(آرتھو ڈکس روس اور تہزیبوں کا تصادم(عمر ابراہیم

179ج کی دنیا میں ’تہذیبیں‘ مرکزی مباحث کا ناگزیر موضوع بن چکی ہیں۔ صدی پیچھے علامہ محمد اقبالؒ اورسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ قدرے فصاحت سے مشرق میں یہ موضوع شعر، نثر، تشریح، تصریح، اور تفسیر میں پیش کرچکے تھے۔ مغرب میں یہ موضوع برطانوی مؤرخ آرنلڈ جے ٹوائن بی کے مطالعہ تاریخ سے متعارف ہوا۔ انسانوں کی انگریزی تاریخ نئی تعریفات و تشریحات سے دوچار ہوئی۔ بہترین انسانی تہذیب کی وضاحت میں ٹوائن بی نے مذہب کا کردار ازسرنو زندہ کردیا۔ ٹوائن بی نے لکھا ’’انسانی تعلقات کے تمام مسائل کا حل مذہب کے پاس ہے، خواہ یہ تعلقات والدین اور اولاد کے ہوں، یا ایک قوم کے دوسری قوم سے تعلقات ہوں۔ آدمی کے سامنے ہمیشہ سے یہ سوال رہا ہے کہ آیا اُسے اپنی طاقت کی پرستش کرنی ہے یا خدا کی طاقت پر ایمان لانا ہے‘‘۔ تاریخ کی تہذیبی تشریح نے دنیا کا نقشہ بدل دیا، مغربی مفکرین اور مؤرخین کی سوچ کا سانچہ بدل دیا۔ قومی ریاستیں، نسلی درجہ بندیاں، وطن پرستی، ثقافتی ولسانی شناختیں بے وقعت ہوگئیں، اور جغرافیائی لکیروں میں سمٹ گئیں۔ تہذیبی شناخت کی تلاش، تراش، اور اظہار ناگزیرضرورت بن گیا۔ شکست خوردہ روس نے امریکہ اور یورپ سے زیادہ تہذیبی شناخت کی ضرورت کو محسوس کیا۔ اپریل 2005ء میں صدر ولادی میر پیوٹن نے قوم سے خطاب میں کہا کہ’’(کمیونزم کی موت اور سوویت یونین کا خاتمہ) بیسویں صدی کی سب سے بڑی سیاسی وجغرافیائی تباہی تھی۔‘‘
مغرب میں عیسائی تہذیب کا احیاء اور روس میں شناخت کا بحران متوازی خطوط پرچلے۔ امریکہ اور یورپ کی مانند روس نے بھی عیسائیت میں پناہ تلاش کی۔ صدر پیوٹن نے کہا: آرتھوڈکس عیسائیت روس کی قومی شناخت ہے۔ ماسکوکے مرکزی گرجا گھرکے راہب کیریل نے 2012ء کے انتخابات سے پہلے فرمایا کہ جب سے پیوٹن نے روس کا اقتدار سنبھالا، ملک مضبوط ومستحکم ہوا، اور یہ سب ’خدا کا معجزہ‘ ہے۔ پیوٹن کے تحت کریملن نے لوگوں کو چرچ تک واپس لانے کے لیے کافی تگ ودو کی ہے۔ پیٹر یارک کیریل صدر پیوٹن اور وزیراعظم مدودیف کے ساتھ آرتھوڈکس عیسائیت کے عالمی اتحاد کے لیے کئی غیرملکی دورے کرچکا ہے۔
نئی تہذیبی شناخت کی تراش خراش محض آرتھوڈکس عیسائیت کے احیاء اور فروغ تک ہی محدود نہیں رہی ہے۔ اسلامی تہذیب سے تصادم میں بھی روس کا نیا کردار ابھرکر نمایاں ہوا ہے، اس میں کمیونسٹ سوویت یونین کی شکستہ نفسیات بھی موجود ہے۔ نئے آرتھوڈکس روس کو مغربی تہذیب کا یوروایشیائی ورژن سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ چیچنیا سے شام تک اور ترکی سے وسط ایشیائی ریاستوں تک اسلامی تہذیب سے حالتِ جنگ میں ہے۔ روس کی یہ حالتِ جنگ موجودہ حالات میں باقی مغرب سے مختلف حیثیت اختیارکرگئی ہے۔ روس کے سامنے بطور سپر پاور احیاء، تہذیبی شناخت، اور علاقائی بالادستی کے ناگزیر سوالات کھڑے ہیں۔ کریملن بہ یک وقت تینوں سمتوں میں کام کررہا ہے۔ امریکی صدر اوباما کی غیر فعالیت اور نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر سنجیدہ صورت حال نے مشرق وسطیٰ میں روس کی مرکزی حیثیت مستحکم کردی ہے۔ عالمِ صہیون نے بھی روس کی آرتھوڈکس آمریت میں ایجنڈے کی آسانیاں محسوس کی ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ماسکو جاکر پیوٹن انتطامیہ سے مستقبل کے امکانات پر راز و نیاز کیے ہیں۔
حالات یہ ہیں کہ روس مشرق وسطیٰ کی بساط پر کلیدی کردار ادا کررہا ہے، شیعہ سنّی مہروں کی خطرناک چالیں چل رہا ہے۔ ایک جانب بشارالاسد اور ایران کا اتحادی ہے، داعش کے مقابل مجاہدین پر بم برسا رہا ہے۔ دوسری جانب شام کی مسلمان آبادیاں ملیامیٹ کررہا ہے۔ ترکی میں دہشت گردی کے واقعات کی ہر ممکن منصوبہ بندی کررہا ہے۔ اس سلسلے میں کرد نسل پرست دہشت گرد اسرائیل اور روس کی پراکسی قوت بن چکے ہیں۔
ولادی میر پیوٹن نے نئی خارجہ پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے محاذوں پر ماسکو واشنگٹن کا بہتر متبادل ہوگا، بھارت اور ایران کے ساتھ اتحاد میں علاقائی اہداف حاصل کیے جائیں گے۔ معروف برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے تازہ مضمون “It’s not Donald Trump who matters now in the Middle East- it’s Putin” میں اسی جانب اشارہ کیا ہے۔
کمیونسٹ سوویت یونین کا گوہر یتیم آرتھوڈکس روس آج مشرق وسطیٰ کی راکھ میں نئی تہذیبی شناخت کرید رہا ہے، مگر یہاں سوائے خاک کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ بارودی خاک زرخیز ہوہی نہیں سکتی۔
انسانی تہذیب کی حتمی شناخت متعین ہوچکی ہے، مستقبل صرف اسلام کا ہے۔
مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی نے کہا تھا: ’’سولہویں صدی تک اسلام نے مغرب کو دیوانگی کی حد تک متاثر کیا۔۔۔ روحانیت کی وہ تلوار سونتی کہ اسلحہ کے ذخیرے تک مغرب کا دفاع نہ کرسکے۔۔۔ وحدانیت اسلام کا ایسا انمول تحفہ ہے جسے ٹھکرایا نہیں جاسکتا۔۔۔ اسلام آج بھی روحانیت کا طاقتور مشن مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