(آصف زرداری کی واپسی؟(میاں منیر احمد

سپریم کورٹ میں پاناما لیکس مقدمہ کی سماعت ملتوی ہوجانے اور ملک میں عسکری قیادت کی تبدیلی کے بعد امکان تھا کہ سیاست میں پیدا ہونے والا تناؤ کچھ عرصہ کے لیے تھم جائے گا۔ لیکن حکومت اور تحریک انصاف میں سیاسی کشیدگی کا گراف نیچے آنے کے بجائے اوپر جارہا ہے، اور اب سڑکوں کے بجائے احتجاج نے پارلیمنٹ کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ حکومت کا مؤقف یہی تھا کہ تحریک انصاف سڑکوں کے بجائے پارلیمنٹ میں آکر بات کرے۔ لیکن پارلیمنٹ میں جو کچھ ہورہا ہے اس نے ملک میں سکون پیدا ہوجانے کی حکومت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ رہی سہی کسر سانحہ کوئٹہ کی کمیشن رپورٹ نے پوری کردی ہے۔ کمیشن کی رپورٹ میں ملک کی سرحدوں کے انتظامی امور کے مسائل سے لے کر نادرا تک، اور کالعدم قرار پانے والی تنظیموں اور نیکٹا کی کارکردگی سمیت تین بنیادی نکات اٹھائے گئے ہیں۔ اتفاق سے ان سب کا تعلق وزارتِ داخلہ سے ہے۔ پہلا نکتہ انتظامی ہے، دوسرا قانونی، اور تیسرا حکومتی اداروں میں باہمی ربط سے متعلق ہے۔ کمیشن نے پچاس روز میں یہ رپورٹ مرتب کی ہے۔ قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی نشان دہی کی گئی ہے اور یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ حکومت جو بھی قانون بناتی ہے یا پالیسی مرتب کرتی ہے اس پر عمل درآمد نہ ہونے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ وزیر داخلہ نے اسے اَنا کا مسئلہ بنالیا اور اس رپورٹ پر اسمبلی میں اظہارِ خیال کرنے کے بجائے ردعمل کے لیے پریس کانفرنس کی۔ پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس سے قبل وہ اپنا استعفیٰ لے کر وزیراعظم نوازشریف کے پاس پہنچے۔ تین برسوں میں پانچ بار وہ وزارت سے مستعفی ہونے کی پیش کش کرچکے ہیں لیکن وزیراعظم انہیں ہر بار استعفیٰ دینے کے بجائے کام پر توجہ دینے کی تلقین کرتے ہیں۔
سانحہ کوئٹہ کمیشن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم ہوا تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ نہایت ایمان دار جج رہے ہیں۔ ان کا تعلق بھی چونکہ بلوچستان سے ہے لہٰذا انہوں نے بلوچستان میں انتظامی مسائل پر بھی کمیشن کی رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔ کمیشن کی رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ بلوچستان دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جہاں پولیس کی عمل داری ہے، اور دوسرا وہ جہاں لیویز ہیں۔ لہٰذا دونوں اداروں کے اختیارات اور باہمی ربط میں کمی سنگین انتظامی مشکلات کی بنیادی وجہ ہے۔ کمیشن کی رپورٹ میں یہ نکتہ نہایت اہم ہے۔ دیگر نکات کا تعلق قانون کی عمل داری اور انتظامی امور سے ہے۔ کمیشن کی رپورٹ میں بنیادی طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ انتظامی لحاظ سے حکومتی اداروں میں بہترین ربط ہونا چاہیے، قانون پر عمل درآمد میں کسی مصلحت سے کام نہ لیا جائے، اور دہشت گردی ختم کرنے کے ذمہ دار اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جائے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا مؤقف ہے کہ انہیں رپورٹ پر اعتراض نہیں ہے، انہیں یہ تحفظات ہیں کہ رپورٹ میڈیا میں مرچ مسالوں کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان بلاشبہ بہت محنتی اور ایمان دار سیاست دان ہیں لیکن وہ ضرورت سے زیادہ حساس ہیں، اسی لیے حکومت کے وزراء اور وزیراعظم کے ساتھ بھی الجھے رہتے ہیں۔ وہ دباؤ میں کام بھی کرتے ہیں، وزارت کے امور میں اعلیٰ درجے کی سفارش بھی مانتے ہیں اور اس کا شکوہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ اسلام آباد میں پولیس افسروں کی تقرریاں اس کی ایک مثال ہے۔ وہ اپنی پارٹی میں سانپ اور سیڑھی والا رویہ رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی کسی بات پر خوش اور کبھی اسی طرز کی بات پر ناراض بھی ہوجاتے ہیں۔ سیاسی لحاظ سے ہر قسم کا تعلق بالائے طاق رکھ کر پیپلزپارٹی سے نمٹنے کے لیے تو ہر وقت وہ اپنی تلوار نیام سے باہر رکھتے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی ان کو کچوکے لگانے سے باز نہیں رہتی۔ انہیں اس الزام کا بھی سامنا رہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے بہت قریب ہیں اور اس کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں‘ جب کہ تحریک انصاف وزیراعظم نوازشریف کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض عناصر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ہر احتجاج میں پچاس فی صد حصہ وزیر داخلہ کا بھی ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے لیے وہ فاختہ اور پیپلزپارٹی کے لیے عقاب سمجھے جاتے ہیں۔ اب سیاسی منظر میں تبدیلی آئی ہے کہ حکومت کے مقابلے میں تحریک انصاف کے بعد پیپلزپارٹی بھی دانت تیز کررہی ہے، وہ چار مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں سڑکوں پر احتجاج کی دھمکی پر قائم ہے۔ سیاسی تناؤ میں مزید تیزی لانے کے لیے آصف علی زرداری کی وطن واپسی کا بھی اعلان کردیا گیا ہے۔
آصف علی زرداری کی وطن واپسی اگرچہ کوئی بڑا سیاسی ایشو نہیں ہے، لیکن جن حالات میں وہ ملک سے باہر گئے تھے اس کے تناظر میں ان کی وطن واپسی واقعی ایک سیاسی ایشو بن رہا ہے۔ وہ اُس وقت ملک سے باہر گئے تھے جب ڈاکٹر عاصم حسین گرفتار ہوئے، مظفر ٹپی کی گرفتاری عمل میں آنے والی تھی، اور شرجیل میمن پر ہاتھ ڈالا جاچکا تھا، تب آصف علی زرداری نے کہا کہ ’’آپ تین سال کے لیے آئے ہیں، ہمیں ہمیشہ رہنا ہے اور ہمیں کچھ نقصان پہنچا تو اینٹ سے اینٹ بجادیں گے‘‘۔ ان کے اس بیان کے بعد اسٹیبلشمنٹ حرکت میں آئی اور آصف علی زرداری علاج کے بہانے ملک سے باہر چلے گئے۔ اب چھے ماہ کے بعد ان کی وطن واپسی کا اعلان ہوا ہے۔ حکومت اور ایوانِ صدر سے نکلنے کے بعد پیپلزپارٹی نے یہ حکمت عملی بنائی تھی کہ وہ ناکامیوں کا سارا ملبہ آصف علی زرداری پر ڈالتے ہوئے کارکنوں کو مطمئن کرنے کی خاطر بلاول بھٹو کو سیاسی میدان میں اتار چکی تھی۔ لیکن اب پارٹی قیادت ان کی وطن واپسی کا اعلان کررہی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ پارٹی کی اصل قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہی ہے، بلاول بھٹو زرداری محض نیٹ پریکٹس کے لیے میدان میں اتارے گئے تھے۔ جہاں تک آصف علی زرداری کی وطن واپسی کے اعلان کا تعلق ہے، یہ اعلان بے نظیر بھٹو کی برسی کی تقریب میں حاضری بڑھانے کی ایک کوشش ہے اور پارٹی ملک میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے موڈ کا بھی اندازہ لگانا چاہتی ہے، لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ سندھ حکومت میں اہم عہدوں پر رہنے والے شرجیل میمن جیسے پارٹی رہنما آصف علی زرداری کے بعد وطن واپس آئیں گے کیونکہ وہ ابھی تک رینجرز کو مطلوب ہیں۔
