(المیہ مشرقی پاکستان تاریخی حقائق(محمود عالم صدیقی

پاکستان کے ۱۹۷۰ء کے انتخابات
یہ انتخابات انتہائی جانب دارانہ اور دہشت گردانہ ماحول میں منعقد ہوئے۔ یحییٰ خان نے مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی، اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی کھلی سرپرستی کی اور عوام کو حکومتی سرپرستی میں پارٹی کارکنوں اور پیشہ ور غنڈوں اور جعل سازی کے ماہر بدمعاشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے حزبِ مخالف اور خاص کر جماعت اسلامی کے کارکنوں کو غنڈہ گردی کے ذریعے اور حکومتی سرپرستی میں سیاسی جلسے تک نہیں کرنے دیے بلکہ امیدواروں کو اغوا کیا گیا، زخمی کیا گیا اور سیاسی کارکنوں کو قتل کیا گیا۔ اس سیاسی دہشت گردی کی سب سے بڑی مثال شہید عبدالمالک کا دن دہاڑے قتل اور پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کا جلسہ نہ ہونے دینا تھا۔ مولانا مودودی کو خطاب کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس بدترین سیاسی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کی کوئی روک تھام نہ کی گئی بلکہ کھلم کھلا مغربی پاکستان میں بھٹو کی پارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ کی کھلی حمایت اور ان کی غنڈہ گردی کی طرف سے آنکھیں بند کرلی گئیں۔ مجرموں کے کھلے عام جعلی ووٹ ڈالنے اور ٹھپے لگانے اور مخالفوں کے بیلٹ بکس اٹھا کر لے جانے کے بے شمار واقعات ہوئے مگر نظم و ضبط اور حکومت نام کی کوئی چیز ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں کہیں نظر نہ آئی۔
انتخابات کے نتائج اور بعد کے حالات
۱۹۷۰ء میں عام انتخابات ہوئے۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے بھاری اکثریت حاصل کی۔ یحییٰ خان نے جو ایوب خان کے مستعفی ہونے کے بعد چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے،۱۹۵۶ء کے آئین کو بحال کرنے کے بجائے ایک نیا آئینی فارمولا بنا ڈالا۔ پاکستان بین الاقوامی سازشوں کا گڑھ بن گیا۔ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن اور مولانا بھاشانی نے مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کی فضا قائم کردی اور جلاؤ گھیراؤ شروع ہوگیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہونے سے مجیب الرحمن نے سول نافرمانی کی تحریک اور مسلح مزاحمت شروع کردی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ مجیب الرحمن اور عوامی لیگی رہنماؤں کو بغاوت کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔ عوامی لیگ کی زیادہ تر قیادت بھارت فرار ہوگئی جہاں بھارتی حکومت نے عوامی لیگ کی جلا وطن حکومت قائم کردی اور مکتی باہنی کو تربیت دے کر اور مسلح کرکے واپس پاکستان بھیجا جاتا، تاکہ وہ چھاپہ مار جنگ کریں۔ کئی مہینے کی خانہ جنگی کے بعد نومبر میں بھارت نے بین الاقوامی سرحد پار کرکے مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا اور ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو افواج پاکستان کی مشرقی کمان نے بھارتی فوج کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور ۹۰ ہزار سے زیادہ جنگی قیدی بھارت کی قید میں چلے گئے۔ یحییٰ خان نے اقتدار پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کردیا جنھوں نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا۔
