باہمی کش مکش، تقابل اور افراتفری کے ہمارے اس دور میں وقتاً فوقتاً کئی طرح کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ کبھی دل کو موہ لینے والی آوازیں، جو بنی نوع انسان کے لیے امن و آشتی، سکون و اطمینان کا مژدہ سناتی ہیں، جنہیں سن کر انسانیت جھوم اٹھتی ہے اور ہر طرف سے تحسین و آفرین کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ ایسے پیغام کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ ایسا پیغام دینے والے کو امن و سلامتی کے عظیم سپوت کا نام دیا جاتا ہے اور اس کا شمار ہمیشہ زندہ رہنے والے مصلحین میں ہونے لگتا ہے۔
لیکن صاحبِ عقل مفکر جب ان پیغامات کی حقیقت اور ان کے قائلین کی شخصیت پر گہری نظر ڈالتا ہے تو ان پیغامات اور ان کے قائلین کی شخصیات کے طرزِعمل اور افعال و اعمال میں گہرا تضاد نظر آتا ہے اور یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ان نام نہاد مصلحین اور مدبرین کا مطمحِ نظر صرف کسی خاص گروپ یا مخصوص اقوام پر شفقت و رحمت ہے۔
جب ہم مزید غور وخوص سے کام لیتے ہیں تو ہم پر یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ اس نظریے کی بنیاد ان طویل خوں ریز جنگوں اور انسانیت کے لیے جان لیوا ظلم و سفاکی پر استوار ہے اور اس کے نام لیوا وہی ہیں جن کا امتیازی نشان اور تعارف ہی ستم رانی کی داستانیں رقم کرنا ہے۔ رہے عوام، تو اُن کا کام ان اعلانات پر صرف محوِحیرت رہنا اور تالیاں بجانا ہے۔
اس خوفناک، دہشت ناک عالمی فضا میں جس کی کوئی کل سیدھی نہیں، عالمِ انسانیت کے تمام افراد کو ملکوں، عقیدوں، زبان اور علاقوں کے اختلاف کے باوجود صرف اور صرف نبئ محترم سیدنا محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہی امن و سلامتی کی دعوت عام دے رہی ہے اور صرف اسی پاک سیرت میں قول و فعل کی یکجائی کی اعلیٰ ترین مثال موجود ہے۔ یہی میزانِ عدل ہے جس کی روشنی میں بلند بانگ دعوے کرنے والوں کے دعوے اور نام نہاد گرہ کشائی کرنے والوں کی دسیسہ کاریاں عیاں ہوتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کی ضوفشانی ہی میں انسانیت اس دھرتی پر امن و سکون اور حفظ و امان کے ساتھ زندگی بسر کرسکتی ہے۔
ہمارے اس دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے آگاہی نہایت ضروری ہے، خصوصاً مجبور و مقہور، محزون و مغموم مسلمانوں کے لیے، کہ جن کی حیرانی و سرگردانی کی انتہا ہی نہیں ہے۔
ایک مسلمان کے لیے سیرتِ نبویؐ کا مطالعہ بہ ارشادِ الٰہی ویسے بھی اہم ذمے داری ہے کہ اس کی روشنی میں مسلمان اتباعِ نبویؐ کی پیروی کرکے رضائے الٰہی حاصل کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فاتبعونی یحببکم اللّٰہ (آل عمران: 31)
سیرتِ طیبہ کے مطالعے کے لیے چند اہم نکات درج ذیل ہیں، اپنی زندگی میں انہیں بروئے کار لانے کے لیے یہ بنیادی نکات ہیں جن کو اپناکر زندگی احسن طریقے سے پُرسکون انداز میں صحیح سمت میں بسر کی جاسکتی ہے۔ ان نکات کی تفصیل درج ذیل ہے:
-1 سیرتِ نبویہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اس عالَمِ ہست وبود میں اللہ تعالیٰ کی مراد کے عین مطابق اسلامی تعلیمات کی عملی تشکیل کی زندہ تصویر ہے۔
