(اردو ادب غالب اور نعت نگار ی(ملک نواز احمد اعوان

کتاب
:
غالب اور ثنائے خواجہ صلی اللہ علیہ وسلم
مرتبہ
:
سید صبیح الدین رحمانی
صفحات
:
200 قیمت 300 روپے
ناشر
:
ادارۂ یادگارِ غالب و غالب لائبریری
پوسٹ بکس 2268 ناظم آباد کراچی 74600

فون نمبر021-36686998
غالب کی فکر و شاعری کا ایک پہلو حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے۔ سید صبیح الدین رحمانی مرتبِ کتاب تحریر فرماتے ہیں:
’’غالب ہمارا ایک بہت ہی بڑا فکری، ثقافتی اور تہذیبی اثاثہ بن چکا ہے اور اس کی بڑھتی ہوئی شناخت اور تفہیم روز ہمیں نئے سے نئے فکری خزانوں کی جھلکیاں دکھا رہی ہے۔
غالب پر گزشتہ ایک سو چالیس سال میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے جس میں حالیؔ کی کتاب ’’یادگارِ غالب‘‘ اور ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کی ’’محاسنِ کلامِ غالب‘‘ نمایاں ہیں۔ ’’محاسنِ کلامِ غالب‘‘ کا تو ابتدائی جملہ ہی غالب کے حوالے سے لکھا جانے والا الہامی جملہ بن گیا ہے۔ عبدالرحمن بجنوری نے لکھا تھا: ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ’’مقدس وید‘‘ اور ’’دیوانِ غالب‘‘۔ صد سالہ جشن غالب پر ہندوستان اور پاکستان کے ہر ادبی اور نیم ادبی پرچے نے غالب کے فکر وفن اور زندگی پر وقیع مضامین شائع کیے اور بعض جرائد نے خصوصی نمبروں کا بھی اہتمام کیا جو اپنی ضخامت اور مواد کے حوالے سے یادگار قرار پائے، لیکن مقامِِ حیرت ہے کہ غالبیات کے اس سرمائے میں ہمیں غالب کی نعت نگاری پر کوئی ٹھوس اور قابلِ قدر کام نظر نہیں آیا۔ ضمناً کسی مضمون میں اس عنوان سے تذکرہ ہوجانا کوئی قابلِ ذکر بات نہیں۔ حالاں کہ غالب کے کلام کی الہامی جہت کی طرف ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری نے بڑے پُرزور انداز میں متوجہ کیا تھا اور الہام کا درجہ اسلامی معاشرے میں کسی نہ کسی سطح پر دینی اقدار سے جڑا ہوا ہے۔ چنانچہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غالب کی فکر کے الہامی رشتوں کی تلاش شروع ہوتی، لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ جانے کیوں ماہرینِ غالبیات اب تک مطالعۂ غالب کے اس روشن پہلو پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکے۔
الحمدللہ اس اہم موضوع پر غوروفکر کے دریچے وا کرنے کی سعادت غالب کی وفات کے تقریباً ایک سو بتیس سال بعد ’’مجلہ نعت رنگ‘‘ کے حصے میں آئی۔ نعت کے ادبی فروغ کے لیے سرگرمِ عمل اس اہم کتابی سلسلے کے بارہویں شمارے (2001) میں غالب کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے ایک خصوصی گوشے کا اہتمام کیا گیا جس میں پاک و ہند کے نامور اہلِ علم نے غالب کی نعتیہ شاعری اور غالب کے افکار و نظریات میں عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر فکر انگیز مضامین لکھ کر فکرِ غالب کی مذہبی اساس کو نمایاں کرنے کی کوشش کی‘‘۔
بعد میں کتابی صورت میں یہ گوشہ شائع ہوا۔ اب ادارۂ یادگار غالب کے تحت اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن منصۂ شہود پر آیا ہے۔کتاب میں شامل مقالات درج ذیل ہیں:
’’غالب کا نعتیہ کلام‘‘ ضیاء احمد بدایونی۔ ’’غزلیاتِ غالبؔ میں نعت کی جلوہ گری‘‘ ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی۔ ’’غالب! حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں‘‘ پروفیسر شفقت رضوی۔ ’’غالب کی نعتیہ شاعری‘‘ ڈاکٹر محمد اسمٰعیل آزاد فتح پوری۔ ’’غالب کے فارسی کلام میں نعت‘‘ ادیب رائے پوری۔ ’’غالب کی مثنوی ’بیانِ معراج‘ کا تنقیدی مطالعہ‘‘ ڈاکٹر سید یحیٰی نشیط۔ ’’غالب کی ایک نعتیہ غزل‘‘ پروفیسر محمد اقبال جاوید۔ ’’غالب کی اردو شاعری میں مضامینِ نعت کا فقدان‘‘ عزیز احسن۔ ’’غزلیاتِ غالبؔ کی زمینوں پر نعت گوئی‘‘ ڈاکٹر عاصی کرنالی۔ ’’قدسیؔ کی غزل پر غالب کی تضمین‘‘ پروفیسر سید وزیر حسن۔ ’’عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خطوطِ غالبؔ میں‘‘ ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط۔
