آراقارئین

EOBI کم از کم پنشن اور کرپشن کا خاتمہ
بشرفِ نگاہ محترم عزت مآب جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب، عدالتِ عظمیٰ پاکستان
بشرفِ نگاہ محترم عزت مآب جسٹس فیصل عرب صاحب، عدالتِ عظمیٰ پاکستان
بشرفِ نگاہ محترم عزت مآب جسٹس اعجازالحسن صاحب، عدالتِ عظمیٰ پاکستان
بتوسط محترم جناب رجسٹرار صاحب، عدالتِ عظمیٰ پاکستان، اسلام آباد
عالی جناب
1۔ روزنامہ جسارت کراچی کی 24 نومبر2016ء کی اشاعت کے مطابق آج سے دو ہفتہ کے لیے مذکورہ بالا کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی ہے۔
2۔ خاصے لمبے عرصے سے مذکورہ بالا کیس کی سماعت ہو رہی ہے لیکن چیئرمین EOBI، وفاقی وزیرخزانہ، اٹارنی جنرل وغیرہ اس کیس کو ملتوی کرواتے چلے آرہے ہیں۔ اس لیے آپ سے خصوصی اور فوری درخواست ہے کہ کم سے کم پنشن موجودہ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے طے کی جائے۔ خود ای او بی آئی ریٹائرڈ ملازمین کو کم سے کم پنشن 14000/= روپے ماہانہ دے رہا ہے جبکہ جن کے لیے یہ ادارہ قائم کیا گیا ہے ان کو اب صرف 5,250 ماہانہ دے رہا ہے۔
3۔ حکومت نے 2010ء میں لیبر پالیسی میں ای او بی آئی کے پنشنرز کو دیگر سرکاری اداروں کے پنشنرز کے برابر کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا۔
4۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہر سال بجٹ کے وقت بھی سالانہ انکریمنٹ نہیں دیا۔ حکومت ان وعدوں کو بھی پورا کرے۔
5۔ دیگر ادارے بزرگ شہریوں/ پنشنروں کو مزید دیگر مراعات و سہولتیں دیتے ہیں جس کے لیے عمر کی حد 80 سال ہے جو بہت ہی زیادہ ہے۔ اس کی حد عمر 70/75 سال کی جائے اور ای او بی آئی سے یہ بھی دلوایا جائے۔
6۔ ای او بی آئی میں دو کھرب روپے سے زائد موجود ہیں جس سیای او بی آئی کے پنشنروں کو بھی حصہ دلوایا جائے۔
7۔ بہت طویل عرصے سے ای او بی آئی میں آڈٹ بھی نہیں کروایا جارہا ہے اور اس میں طرح طرح سے رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ آڈٹ کے ذریعے بہت ساری کرپشن سامنے آسکتی ہے۔ فوری آڈٹ کروایا جائے۔
8۔ای او بی آئی میں کرپشن کرنے والوں میں پی ٹی آئی کے علیم خان، سابق چیف جسٹس کے داماد، ڈی ایچ اے اور ای او بی آئی کے سابق چیئرمین ظفر گوندل وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ان سے رقم واپس لی جائے۔
9۔ سید خورشید شاہ نے بطور وزارت انچارج ای او بی آئی کے افسروں کو 48کروڑ روپے سے 500 لگژری گاڑیوں کو خریدنے کی اجازت دی۔ میرٹ کے خلاف بھرتی ہونے والے یہ افسران جاتے ہوئے یہ 500 گاڑیاں بھی لیتے گئے۔
10۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی، چیئرمین ای او بی آئی صالح فاروقی صاحب نے ادارے کی کرپشن رپورٹ پیش کی اور دستاویزات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں 15 جائدادیں زائد قیمت پر خرید کر 34 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ یہ واپس لیا جائے۔
ان حالات میں آپ سے خصوصی اور فوری احکامات کی درخواست ہے۔
درخواست گزار میر شجاعت علی/ شاہ فیصل کالونی کراچی