اسلامی تعلیمات کا نزول صرف مساجد کی چار دیواریوں، شرعی علوم کی درس گاہوں کے لیے نہیں ہوا، بلکہ اسے حکیم و علیم پروردگار نے انسانیت کے ہر فرد کی زندگی کے لیے روشن مینار بنایا ہے، تاکہ ہر مسلمان فرد اسے نہ صرف اپنی ذاتی اور شخصی راہِ عمل سمجھے، بلکہ معاشرے میں اسے قرار واقعی حقیقت کے طور پر اپنائے۔ یہ تعلیمات انفرادی طور پر انسان کی عمدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھاتی ہیں، اسے ثابت قدمی بخشی ہیں، اس کے دل و دماغ کی دنیا میں انمٹ نقوش چھوڑ دیتی ہیں۔ پھر مسلم فرد اپنی تمام تر سرگرمیاں ان ہی عالم گیر سچائیوں کے سانچے میں ڈھال کر سرانجام دیتا ہے۔ اس کی شخصیت میں ان تعلیمات کا حسین عکس نظر آتا ہے، کیونکہ یہ صفات و سیرتِ نبویہ کا پرتو ہوتی ہیں، یہ اس لیے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اللہ جل مجدہ الکریم کی منشا کے مطابق عالمِ بشریت کے تمام احوال اور علاقہ جات سے مکمل مطابقت رکھتی ہیں۔ سونے، جاگنے، صلح، جنگ، سنجیدگی، مزاح، غصہ، ناراضی، رضامندی، انفرادی، اجتماعی ہر حالت میں مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی کبھی رتی برابر ربانی ہدایات پر عمل میں کمی کی، فوراً اللہ عزوجل کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی، جیسا کہ عبداللہ بن ام مکتوم کے واقعے میں ہے۔
عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے لگے، اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشہور قریشی سرداروں عتبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، عباس بن عبدالمطلب، ابی بن خلف اور امیہ بن خلف سے مصروفِ گفتگو تھے، انہیں اسلام کی دعوت دے رہے تھے کہ شاید وہ مسلمان ہوجائیں، اسی دوران عبداللہ بن ام مکتوم بار بار آپؐ کو اپنی جانب متوجہ کرنے لگے، انہیں نابینا ہونے کی وجہ سے یہ علم نہ ہوسکا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کن سرکردہ لوگوں سے کس اہم ذمے داری کو نبھانے میں مشغول ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بیزاری نظر آنے لگی اور آپؐ نے خیال کیا کہ یہ قریش کے سرغنے کیا سوچیں گے کہ محمد کے پیغام کو اپنانے والے صرف نابینا، غلام اورکم تر لوگ ہیں۔ آپؐ نے عبداللہ بن ام مکتوم کی پکار پر دھیان نہ دیا اور قریشی سرداروں سے گفتگو میں مشغول رہے، اس پر اللہ نے یہ ارشادات نازل فرمائے:
عبس وتولیo اَن جآء ہُ الاعمیٰo (عبس:2)
چنانچہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق، عادات اور احوال کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہیں اس کے جواب میں اس سے زیادہ نفیس، عمدہ اور عقدہ کشا جملہ نہ ملا کہ انہوں نے سائل سے فرمایا:
’’کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق سراپا قرآن تھا۔‘‘ (مسلم الصحیح: رقم746)
جب کبھی ہم کسی مشکل معاملے میں پھنس جاتے ہیں تو ہمیں اس کی حلت و حرمت، اسلام کے مقاصد سے اس کے قرب و بُعد کا اندازہ نہیں ہوپاتا اور ہم اس کے بارے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرسکتے تو اس کا حل اور واضح ہدایت ہمیں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور رہ نمائی میں دستیاب ہوتی ہے۔
کبھی کسی فرد کو اسلام میں ایسا جزئیہ نظر آتا ہے جو اسے متاثر نہیں کرتا، اس کی مراد اور مفہوم اسے اپیل نہیں کرتا، لیکن اگر وہ ژرف نگاہی سے کام لے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ جزئیہ کب، کیوں اور کیسے موقع پر صادر ہوا تو اس پر حقیقت عیاں ہوجائے گی۔ ٹھنڈے دل اور گہرے غور و فکر سے کام لے کر اسلامی احکام کی تمام بنیادیں اور ان کے حقیقی اسباب اس پر روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائیں گے۔
