حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تم اسے کس طرح فروخت کرتے ہو۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلا دیا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی کہ اپنا دستِ مبارک اس غلہ کے اندر داخل کریں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اس غلہ میں داخل کیا تو وہ اندر سے گیلا اور تر نکلا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے دھوکا دہی سے کام لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
[ابو داؤد، جلد سوم، حدیث نمبر 57]
اللہ رب العزت نے انسان کو ’’احسن تقویم‘‘ یعنی بہترین ساخت پر پیدا فرمایا ہے۔ وہ اس کائنات میں اللہ کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ اللہ نے اسے فکر و عمل کی اعلیٰ ترین صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں جن سے کام لے کر وہ کائناتِ شش جہات کے اسرار و رموز کی نقاب کشائی کرکے انہیں اپنے مفاد کے تابع کرسکتا ہے۔ تسخیر کائنات کے اس عمل کو شیطان کی دراندازیوں سے محفوظ بنانے کے لیے اللہ رب العزت نے انسان کے قوائے فکر و عمل کی صحیح سمت میں رہنمائی کا ازخود اہتمام فرمایا ہے۔ کتب آسمانی کا نزول اور انبیاء علیہ السلام کی بعثت اسی سلسلے کی حسین کڑیاں ہیں۔ انسانی تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ جن افراد اور اقوام نے اس یزدانی (خدائی) ہدایت کو قبول کیا اور اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات کو اس ہدایت کے مطابق چلایا وہ دنیا میں سرخرو ہوئیں اور انہیں اللہ تعالیٰ نے خوشحالی اور عروج و کمال کے اوجِ ثریا پر پہنچایا، اور جن بدنصیبوں نے اس ہدایت سے اعراض کیا وہ ہوائے نفس کے اسیر ہوکر ذلت و زوال کے گہرے گڑھوں میں گر گئے۔
ہدایتِ یزدانی کا یہ مرقع اس وقت قرآن پاک کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ؐ جو اس کے مستند و مجاز شارح اور ترجمان ہیں، ان کی سیرت و سنت وہ آئینہ ہے جس میں ہمیں اس نورِ ہدایت کی روشنی میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا مفصل ضابطہ مل سکتا ہے اور ہم حق اور باطل اور سچ اور جھوٹ کے فرق کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رب العزت کے فرامین کے مطابق اپنی محنتِ شاقہ سے اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل انسانوں کا ایک پاکیزہ گروہ تیار کیا اور انہیں امانت و دیانت اور حق و صداقت کا پیکر بناکر نسلِ انسانی کی صلاح و فلاح اور خیر و بھلائی کے کام پر لگا دیا اور ان پر یہ لازم کردیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد قیامت تک اس فریضے کو انجام دیتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قدسی نفوس کے اس گروہ کو خیرِ امت یعنی بہترین گروہ کے لقب سے موسوم کیا اور اس بشارت سے انہیں نوازا کہ جب تک وہ بھلائیوں (معروف) کو پھیلانے اور برائیوں (منکر) کو مٹانے کے لیے سرگرم عمل رہیں گے اقوام عالم کی امامت و سیادت ان کے پاس رہے گی اور وہ دنیا میں عزت و عظمت کی زندگی سے ہم کنار رہیں گے، اور جب انہوں نے اس فریضے کی انجام دہی کو ترک کردیا اور دھوکا، جھوٹ اور دجل و فریب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تو وہ بدترین قسم کی ذلت و رسوائی سے دوچار ہوں گے اور ’’خیر امت‘‘ کے منصب سے معزول کردیے جائیں گے۔ دھوکا شیطان کا وہ سب سے بڑا ہتھیار ہے جسے وہ روزِ اول سے انسان کو راہِ راست سے ہٹاکر ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرانے کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ اس نے دھوکے کا جال پھینک کر ہی آدم علیہ السلام اور اماں حوا کو جنت سے نکلوایا اور آج بھی وہ اسی دامِ تزویر یعنی دھوکے کے جال سے انسانوں کو خواہشات و لذات کا رسیا بناکر اللہ رب العزت کی رضا کے حلقے یعنی حزب اللہ سے نکال کر اپنے جتھے یعنی حزب الشیطان میں دھکیل رہا ہے۔
افسوس کہ آج بدقسمتی سے دھوکا دہی کا زہر اہلِ ایمان کی غالب اکثریت کے رگ و ریشے میں سرایت کرچکا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اس کی لپیٹ میں نہ ہو۔ اشیائے خورونوش، ادویات، تیل، پیٹرول، گیس، دودھ، گھی، زرعی اجناس، مصنوعات، زیورات اور عام اشیائے استعمال میں ملاوٹ ایک معمول بن چکی ہے۔ ناپ تول میں کمی، ادنیٰ درجے کی چیزوں کو اعلیٰ درجے کی بتا کر مہنگے داموں بیچنا، گمراہ کن اور فحش اشتہار بازی سے مال کی فروخت کو بڑھانا، وعدہ خلافی اور جھوٹی قسموں کے ذریعے مال کا عیب چھپا کر اسے گاہک کو فروخت کردینا کاروباری لوگوں کے نزدیک کوئی بری بات ہی نہیں رہی۔ (الاماشاء اللہ)
