واحد انسانی تہذیب انتہائی غیر انسانی حالات سے دوچار ہے۔ چہار جانب سے فساد اور فتنے فنا کے درپے ہیں۔ عرب نسل پرست، فارس نسل پرست، یہودی نسل پرست اور مغرب مال پرست بہ یک وقت حملہ آور ہیں۔ خون آشام حلب کے مشرق سے مغرب میں ڈوبتے سرخ افق تک، اور بدنصیب بغداد کی گلیوں سے انقلابی استنبول کے چوراہوں تک ناحق خون ارزاں ہوچکا ہے۔ اس انسانی بحران میں نسل پرستوں اور مال پرستوں کی حیثیت اور کیفیت مشرق وسطیٰ کی بڑی ہولناک تصویر واضح کررہی ہے، تاہم صورت حال کا عمومی تجزیہ تصویر کا جزوی، جانب دارانہ، جذباتی، اور میلانی رخ سامنے لارہا ہے۔ بات مگر مکمل تصویر کے بغیر بے وزن اور بے نتیجہ نظرآرہی ہے۔ چنانچہ مکمل خاکہ سمجھنا ناگزیر ہے۔
درجہ بندی ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلے صورت حال پر سب سے زیادہ اثرانداز یہودی نسل پرستوں کا ذکر ہوسکتا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ ترین انسانی نسل ہیں، جبکہ دیگر انسانی نسلیں کمتر، ماتحت، اور رذیل ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں خدا کے چہیتے ہیں، کسی کو جوابدہ نہیں ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ انبیاء کی اولادیں ہیں، اس لیے انسانوں پر حاکمیت ان کا حق ہے۔ حاکمیت کی حکمت عملی کا عنوان ’’صہیونیت‘‘ ہے۔ حاکمیت کی اقتصادی حکمت عملی عالمی معاشی نظام کا انتظام ہے۔ حاکمیت کی سیاسی حکمت عملی طاقتور ممالک میں طاقتور لابی ازم ہے۔ حاکمیت کی پروپیگنڈہ حکمت عملی عالمی ذرائع ابلاغ کا استعمال ہے۔ حاکمیت کی جغرافیائی حکمت عملی ’عظیم تر اسرائیل‘ کا قیام ہے۔ یہ ’عظیم تراسرائیل‘ مکمل وضاحت سے کلیہ، نظریے، عقیدے، ارادے، اور اعلان سے آگے بڑھ کر مشرق وسطیٰ کی زمینی حقیقت بن رہا ہے۔ اس کے خدوخال اور حکمت عملی ’عودید ینون منصوبہ‘ میں بیان ہوئی ہے۔ گریٹر اسرائیل کا تصور ہمیشہ سے صہیونی ایجنڈے کی منزل ہے، بانی تھیوڈور ہرزل نے کہا تھا ’’ریاست اسرائیل دریائے نیل کے کناروں سے دریائے فرات تک پھیلی ہوئی ہے‘‘۔ تفصیل یہ ہے کہ اسرائیل کے پڑوسی ملکوں کے حصے بخرے کیے جائیں۔ مثلاً شام، لبنان، عراق، اور دیگر ملکوں کے اتنے ٹکڑے کردیے جائیں کہ ’عظیم تر اسرائیل‘ کی جغرافیائی توسیع اور سیاسی حاکمیت یروشلم سے مدینہ تک عملاً قائم ہوسکے۔ ان ملکوں کی تقسیم در تقسیم کے لیے نسلی اور فرقہ وارانہ تعصب اور نفرت کا ایندھن استعمال کیا جائے۔ اسے ممکن بنانے کے لیے معاشی ماتحت قوتوں کی جنگی مشینری کا سہارا لیا جائے۔ شیعہ، سنی، عربی، فارسی، دروزی، کرد، یزیدی، ترکمانی، اور علوی کی ٹکڑیاں نقشے کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں۔ اس تعصب اور نفرت کا فروغ مرکزی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ممکن بنایا جائے۔
جیسے جیسے مسلمان بستیوں سے خون رس رہا ہے، ویسے ویسے اسرائیل کی ناجائز بستیاں سرزمینِ بیت المقدس پر قبضہ جما رہی ہیں۔ ساری عالمی توجہ مگر شام، عراق، اور ترکی پر ہے۔ بیت المقدس پر قبضے سے اب تک پانچ لاکھ سے زائد یہودی 230 نئی ناجائز بستیاں آباد کرچکے ہیں، اور مزید بہت سی مسلمان