-2 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہی میں ہر انسان کے لیے زندگی کی وہ روشن راہیں نمایاں ہوجاتی ہیں جو انسانیت کے ہر پہلو کی نمائندگی کرتی ہیں، اور اس کا ہر عمل انسانیت کے اعلیٰ تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتا ہے، اور یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام تر بشری میلانات، رجحانات کے باوجود انسانی عروج کی انتہائی منازل پر فائز ہیں اور آپؐ کی ذات بشریت کے لیے سچی اور اعلیٰ ترین مثال ہے کہ آپؐ ہر حالت میں اپنے بشری اوصاف سے الگ نہ تھے۔ کوئی لمحہ ایسا نہ تھا کہ آپؐ سے بشری اوصاف زائل ہوئے ہوں۔ بلکہ تمام انسانی احساسات و جذبات زندگی کے ہر موڑ پر آپؐ کے ساتھ رہے۔ خوف و امید ہو یا فقر و غنا، تنہائی و محفل آرائی ہو یا تجرد وازدواج، مجردوصاحبِ عیال، جنگی قائد، سیاست دان، رہنما، حکمران، قاضی و منصف،حالتِ امن و اطمینان ہو یا خوف و ہراس کا عالم، فتح و نصرت سے نوازے گئے ہوں یا مغلوب و محزون۔۔۔ ہر حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِعمل یکساں رہا۔ استقامت، عدل و مردانگی اور اعلیٰ اخلاق آپؐ کا طرۂ امتیاز رہے۔ ہر منصف مزاج شخص خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلم اس کا شاہد عدل ہے۔ آپؐ یقیناًعلی الاطلاق عظیم ترین بشر ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کے پیش نظر کسی کی یہ مجال نہیں کہ آپؐ کی روشن و تاباں، اعلیٰ و ارفع زندگی پر حرف گیری کرسکے۔
مسلمان فرد ببانگِ دہل کہہ سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یتیم تھے، آپؐ نے عظیم اور نابغۂ روزگار اساتذہ سے تعلیم و تربیت نہیں پائی، آپؐ کو یہ تمام اوصاف و کمالات علیم و خبیر رب تعالیٰ نے عطا فرمائے، خود آپ کا ارشاد ہے:
’’میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور بہترین تادیب کے بعد مجھے مکارم اخلاق کا حکم دیا۔ اور فرمایا: آپ ان سے درگزر کرتے رہیے اور ان کو اچھی باتوں کا حکم دیتے رہیے اور جاہلوں سے کنارہ کش رہیے(الاعراف 199)۔‘‘ (ابن السمعانی۔ ادب الاملاء والاستملاء:ص1)
اس کی گواہی اللہ عزوجل کے اس فرمان میں بھی موجود ہے:
’’کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا اور ٹھکانا دیا۔ اور آپ کو بے خبر پاکر منزل پر پہنچایا۔ اور آپ کو تنگ دست پاکر غنی بنایا۔‘‘(الضحیٰ:6تا8)
سیرتِ نبویؐ کا مطالعہ کرنے والے پر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل میں یکجائی تھی، آپؐ کا ہر عمل آپؐ کے قول کے مطابق ہوتا تھا، یہ نہیں تھا کہ آپؐ لوگوں کو نیکی اور بھلائی کا حکم فرماتے اور خود اس سے تہی دامن رہتے، بلکہ سب سے پہلے آپؐ ہی اس پر عمل پیرا ہوتے۔
علامہ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ میں غور و فکر کرنے والا لامحالہ اس کی تصدیق کرے گا کہ آپؐ کا ہر عمل آپؐ کے قول کے مطابق ہوتا تھا، اور وہ یقیناًیہ گواہی دے گا کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں، اگر آپؐ کوئی معجزہ لے کر نہ آتے تب بھی آپؐ کی سیرتِ طیبہ آپؐ کی صداقت کے لیے کافی تھی۔ (ابن حزم۔ الممل و النحل:ج2، ص90)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس معطر و باعظمت سیرتِٖ کریمہ کی پیروی نہ صرف آپؐ کی حیاتِ طیبہ میں اور بعد میں بے شمار لوگوں نے کی، جن میں معاشرے کے اعلیٰ افراد اور عوام الناس سب شامل ہیں، جن میں سے ایک عمان کے حکمران ابن الجلندی بھی ہیں، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے آپؐ کے اوصاف سننے کے بعد کہا: بہ خدا آپ نے مجھے اس نبی اُمی کے بارے میں بتایا ہے کہ جب وہ کسی نیکی کا حکم دیتے ہیں تو سب سے پہلے خود اس پر عمل کرتے ہیں، اور اگر کسی برائی سے بچنے کا حکم فرماتے ہیں تو سب سے پہلے خود اس سے احتراز فرماتے ہیں، وہ فتح یاب ہوکر اتراتے نہیں، مغلوب ہوکر گھبراتے نہیں، اور ایفائے عہد کرتے ہیں، ذمے داریاں نبھاتے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں آپ نبی برحق ہیں۔(قاضی عیاض۔ الشفا: ج1، ص249۔ ابن حجر۔ الاصابہ:ج1، ص262)
