(فاتح سرحد مولانا عبدالحماد بدایوانی (عبدالصمد تاجی

تحریکِ پاکستان کے سپاہیوں میں آج جو چند ہستیاں ہمارے درمیان موجود ہیں ان میں ڈاکٹر آزاد بن حیدر نمایاں ہیں۔ پیرانہ سالی کے باوجود وہ آج بھی تصنیف و تالیف میں مصروفِ عمل ہیں۔ نظریۂ پاکستان کے مبلغ کے طور پر اس سے قبل ان کی چار اہم تصانیف قابل ذکر ہیں: -1 ’’تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ جو سرسید سے قائداعظم تک ایک مستند کتاب ہے۔-2 ’’علامہ اقبال یہودیت اور جمہوریت‘‘ جس میں آپ نے علامہ اقبال کے افکارکی روشنی میں یہودی جمہوریت کو بے نقاب کیا۔-3 انگریزی زبان میں “Iqbal and Jewish Democracy” (اقبال اینڈ جیوش ڈیمو کریسی)۔-4 ’’قائداعظم، چیلنج سیکولرازم‘‘۔ اس میں آپ نے سیکولرازم کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔
1300 بڑے صفحات پر محیط ’’فاتح سرحد مولانا عبدالحامد بدایونی‘‘ انسائیکلوپیڈیا، ادارہ تحقیقاتِ امام احمد رضا انٹرنیشنل کراچی کے ڈاکٹر مجید اللہ قادری نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ فلیپ پر جسٹس (ر) نذیر احمد غازی لکھتے ہیں: ’’مولانا عبدالحامد بدایونی کے دستِ راست جناب آزاد بن حیدر نے مجاہدِ ملت کی حیات و خدمات پر ایک ضخیم کتاب لکھ کر عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے جو برصغیر کی اسلامی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت اختیار کرجائے گا۔ محبانِ پاکستان کی نسلِ نو اپنے مجاہد اکابر کی تعلیمات کو دہرانے کے لیے مولانا عبدالحامد بدیوانی کی بے لوث اور خوش نیت شخصیت کو اپنا راہ نما بنائے تو پاکستان کی غیر اسلامی فضائیں جلد ہی دم توڑ جائیں گی۔‘‘ معروف محقق، دانشور خواجہ رضی حیدر رقم طراز ہیں: ’’آزاد بن حیدر صاحب کی کتاب ’’فاتحِ سرحد مولانا عبدالحامد بدایونیؒ ‘‘ عہدِ حاضر کا بہترین تحفہ ہے۔ وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے۔ مولانا صاحبِ طرز ادیب و شاعر تھے اور آپ کی اس حوالے سے کئی کتب شائع ہوچکی ہیں۔ سیاست، مذہب، خطابت، شعر و ادب ہر شعبے میں آپ نمایاں اور ممتاز تھے۔ آپ نے تحریکِ پاکستان کے دوران متعدد اجلاسوں کی صدارت کی۔ ان کا خطبۂ صدارت نہایت فکر انگیز اور ولولہ خیز ہوتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا بدایونی کراچی تشریف لائے اور مولانا ابوالحسنات (لاہور) کے ساتھ مل کر جمعیت علماء پاکستان کی بنیاد رکھی۔1953ء میں تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ایک رہنما تھے۔ مولانا کا دل دردِ قومی سے لبریز تھا۔ پاکستان کا استحکام اور عالم اسلام کا اتحاد اور سلامتی آپ کو ہر نفس عزیز تھی، اور اپنے اسی مشن کی راہ میں آپ 21 جولائی 1970ء کو عالمِ فانی سے عالم جاودانی کی سمت کوچ کرگئے۔‘‘
ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی نے جو مولانا کے پرانے دوستوں میں تھے، لکھا کہ ’’مولانا بیس سال کے تھے جب 1918 ء میں انہوں نے پہلی بار آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کی۔ یہ اجلاس مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی صدارت میں منعقد ہوا تھا۔ اجلاس میں آپ نے پُرجوش تقریر کی۔ اس کے بعد وہ تقسیم ہند تک آل انڈیا مسلم لیگ کے رکن رہے۔ مارچ 1940ء میں جب قراردادِ پاکستان منظور کی گئی تو مولانا بدایونی نے اقبال پارک لاہور میں قائداعظم کی زیرصدارت قراردادِ پاکستان کے حق میں ولولہ انگیز تقریر کی جس سے سامعین بہت متاثر ہوئے۔ مولانا، قائداعظم کے مخلص ترین معتمد اور جاں نثار ساتھی تھے۔
