(مقصدِ تعلیم (ابر سعدی

کہتے ہیں کہ آزادی کے بعد حالات بہت بدل گئے ہیں۔ یہاں تو خو ہے کہ جو کچھ کہو بجا کہیے، لوگ کہتے ہیں تو ایسا ہی ہوگا۔ لیکن جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے، میں اپنی بات دُہراتا ہوں، ہم تعلیم صرف اس لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اچھی ملازمتیں حاصل ہوں یا ہم ڈگری لے کر کسی ایسے پیشے میں داخل ہوں جس میں ہماری آمدنی محلے والوں کے لیے قابلِ رشک بن سکے۔ اس صاف، سیدھے اور عملی جواب پر ہماری نصب العینیت کتنی ہی ناک بھوں کیوں نہ چڑھائے لیکن سچا جواب یہی ہے: آمدنی، آمدنی، آمدنی۔ حکام رسی بھی اس کا ایک ذریعہ ہے۔ آمدنی معقول ہو تو دنیا کی کون سی چیز نہیں حاصل کی جا سکتی! آرام و آسائش، عزت، شہرت، عورت، عورت کی محبت۔۔۔ غرض بجلی اور گوشت کی ’’استری‘‘ سے لے کر عالی شان کوٹھی اور کار تک ہر چیز۔ آمدنی طالب علموں ہی کی نہیں اُن کے استادوں کی بھی کمزور رگ ہے۔ اعتراف کیا جائے یا نہ کیا جائے، طالب علم، اساتذہ، ماں باپ، محلے والے سب ایک ہی پھیر میں ملتے ہیں۔ ننانوے کا پھیر!
طلبہ میں علم حاصل کرنے کا شوق مفقود ہے، ٹھیک! وہ علم حاصل نہیں کرنا چاہتے، صحیح! بس ڈگری وصول کرنا چاہتے ہیں، درست! لیکن علم حاصل کرنے کا مقصود ڈگری لینا ہے اور ڈگری آئندہ کامیاب زندگی کی ضمانت ہے۔ پھر آخر ڈگری ہی کیوں نہ لی جائے! ڈاکٹری کا پیشہ آمدنی اور ترقی کے اعتبار سے پسند ہے، پھر خدا یونی ورسٹی والوں کو توفیق دے تو ان سے یہ ڈگری حاصل کرنے کے دوسرے ذرائع کیوں نہ اختیار کروں! کتابیں چاٹنے اور علم برائے علم کے بے مقصد کام میں مبتلا ہونے کا فائدہ؟ طلبہ راہب نہیں ہیں، صوفی اور سنیاسی نہیں ہیں۔ انہیں معاشرے میں رہنا اور ایک مقام پیدا کرنا ہے۔ معاشرے نے اس کی شرط ڈگری کا حصول قرار دیا ہے تو پھر ڈگری حاصل کرنا ہمارا مقصود کیوں نہ ہو؟ حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو ان حالات میں علم کا شوق ’’شوقِ فضول‘‘ سے زیادہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔ طلبہ میں اگر یہ رجحان موجود ہے تو اپنی سوسائٹی کی موجودہ اقدار کو دیکھتے ہوئے ہمیں ان کی شکایت کے بجائے ان کی معاملہ فہمی کی داد دینی چاہیے۔ خدا کا شکر ہے کہ ماں باپ خود معاملہ فہم ہیں اور اس کی داد اس طرح دیتے ہیں کہ ڈگری حاصل کرنے کے ہر ممکن ذریعے کو استعمال کرنے میں اپنی اولاد کی اخلاقی اور مالی امداد کرتے ہیں۔ محترم ]ڈاکٹر اشتیاق حسین[ قریشی صاحب کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اچھائی اور برائی کے بارے میں آپ کا معیار موجودہ سوسائٹی کے نزدیک فرسودہ اور اذکارِ رفتہ ہوگیا ہے۔
سوسائٹی کی اقدار۔۔۔ موجودہ حالت میں تعلیم اور اربابِ تعلیم کا اصل مسئلہ یہی ہے۔ مادہ پرست سوسائٹی کی اقدار، تعلیم کو بالآخر ڈگری اور صرف ڈگری کے حصول تک پہنچائے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ یہ اس درخت کا حقیقی پھل ہے۔ حقیقت پسندی کا اوّلین تقاضا ہے کہ اگر ہم اپنے حالات میں کوئی مناسب تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ صرف پھل کی کڑواہٹ پر منہ بناکر نہ رہ جائیں، بلکہ یہ بھی دیکھنے کی کوشش کریں کہ ہم نے درخت کون سا بویا تھا۔
[مضامین سلیم احمد۔ ’’تعلیم کا مسئلہ اور دل گداز تقریریں، صفحہ 829۔ مرتب: جمال پانی پتی۔ ناشر: اکادمی بازیافت]