اور اس نے یہ اشعار کہے:
’’میرے پاس عمرو آئے، ایسا حق اور نصیحت لائے جس کے بعد کسی چیز کی گنجائش باقی نہیں رہتی
میں نے عمرو سے کہا آپ ایسی سچائی لائے جس کا عمان میں جلندی پرچار کرے گا۔
اے عمرو! میں اللہ پر ایمان لایا جس کا دو وادیوں کے درمیان فصیح اللسان اعلان رہا ہے۔
انسانیت کے کمال پر مبنی رفیع الشان سربلندی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میں ہے۔‘‘
وقت، مقام، مذہب اور زبان کے اختلاف کے باوصف جو شخص دنیا میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے اور دنیاوی منازل و مدارج طے کرتا ہے، وہ ایسے رہنما کا خواہاں ہوتا ہے جس کی سیرت قصے کہانیوں، چاہنے والوں کی خرافات، جاہلوں کی تعجب خیز، تحیر انگیز داستانوں اور منکرین و مخالفین کے مسخ کردہ تجزیوں سے پاک ہو، ایسی پاکیزہ زندگی کہ پڑھنے والا بغیر تعصب اور جاہلانہ کورپن کے اسے اپنانے کی کوشش کرے۔ کیونکہ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ دل اس شخصیت کی طرف جلد مائل ہوتے ہیں جس میں انسانیت اپنے تمام تر اوصاف کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ انسانیت کے روشن چراغوں کی طرف قلوبِ سلیمہ کا یہ میلان ان کی فطرت میں شامل ہے، ورنہ دنیا کے عظیم القدر انسانوں کی سیرت اور بے بدل، عبقری شخصیات و مصلحین کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب کی ترتیب و تدوین کا کوئی مقصد نہ ہوتا۔
اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کمالِ انسانی کا مثالی نمونہ ہوں، اور انسانوں سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ آپؐ کی اتباع میں سرگرم ہوں اور آپؐ کے اخلاقِ طیبہ سے مزین ہوں، آپؐ کے آداب و محاسن کو اپنا وتیرہ بناکر آپؐ کی راہِ عمل کے راہی بنیں، کیونکہ آپؐ کے اخلاقِ عالیہ ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ سیرت کے نمائندہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وانک لعلی خلق عظیم(القلم:4)
آپؐ کے اخلاقِ حسنہ کی یہ عظمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے اسوہ اور قابلِ اتباع نمونہ قرار دیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجو ا اللّٰہ والیوم الاٰخر(الاحزاب:21)
البتہ تمہارے لیے رسول اللہ (کی زندگی) میں اس کے لیے عمدہ نمونہ ہے، جو اللہ اور قیامت کی امید رکھتا ہے۔
امام محمد بن عیسیٰ الترمذی کہتے ہیں، اُسوہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا، آپؐ کی سنت کی اتباع اور قول و فعل میں آپؐ کی مخالفت سے اجتناب مراد ہے۔
ان حقائق سے آگاہی کے بعد ہمارے لیے لازم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور تاریخ کا بہ نظر عمیق مطالعہ کریں، تاکہ ہمارے لیے آپؐ کی سیرتِ طیبہ کی پیروی آسان ہو، اور آپؐ کے نقشِ قدم پر چل کر منازلِ ترقی طے کرنا ہمارا مقدور بنے۔
سیرتِ نبویہ سے شناسائی ہی انسان کے لیے مدارجِ کمال اور مراتبِ عالیہ تک رسائی کی روشن شاہراہ ہے، اسی راہ کی جادہ پیمائی میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی پنہاں ہے۔ ذرا سوچیے! کون سا انسان ہے جس کے دل میں عروج و کمال تک رسائی کی خواہشیں کروٹ نہیں لیتیں!