پروفیسر شرمیلا بوس کی کتاب Dead Reckoning، امریکی مصنفین رچرڈسیزن (Richard Sisson) اور لیوروز (Leo Rose) کی قابل قدر تحقیقی کتاب War of Secession: Pakistan, India and creation of Bangladesh (1991) کے بعد سب سے زیادہ مستند تحقیقی کام ہے جس کی تیاری کے لیے فاضل مصنفہ نے کئی بار پاکستان اور بنگلہ دیش کے دورے کیے۔ اُس وقت کے جنگی فریق اور متحارب فوجی افسروں، عینی شاہدوں، صحافیوں اور دیگر اہم لوگوں سے انٹرویو لیے اور گفتگو کی، اور بے شمار دستاویزات کا مطالعہ کیا، اور لندن اور امریکہ میں تحقیقی کام کیا۔ اب تک ان کی کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
اس کے علاوہ سانحہ مشرقی پاکستان اور سقوطِ ڈھاکا کے موضوع پر اب تک کئی درجن کتابیں اور بے شمار مضامین اور کالم شائع ہوچکے ہیں۔ یہ کتابیں مغربی ملکوں، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے صحافیوں، دانشوروں، سابق فوجی افسروں اور ریٹائرڈ اعلیٰ سرکاری ملازمین نے انگریزی، اردو، بنگلہ اور ہندی میں لکھی ہیں۔ ان میں سے متعدد کے ترجمے بھی شائع ہوئے ہیں۔ ان کتابوں میں چند اہم کتابیں لیفٹیننٹ جنرل جے ایف آر جیکب کی Surrender of Dacca Birth of a Nation (سقوط ڈھاکا، ایک قوم کا ابھرنا)، A Witness To Surrender (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا) بریگیڈیئر صدیق سالک، حمیدالحق چودھری کی Memories (یادداشتیں)، لیفٹیننٹ جنرل (ر) کمال متین الدین کی تصنیفTragedy of Errors (غلطیوں کا المیہ، مشرقی پاکستان کا سقوط ۱۹۶۷۔۱۹۷۱ء کا بحران)، لیفٹیننٹ کرنل (ر) شریف الحق عالم کی انگریزی تصنیف Bangladesh Untold Facts (بنگلہ دیش۔ ان کہی حقیقتیں)، پروفیسر جی ڈبلیو چودھری کی The Last Days of United Pakistan( متحدہ پاکستان کے آخری چند دن)، پروفیسر سجاد حسین کی The Wastes of Time(شکست آرزو) کے نام سے اس کا ترجمہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی نے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کی Pakistan Divided (اور پاکستان ٹوٹ گیا)، جناب سلیم منصور خالد کی البدر، سابق سفارت کار جناب قطب الدین عزیز کی Blood and Tears، اور بنگلہ دیش کے معروف صحافی جوہری کی بنگلہ تصنیف اور اس کا ترجمہThe Riddle of Thirty Lakh ہے۔ حال ہی میں ڈاکٹر جنید احمد کی انگریزی میں لکھی گئی تحقیقی کتاب Creation of Bangladesh: Myths Exploded ہے جس کی رونمائی ۱۶ دسمبر ۲۰۱۶ء کو میریٹ ہوٹل کراچی میں ہورہی ہے۔
پروفیسر شرمیلا بوس سقوطِ مشرقی پاکستان کے پس منظر کے حوالے سے لکھتی ہیں:
عوامی لیگ کے ووٹ
