(ہٹلر کا آخری سچ(عمر ابراہیم

’’میں برلن چھوڑ نہیں سکتا، اپنی خوشی سے جان دے رہا ہوں۔ یہ غلط ہے کہ 1939ء کی جنگ میری خواہش تھی۔ یہ جنگ اُن بین الاقوامی مدبروں کی خواہش اور انگیخت سے ہوئی، جو یا تو یہودی النسل تھے یا یہودیوں کے آلہ کار کے طور پر کام کررہے تھے۔‘‘
انتہائی تباہ کن جنگ کا فیصلہ کن روز تھا، شکست مقدر ہوچکی تھی۔ اُس نے محبوبہ ایوا براؤن کے ساتھ شادی رچائی، اور اگلی سہ پہر دولہا دلہن کے کمرے سے گولی چلنے کی آواز سنائی دی، اور ایڈولف ہٹلر قصۂ پارینہ ہوگیا، مگر چند سطر کا وصیتی نوٹ چھوڑ گیا، جو آج تک انسانی دنیا میں وجۂ فساد کی نشاندہی کررہا ہے۔ اگر ہٹلر کی موت سے لمحۂ موجود تک یہ چند سطریں سچ سمجھ لی جاتیں تو انسانی معاشرے تباہ کن حالات کا سامنا نہ کرتے۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔ کیوں نہ ہوسکا؟ اور آج تک کیوں نہیں ہوپارہا؟ جواب تک جانے سے پہلے عالمی جنگوں پر، اور ان سے فائدہ سمیٹنے والوں پر ایک نظر ناگزیر ہے۔ ہٹلرکا وصیتی نوٹ زمینی حقیقت بن کر حال پر صادق نظرآئے گا۔
بیسویں صدی کے اوائل میں یورپ کا مردِ بیمار دم توڑ رہا تھا، یورپ کے سامراجی گدھ بلقان پر جھپٹ پڑے تھے۔ پہلی عالمی جنگ محض سلطنتِ عثمانیہ کی بندربانٹ ہی کا سامان نہ تھا، بلکہ یورپ کی بڑی طاقتوں کا زور بھی توڑا گیا۔ جرمن، رشین، اور ہیبسبرگ کی سلطنتیں نقشے سے غائب ہوگئیں۔ 3 کروڑ 80 لاکھ انسان پہلی عالمی جنگ کا شکار بنے۔ ایک کروڑ 70 لاکھ ہلاک اور 2 کروڑ زخمی ہوئے۔ 1914ء سے 1919ء تک یورپ ادھ موا ہوچکا تھا۔ جرمنی پر اشتعال انگیز اور شرانگیز پابندیاں لگا کر دوسری عالمی جنگ کا ماحول پیدا کیا گیا۔ ہٹلرکے عروج کے لیے وال اسٹریٹ نے سرمایہ لگایا۔ جنگ ساز جُت گئے۔
دوسری عالمی جنگ ستمبر 1939ء سے نومبر1945ء تک رہی۔ 30 لاکھ جرمن فوجی ہلاک اور 70 لاکھ زخمی ہوئے۔ اٹلی کے ڈیڑھ لاکھ فوجی اور روس کے 62 لاکھ فوجی لقمہ اجل بنے۔ لاکھوں عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوئے۔ لاکھوں مربع میل تک میدان کے میدان ویران ہوگئے، دور تک انسان نظر نہ آتے تھے۔ برطانیہ کے بھی لاکھوں فوجی موت کے منہ میں جاچکے تھے۔ برطانیہ، فرانس، اٹلی، اور جرمنی کوڑی کوڑی کے لیے امریکہ کے محتاج ہوچکے تھے۔
عالمی جنگوں پر تحقیق اور کتابوں سے لائبریریاں بوجھل ہیں۔ معلومات کی کثافت اور کہانیوں کی المناکیاں بے شمار ڈراموں اور فلموں کی وجۂ شہرت بن چکی ہیں۔ ہٹلرکے مظالم کی وہ وہ دہشت ناک منظرکشی کی گئی کہ جرمن آریا آج تک ماضی میں جھانکنے کی جرأت نہیں کرتے (حالیہ تاریخ میں صدام حسین کے ساتھ بھی کم وبیش یہی ہوا، پہلے خوب بڑھاوا دیا گیا، پھرصدام کو عراقی ہٹلر بناکر ناجائز جنگ کا جواز پیدا کیا گیا)۔