حیاتِ سید کائنات، سیرتِ نبویہ کے تقاضے انسان کے کسی حاسے یا جبلت و فطرت کو معطل نہیں کرتے، بلکہ وہ انہیں اعلیٰ اور اکمل طریقے سے روبہ عمل لاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلیم ہی نہیں سید الحلما تھے، ناپسندیدہ باتوں اور صورت حال میں آپؐ کا حلم اور حوصلہ دیدنی ہوتا تھا، جھگڑوں اور تنازعات میں آپؐ سے بڑھ کر کوئی سلیم الطبع نہ تھا، اعرابی گنواروں کی جفائیں خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے، زبانِ اقدس سے کبھی کوئی ناگوار کلمہ نہ صادر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی حلیم فرد ایسا چشمِ عالم نے نہیں دیکھا جس نے کبھی نہ کبھی ٹوکر نہ کھائی ہو، نہ ایسا باوقار شخص سامنے آیا کہ جس کی زبان لغزش سے مبرا ہو۔
قریشِ مکہ نے آپؐ کو ہر طرح سے ستایا، ظلم و ستم کا ہر حربہ آزمایا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی صبر کا دامن نہ چھوڑا، اور ان کی ستم رانیوں سے درگزر فرماتے رہے، آپؐ کے خلاف ناگفتہ حرکتوں میں نہ صرف اُن کے احمق اور نادان افراد شریک ہوتے تھے بلکہ اُن کے آقا و غلام، خوردوکلاں، سردار و حاشیہ بردار سب شامل رہتے، لیکن آفرین ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم و درگزر پر کہ کبھی بھی کسی سے بھی انتقام نہیں لیا۔ قابو پایا تو معاف فرمادیا، درگزر فرمایا۔ فتح مکہ کے دن آپؐ نے ان کے سرافگندہ مجمع سے دریافت فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے میں تم سے کیا سلوک کروں گا؟ سب بہ یک زبان بولے: آپ کریم چچا کے بیٹے ہیں، آپ ہمیں معاف فرمادیں گے، اور اگر آپ بدلہ لیں گے تو ہم واقعی اس کے حق دار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ میں وہی کہتا ہوں جو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا:
لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللّٰہ لکم وھو ارحم الراحمینo (یوسف:92)
اور ان کے لیے دعا فرمائی: بارِ الٰہا! تُو نے قریش کو ابتدا میں سزا دی ہے، اب ان کو آخر میں اپنی نعمتوں سے نواز۔
ہند بنتِ عتبہ حاضر ہوتی ہے، یہ وہی ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کا مُثلہ کیا تھا، ان کا پیٹ چاک کرکے ان ایک کلیجہ نکال کر چبایا تھا۔ آپؐ نے سب کچھ بھول بھال کر چشم پوشی فرماتے ہوئے اسے بیعت فرمالیا، شکوے کا ایک لفظ زبانِ اقدس پر نہ لائے۔ اسی لیے آپؐ کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرنے والوں نے آپؐ کی یہ صفت نمایاں کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی بدلہ نہیں لیا۔
لیکن جب بات ہوتی حقوق اللہ کی پامالی کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی طرح کی رعایت نہ کرتے، چشم پوشی کرتے نہ سودے بازی۔ آپؐ کے صحابہؓ آپؐ کے اوصاف کے بیان میں کہتے ہیں: جب اللہ کی حدود کی ہتک کی جاتی تو کوئی چیز آپؐ کے غصے کا سامنا نہیں کرسکتی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب شخصیت کا محبوب بیٹا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما اس مخزومیہ خاتون کی سفارش کرنے کو آیا جس کے چوری کرنے پر حد واجب ہوگئی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کسی حد کے ساقط کرنے کی سفارش کررہے ہو، اللہ کی قسم اگر، پھر آپؐ نے ایک نہایت محترم خاتون کا نام لیا، فلاں بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا، تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ ان میں اگر کوئی معزز شخص چوری کرلیتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور اگر کسی کمزور شخص سے یہ جرم سرزد ہوتا تو وہ اس پر حد جاری کرتے۔