’’مشرقی پاکستان میں دسمبر ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتائج کو بنگلہ دیش کے قیام کے سلسلے میں عوام کی اکثریت کی واضح حمایت کا ناقابل تردید ثبوت گردانا جاتا ہے۔ عوامی لیگ نے شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں مشرقی پاکستان میں پچھتر فیصد عوامی ووٹ حاصل کیے اور صوبے کی ۱۶۲ نشستوں میں سے ۱۶۰ نشستیں جیت لیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آبادی کی صرف ۵۶ فیصد تعداد نے ووٹ ڈالے جو پنجاب (۶۶فیصد)، سندھ (۵۸ فیصد) سے کم تھے، اور اس کا تناسب صرف صوبہ سرحد (۴۷ فیصد) اور بلوچستان (۳۹) کے صوبوں سے زیادہ تھا۔ ان اعداد و شمار سے یہ پتا چلتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے (۴۴ فیصد) ووٹرز نے یا تو ووٹ ڈالنے اور انتخابات میں دلچسپی نہیں لی یا ووٹ ڈالنے میں انھیں کوئی فائدہ نظر نہیں آیا، یا انہیں ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا‘‘۔
شرمیلا بوس کا تجزیہ
شرمیلا بوس نے اپنے تجزیے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’مشرقی پاکستان میں ووٹ ڈالنے والوں میں سے ۷۵ فیصد (یعنی ۵۶ فیصد ووٹ دینے والوں کے تین چوتھائی یعنی ۴۴ فیصد ووٹ) نے عوامی لیگ کو ووٹ دیے جو کسی لحاظ سے مشرقی پاکستان کے ووٹرز کی اکثریت (۵۸ فیصد) سے بہت کم ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی اکثریت نے عوامی لیگ کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا بلکہ صرف ووٹ ڈالنے والوں کی اکثریت (یعنی جن کو ووٹ ڈالنے دیا گیا) نے عوامی لیگ کو ووٹ دیا، لیکن عوامی لیگ کے حق میں پڑنے والے (۴۲ فیصد) ووٹروں کے ووٹوں کو علیحدگی کے حق میں ریفرنڈم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ انتخابات میں کم تناسب سے ووٹ پڑنے کے عمل کو پاکستان سے علیحدگی جیسے اہم معاملے کے سلسلے میں کسی لحاظ سے ریفرنڈم نہیں سمجھا جاسکتا، اور نہ ہی شیخ مجیب الرحمن نے اپنی انتخابی مہم میں اسے ریفرنڈم کا درجہ دیا۔ ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں نے مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کو ووٹ دیا وہ موجودہ حکومت کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کررہے ہوں، تبدیلی کے خواہاں ہوں، روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے کوشاں ہوں اور زیادہ سے زیادہ خودمختاری کے طالب ہوں۔ ان کو ووٹ دینے والوں کی ایک انتہائی قلیل تعداد ہی اس موڑ پر علیحدگی پسند ہوسکتی تھی۔
اسی طرح کُل انتخابی رائے دہندگان کے۵۸ فیصد، جنہوں نے شیخ مجیب الرحمن کو ووٹ نہیں دیا، چاہے وہ انتخاب کے دن اپنے گھر پر رہے ہوں یا انھوں نے دوسری جماعتوں کے نمائندوں کو ووٹ دیا ہو، ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ موجودہ صورت حال سے مطمئن ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے بھی ہوں گے جن کے مسائل دوسرے ووٹروں کے مسائل جیسے ہوں گے، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ شیخ مجیب الرحمن اور ان کی پارٹی کو اپنے مسائل کے حل کے لیے صحیح نہ گردانتے ہوں۔