اگرچہ پیپلزپارٹی وفاقی حکومت کے ساتھ پنجہ آزمائی کررہی ہے لیکن سندھ حکومت پرانی ڈگر پر ہی چل رہی ہے اور سرکاری محکموں میں بدعنوانی کا سفر پوری رفتار کے ساتھ جاری ہے۔ یہ بات کہی جارہی ہے کہ شرجیل میمن جیسے پارٹی کے ایک اہم رہنما کے گھر سے اربوں روپے برآمد ہوئے تھے اور یہ چھاپہ حصہ وصول کرنے کے لیے پارٹی قیادت کی ہدایت پر ہی مارا گیا تھا۔ آصف علی زرداری کے بیرونِ ملک جانے سے کچھ فرق آیا تھا لیکن ان کی وطن واپسی کے اعلان کے بعد حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں اس کا اندازہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے بعد ہی ہوگا۔ پیپلزپارٹی سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں متحرک ہورہی ہے، لیکن تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کا متحرک ہونا اگرچہ حکومت کے لیے پریشان کن قرار دیا جارہا ہے لیکن اس کا دو سرا پہلو یہ ہے کہ حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتیں متفقہ حکمت عملی بنانے کے بجائے آپس میں ہی الجھتے ہوئے مقابلہ بازی پر اتری ہوئی ہیں اور فائدہ حکومت کو ہورہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی کوشش اور خواہش ہے کہ اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ میں اسی طرح آپس میں دست و گریباں رہیں، اسی لیے وہ جب تحریک انصاف کے ساتھ محاذ آرائی کرتی ہے تو پیپلزپارٹی کے بارے میں وزراء رطب اللسان ہوتے ہیں، اور جب پیپلزپارٹی سے ہتھ جوڑی کرتے ہیں تو تحریک انصاف کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ میں موقع محل کے مطابق حکمت عملی سے چل رہی ہے۔ مسلم لیگ طلال چودھری، دانیال عزیز اور عابد شیر علی کو باری باری اپوزیشن کے خلاف استعمال کرتی ہے لیکن تمام تر سیاسی کشیدگی کے باوجود پیپلزپارٹی کے بارے میں کبھی بھی ایک حد سے آگے نہیں جاتی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جہانگیر ترین کو مسلم لیگ (ن) نے مسلسل اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ اب تو پارلیمنٹ میں نہ آنے پر عمران خان کی تنخواہ بند کرنے کا مطالبہ بھی اسپیکر سے کردیا گیا ہے۔ عمران خان نے اعلان کررکھا ہے کہ وزیراعظم ایوان میں آئیں گے تو وہ بھی پارلیمنٹ میں آجائیں گے۔ تحریک انصاف کو دیکھتے ہوئے پیپلزپارٹی نے وزیراعظم کے ایوان میں نہ آنے کی شکایت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم ایوان میں مے فیئرز فلیٹ کے بارے میں اپنے بیان کی وضاحت کریں۔ اسی طرح پیپلزپارٹی ایک اور محاذ پر حکومت کے لیے دردِسر بنی ہوئی ہے کہ اس نیسینیٹ سے پاناما بل پاس کرانے کے بعد قومی اسمبلی میں پاناما بل منظور کرانے کے لیے رابطے شروع کردیے ہیں۔ قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے باعث پیپلزپارٹی اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر بھی یہ بل منظور نہیں کراسکتی۔ یہ بل قومی اسمبلی نے مسترد کردیا تو یہ معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں چلا جائے گا۔ قومی اسمبلی میں اس وقت مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد188 ہے، اور اسے جے یو آئی، مسلم لیگ فنکشنل اور نیشنل پارٹی کے ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ قومی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان کی تعداد23 ہے، اسی طرح قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعداد 45، تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 35 اور جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد4ہے۔ ان دونوں جماعتوں اور اتحادی جماعتوں کے ارکان کی تعداد ملا کر ارکان کی کل تعداد84 بنتی ہے۔ یہ بل قومی اسمبلی میں ایک سادہ اکثریت سے ہی منظور ہوجائے گا جس کے لیے ایوان میں موجود ارکان کی اکثریتی رائے درکار ہے۔
nn