(علم کے سمندر میں غواصی کرنے والا عالم اور استاد(ملک نواز احمد اعوان

کتاب
:
ارمغان پروفیسر حافظ احمد یارؒ
مرتبین
:
پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت/
پروفیسر ڈاکٹر محمد سعد صدیقی
صفحات
:
565 قیمت 700 روپے
ناشر
:
شعبہ علوم اسلامیہ ،جامعہ پنجاب لاہور
شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ پنجاب لاہور نے یہ گراں قدر کتاب بڑے خوبصورت اسلوب میں اہتمام کے ساتھ شائع کی ہے۔ شعبہ علوم اسلامیہ کے اساتذہ کی خدمت میں بطور ارمغان جن اساتذہ کی یاد میں کتب شائع کی گئی ہیں ان میں علامہ علاء الدین صدیقیؒ اور پروفیسر ملک محمد اسلمؒ اور زیرنظر ارمغان پروفیسر احمد یارؒ ہیں۔ آئندہ کے پروگرام میں ارمغان بشیر احمد صدیقیؒ ، ارمغان امان اللہ خانؒ ، ارمغان خالد علویؒ شائع کی جائیں گی۔ ان شاء اللہ۔
کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ حصہ اول تذکرہ حافظ احمد یارؒ کے سلسلے میں ہے۔ حصہ دوم مقالات پر مشتمل ہے۔ درج ذیل میں اس کی فہرست ہے۔
تذکرہ حافظ احمد یارؒ
’’میرے حافظ صاحبؒ ‘‘ شیر محمد زمان چشتی۔ ’’خوش مزاج، بااخلاق، ملنسار‘‘ مولانا عبدالغفار حسنؒ ۔ ’’چند یادیں‘‘ چودھری صفدر علی۔ ’’پروفیسر حافظ احمد یارؒ ۔۔۔ ایک منفرد شخصیت‘‘ عبدالحئی صدیقی۔ ’’یادِ رفتگان۔۔۔ حافظ احمد یارؒ ‘‘ بشیر احمد صدیقی۔ ’’پروفیسر حافظ احمد یارؒ ۔۔۔ کچھ یادیں کچھ باتیں‘‘ خالد علوی۔ ’’پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم۔۔۔چند یادیں‘‘ حافظ محمود اختر۔ ’’پروفیسرحافظ احمد یارؒ ۔۔۔ ایک بے مثال استاد‘‘ سعید اقبال قریشی۔ ’’حافظ احمد یارمرحوم و مغفور، بحیثیت استاد‘‘ حافظ محمد ابراہیم شیخ۔ ’’طلبہ پر استادِ محترم کا احسان‘‘ لطف الرحمن خان۔ ’’پروفیسر حافظ احمد یارؒ ۔۔۔ ایک سچے عاشقِ قرآن‘‘ حافظ عاکف سعید۔ ’’نرم مزاج اور لطیف‘‘ محمد شریف حافظ۔ ’’حافظ احمد یارؒ ۔۔۔ یادوں کے آئینے میں‘‘ حافظ محمد طفیل۔ ’’حافظ صاحب مرحوم بحیثیت لائبریری انچارج‘‘ خالدہ اختر۔ ’’پروفیسر حافظ احمد یارؒ اور فنِِ خطاطی‘‘ راشد شیخ۔ ’’دستورِِ حیاء (مطالعہ سورۃ النساء) از حافظ احمد یار‘‘ محمد عبداللہ۔ ’’میرے والد محترمؒ ‘‘ نضرۃ النعیم۔ ’’مکتبہ حافظ احمد یار سے قرآن حکیم کے چند نسخے‘‘ نضرۃ النعیم۔
مقالات: ’’علمائے اصول کے نزدیک حروفِ جار اور تفسیر قرآن‘‘ حافظ عبداللہ۔ ’’قرآن کریم میں وارد معّرب الفاظ استشراقی نکتہ نگاہ کے تناظر میں‘‘ حفصہ نسرین۔ ’’علم قرأت اور علم تفسیر کا باہمی تعلق‘‘، حافظ رشید احمد تھانوی۔ ’’متنِ قرآنی میں روایات حفص اور ورش کا کردار (ایڈرین براکٹ کے مؤقف کا ناقدانہ مطالعہ)‘‘ محمد فیروز الدین شاہ کھگہ۔ ’’علم مشکل القرآن۔ حکمت و اسباب‘‘ حافظہ ضوفشاں نصیر۔ ’’قرآن فہمی میں علم وقف و ابتدا کی ضرورت و اہمیت‘‘ محمد اویس۔ ’’مصاحف عثمانیہ: تعداد اور اسبابِِ اختلافِ روایات کا تحقیقی جائزہ‘‘ محمد سمیع اللہ فراز۔ ’’پاکستان میں قرآن کی طباعت۔ تاریخی مطالعہ‘‘ قاری محمد طاہر۔ ’’پاکستان میں رسمِ عثمانی پر مبنی نسخہ قرآن کی اشاعت کی ضرورت‘‘ حافظ احمد یارؒ ۔ ’’قرآنی خطاطی‘‘ محمد اقبال بھٹہ، رخسانہ ندیم بھٹہ۔ ’’حفاظتِ قرآن اور بعض روایات میں منقول آیات کی قرآنیت۔ ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ محمد اکرم ورک۔ ’’عائلی قوانین اور قرآن کریم کا اسلوبِ بیان (ایک مطالعہ)‘‘ حافظہ شاہدہ پروین۔ ’’خانوادہ ولی اللّٰہی کی تفسیری خدمات‘‘ عاصم نعیم۔ ’’مقدمۃ التفسیر میں مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کا منہج‘‘ محمد سعد صدیقی۔ ’’تفسیر روائع البیان کا منہج و اسلوب۔ ایک مختصر جائزہ‘‘ رملہ خان۔ ’’کتاب فنون الافنان کا علمی جائزہ‘‘ محمد فاروق حیدر۔ ’’تفسیر بیان القرآن اور عقیدہ ختم نبوت‘‘ عائشہ جبیں۔ ’’المدخل الوجیز الی دراسۃ الاعجاز فی الکتاب العزیز کا منہج و اسلوب‘‘ شائستہ جبیں۔ پادری احمد شاہ کا اردو ترجمۃ القرآن‘‘ ساجد اسداللہ داؤدی۔