حکومت اور امن و امان کے ذمہ دار خاموش تماشائی بنے رہے اور درپردہ عوامی لیگ کا کھل کر ساتھ دیتے رہے۔ عبدالمالک شہید کے قاتلوں کی کھلی شناخت کے باوجود ان کے قاتل گورنر ہاؤس میں حکومت کی مہمان داری سے محظوظ ہوتے رہے اور FIR تو درکنار کوئی تفتیشی کارروائی بھی سرے سے نہیں کی گئی۔ان حقائق سے یحییٰ حکومت کی جانب داری اور غیر جمہوری رویّے کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہی حال سندھ اور پنجاب میں ہوا کہ پیپلز پارٹی کے حمایتیوں، وڈیروں، جاگیرداروں اور گلو بٹوں نے کھل کر غنڈہ گردی کی اور مخالف امیدواروں کو اغوا کیا، زخمی کیا اور کھل کر ووٹ کا تقدس پامال کیا۔۔۔ اور نہ تو پولیس اور نہ فوج اور نہ الیکشن کمیشن نے کوئی منصفانہ کارروائی کی، بلکہ پیپلز پارٹی کی بی ٹیم کا کردار اداکیا۔
یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میرے کارکنوں نے مشرقی پاکستان میں بقیہ دو نشستوں کے بارے میں کہا کہ وہ بھی ہم لے لیتے ہیں تو میں نے انھیں منع کیا کہ ایک دو نشستیں چھوڑ دو ورنہ ان سیٹوں کو ہم لے سکتے تھے اور ہمیں کوئی روکنے والا نہ تھا۔
بھارت کے ساتھ جنگ کب شروع ہوئی؟
۱۹۷۱ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین مکمل جنگ شروع ہونے کی تاریخ متنازع ہے۔ عام طور پر بھارت کے اعلان کے مطابق جنگ ۳ دسمبر کو شروع ہوئی، حالانکہ اس تاریخ کو مغربی سیکٹر پر جنگ شروع ہوئی تھی، جبکہ ہبھارت مارچ ۱۹۷۱ء سے بلکہ اس سے بھی پہلے سے صوبے کی سیاست میں ملوث رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بہت سے حامی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ مارچ ۱۹۷۱ء میں حکومتِ پاکستان کی فوجی کارروائی سے کہیں پہلے سے باغیوں اور بھارتی حکام کے مابین قریبی رابطے تھے اور ہم آہنگی قائم تھی، اور سارا سال مشرقی پاکستان میں بھارت در اندازی کرتا رہا اور باغیوں کے ساتھ مل کر پاکستانی فوج کے خلاف کارروائیاں کرکے جانی و مالی نقصان پہنچاتا رہا۔ شرمیلابوس لکھتی ہیں: میری کئی پاکستانی فوجی افسروں سے اس بارے میں گفتگو ہوئی تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بھارت کی طرف سے سرحدی خلاف ورزیاں مسلسل جاری وساری رہیں۔
۱۸ستمبر ۱۹۷۱ء کو اخبار دی گارجین(The Guardian) نے اپنی اشاعت میں لکھا کہ جو بھی بڑی فوجی کارروائی ہوتی ہے وہ بھارتی فوج کی طرف سے ہوتی ہے۔ ایک اصلی نژاد بنگالی باشندے کا تذکرہ کرتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ سرحد پار کرکے اس نے بھارت میں مکتی باہنی کے تربیتی کیمپوں کا دورہ کیا اور واپس مشرقی پاکستان آیا تو اس نے اُن دو سو بنگالی رضاکاروں سے ملاقات کی جو سرحدی علاقوں میں کارروائیاں کرتے تھے۔ ان میں سے صرف چھے ایسے تھے جنھوں نے فوجی تربیت حاصل کی تھی اور ان میں سے بھی کُل تین نے کسی فوجی کارروائی میں حصہ لیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں بھارت سے کھلی جنگ ۳ دسمبر کو شروع نہیں ہوئی تھی۔ مشرقی کمان کے سربراہ جنرل نیازی اپنی کتاب مشرقی پاکستان کی دانستہ حوالگی(The Betrayal of East Pakistan) میں جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی نے ۱۹۹۸ء میں شائع کی ہے، لکھا ہے کہ ۲۰ اور ۲۱ نو مبر ۱۹۷۱ء کی درمیانی رات کو بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر چاروں طرف سے حملہ کردیا۔ جنرل نیازی کے علاوہ امریکی دانشوروں سیسن (Sisson) اور روز (Rose) نے اپنی کتاب War & Se141cession میں اس بات کی تصدیق کی ہے اور لکھا ہے کہ بھارت نے تو یہ فیصلہ بہت پہلے کرلیا تھا کہ وہ اپریل ۱۹۷۱ء سے ہی براہِ راست فوجی مداخلت شروع کردے گا۔ دوسرے مرحلے میں بھارت نے اکتوبر کے وسط سے ۲۰ نومبر تک مشرقی پاکستان پر بھاری گولہ باری شروع کردی تھی، ہوائی جہازوں سے بھی حملے کیے۔