معاشرتی تعلقات کے استحکام کو دھوکا دہی نے متزلزل کرکے رکھ دیا ہے۔ رشتوں کا تقدس اس کے آگے ڈھیر ہوگیا ہے۔ بھائی بھائی کے مال پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ بہنوں کو حیلے بہانے سے وراثت میں ان کے حصے سے محروم کردیا جاتا ہے۔ یتیم کا مال حقیقی عزیزوں کے لیے تر نوالہ بن گیا ہے۔ سیاست دھوکا فریب کا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔ انتخابات کے موقع پر اپنے مخالفین کو شکست دینے کے لیے دھوکا فریب کا ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ عدالتوں میں جعلی دستاویزات دکھا کر حقدار کو اس کے حق سے سرعام محروم کردیا جاتا ہے۔ لوٹ مار، قتل و غارت، چوری، ڈاکا، خیانت اور بدعہدی جیسے گھناؤنے جرائم دھوکے کے بطن سے ہی جنم لیتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں رحمت بن کر آئے تھے اور دنیا کو امن وسکون کا گہوارہ بنانا ہی ان کا مقصدِ حیات تھا۔ جو لوگ دھوکا دہی کے ذریعے مخلوقِ خدا کی زندگیوں کو عذاب بنانا چاہیں آپؐ کو اُن سے کیا سروکار ہوسکتا ہے! وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دینِ رحمت (اسلام) کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ (باقی صفحہ49پر)
چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہی کیوں نہ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اعلانِ برأت فرمایا ہے (ان دھوکے بازوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں)۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کا کردار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی کامیابی اور اللہ کے بندوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو دائرۂ اسلام میں لانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
سچی توبہ اور دھوکے فریب سے غصب کیے ہوئے حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد ہی یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا حصہ بن سکتے ہیں اور ان بشارتوں کے مستحق قرار پا سکتے ہیں جن کا وعدہ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر صاحبِ ایمان کو شیطان کی سیاہ کاریوں سے محفوظ رکھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا پیروکار بن کر زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تم اسے کس طرح فروخت کرتے ہو۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلا دیا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی کہ اپنا دستِ مبارک اس غلہ کے اندر داخل کریں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اس غلہ میں داخل کیا تو وہ اندر سے گیلا اور تر نکلا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے دھوکا دہی سے کام لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
[ابو داؤد، جلد سوم، حدیث نمبر 57]
اللہ رب العزت نے انسان کو ’’احسن تقویم‘‘ یعنی بہترین ساخت پر پیدا فرمایا ہے۔ وہ اس کائنات میں اللہ کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ اللہ نے اسے فکر و عمل کی اعلیٰ ترین صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں جن سے کام لے کر وہ کائناتِ شش جہات کے اسرار و رموز کی نقاب کشائی کرکے انہیں اپنے مفاد کے تابع کرسکتا ہے۔ تسخیر کائنات کے اس عمل کو شیطان کی دراندازیوں سے محفوظ بنانے کے لیے اللہ رب العزت نے انسان کے قوائے فکر و عمل کی صحیح سمت میں رہنمائی کا ازخود اہتمام فرمایا ہے۔ کتب آسمانی کا نزول اور انبیاء علیہ السلام کی بعثت اسی سلسلے کی حسین کڑیاں ہیں۔ انسانی تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ جن افراد اور اقوام نے اس یزدانی (خدائی) ہدایت کو قبول کیا اور اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات کو اس ہدایت کے مطابق چلایا وہ دنیا میں سرخرو ہوئیں اور انہیں اللہ تعالیٰ نے خوشحالی اور عروج و کمال کے اوجِ ثریا پر پہنچایا، اور جن بدنصیبوں نے اس ہدایت سے اعراض کیا وہ ہوائے نفس کے اسیر ہوکر ذلت و زوال کے گہرے گڑھوں میں گر گئے۔
