کے سوا اور کچھ نہیں تھے، لیکن قوم کو فریب دینے کے لیے اسے پاکستان اور امریکہ کی دوستی کا نام دیا گیا تھا۔ وہ سرد جنگ کا دور تھا۔ امریکہ نے اپنی مصلحت اور مفادات کے تحت پاکستان کو کمیونسٹ سوویت یونین کے خلاف جنگی معاہدوں میں شریک کیا، لیکن پاکستان کے خلاف بھارت کے جارحانہ اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی۔ یہاں تک کہ اسی زمانے میں پاکستان کا مشرقی بازو الگ ہوگیا، مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی بار ہتھیار ڈالنے کی ذلت اٹھانی پڑی۔ اسی زمانے میں پاکستان کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کی کوشش کرنے پر دھمکی بھی دی گئی۔ یہی فریب سوویت یونین کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعددیا گیا۔ موجودہ عالمی منظرنامہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد کی صورت حال کا تسلسل ہے۔ سرد جنگ کا دور امریکی یک قطبی سامراجیت میں تبدیل ہوا، امریکہ نے دنیا اور عالم اسلام کا نیا نقشہ تشکیل دینے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے افغانستان اور عراق پر فوج کشی کی گئی۔ اس منصوبے کو کئی نام دیے گئے۔ نیوورلڈ آرڈر سے لے کر ’’وار آن ٹیرر‘‘ تک پوری دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس مقصد کے لیے پھر ایک بار پاکستان کو کلیدی اتحادی بنایا گیا۔ حقیقت سے آنکھیں چراکر پاکستان کے حکمران طبقے نے ایک بار پھر انسانیت دشمن امریکی عزائم کے لیے کرائے کا سپاہی بننے کا فیصلہ کیا اور اسے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نام اس لیے دیا گیا کہ برادر مسلم ملک پر فوج کشی کے لیے مدد اور حمایت کرنے کا جواز پیدا کیا جائے۔ اُس وقت ایک ٹیلی فون پر پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی ترک کرنے کا جواز جنرل (ر) پرویزمشرف نے یہ دیا تھا کہ اگر ہم یہ کام نہ کرتے تو بھارت یہ جگہ لے لیتا۔ آج وقت نے ثابت کردیا ہے کہ بھارت امریکہ کا اصل اتحادی ہے اور امریکہ نے افغانستان میں پاکستان کی جگہ بھارت کو دے دی ہے۔ لیکن 15برس کے جہاد نے عالمی منظرنامہ اور عالمی حالات تبدیل کردیئے ہیں۔ عالمی منظرنامے میں پاکستان کی اہمیت پھر بڑھ گئی ہے۔ اس اہمیت سے نمٹنے کے لیے عالمی طاقتیں مختلف حربے اختیار کرتی ہیں اور وہ کیے بھی جارہے ہیں، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا مقتدر طبقہ قوم کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تدبر و بصیرت اور اخلاقی قوت رکھتا ہے؟ اب تک کی تاریخ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ طبقۂ اشرافیہ کو دلچسپی صرف اپنے شخصی، گروہی اور طبقاتی مفادات سے ہوتی ہے۔ خودغرضی اور مفاد پرستی آنکھوں کو اندھا کردیتی ہے۔ پاکستان کے سیاسی اور عسکری قائدین کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ خطے اور پاکستان کے لیے ’’گیم چینجر‘‘ ہے، اور اس دعوے میں وزن ہے۔ لیکن حالات میں یہ تبدیلی کیسے آئی، اس کے محرکات اور اسباب کیا ہیں، اور ان تبدیل شدہ حالات سے پاکستانی قوم اور امتِ مسلمہ کے لیے کیا فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں اس کے شعور و ادراک سے ہمارا حکمران طبقہ محروم ہے۔ شعور و ادراک سے محرومی کی وجہ سے جو اقدامات کیے جانے چاہئیں اور اس کے لیے جن اوصاف کی ضرورت ہے وہ ہمیں نظر نہیں آتے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن پاکستان کے حکمران طبقے کی شناخت بن گئی ہے۔ کمزور اخلاقی اوصاف کے ساتھ قومی اور اجتماعی خطرات کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