تیس لاکھ کا قتل عام؟ ایک تاریخی بددیانتی
پاکستان کے قرطاس ابیض میں مذکورہ پاکستانی فوجیوں، ان کے اہل و عیال، شہریوں، مقامی بنگالیوں اور بہاریوں کے قتل عام کی تفصیل موجود ہے جنھوں نے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا، لیکن بھارتی پریس اور اطلاعاتی اداروں اور بین الاقوامی پریس نے اسے سچ نہیں گردانا، جبکہ بھارت کے جھوٹے پروپیگنڈے اور پاکستان مخالف نشری اداروں اور اخبارات نے اس کا بلیک آؤٹ کیا جبکہ پاکستان کے خلاف بنگالیوں کے قتل عام کے جھوٹے افسانے بڑھا چڑھا کر پیش کیے جاتے رہے۔
مجیب الرحمن کے جھوٹے دعوے
مجیب الرحمن نے رہائی کے فوراً بعد پاکستانی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے بنگالیوں کی تعداد پہلے تو دس لاکھ بتائی۔ بھارت پہنچ کر انھوں نے اسے بیس لاکھ تک پہنچادیا۔ اور بنگلہ دیش پہنچ کر اس میں مزید دس لاکھ کا اضافہ کردیا گیا اور ۳۰ لاکھ کا عدد وردِ زبان بنادیا گیا، اور شیخ مجیب الرحمن نہ صرف غیر ملکی نامہ نگاروں سے انٹرویو کے دوران بلکہ ہر جگہ یہ جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ پاکستانی فوج نے مارچ ۱۹۷۱ء سے دسمبر ۱۹۷۱ء تک نہتے اور بے گناہ ۳۰ لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا ہے اور ۳ لاکھ بنگالی عورتوں کی عصمت دری کی ہے۔
*۲۴فروری ۱۹۷۲ء: آریانا فلاسی لایوریا روم میںBehind the Myth of Three Million کے عنوان سے لکھتی ہیں کہ مجیب نے گرجدار آواز میں مجھ سے کہا کہ جلدی کرو میرے پاس وقت نہیں ہے۔ ہاں پاکستانیوں نے تیس لاکھ بنگالیوں کو مارا ہے۔
حقیقتِ حال: ولیم ڈرومنڈ (روزنامہ گارجین لندن) اور ڈیلی ٹیلی گراف کے پیٹر گلی نے بھی شیخ مجیب کے دعوے کو انتہائی مبالغہ آمیز قرار دیا تھا۔ بنگلہ دیش حکومت نے ۷ جنوری ۱۹۷۲ء سے بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے مقتولین کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے لیے ایک بڑی تشہیری مہم چلائی۔
* ۱۶ جنوری ۱۹۷۲ء کو شیخ مجیب الرحمن نے عوامی لیگ کے کارکنوں اور اسمبلی کے ارکان کو حکم دیا کہ وہ اس بارے میں ساری تفصیلات اکٹھی کریں۔
* ۲۹ جنوری ۱۹۷۲ء کو شیخ مجیب نے سرکاری طور پر ایک کمیٹی قائم کی۔
اس کمیٹی کے سربراہ عبدالرحیم ڈی آئی جی پولیس تھے۔ اس میں عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی کے لیڈر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تجربہ کار افراد شامل تھے۔
* ڈھاکا میں مقیم روزنامہ گارجین لندن کا نمائندہ خصوصی ولیم ڈرومنڈ ڈھاکا سے تحریر کرتا ہے کہ مارچ ۱۹۷۲ء تک انکوائری کمیٹی کے سامنے پورے بنگلہ دیش سے صرف ۲ ہزار افراد کے قتل کی رپورٹیں پیش ہوسکیں۔ (روزنامہ گارجین ۶ جون ۱۹۷۲ء)
* مجیب الرحمن نے مقتولین کی مدد کے لیے ۲ ہزار ٹکہ فی کس کا اعلان کیا تھا۔ اس کے حصول کے لیے ۷۲ ہزار افراد نے درخواستیں دیں جو ۵۰ ہزار مقتولین کے لیے رقم حاصل کرنے کے دعویدار تھے۔ ان درخواستوں میں بے شمار جعلی درخواستیں شامل تھیں۔ (گارجین ۶ جون ۱۹۷۲ء)
