وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کے دورۂ بوسنیا نے ایک بھولے ہوئے مسلمان یورپی ملک کو یاد دلا دیا ہے۔ بوسنیا ہرزیگووینا اور مملکتِ خداداد پاکستان میں خصوصی مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ ملک بھی پاکستان کی طرح مسلم قومیت کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ جس طرح قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کے لیے مسلم کُش فسادات مسلط کردیے گئے تھے اسی طرح سفید فام یورپ کے واحد مسلمان ملک کی تشکیل پر بھی اس کی مسلمان آبادی کو نسل کُشی کی آگ میں دھکیل دیا گیا تھا۔ بوسنیا کی آزاد مملکت کی تشکیل عہدِ حاضر کی عالمی سیاست کا ایک اہم موڑ ہے، جس نے مسلمانوں کی ذہنی تشکیل پر گہرا اثر ڈالا ہے اور انہیں یہ پیغام دیا ہے کہ دنیا کی غالب قوتیں کسی بھی شکل میں مسلمان ممالک کو آزاد، خودمختار شکل میں دیکھنے کو تیار نہیں، خاص طور پر انہیں سفید فام یورپ میں سفید فام مسلمانوں کی آزاد مملکت کا وجود کسی بھی صورت میں گوارا نہیں۔ بوسنیا کے مسلمانوں کے قتلِ عام میں جو لوگ ملوث تھے وہ ان کے ہی ہم نسل تھے، یعنی بوسنیا کے مسلمان بھی سلاف نسل سے تعلق رکھتے تھے، اور سربیا کی حکومت اور فوج جس نے بوسنیا کے مسلمانوں پر نسل کشی مسلط کی تھی وہ بھی سلاف نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
بوسنیا کے آزاد مسلمان ملک کی تشکیل سوویت یونین کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہوئی تھی۔ افغانستان سے سوویت روس کی پسپائی نے کمیونزم کا خاتمہ کردیا۔ سوویت یونین تحلیل ہوگئی۔ اس کا سب سے پہلا اثر مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک پر پڑا اور ایک ایک کرکے کئی ممالک گرتے چلے گئے۔ اسی ذیل میں مشرقی یورپ کا ملک یوگوسلاویہ بھی تحلیل ہوگیا۔ یوگوسلاویہ کی تحلیل کے نتیجے میں بننے والے دو ممالک سربیا اور کروشیا میں جنگ شروع ہوگئی، اسی کے نتیجے میں ایک چھوٹا سا ملک بوسنیا وجود میں آیا جس کی اکثریتی آبادی مسلمان تھی، اس کے پاس سیاسی اور مذہبی قیادت بھی موجود تھی، لیکن آپس میں متحارب سربیا اور کروشیا مل کر بوسنیا کے مسلمانوں پر حملہ آور ہوگئے، حالانکہ وہ ان کے ہی ہم نسل تھے۔ صرف مذہب کا فرق تھا۔ بوسنیا کے مسلمانوں کے پاس اپنے تحفظ کے لیے ہتھیار بھی نہیں تھے اور باقی مہذب دنیا نے امریکہ کی قیادت میں بوسنیا کے مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لیے ہتھیار حاصل کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ یہی وہ دور تھا جب امریکی تھنک ٹینکوں نے بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اصطلاحات وضع کرکے اسلام، اس کی تعلیمات اور مسلمانوں پر فکری حملوں کا آغاز کردیا تھا۔ اس وقت دنیا کے مسلمانوں بالخصوص امریکہ اور یورپ میں آباد مسلمانوں نے یہ محسوس کیا کہ جدید دنیا نام کے مسلمانوں کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
ایک طویل عرصے تک بوسنیا کے مسلمان کمیونسٹ جابرانہ نظام کی وجہ سے اپنے دین اور اس کی تعلیمات سے محروم تھے، ان کی شکلیں اپنے پڑوسی سفید فام سلاف نسل جیسی تھیں، ان کے لباس یورپی تھے، صرف ان کے نام مسلمانوں جیسے تھے۔ یہ ان بظاہر بے عمل مسلمانوں کا پختہ ایمان تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے مسلمان نام سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھے۔ امریکہ، اقوام متحدہ، ناٹو سب مل کر بوسنیا کے مسلمانوں کے قتلِ عام کا تماشا دیکھتے رہے۔ جو مسلمان اپنے یورپی مسلمان بھائیوں کی مدد اور حفاظت کے لیے جانا چاہتے تھے ان کے راستے بند کردیے گئے اور اپنی حفاظت کے لیے مسلمانوں کی ہر جدوجہد کو دہشت گردی قرار دے دیا گیا۔ یہ وہی وقت تھا جب سوویت یونین کا انہدام ہوچکا تھا۔ سوویت یونین کے خلاف قائم فوجی اتحاد ناٹو اپنی وجۂ جواز ختم کرچکا تھا، لیکن اسی زمانے میں اُس وقت کے ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے بیان دیا کہ کمیونزم کے خلاف اب اصل خطرہ اسلام ہے، اس لیے ناٹو قائم رہے گا۔ اور ہم نے دیکھا کہ امریکہ ناٹو کے ممالک کے ہمراہ افغانستان پر قابض ہوگیا۔ جو کبھی سوویت یونین کا جرم تھا وہ امریکہ، یورپ اور ناٹو کا اعزاز بن گیا۔ اس کے لیے ’’وار آن ٹیرر‘‘ کی اصطلاح گھڑی گئی۔ بوسنیا کی مسلمانوں کی نسل کشی کی داستان اس بات کی دلیل ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کی دعویدار عالمی قوتیں اس بارے میں جھوٹ بولتی ہیں۔ بوسنیا کے بحران کے دوران ہم نے یہ دیکھا کہ ایک دوسرے سے لڑنے والی، ایک دوسرے کا خون بہانے والی طاقتیں مسلمانوں کے خلاف ایک ہوجاتی ہیں۔ روس اور امریکہ بھی مسلمانوں کے خلاف ایک ہوجاتے ہیں۔ ایک طاقت اپنے آلہ کاروں کے ذریعے کسی علاقے کے مسلمانوں کا قتلِ عام کررہی ہوتی ہے تو دوسری طاقت اس کا تماشا دیکھتی ہے۔ بوسنیا کے بحران کے زمانے میں امریکہ بوسنیا کے مسلمانوں کی زبانی حمایت کرتا رہا لیکن عملاً اُن کو ہر قسم کی مدد پہنچنے سے روکتا رہا، بلکہ عملی مدد کو ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیتا رہا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی مزاحمتی طاقت ختم ہوگئی تو ثالث بن کر سامنے آگیا۔ بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کے ثابت شدہ مجرموں کو عالمی عدالت سے بریت کا پروانہ بھی ملا، حالانکہ تعذیب و تشدد اور قتل عام کے شواہد موجود تھے، اجتماعی قبریں دریافت ہوئی تھیں۔ اسی جدید دور میں مسلمانوں کو ’’تعذیبی باڑھوں‘‘ میں قید کردیا گیا تھا۔ ایک طرف مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا اور دوسری طرف امریکی تھنک ٹینک جہاد و قتال کی آیات کے حوالے دے کر اسلام کو دہشت گرد مذہب قرار دے رہے تھے۔ یہ آزادی کا جدید تصور ہے جس کے تحت مسلمانوں کو اپنے تحفظ کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ بوسنیا کے بحران نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ مغربی طاقتوں کی نظر میں روشن خیال اور بنیاد پرست کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ بوسنیا میں تو ان کو اپنے ہم نسل سفید فام مسلمان بھی برداشت نہیں ہوتے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بوسنیا کے مسلمان سلاف نسل سے تعلق رکھتے تھے، وہ سرب تھے یا کروٹ، لیکن یہ پہچان ان کو قبول نہیں تھی۔ اس لیے بوسنیا کے مسلمانوں نے اپنی نسلی شناخت کو بھی ’اسلام‘ قرار دیا۔ اسی وجہ سے یورپی نظر آنے اور یورپی ثقافت کا حصہ بننے کے باوجود بوسنیا کے مسلمانوں کے وجود کو برداشت نہیں کیا گیا اور بوسنیا کے مسلمانوں کے قتل عام میں سابق کمیونسٹ روس، آرتھوڈوکس، کیتھولک مسیحیت مل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے اور پروٹسٹنٹ مسیحی امریکہ مسلمانوں کے قتل عام کا تماشا دیکھتا رہا۔ بوسنیا کے مسلمانوں کے قتل عام نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بالعموم اور یورپ اور امریکہ میں آباد مسلمانوں کو بالخصوص یہ پیغام دیا کہ وہ کتنا ہی اپنے مذہب سے دور ہوجائیں، دنیا ان کی مسلمان شناخت کر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے ان کے مادی وجود کی ضمانت بھی ان کے روحانی، اسلامی وجود کی طاقت اور استحکام پر ہے۔