مولانا کوثر نیازی بھی آپ کو مسلم لیگ کے صفِ اوّل کے مقررین میں شمار کرتے ہیں۔ تحریک پاکستان کے مقررین میں مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا جمال میاں فرنگی محلی، علامہ علاالدین صدیقی اور مولانا محمد بخش مسلم کے نام نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔ قائداعظم کے پیغام کو عام کرنے کے لیے ان حضرات نے ملک کے طول و عرض میں تقریریں کی ہیں اور قیام پاکستان کے بعد بھی وہ ہمیشہ اتحادِ اسلامی کے لیے کوشاں رہے۔
حضرت قائداعظم نے جی ایم سید کی سربراہی میں (جو قائداعظم کے مخلص رفیق اور مسلم لیگ کے پرجوش کارکن تھے) ایک مذہبی کمیٹی قائم کی جس کے ارکان میں مولانا بدایونی بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی کے مقاصد اور تشکیل کی کہانی مشہور صحافی عبدالکریم عابد نے جی ایم سید صاحب کی زبانی اس طرح بیان کی ہے ’’میں نے قائداعظم کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ یہ طے کرلیا جائے کہ پاکستان کا اسلامی نظام حکومت کیا ہوگا؟ میری تجویز ایکشن کمیٹی میں رکھی گئی جو منظور کرلی گئی، مجھے اس کا کنوینربنادیا گیا۔ کمیٹی کے ذمے یہ کام تھا کہ معلوم کرے کہ پاکستان بننے کے بعد اسلامی اصولوں کی بنیاد پر جو آئین ہوگا وہ کیا اور کیسا ہونا چاہیے۔ میں نے اس ضمن میں ایک سوال نامہ تیار کیا اور دوہزار ممتاز افراد کو یہ سوال نامہ بھیج دیا۔ سوال نامے کے جو جوابات آئے ان میں سر آغا خاں، سیدنا طاہر سیف الدین، علامہ مشرقی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور دیگر کئی ممتاز لوگوں کے جوابات تھے، جنہوں نے اسلامی آئین پر اظہارِ خیال کیا تھا۔ یہ ریکارڈ میرے پاس موجود ہے۔ اس کمیٹی میں مولانا عبدالحامد بدایونی، علامہ آئی آئی قاضی، مولانا غلام مرشد اور راجا صاحب محمود آباد بھی شامل تھے‘‘۔ محمد صادق قصوری صاحب اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں کہ ’’قراردادِ پاکستان 1940ء کے تاریخی اجلاس کے بعد قائداعظم چاہتے تھے کہ صوبہ سرحد (خیبرپختون خوا) کے لوگوں کے سامنے قراردادِ لاہور کی تشریح کی جائے اور وہاں لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جائے تاکہ سرخ پوشوں کا زور توڑا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے قائداعظم نے قاضی محمد عیسیٰ کی قیادت میں ایک وفد صوبہ سرحد بھیجا۔ وفد کے دیگر ارکان میں لسان الامت نواب بہادر یار جنگ، مولانا کرم علی ملیح آبادی کے علاوہ مولانا عبدالحامد بدایونی بھی شامل تھے۔ ان صاحبان نے صوبے کے طول و عرض کا دورہ کیا جو نہایت کامیاب رہا اور کانگریس کے بڑے بڑے گڑھوں کی بنیادیں ہل گئیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحبزادہ فریدالدین قادری فرماتے ہیں ’’1953ء میں جب تحریک ختم نبوت چلی تو اس میں آپ نے کھل کر حصہ لیا اور انتہائی علالت کے باوجود فروری 1953ء سے جنوری 1954ء تک کراچی اور سکھر کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ کی چند مشہور تصانیف درج ذیل ہیں:(1) فلسفۂ عبادات اسلامی، (2) فصیح العقائد،(3) کتاب و سنت غیروں کی نظر میں، (4) اسلام کا معاشی نظام، (5) نظام عمل، (6) اسلام کا زراعتی نظام، (7) حرمتِ سود، (8) انتخابات کے ضروری پہلو۔ وغیرہ