* عوامی لیگ کے پروپیگنڈے کے مطابق بھارت میں پناہ لینے والے بنگالیوں میں سے لاکھوں افراد بھوک اور بیماری سے مارے گئے، ان میں بہت سے وہ لوگ بھی شامل تھے جو بھارتی کیمپوں میں مارے گئے۔ (روزنامہ جنید ڈھاکا، ۲۰ مئی ۱۹۷۳ء)
۱۵جون ۱۹۹۳ء: بنگلہ دیش کی قومی اسمبلی کے رکن اور وزیر کرنل اکبر حسین نے کہا کہ عوامی لیگ نے ۳۰ لاکھ مقتولین آزادی کا افسانہ گھڑا جبکہ حقیقت اس کا دس فیصد بھی نہیں تھی۔ بنگلہ دیش اسمبلی کے ہندو رکن شدھن گھشو شیکہ نے چیلنج کیا تو وزیر اکبر حسین نے بتایا کہ ہر مقتول گھرانے کے لیے ۲ ہزار ٹکہ کی امداد کا اعلان ہوا، صرف ۳ لاکھ نے نام درج کرائے جن کے مقتولین کی تعداد ایک لاکھ بھی نہیں بنتی، تو باقی ۲۹ لاکھ کہاں گئے؟ یہ جواب سن کر پورے ایوان میں خاموشی چھاگئی۔
بھٹو سے انٹرویو: اطالوی صحافی آریانا فلاسی نے اپریل ۱۹۷۲ء میں اُس وقت کے صدرِ پاکستان مسٹر ذوالفقار علی بھٹو سے بھی انٹرویو لیا تھا جو اس کی کتاب Interview with History میں شائع ہوا تھا۔ فلاسی کے اس سوال کے جواب میں کہ مجیب الرحمن کے بیان کے مطابق پاک فوج نے تیس لاکھ سے زیادہ لوگ مارے، بھٹو نے کہا کہ مجیب الرحمن ایک پیدائشی جھوٹا شخص ہے۔ بھارتیوں نے کہا کہ دس لاکھ لوگ مارے گئے، شیخ مجیب نے پہلے دس کو بیس کیا، پھر تیس لاکھ کا عدد گھڑدیا۔ وہ تو طوفان سے مرنے والوں کی تعداد بھی اس طرح ضرب کرکے بڑھاتا رہتا تھا۔
بھارتی صحافیوں کے کہنے کے مطابق فوجی آپریشن میں مرنے والوں کی تعداد ساٹھ سے ستّر ہزار تھی، جبکہ کچھ مشنری لوگوں کے اندازے کے مطابق تیس ہزار لوگ مارے گئے۔
خواتین سے زیادتی کے اعدادو شمار: بنگلہ دیش کے مشہور صحافی جوہریؔ نے بنگلہ زبان میں لکھی گئی تیس لاکھ کا معما(The Riddle of Thirty Lakh) (اشاعت ڈھاکا۱۹۹۴ء) میں تحریر کیا ہے کہ یہ بات عقل و فہم سے بالاتر ہے کہ آٹھ ماہ اور بارہ دنوں کی ایک گوریلا جنگ میں تیس لاکھ افراد مارے جائیں اور یہ بات بھی وہم و گمان سے ماورا ہے کہ اس دوران دو لاکھ سے زیادہ عورتوں سے بالجبر زیادتی کی گئی ہو۔ صحافی نے بنگلہ دیش کے مختلف اضلاع میں پانچ سو افراد کا انٹرویو کیا اور ان سے پوچھا کہ ان کے خاندان، جاننے والوں، گاؤں یا محلے میں کوئی پاکستانی فوجی کسی جنسی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ہو تو ایسا کوئی واقعہ بتائیں۔ مگر ان میں سے ہر ایک نے کہا کہ ان کے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے۔
۲۳دسمبر ۱۹۷۱ء کو کلکتہ سے بنگلہ دیش کی جلا وطن حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جن خواتین کے ساتھ پاکستانی فوجیوں نے زیادتی کی ہے وہ بنگالی ہیروئنیں ہیں۔ جنوری ۱۹۷۲ء میں مجیب کی ڈھاکا آمد پر ڈھاکا میں ایک بہت بڑا بنگالی ہیروئنز کمپلیکس قائم کردیا گیا جس کا سربراہ مجیب کے ایک عزیز جہانگیر حیدر کو مقررکیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کمپلیکس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کرٹ والڈہائم نے بھی اس کمپلیکس کا دورہ کیا، لیکن کوئی دعویٰ ثبوت کے ساتھ پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ معلوم ہوسکا کہ کتنی بنگالی ہیروئنوں کا اندراج ہوسکا۔ چند ماہ میں ہی یہ جھوٹا کمپلیکس ختم کردیا گیا۔
