(چترال تا اسلام پرواز کو حادثہ(میاں منیر احمد

حویلیاں کے قریب طیارے کے حادثے کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ اس حادثے میں عملہ سمیت 47 مسافر جاں بحق ہوئے۔ ان سات دنوں میں اب تک صرف دس مسافروں کے ڈی این اے ٹیسٹ مکمل کرکے ان کی لاشیں ورثاء کے سپرد کی جاسکی ہیں۔ جب سے یہ حادثہ ہوا ہے اسلام آباد میں لواحقین اپنے پیاروں کی لاشوں کے حصول اور شناخت کے کربناک عمل سے گزر رہے ہیں۔ اس حادثے کے بعد پی آئی اے کے چیئرمین اعظم سہگل اگرچہ مستعفی ہوچکے ہیں لیکن وہ اپنے پیچھے بہت سے سوالات اور المیے چھوڑ کر گئے ہیں۔ قومی ایئرلائن اُن کے دور میں بحران کا شکار رہی ہے۔ اِس سال ادارے کو نج کاری کے عمل، اور اس کے خلاف مظاہروں، اور ان مظاہروں کے دوران پراسرار ہلاکتوں کے بحرانوں نے گھیرے میں لیے رکھا، اور کسی بھی بحران کے جواز کا آج تک علم نہیں ہوسکا۔ حویلیاں میں حادثہ بھی ایک بحران ہے اور تادم تحریر آٹھ دن گزر جانے کے باوجود لاشوں کی شناخت کا عمل مکمل نہ ہونا ایک بڑا بحران ہے۔ حکومت نے اس عمل کی نگرانی کے لیے ڈاکٹروں اور سیکورٹی کے لیے 9 مجسٹریٹ تعینات کررکھے ہیں لیکن مسئلے کا حل سامنے نہیں آسکا۔ جو طیارہ حادثے کا شکار ہوا اُس میں تین ماہ پہلے وزیراعظم بھی اسی روٹ پر سفر کرچکے ہیں۔ ایک حکومتی شخصیت نے نام کو صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ پی آئی اے میں مینٹی نینس بہت بڑا ایشو ہے اور اسے حل کرنے کی حکمت عملی اتنی ہی ناقص ہے، یہ حادثہ بھی اسی وجہ سے ہوا ہے کہ مینٹی نینس ٹھیک نہیں ہوئی تھی، بس چل چلاؤ والا معاملہ ہے۔
یہ بدقسمت طیارہ اُس وقت حادثے کا شکار ہوا جب وہ چترال سے اسلام آباد کے لیے اپنی پرواز تقریباً مکمل کرچکا تھا اور دس منٹ کے بعد اسے اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنا تھا۔ اب تک کی ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سنگین فنی خرابی کے باعث طیارے کے ایک انجن نے کام بند کردیا تھا اور دوسرا انجن الٹا چلنا شروع ہوگیا تھا جس کے باعث طیارہ ڈگمگایا اور 13 ہزار فٹ کی بلندی سے تین منٹ میں 6 ہزار فٹ کی بلندی پر آکر زمین پر گر کر تباہ ہوگیا۔ طیارے کے پائلٹ کی مہارت کے باعث ایک لمحہ ایسا بھی