غرض سب کچھ ہوا، مگر ہٹلرکی آخری وصیت کی سچی سطریں یا تو سطحی نظر تک سے محروم رہیں، یا کئی پردوں کے پیچھے چھپا دی گئیں، نمایاں نہ ہوسکیں۔ یہ سطریں صاف صاف بتا رہی ہیں کہ عالمی جنگیں صہیونی ساہوکاروں کا منصوبہ تھیں۔ وہ کس طرح؟ عالمی جنگوں کے محرکات اور تفصیلات میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ صرف نتائج اور فائدے سمیٹنے والوں پر ایک نظر کافی ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے اہم نتائج میں سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ سب سے نمایاں تھا۔ بالفور اعلامیہ یعنی سرزمینِ فلسطین کا سودا طے پاگیا تھا۔ صہیونی نواب لائنل والٹرراتھ شیلڈ نے فلسطینیوں کی موت پر دستخط کردیے تھے۔ یہ دو ہی ایسے نتائج تھے، جو تاحال خوفناک اثرات مرتب کرنے والے تھے، اور جنگ کے مرکزی اہداف تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے نتائج میں یہ اہداف کچھ اور منزلیں طے کرگئے۔ اعلانِ بالفور اسرائیل کا قیام بن گیا۔ یورپی قوم پرستی اور فسطائیت کی جگہ امریکی سامراجیت نے لے لی۔ اب عالمی حالات پر وال اسٹریٹ کی گرفت مزید مستحکم ہوگئی۔ نوآبادیاتی نظام کی جگہ تیسری دنیا کی بالواسطہ منظم محکومیت نے لے لی۔
انیسویں صدی کے اواخر تک صہیونی راتھ شیلڈ خاندان دنیا کی آدھی دولت کا مالک بن چکا تھا۔ بینک آف انگلینڈ، بینک آف امریکہ، وال اسٹریٹ، اور دیگرمالیاتی ادارے، اور ذرائع ابلاغ صہیونی ساہوکاروں کی مٹھی میں تھے۔ یہ ممکن ہی نہ تھا کہ یہودی آشیرباد کے بغیر یورپ کی سامراجی، فسطائی، نازی، اور اشتراکی سلطنتیں درہم برہم ہوجاتیں، سلطنت عثمانیہ کی بندر بانٹ ہوجاتی، اور برطانیہ اعلاِن بالفور پر دستخط کردیتا۔ یورپ اور امریکہ کی معیشتوں پر یہودی گرفت بے حد مضبوط تھی۔ یہ ممکن ہی نہ تھا کہ ادھ موئے جرمنی کا ہٹلر وال اسٹریٹ کی مالی معاونت کے بغیر نازی ہٹلراعظم بن پاتا، لاکھوں یہودی یورپ کی پُرسکون زندگی ترک کرکے ارضِ فلسطین کے بیابانوں کا رخ کرپاتے، اور مسلمان دنیا پر عثمان ترکوں کی جگہ غدار اور امریکہ نواز اقتدار کی بو بھی سونگھ پاتے۔
(باقی صفحہ 41پر)
ہٹلرکی خواہشات اور مجبوریوں سے قطع نظر، وصیتی نوٹ کی آخری سطر پر ایک سچی نظر آج کی صورت حال واضح کرتی ہے۔ آج کی تیسری، مگر یک طرفہ عالمی جنگ صہیونی سرمایہ کاری ہی ہے۔ اِس بار بھی اہداف صہیونی ہیں، فائدہ سمیٹنے والے بھی صہیونی ہیں۔ پہلی عالمی جنگ سے اعلانِ بالفور برآمد ہوا۔ دوسری عالمی جنگ سے اسرائیل برآمد ہوا۔ تیسری عالمی جنگ Promised Land سرزمین اسرائیل ہاشلیمہ کی جغرافیائی و سیاسی حاکمیت کا ہدف حاصل کررہی ہے۔ ان تینوں جنگوں میں بنی اسرائیل نے تین بڑے دشمنوں کی سیاسی ونظریاتی حاکمیت لہولہو کردی۔ یورپ، عیسائیت، اور مسلم دنیا نادار وناتواں ہوئے۔ یورپ سے صدیوں پر پھیلے مظالم کا انتقام لیا گیا۔ عیسائیت مکمل طور پر متروک بنادی گئی۔ اب مسلم دنیا کی دجل سازی اور خوں ریزی جاری ہے۔
یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ سادہ سی وجہ ہے۔ یہودیوں کا معیارِ کفر مسلمان کے اخلاصِ ایمان پر حاوی رہا۔ بنی اسرائیل ابلیسیت سے مخلص، اور دجل وفریب پرایمان و اعتماد سے عامل رہے۔ جبکہ یورپ کی عیسائیت عیب زدہ اور مسلم دنیا کا ایمان سے اخلاص کمزور رہا۔
مگر اب صورت حال قدرے مختلف ہے۔ اسلامی دنیا کا مردِ بیمار پھر لذتِ ایمان سے آشنا ہوا ہے۔ جہادِ افغانستان کی روح بیدار ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب ہٹلرکی وصیت کے سچ کو سچ کا سامنا ہوگا، اور فتح سچ کا مقدرہوگی۔