جب ہم بشری جبلتوں کا تقابل کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے سب لوگ انہیں روبہ عمل لاتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کمال پر مبنی کاموں پر لگایا اور بہترین نتائج کا حصول ممکن بنایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے بچپن میں مسجد کے صحن میں کھجور کا گرا ہوا دانہ پایا، اسے اٹھا کر منہ میں رکھا تو آپؐ نے ہاں، ہاں کہہ کر اسے ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا: تمہیں معلوم نہیں ہم صدقے کا مال نہیں کھاتے۔ جب کہ اسی مسجد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سونے چاندی کے ڈھیر تقسیم فرماتے تھے۔
جہاں حلال نہ ہونے کی صورت میں معمولی چیز اقل قلیل سے منع فرمایا، وہاں وزن و گنتی کی حدودو قیود کے ماورا، جودوسخا، منوال و عطا کے دریا بہادیے۔
انسانی عروج، بشر کا کمال کسی ایک جانب کو معطل کرنے یا کسی فطری اور جبلی وصف کا گلا گھونٹ کر دوسری کسی وصف کو بام عروج تک پہنچانے کا نام نہیں ہے، کیونکہ یہ اللہ کی تخلیق میں تغیر اور انسانی فطرت پر ستم ہے، بلکہ ہر جبلی وصف کو اس کا صحیح مقام دینا ہی بشری عروج کا کمال ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے مطالعے ہی سے ہمیں دعوتِ اسلام کی ابتدا اور اس کے بہ تدریج نقطۂ عروج تک پہنچنے کے مراحل کا علم ہوتا ہے۔ ابتدا ارشادِ الٰہی اقرا باسم ربک الذی خلق (العلق:1) سے ہوتی ہے، پھر حکم ہوتا ہے:
فاصدع بما تومرواعرض عن المشرکین (الحجر:94)
دورانِ دعوت ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ) ’’جب کافروں نے ان کو (مکہ سے) نکالا تھا، جب وہ دو میں سے ایک تھے اور وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ تو غم نہ کر یقیناًاللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ (التوبہ:40)
تاآنکہ دعوتِ اسلام چاروں طرف پھیل گئی، زمین کے باسیوں کے کان اس سے آشنا اور آنکھیں اس کے نور سے منور ہوگئیں تو اختتامی آیات نازل ہوئیں:
(ترجمہ) ’’اور اس دن سے ڈرتے رہو جب تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر شخص کو وہ پورا پورا دیا جائے گا جو اس نے کمایا تھا، اوران پر کسی قسم کا ظلم نہ ہوگا۔‘‘ (البقرہ:281)
اور
(ترجمہ)’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور میں نے تمہارے لیے دینِ اسلام کو پسند کرلیا۔‘‘ (المائدہ:3)
اور پھر آپؐ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔
اگر ہم دوسرے زاویے سے دعوتِ اسلامیہ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہوگی کہ یہ پیغام بشر کی امکانی کوششوں اور اس کی طاقت کی حدود ہی میں ہر طرف پھیلا، اس کی نشر و اشاعت معجزات، جادوگری اور غیبی قوتوں کی مرہونِ منت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سعی شامل نہ ہو اور دعوتِ اسلام چاروں طرف پھیل جائے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے ہمہ تن مصروف رہتے تھے۔ بطور فرشتہ نہیں بطور ایک انسان دعوتِ اسلام کو پوری دلجمعی سے آگے بڑھاتے رہے۔ روزِاول ہی سے یہ اندیشہ آپؐ کے دامن گیر رہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اُن کے مروجہ عقائد اور نظریات کے خلاف پیغام سنائیں گے تو وہ آپؐ کی جان اور پیغام کے دشمن ہوجائیں گے۔ چنانچہ آپؐ نے وحی کی ابتدا میں اُم المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اس کام میں مجھے اپنی جان جانے کا اندیشہ ہے۔(بخاری۔ الصحیح رقم:3)
شروع میں یہ دعوت خفیہ تھی، پھر عَلانیہ دعوت دی جانے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیتوں اور جوروجفا کا سامنا کرنا پڑا۔ آپؐ کو اپنے دشمنوں سے کئی طرح کے حالات پیش آئے، کبھی آپؐ ان پر غالب آگئے اور بعض اوقات وہ کامیاب رہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے مثال عزم و ہمت کے ساتھ مردانہ وار ان حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔
دعوتِ اسلام کی تاریخ کی ورق گردانی کے دوران ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح حالات و واقعات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یکے بعد دیگرے واسطہ پڑتا رہا۔ کبھی محصوری، شہر بدری، جلاوطنی، ذاتی اور اجتماعی مجبوریاں، پے درپے لڑائیاں، دشمنوں کی سازشیں اور بدعہدیاں، سیاسی سودے بازیاں، صلح و امن کے معاہدے۔۔۔ کیا کچھ نہیں ہوا۔ امت کی تشکیل اور ایسے ملک میں نفع بخش اور پُرامن معاشرے کا قیام جو طویل دور سے منظم معاشرے اور مملکتی قواعد و ضوابط سے ناواقف تھا۔ ظاہر ہے یہ سب امور ٹھوس مؤقف اور واضح سیاسی اقدامات کے متقاضی تھے۔