ہدایتِ یزدانی کا یہ مرقع اس وقت قرآن پاک کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ؐ جو اس کے مستند و مجاز شارح اور ترجمان ہیں، ان کی سیرت و سنت وہ آئینہ ہے جس میں ہمیں اس نورِ ہدایت کی روشنی میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا مفصل ضابطہ مل سکتا ہے اور ہم حق اور باطل اور سچ اور جھوٹ کے فرق کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رب العزت کے فرامین کے مطابق اپنی محنتِ شاقہ سے اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل انسانوں کا ایک پاکیزہ گروہ تیار کیا اور انہیں امانت و دیانت اور حق و صداقت کا پیکر بناکر نسلِ انسانی کی صلاح و فلاح اور خیر و بھلائی کے کام پر لگا دیا اور ان پر یہ لازم کردیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد قیامت تک اس فریضے کو انجام دیتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قدسی نفوس کے اس گروہ کو خیرِ امت یعنی بہترین گروہ کے لقب سے موسوم کیا اور اس بشارت سے انہیں نوازا کہ جب تک وہ بھلائیوں (معروف) کو پھیلانے اور برائیوں (منکر) کو مٹانے کے لیے سرگرم عمل رہیں گے اقوام عالم کی امامت و سیادت ان کے پاس رہے گی اور وہ دنیا میں عزت و عظمت کی زندگی سے ہم کنار رہیں گے، اور جب انہوں نے اس فریضے کی انجام دہی کو ترک کردیا اور دھوکا، جھوٹ اور دجل و فریب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تو وہ بدترین قسم کی ذلت و رسوائی سے دوچار ہوں گے اور ’’خیر امت‘‘ کے منصب سے معزول کردیے جائیں گے۔ دھوکا شیطان کا وہ سب سے بڑا ہتھیار ہے جسے وہ روزِ اول سے انسان کو راہِ راست سے ہٹاکر ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرانے کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ اس نے دھوکے کا جال پھینک کر ہی آدم علیہ السلام اور اماں حوا کو جنت سے نکلوایا اور آج بھی وہ اسی دامِ تزویر یعنی دھوکے کے جال سے انسانوں کو خواہشات و لذات کا رسیا بناکر اللہ رب العزت کی رضا کے حلقے یعنی حزب اللہ سے نکال کر اپنے جتھے یعنی حزب الشیطان میں دھکیل رہا ہے۔
افسوس کہ آج بدقسمتی سے دھوکا دہی کا زہر اہلِ ایمان کی غالب اکثریت کے رگ و ریشے میں سرایت کرچکا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اس کی لپیٹ میں نہ ہو۔ اشیائے خورونوش، ادویات، تیل، پیٹرول، گیس، دودھ، گھی، زرعی اجناس، مصنوعات، زیورات اور عام اشیائے استعمال میں ملاوٹ ایک معمول بن چکی ہے۔ ناپ تول میں کمی، ادنیٰ درجے کی چیزوں کو اعلیٰ درجے کی بتا کر مہنگے داموں بیچنا، گمراہ کن اور فحش اشتہار بازی سے مال کی فروخت کو بڑھانا، وعدہ خلافی اور جھوٹی قسموں کے ذریعے مال کا عیب چھپا کر اسے گاہک کو فروخت کردینا کاروباری لوگوں کے نزدیک کوئی بری بات ہی نہیں رہی۔ (الاماشاء اللہ)
معاشرتی تعلقات کے استحکام کو دھوکا دہی نے متزلزل کرکے رکھ دیا ہے۔ رشتوں کا تقدس اس کے آگے ڈھیر ہوگیا ہے۔ بھائی بھائی کے مال پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ بہنوں کو حیلے بہانے سے وراثت میں ان کے حصے سے محروم کردیا جاتا ہے۔ یتیم کا مال حقیقی عزیزوں کے لیے تر نوالہ بن گیا ہے۔ سیاست دھوکا فریب کا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔ انتخابات کے موقع پر اپنے مخالفین کو شکست دینے کے لیے دھوکا فریب کا ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ عدالتوں میں جعلی دستاویزات دکھا کر حقدار کو اس کے حق سے سرعام محروم کردیا جاتا ہے۔ لوٹ مار، قتل و غارت، چوری، ڈاکا، خیانت اور بدعہدی جیسے گھناؤنے جرائم دھوکے کے بطن سے ہی جنم لیتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں رحمت بن کر آئے تھے اور دنیا کو امن وسکون کا گہوارہ بنانا ہی ان کا مقصدِ حیات تھا۔ جو لوگ دھوکا دہی کے ذریعے مخلوقِ خدا کی زندگیوں کو عذاب بنانا چاہیں آپؐ کو اُن سے کیا سروکار ہوسکتا ہے! وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دینِ رحمت (اسلام) کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ (باقی صفحہ49پر)
چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہی کیوں نہ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اعلانِ برأت فرمایا ہے (ان دھوکے بازوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں)۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کا کردار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی کامیابی اور اللہ کے بندوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو دائرۂ اسلام میں لانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
سچی توبہ اور دھوکے فریب سے غصب کیے ہوئے حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد ہی یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا حصہ بن سکتے ہیں اور ان بشارتوں کے مستحق قرار پا سکتے ہیں جن کا وعدہ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر صاحبِ ایمان کو شیطان کی سیاہ کاریوں سے محفوظ رکھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا پیروکار بن کر زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)