مولانا کے بڑے بھائی مولانا عبدالماجد بدایونی بھی تحریک پاکستان کے فعال اور سرگرم کارکن تھے۔
صوبہ سرحد میں جب ریفرنڈم ہوا تو مولانا نے یہاں بڑی خدمات انجام دیں۔ آپ کی پُراثر تقاریر اور ولولہ انگیز بیانات نے مسلم لیگ کی کامیابی کو یقینی بنایا۔ لہٰذا اسی حوالے سے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے آپ کو ’’فاتحِ سرحد‘‘ کا خطاب کیا۔
اجراء کی پُروقار تقریب ’’نوبہار ہال‘‘ صدر میں منعقد ہوئی۔ صدرِ تقریب جسٹس (ر) نذیر احمد غازی لاہور سے خصوصی طور پر شرکت کرنے آئے۔ آپ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ فاتح سرحد مولانا عبدالحامد بدایونی تحریکِ پاکستان کا روشن ستارہ انتہائی سادہ اور سچے عاشقِ رسول تھے جنہوں نے قیام پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا جس کی بنیاد پر قائداعظم نے انہیں ’’فاتح سرحد ‘‘کا خطاب دیا۔ ان کی حیات میں بے شمار عاشقانِ رسولؐ نے ملک کے مختلف حصوں میں جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف دورانِ احتجاج شہیدِ ختمِ نبوت کا اعزاز حاصل کیا۔ آج ہمارے معاشرے میں اتنے بڑے قد کا آدمی نظر نہیں آتا۔ آزاد بن حیدر کا یہ تاریخی انسائیکلوپیڈیا تاریخ پاکستان میں بڑا اضافہ ہے اور اس نے میری معلومات میں 70 فیصد اضافہ کیا ہے۔ یہ کتاب ہر لائبریری، کالج اور یونیورسٹی میں ہونی چاہیے، بلکہ یہ نصاب میں شامل ہونی چاہیے۔ الحاج حنیف طیب نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دو لاکھ پچاس ہزار روپے المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے مولانا کے مزار کی تعمیر و توسیع کے لیے پیش کیے۔ رضوان صدیقی نے کہا کہ آنے والا زمانہ آزاد بن حیدر کو ایک تاریخ دان کی حیثیت سے یاد رکھے گا۔ انہوں نے یہ تاریخی کام کرکے خود کو بھی تاریخ میں محفوظ کرلیا۔ پروفیسر نور احمد شاہتاز نے کہا کہ کتاب پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ آزا دبن حیدر مولانا کے ساتھ ہی پیدا ہوئے ہیں، انہوں نے اس خوبصورتی سے لکھا ہے کہ لگتا ہے وہ چشم دید گواہ ہیں۔ انہوں نے کتاب کے دس ابواب پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔ تقریب سے ظہور الدین امرتسری، عثمان خان نوری، پروفیسر دلاور خان نوری، طاہر سواتی و دیگر نے خطاب کیا۔ منظوم خراج عقیدت طاہر سلطانی نے پیش کیا۔ تقریب میں میرنوا زخان مروت، جلیس سلاسل، محمد احمد صدیقی، السید عبدالرزاق گیلانی، محمد عابد ضیائی، احمد مجاہد، الطاف مجاہد، ذکاء العزیز، عزیز قریشی، نفیس احمد خان، محمد انیس قریشی، سید مختار علی، قاضی نورالسلام، مطاہر حسین صدیقی، ریحان فاروقی کے علاوہ بڑی تعداد میں اہلِ علم اصحاب نے شرکت کی۔ آزاد بن حیدر کی جانب سے صدرِ گرامی کو تحائف اور کتابوں کے تحفے دیے گئے۔ ذکاء العزیز نے علامہ عبدالعزیز عرفی کی کتب پیش کیں۔ تقریب کی خوبصورت نظامت ڈاکٹر مجید اللہ قادری نے کی اور راقم کو ادارے کی تین کتب تحفتاً پیش کیں۔ تمام حاضرین کے لیے پُرتکلف ظہرانے کا اہتمام بھی کیاگیا۔
nn