اصل حقیقت
غیر ملکی تجزیہ کاروں، غیر جانب دار مبصرین اور خود بنگالی صحافیوں اور دانشوروں نے اسے غلط بتایا، حتیٰ کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمن کی قائم کردہ کمیٹی بھی پورے بنگلہ دیش سے بنگالی مقتولین کے وارثوں سے بمشکل چند ہزار افراد کے کوائف حاصل کرسکی جسے بعد میں ختم کردیا گیا۔ بنگلہ دیش میں پاک فوج کے ہاتھوں صرف قوم پرست بنگالی باغی مارے گئے جنھوں نے فوج پر حملہ کیا یا ان کا مقابلہ کیا یا تخریب کاروں کے ساتھ مل کر پلوں، سڑکوں اور گزرگاہوں کو تباہ کیا۔ پاکستانی فوجیوں نے کہیں بھی عورتوں اور بچوں کو نہیں مارا، نہ ہی انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر عورتوں کی عصمت دری کے قبیح فعل میں ملوث ہوئے۔ جبکہ بنگالی باغیوں نے وسیع پیمانے پر نہتے مردوں، عورتوں اور بچوں کو بے دردی سے مارا، زندہ جلایا اور بڑے پیمانے پر عورتوں کی عصمت دری کرکے ان کو بے دردی سے مار دیا۔
سقوطِ ڈھاکا اور بھارت کا گھناؤنا کردار
بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ بٹوارے کے نتیجے میں برطانوی ہند کی حکومت کی طرف سے ملنے والے اربوں روپے مالیت کے نقد اثاثے اور کروڑوں کی مالیت کے اسلحہ اور منقولہ اور غیرمنقولہ اثاثوں پر ابھی تک بھارت قابض ہے اور دینے کا نام نہیں لیتا۔ گاندھی کے مرن برت کی وجہ سے کچھ نقد اثاثے پاکستان کے حوالے کرنے کے بعد بھارت نے اپنے نیتا گاندھی کو بھی ایک انتہا پسند ہندو کے ہاتھوں مروا دیا۔ جوناگڑھ، مانا ودر اور کشمیر پر ابھی تک ناجائز اور ہٹ دھرمی سے قابض ہے۔ بھارت مشرقی پاکستان میں شروع ہی سے علیحدگی پسندوں اور پاکستان دشمن عناصر کی سرپرستی کرتا آیا ہے۔ بنگلہ قوم پرستوں اور مشرقی پاکستان کے ایک کروڑ ہندو باشندوں کی مدد سے وہ مشرقی پاکستان میں سیکولرزم اور بنگلہ قوم پرستی کا پرچار کرتا رہا۔ مشرقی پاکستان کی درسگاہوں میں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہندو پروفیسر اور لیکچررز، اسلام اور نظریہ پاکستان اور قومی زبان اردو کے خلاف صف آرا رہے۔ جس طرح بھارت میں انگریزوں نے کانگریس بنائی جس کا پہلا صدر ایک انگریز تھا اسی طرح بھارت نے مکتی باہنی بنائی۔ پاکستان کے باغی کرنل شریف الحق دیلم نے اپنی کتاب The Untold Facts میں لکھا ہے کہ بھارتی جنرل اومان سنگھ نے کلکتہ میں مکتی باہنی بنائی تھی اور اس میں بھارتی فوج کے حاضر سروس فوجی بھی شامل تھے۔ اس کا اعتراف بھارتی بریگیڈیئر رندھیر سنگھ نے اپنی کتاب Soldiering with Digital میں بھی کیا ہے۔ گنگا نامی طیارے کے اغوا کا ڈراما رچاکر بھارت نے بھارت کی فضائی حدود پر سے پاکستانی ہوائی جہازوں کی پروازیں بند کرادیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستانی افواج نے بڑی حد تک عوامی لیگ کی سول نافرمانی اور بغاوت پر قابو پالیا تھا لیکن بھارت کی طرف سے مکتی باہنی کے قیام، اس میں شامل بھارتی فوجیوں اور بعد میں چاروں طرف سے مشرقی پاکستان پر بھارتی فوج پاکستانی سرحدوں میں در آئی اور پاکستانی فوج کو محصور کرلیا۔