ڈاکٹر تنظیم الفردوس معتمدِ عمومی ادارۂ یادگار غالب تحریر فرماتی ہیں:
’’اردو زبان و ادب کی طویل و وقیع تاریخ، مذہبی اور دینی موضوعات و اسالیب کے برتاؤ کی تاریخ بھی ہے۔ ان مذہبی موضوعات میں حمد و مناجات کے علاوہ تاریخِ اسلام کے مختلف ادوار کا بیان بھی شامل ہے اور اکابر شخصیات کے مناقب بھی، لیکن اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اردو کے مذہبی و دینی موضوعات کا سب سے عظیم اور مہتم بالشان حصہ مدحتِ خیر المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم یعنی نعت پر مشتمل ہے۔ اصطلاحی طور پر نعت کے مفاہیم میں اتنی وسعت اور اس کے اجزائے بیان میں اتنی کثرت ہے کہ اسے بجا طور پر اردو زبان میں علیحدہ ’’صنفِ ادب‘‘ تسلیم کیا جاتا ہے۔ نعت کو علیحدہ صنف کے طور پر تسلیم کروانے کی خواہش و کوشش کی تلاش اپنی جگہ ایک موضوع ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اردو میں نعت کی بطور الگ صنفِ ادب شناخت کے قیام اور استحکام کی تاریخ مرتب کرنے والے افراد ’’نعت رنگ‘‘ اور سید صبیح الدین رحمانی کی کاوشوں سے صرفِ نظر نہیں کرسکتے۔
’’نعت رنگ‘‘ کے مدیر نے اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے نعت کو بطور صنف ہر طرح کے معیارات پر جانچنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے ایک جانب ’’نعت رنگ‘‘ کو اپنے موضوع کا ایک خالص علمی و تحقیقی جریدہ بنانے کی کاوش کی جس کے لیے انھیں پوری اردو دنیا سے علمی معاونت حاصل رہی۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنے جریدے کے لکھنے والوں کو منفرد فکری جہات پر بھی مہمیز کیا۔ ’’نعت رنگ‘‘ کو ابتدا ہی سے اعلیٰ پائے کے دانشور، مذہبی مفکرین اور زبان و ادب کے اساتذہ کا قلمی تعاون حاصل رہا جنہوں نے اس موضوع کی فکری و معنوی سطح پر مذہبی اور تخلیقی جہات کے نو بہ نو پہلوؤں کو نمایاں کیا۔ بعض نئے مباحث کا آغاز بھی کیا گیا۔ ان مباحث میں مقالہ نگاروں کے ساتھ ساتھ مبصرین اور مکتوب نویس بھی شامل ہے۔
’’نعت رنگ‘‘ نے نعتیہ مباحث کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کی بڑی اور عظیم شخصیات کے ہاں نعت کی دریافت، بازیافت اور تجزیات بھی کروائے۔ ان ہی میں سے اردو شاعری کے عبقری مرزا اسد اللہ خان غالب بھی ہیں۔ مرزا غالب کی تخلیقی شخصیت، ان کی اردو اور فارسی شاعری کے علاوہ ان کے فارسی و اردو مکاتیب میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ شخصیت ایک جانب تخلیقی اظہار کے تنوعات سے بھرپور ہے تو دوسری جانب شخصی تضادات کے رنگوں سے سجی ہوئی ہے۔ ان تضادات اور تنوعات میں سے نعت اور موضوعِ نعت سے ان کی دلچسپی کے زاویوں کو اجاگر کرنے کے لیے ’’نعت رنگ‘‘ کے بارہویں شمارے میں ’’گوشہ غالب‘‘ شامل کیا گیا۔ اس گوشے میں لکھے گئے اور بعض دیگر مواقع پر شائع ہونے والے چند اہم مضامین پر مشتمل کتاب ’’غالب اور ثنائے خواجہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے نام سے مرتب کرکے سید صبیح الدین رحمانی نے 2009ء میں نعت ریسرچ سینٹر کراچی سے شائع کی تھی۔ نعت و غالبؔ ہر دو لحاظ سے موضوع کی اہمیت ایسی تھی کہ اس کتاب کی بڑی پذیرائی ہوئی اور اب اس کی ازسرنو اشاعت کی طلب ہوئی۔ طبع اول میں معمولی ترامیم اور ایک مضمون کے اضافے کے ساتھ اسے دوبارہ شائع کیا جارہا ہے۔ ادارۂ یادگار غالب کی روایات میں علمی اور تحقیقی کتب کی اشاعت کا سلسلہ بھی ہے۔ اپنے اسی اشاعتی سلسلے میں ہم ’’غالب اور ثنائے خواجہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ مرتبہ سید صبیح الدین رحمانی پیش کررہے ہیں‘‘۔
یہ اعلیٰ اور عمدہ کتاب غالبیات میں ثمین اضافہ ہے۔ خوبصورت طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے۔ ثنائے خواجہ صلی اللہ علیہ وسلم میں غالب کا یہ معروف و مشہور فارسی شعر ہے ؂
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
کتاب بڑی عمدگی سے مرتب کی گئی ہے۔ اللہ پاک قبول فرمائے۔