سیرتِ نبوی کا مطالعہ ان تمام امور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوٹوک اور واضح مؤقف کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان تمام حالات میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت، عدل، استقامت اور دقت نظر کی نمایاں مثالیں نظر آتی ہیں۔
سیرتِ نبویہ کا گہرا مطالعہ ہمیں آیات قرآنیہ، ان کے مقاماتِ نزول اور ان کے اسبابِ نزول سے بھی آگاہی بخشتا ہے۔ کیونکہ سیرتِ طیبہ کلی طور پر آیاتِ قرآنیہ سے متاثر ہے، اور قرآنی احکام کے عین مطابق اور اس کی عملی تفسیر ہے۔ بعض اوقات قرآنی آیات کے نزول کا صحیح منشا ہمیں صرف سیرتِ طیبہ ہی سے معلوم ہوتا ہے، چنانچہ ایسی بہت سی آیات ہیں جن کا اگر مقامِ نزول اور سببِ نزول ہمیں معلوم نہ ہو تو ہمارے لیے ان کا سمجھنا مشکل ہو، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
(ترجمہ) ’’نبی کے لائق نہیں کہ ان کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک کہ وہ (نبی) زمین پر اچھی طرح خون ریزی نہ کرلیں۔ تم تو دنیا کا مال و متاع چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔‘‘ (الانفال:68)
ہم گہرے غوروخوص کے باوجود بھی اس آیت کا مفہوم نہیں سمجھ سکتے جب تک کہ ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ اس آیتِ کریمہ کا نزول غزوۂ بدر کے بعد، قیدیوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ طلب کرنے اور صحابہ کرام میں اختلاف رونما ہونے کے بعد ہوا ہے۔
سیرتِ نبویہ کے مطالعے کے دوران ہم قرآن مجید کی ناسخ اور منسوخ آیات کی تعیین کرسکتے ہیں‘ یہ بہت ہی اہم پہلو ہے جس پر دنیا اور آخرت سے متعلق بے شمار شرعی احکام لاگو ہوتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی تاریخ، ان کا مفہوم اورحدیث شریف کے ورود کے سبب اور علت کا پتا چلتا ہے۔ یہ علم ہمیں ان مشکلات سے بچاتا ہے جو احادیث میں تعارض اور تناقض کی صورت میں نظر آتا ہے، اوریہ عقدہ کشائی ہوتی ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات باہم متعارض اور متناقض ہوں، بلکہ ہر ارشاد ایک خاص موقع اور مقام سے تعلق رکھتا ہے، اس طرح احادیث میں باہمی تعارض باقی نہیں رہتا۔
حدیث شریف میں ناسخ و منسوخ کی معرفت ان کثیرالتعداد احکامِ شرعیہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جن کا مدار احادیث ہی پر ہے۔
یقیناًسیرتِ نبویہ ایک مسلمان کی زندگی کی راہِ عمل ہے، شریعتِ اسلامیہ کے فہم کی بہترین اور عمدہ معین و مددگار ہے، روئے زمین پر اس سے عظیم تر، صحیح تر راہِ عمل نہیں دیکھی گئی، کیونکہ یہ افضل البشر اور افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہے۔
آج کل مذاہب کی تاریخ، نظریاتی تحریکوں اور ان کے پیشواؤں کے بارے میں معلومات کا مطالعہ مختلف انداز میں تعلیمی اداروں، کالجوں اور جامعات میں شامل ہے۔ مسلمان فرد کے لیے لازم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی سیرت کا گہرے غور و خوص سے مطالعہ کرے، آپؐ کے پیغام کی بنیادوں کو سمجھے، بلکہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس سیرت طیبہ کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیں کہ سیرتِ طیبہ ہی زندگی کے ہر گوشے میں ہمارے لیے روشن و تاباں مثال ہے۔ سیرتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے ہر فرد کے لیے ایسا صاف و شفاف آئینہ ہے کہ اس آئینے میں ہر انسان اپنی صورت و روح، ظاہر و باطن، قول و عمل پر، حلق و ادب‘ راہِ عمل اور طریق کار کے بارے میں آگاہی حاصل کرسکتا ہے اور اپنے اخلاق کو سنوار سکتا ہے اور اپنے لیے اوجِ کمال کی پسندیہ راہیں منتخب کرسکتا ہے۔
nn