سلامتی کا راستہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی قوانین نافذ فرمائے، مدینہ کو اسلامی خوشحال ریاست بناکر امت کے سپرد کیا۔ ارشاد فرمایا: اگر میری امت مُردہ ہوجائے اسے دوبارہ زندہ کرنے والوں کو سو شہیدوں کے برابر ثواب کی بشارت ہے۔ سلطانِ کائنات نے پاکستان، قائدینِ آزادی کے دینِ اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے وعدے پر بخشا تھا۔ وعدہ پورا کرنے کے لیے دستور ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد منظور ہوئی۔ قرارداد میں سلطانِ کائنات کو پاکستان کا حاکم اعلیٰ تسلیم کیا گیا۔ یہ قرارداد پاکستان کے دستور کی بنیاد بنی۔ زندگی نے قائدینِ آزادی کو حاکم اعلیٰ کے نازل کردہ قوانین نافذ کرنے کی مہلت نہ دی۔ وہ اپنی امانت پاکستان اور وعدے کی پاسداری ہم وطنوں کو دے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو امین نہیں ان کا کوئی ایمان نہیں، جو وعدہ پورا نہیں کرتے ان کا کوئی دین نہیں۔ وعدہ پورا نہ کرنے والوں میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی، دشمن مسلط ہوجائے گا، وہ سب کچھ برباد کردے گا۔ صاحبِ اختیار اداروں نے دستور کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے مگر قراردادِ مقاصد کے مطابق حاکم اعلیٰ کے احکامات نافذ نہیں کیے۔ اس جرم کی سزا خانہ جنگی کی صورت میں پہلے مشرقی پاکستان میں ملی اور وہ بنگلہ دیش بن گیا، اب مختلف صورتوں میں پاکستان میں مل رہی ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ریڈیو پاکستان سے بانی جماعت اسلامی نے خطاب میں فرمایا: پاکستان خدا کی عطا کردہ نعمت ہے، اس کے تحفظ کے لیے جہاد کرنا ہم وطنوں پر فرض ہے، جو ٹھکرائے گا خدا دنیا میں اسے عذاب دے گا۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کو نصیحت فرمائی: رفقائے محترم زمانہ بڑا بے رحم صراف ہے، وہ آپ کے ہر عمل کو پرکھ رہا ہے، آپ کچھ بھی بن جائیں کردار اسلامی نہیں تو کچھ نہیں۔ جو شخص یہ دیکھ رہا ہے کہ برائی چھا گئی، حکمران دولت پرست بن گئے، دشمن متحد ہوکر ملتِ اسلامیہ پر حملہ آور ہیں، کسی کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں، یہ منظر دیکھتے ہوئے جس کا ضمیر سو گیا اسے اپنے ایمان کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔ اگر ہے تو اسے جگائیں، ایسا نہ ہو یہ سونا موت کے سونے میں بدل جائے۔ انسانی تاریخ میں کسی نے کوئی نقش چھوڑا ہے تو وہ وہی لوگ تھے جن کے ارادے پختہ اور عزم مضبوط تھے۔ جو دریا کے بہاؤ میں بہنے والے نہیں، دریا کا رخ موڑ دینے والے تھے۔ وقت پر اسلامی کردار ادا کرنا آپ کا اصل سرمایہ ہے۔
فدوی کی ارکانِ جماعت سے مؤدبانہ عرض ہے کہ آزادی کے تحفظ کا فیصلہ کن معرکہ شروع ہے، آپ نے جماعت کے دستور کی دفعہ 4 پر عمل کرنے کا حلف اٹھایا ہے، دینِ اسلام، جماعت اسلامی اور پاکستان اسلاف کی امانت ہیں۔ سزا سے نجات، آزادی کے تحفظ، حوضِ کوثر پر اسلاف کے سامنے سرخرو ہونے کی راہِ راست ایک ہی ہے کہ حاکم اعلیٰ سے قومی جرم کی معافی مانگی جائے۔ دعا ہے حکام اعلیٰ اپنی رعایا کو معاف فرمائیں۔ محسن قائدین آزادی کا وعدہ ’پاکستان کا مطلب کیا‘ جو قومی اسمبلی کے ماتھے پر جھومر بن کر چمک رہا ہے، قراردادِ مقاصد کے مطابق ’’ملک خدا کا‘ قانون شریعت کا‘ حکومت نیک بندوں کی‘‘ پورا کرنے، پاکستان میں حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کرنے، پاکستان کو اسلامی پاکستان، خوشحال پاکستان بنانے کے لیے محترم سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان کی پکار پر لبیک کہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ یہی ضربِ عضب ہے۔
یاد رکھتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو
روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو
تاج محمد تاجوانی
جام پور