پروفیسر حافظ احمد یار سے متعلق کچھ معلومات:
نام: احمد یار۔ والد کا نام: مہر محمد یار۔ تاریخ پیدائش: 5 جنوری 1920ء۔ جائے پیدائش: جھنگ، دریائے چناب کے کنارے واقع گاؤں ’’حبیب‘‘۔ تعلیم: 1935ء میں ایم بی مڈل اسکول جھنگ سے ورنیکلر (مڈل) کا امتحان پاس کیا۔ 1937ء میں اسی اسکول سے میٹرک کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ 1943ء۔ 1945ء گورنمنٹ نارمل اسکول گکھڑ سے جے۔ وی کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اور کلاس میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اسی دوران قرآن حکیم کے حفظ کی سعادت حاصل کی۔ 1945ء میں پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ 1952ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ اسی دوران جامعہ محمدی جھنگ کے ممتاز عالم دین مولانا محمد ذاکر مرحوم سے عربی اور اس کے قواعد و ضوابط کی تعلیم حاصل کی۔ 1954ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کیا۔ اول پوزیشن حاصل کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1957ء میں اسی یونیورسٹی سے ایم اے عربی کا امتحان پاس کیا۔ حسب سابق اول پوزیشن حاصل کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔
عملی زندگی: 1949ء ۔ 1952ء ایم بی ہائی اسکول میں بطور استاد کام کیا۔ 1955ء۔ 1964ء اسلامیہ کالج سول لائنز میں بطور استاد رہے۔ 1964ء میں شعبہ علوم اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی میں بطور لیکچرار متعین ہوئے۔ 1976ء۔1977ء شعبہ علوم اسلامیہ میں بطور صدر شعبہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ 1980ء میں ریٹائر ہوئے۔ 1983ء میں قرآن اکیڈمی اور قرآن کالج سے وابستہ ہوئے اور یہ وابستگی تاحیات رہی۔
تحقیقی مقالات کی نگرانی: ایم اے کی سطح پر 60 سے زیادہ مقالات کی نگرانی کے فرائض سرانجام دیے۔ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر پنجاب یونیورسٹی اور ملک کی دیگر یونیورسٹیوں میں پیش کردہ تحقیقی مقالات کی نگرانی کی اور ممتحن بھی رہے۔
علمی و تحقیقی مقالات: قرآن کریم کی ترتیبِ نزول کا سرسری جائزہ، کتابت مصاحف اور علم الرسم، کتابت مصاحف اور علم الضبط، پاکستان میں رسم عثمانی پر مبنی نسخہ قرآن کی اشاعت، تاریخ خطِ نسخ، برصغیر پاک و ہند کی ثقافت میں خطِ نسخ کی اہمیت، صلیبیوں اور صہیونیوں کی قرآن دشمنی، لغات و اعراب قرآن، مسودہ تفسیر الجامع الازھر پر ایک طالب علمانہ نظر، اخلاق نبوت سے اکتسابِ فیض کی شرط اور علامت، سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں عصرِ حاضر کے لیے پیغام، اسلام کا نظام عدل و احسان اور برائیوں کا انسداد، عشر کی اہمیت و افادیت۔
تالیفات: یتیم پوتے کی وراثت، الفیصل ناشران، اردو بازار لاہور۔ دین و ادب، رفیق مطبوعات، اردو بازار لاہور۔ دستورِ حیاء، رفیق مطبوعات، اردو بازار لاہور۔ 1964ء، مضامین قرآن، الائیڈ بک سینٹر، اردو بازار لاہور، قرآن و سنت ۔ چند مباحث (جلد اول) شیخ زاید اسلامک سینٹر، پنجاب یونیورسٹی لاہور 2001ء، قرآن و سنت چند مباحث (جلد دوم) شیخ زاید اسلامک سینٹر، پنجاب یونیورسٹی لاہور 2001ء۔ فہرست کتب سیرت، مجلس اسلامیات، اسلامیہ کالج لاہور 1963ء، تفہیم القرآن۔
وفات: 15 مئی 1977ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ بشارت ’’پروفیسر حافظ احمد یار۔۔۔ ایک روشن چراغ‘‘ کے زیر عنوان لکھتی ہیں:
’’بلاشبہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ رب ذوالجلال نے اسے دوسری مخلوقات پر فوقیت علم کی بنا پر عطا کی ہے۔ اللہ ہی ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا اور زمین پر اپنا نائب بناکر بھیجا۔ اس کے خاص بندے اسی قلم کے اور کائنات کے مشاہدے کے ذریعے اپنے علم میں اضافہ کرتے اور اسے آگے بڑھاتے ہیں۔ اللہ کے ایسے ہی خاص بندوں میں سے ایک نام پروفیسر حافظ احمد یار صاحبؒ کا ہے جنہوں نے علم کے سمندر میں ڈوب کر سراغِ زندگی پایا اور اسی علم کے بحرِ بے کراں بن کر اس کے دامن کو وسیع اور تشنگانِ علم کو سیراب کیا۔
شعبہ میں مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے براہِ راست پروفیسر حافظ احمد یار صاحبؒ سے کسبِ فیض کیا ہے۔ اس حوالے سے بھی ان کی شخصیت کے بارے میں یوں لکھنا کہ حقِ شاگردی ادا ہو، لفظوں کے جامے سے ماورا ہے۔
گو کہ یہ عرصہ ایک سمسٹر پر مشتمل تھا، مگر مختصر دورانیے میں بھی پروفیسر صاحب سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ وہ سادہ، منکسر المزاج اور ہر قسم کے تصنع سے پاک شخصیت کے مالک تھے۔ مگر ان کا علمی رعب و دبدبہ سامنے بیٹھے ہوئے شاگردوں کو اپنے سحر میں لے لیتا تھا۔ وہ جس موضوع پر بھی گفتگو کرتے سامعین پر اس میں اپنی مہارتِ تامّہ کا تاثر چھوڑ دیتے۔ بڑے بڑے علمی مسائل کو اس سہولت کے ساتھ بیان کردیتے کہ سننے والے انگشت بدنداں رہ جاتے۔ گو انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل نہیں کی تھی (شاید اس سندی تحقیق کی آج کے دور میں زیادہ ضرورت سمجھی جاتی ہے) مگر اپنے علم اور تحقیق کی بنا پر وہ ایک جید عالم تھے اور آج کے کسی بھی ڈاکٹر سے کم نہ تھے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ بیک وقت کئی موضوعات اور کئی علوم خصوصاً علوم القرآن کے حوالے سے ان کا نام سند کا درجہ رکھتا ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، جنہوں نے کبھی بھی اپنی علمی اور پیشہ ورانہ خدمات کی انجام دہی میں کوتاہی نہیں برتی۔‘‘
(باقی صفحہ 49 پر)
ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے مقالات کا تعارف کرایا ہے، انھوں نے تحریر کیا ہے کہ :
’’دوسرا حصہ ان مقالات پر مشتمل ہے جو قرآن حکیم سے متعلق علوم پر ہیں۔ اس میں 19 مضامین شامل کیے جارہے ہیں۔ ان مضامین و مقالات کو تین حصوں میں منقسم کیا گیا ہے اور موضوع کے اعتبار سے ایک منطقی ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘
’’حافظ صاحب کے فرزندانِ ارجمند ڈاکٹر نعم العبد اور لیفٹیننٹ کرنل (ر) ذوالقرنین جو آج بھی اپنے والد محترم کی علمی کاوشوں یعنی قرآن کے پیغام کو جدید ٹیکنالوجی کے توسط سے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں، انہوں نے ارمغان کے لیے حافظ صاحب کے ذخیرہ قرآن سے نادر مصاحف کے صفحات کے عکس عطا فرمائے (ان شاء اللہ ان میں سے بعض عکس اپنے موقع محل پر رکھے جائیں گے) ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں قرآن حکیم کی خدمت کا مزید موقع عطا فرمائے اور بارگاہِ رب ذوالجلال میں مقبول ہو‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ کی توجہ اور محنت سے ایک بہترین علمی دستاویز عالم وجود میں آگئی ہے جو پنجاب یونیورسٹی کے لیے بھی باعثِ عزت ہوگی۔ ہمارے خیال کے مطابق خود ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ کے لیے بھی ایک ارمغان کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کتاب خوبصورت سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے، حسین و جمیل سرورق سے مزین ہے۔ کتاب میں ذخیرہ مصاحف احمد یارؒ سے چند نوارد کا رنگین عکس بھی دیا گیا ہے۔ اردو کی لائبریری میں وقیع اضافہ ہے۔
nn