کوئٹہ میں دسمبر کا مہینہ سخت سردی کا ہوتا ہے اور افغانستان میں بھی شدید برف باری ہوتی ہے اور پہاڑ برف سے ڈھک جاتے ہیں۔ ایک ایسی ہی برفانی رات میں کابل کے قریب بگرام ایئرپورٹ پر سرخ فوجوں نے اترنا شروع کردیا تھا اور وہ سالانگ سے ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کے ذریعے کابل کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ اس زمانے 1978)ء) میں سوویت یونین کے صدر برژنیف تھے۔ دوسری طرف ایران میں امریکہ نواز شہنشاہ کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ یہ حسنِ اتفاق تھا کہ افغانستان میں سرخ انقلاب قدم جما رہا تھا جبکہ ایران میں رضا شاہ پہلوی کا محل لرز رہا تھا، شاہ بھاگنے کی تیاری کررہا تھا اور امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب ایک غلیظ شہنشاہیت کو نیست و نابود کرنے کے لیے بڑھ رہا تھا۔ ایران میں عوام نے فروری 1979ء میں شاہ کے نظام کو شکست دے کر انقلاب کو کامیاب کردیا تھا۔ 1978ء میں سرخ فوجوں نے افغانستان کے صدارتی محل پر ہلہ بول دیا تھا۔ صدرِ افغانستان حفیظ اللہ امین نے دلیرانہ مزاحمت کی مگر جان کی بازی ہار گیا اور افغانستان سرخ سامراج کے قبضے میں چلا گیا۔ یہ خبر 27دسمبر کی یخ بستہ رات کو بازار میں سنی۔ اُس وقت مَیں کوئٹہ کی ایک مسجد کے پاس سے گزر رہا تھا۔ خوف کی ایک لہر جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔ مسجد کے میناروں کی طرف دیکھا اور دعا کی: یارب پاکستان کی حفاظت فرما اور ان آزاد میناروں سے تیرے نام کی کبریائی بلند ہوتی رہے۔ اس کے بعد پاکستان میں افغان مہاجرین کا ریلہ آنا شروع ہوگیا اور پاکستان کی سرحدوں پر خطرات منڈلانے لگے۔ ایک خیال ذہن میں آیا کہ کہیں پاکستان بکھر نہ جائے۔ یہ بالکل ابتدائی مرحلے کے خیالات تھے۔ ایک خیال یہ بھی آیا کہ افغان قوم ایک بہادر اور اسلام کی شیدائی قوم ہے، وہ سرخ استعمار کا مقابلہ کرکے اسے شکست سے دوچار کرسکتی ہے۔ پاکستان کا لیفٹ، سیکولر اور قوم پرست گروہ خوشی کے شادیانے بجارہا تھا، اس کی خواہش تھی کہ پاکستان اس سرخ عفریت کی لپیٹ میں آجائے۔ اُس وقت دونوں خیالات ممکن شکل اختیار کرسکتے تھے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے افغان مجاہدین اٹھ کھڑے ہوئے اور تاریخی مزاحمت شروع کردی۔ پھر خوف کے بادل چھٹنا شروع ہوگئے اور اندازہ ہوگیا کہ یہ مزاحمت طول کھینچے گی۔ مغرب کو بھی اندازہ ہوگیا کہ ریچھ جال میں پھنس گیا ہے اور اس کو گھیرا جاسکتا ہے۔ یوں مغرب کو اپنے حریف کو اُس کے منطقی انجام تک پہنچانے کا موقع ہاتھ آگیا اور اس کشمکش میں مغرب بھی داخل ہوگیا، اپنی عددی قوت کے ساتھ نہیں بلکہ وسائل کے ساتھ۔۔۔ اور تیل پیدا کرنے والے مشرق وسطیٰ کے ممالک کو بھی اپنے مفادات خطرے میں محسوس ہوئے تو انہوں نے بھی وسائل کے منہ کھول دیے۔ اس گمبھیر اور پیچیدہ صورت حال نے مغرب اور کئی دوسرے ممالک کے دانشوروں، سیاسی لوگوں اور خفیہ تنظیموں کے ایجنٹوں کو اس طرف متوجہ کردیا تاکہ پاک افغان بارڈر کی سیاسی صورت حال کا صحیح ادراک کرسکیں۔ جاسوسوں نے بلوچستان کا رخ کیا اور وہ بلوچستان کے قوم پرست لیڈروں سے رابطے میں آگئے تاکہ ان کی سوچ اور لائحہ عمل سے آگاہ ہوسکیں۔ نواب بگٹی سے سیاسی دوستانہ تھا، ان کے پاس افغانستان کی پیچیدہ صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے آنا جانا شروع ہوگیا اور پھر معمول بن گیا۔ ان کی بیٹھک بگٹی ہاؤس ایک لحاظ سے سیاسی ہائیڈ پارک بن گئی، اور رات کا کھانا اکثر بگٹی ہاؤس میں ہی ہوتا۔ ایک دن سرشام وہاں پہنچا تو ان کی محفل میں ایک سرخ و سفید کسرتی بدن کا شخص نظر آیا۔ اپنی جوانی میں Dr, No فلم دیکھی تھی، اس میں روسی جاسوس کی شکل مجھے یاد تھی، بگٹی ہاؤس میں موجود یہ شخص بالکل اُس کی کاپی تھا۔ جب پہلی نظر پڑی تو اندازہ نہ تھا کہ یہ اجنبی شخص کون ہے۔ نواب بگٹی جب کمرے میں داخل ہوئے تو میری طرف مسکراتے ہوئے اردو میں کہا کہ یہ تمہارا دوست ہے؟ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کہاں سے میرا دوست ہوگیا! نواب بیٹھ گئے تو تعارف کرایا کہ یہ سوویت یونین کا صحافی ہے اور افغانستان سے آیا ہے۔ میرا اُس سے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اِن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ حالانکہ اُس وقت میری پوسٹنگ بطور لیکچرار کالج میں تھی، جماعت اسلامی کا رکن نہ تھا۔ لیکن دل میں ارادہ کرلیا کہ تردید نہیں کروں گا۔ اور ذہن کو تیار کرلیا کہ یہ KGB کا ایجنٹ ہے، اس نے ایک صحافی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، یہ افغانستان سے ہوکر آیا ہے، اور عرب ممالک کو بھی ہاتھ لگاتا ہوا آیا ہے۔ جب اُس نے سنا کہ میرا تعلق جماعت اسلامی سے ہے تو جارحانہ انداز اور رویہ اختیار کرلیا اور فوراً مجھ سے سوال کردیا کہ آپ جماعت اسلامی کے لوگ افغان گوریلوں کو ہتھیار فراہم کررہے ہیں؟ یہ کہتے ہوئے اُس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آنکھوں میں نفرت سمٹ آئی۔ میرا ذہن اس حملے اور سوال کے لیے بالکل تیار تھا۔ میرا جواب تھا: بالکل، ہم ہتھیار فراہم کررہے ہیں۔ اس جواب پر وہ اور مشتعل ہوگیا اور کہا کہ آپ لوگ عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کررہے ہیں۔ میرا جواب جارحانہ تھا، میں نے طے کرلیا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کروں گا۔ میں نے کہا کہ جو بھی تمہارا حامی ہوگا خواہ وہ عورت ہو یا مرد، ہم اس کو ماریں گے۔ اس پر وہ مزید مشتعل ہوگیا۔ اس کا خیال تھا کہ عورتوں اور بچوں کے مسئلے پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کروں گا، لیکن ایسا نہیں ہوا تو اُس کا اشتعال بڑھتا چلا گیا۔ پھر اُس نے کہا کہ افغانستان میں تم اپنے مستقبل سے لڑرہے ہو۔ میرا جواب تھا کہ ہم اپنے اس مستقبل سے بھی لڑیں گے جو ہمارا دشمن ہوگا، ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ پھر اس نے کہاکہ ہم نے افغانستان میں سڑکیں بنوائی ہیں، کیا یہ ترقی نہیں ہے؟ میرا جواب تھا کہ تم نے سڑکیں اس لیے بنوائی تھیں کہ تمہیں ان سڑکوں کے ذریعے ٹینک اور بکتربند گاڑیاں لانا تھیں تاکہ افغان ملت کا خون کرسکو۔ پھر اُس نے احسان جتایا کہ ہم نے پاکستان میں اسٹیل مل لگائی۔ اس پر میں نے کہا کہیہ تو بتاؤ افغانستان میں سوویت یونین نے کتنے کارخانے اور ملیں لگائی ہیں؟ اِس سوال کا جواب اُس کے پاس نہ تھا۔ اس کا رویہ مدافعانہ ہوگیا، اس کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ کوئی شخص اتنا جارحانہ رویہ اختیار کرے گا۔ اب اُس پر میں نے ایک اور سوال کا حملہ کردیا کہ سوویت یونین دنیا بھر میں بادشاہت اور جاگیرداری کا مخالف ہے اور تمہارا دعویٰ ہے کہ سوویت یونین
(باقی صفحہ 49پر)
فرسودہ بادشاہت کا مخالف ہے، لیکن افغانستان میں تم لوگ اس رجعت پسند بادشاہ کے حامی ہو، پھر کس طرح دعویٰ کرسکتے ہو کہ تم لوگ روشن فکر ہو؟ تمہارا عمل تو رجعت پسندانہ ہے اور تم تو شہنشاہیت کے طرفدار ہو۔
ہماری بحث طول کھینچ رہی تھی، اس میں تیزی آرہی تھی، اور کے جی بی کا ایجنٹ بہت زیادہ مشتعل ہوگیا تھا۔ نواب بگٹی اس بحث کو سن رہے تھے، انہوں نے درمیان میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ اب چونکہ کھانے کا وقت ہوگیا تھا، نواب نے مداخلت کی اورکہا کہ اب پہلے ہم کھانا کھائیں گے۔ یہ ایک دلچسپ تاریخی بحث تھی۔