تیس لاکھ کا شوشا پہلے بھارت نے چھوڑا تھا
۳۰ لاکھ کا شوشا سب سے پہلے بھارت نے چھوڑا تھا۔ شرمیلابوس کے مطابق ۱۹۷۱ء کی جنگ کے بارے میں بنگالی اور انگریزی دونوں زبانوں میں فراہم شدہ مواد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر چہ کتابوں، مضامین، اخباروں، فلموں اور ویب گاہوں میں ۳۰ لاکھ افراد کے قتل عام کا الزام بارہا عائد کیا جاتا رہا ہے لیکن اس کی بنیاد کسی سطح، کسی حساب کتاب یا جائزے پر نہیں تھی۔ سیسن اور روزکا کہنا ہے کہ ۳۰ لاکھ افراد کے قتل کی تعداد کا شوشا پہلے بھارت نے چھوڑا تھا، جبکہ بعض بنگلہ دیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تعداد وہ ہے جس کا اعلان شیخ مجیب نے اپنی ڈھاکا واپسی پر کیا تھا۔ ان کو یہ بتایا گیا کہ یہ تعداد وہ ہے جب وہ مغربی پاکستان میں نو ماہ قیدکے بعد رہا ہوئے تھے اُس وقت تک مرنے والوں کی تعداد اتنی ہوگئی تھی۔ یہ بات واضح نہیں کہ کس نے شیخ مجیب کو یہ بتایا اور کس بنیاد پر بتایا، تاہم نئے قائم شدہ ملک بنگلہ دیش واپسی پر شیخ مجیب کی طرف سے ۳۰ لاکھ افراد کے قتل کے اعلانات کا ذرائع ابلاغ میں کافی چرچا رہا۔
۱۱ جنوری۱۹۷۲ء کو دی ٹائمز(The Times) میں پیٹر ہیزل ہرسٹ نے ڈھاکا سے اطلاع دی کہ مجیب نے جذباتی وطن واپسی کے موقع پر ڈھاکا میں اپنی پہلی عوامی ریلی سے خطاب میں کہا:
’’مجھ پر انکشاف ہوا ہے کہ انھوں (پاکستان کی فوج) نے میرے ۳۰ لاکھ بندے مار دیے ہیں‘‘۔
ایسی اطلاعات ملی تھیں کہ شیخ مجیب نے عام اجتماعات میں اپنے اعلانات اور بیانات میں مبینہ طور پر ۳۰ لاکھ بنگالیوں کے قتل عام کے بار بار تذکروں کے بعد اس کے ثبوت اور شہادت حاصل کرنے کے لیے جنوری ۱۹۷۲ء میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی۔ بنگلہ دیش کے اخبارات اور سرکاری گزٹ کے نوٹسوں کے حوالے سے بنگالی مصنف محمد عبدالمنعم چودھری نے اپنی تجزیاتی کتابBehind the Myth of 3 Million میں جو انگریزی میں لندن سے ۱۹۹۶ء میں شائع ہوئی، اس تحقیقاتی کمیٹی کے بارے میں تفصیل دی ہے۔
۳۰ لاکھ کے قتل عام کے بارے میں بنگلہ دیشی سرکاری تحقیقاتی کمیٹی
شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس عبدالرحیم کی سربراہی میں بارہ رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جسے ۳۰ لاکھ افراد کے اس مبینہ قتل عام کے بارے میں سارے کوائف جمع کرکے ۳۰ اپریل۱۹۷۲ء تک اپنی رپورٹ پیش کرنی تھی۔ مسٹرچودھری نے اپنی کتاب میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس کمیٹی کے قیام سے پہلے شیخ مجیب نے اپنی پارٹی عوامی لیگ کے کارکنوں اور اپنی دستور ساز اسمبلی کے اراکین سے کہا تھا کہ وہ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں ہلاک شدگان کے بارے میں اپنی رپورٹیں پیش کریں۔ اس کے علاوہ ہلاک شدگان کے پس ماندگان کے لیے تلافی کے معاوضوں کی اسکیموں کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ مصنف محمد عبدالمنعم چودھری کے مطابق ان دو طرفہ تحقیقاتی ذریعوں کے نتیجے میں ۱۹۷۱ء کی جنگ میں ہلاک شدگان کی تعداد لگ بھگ پچاس ہزار ظاہر کی گئی، ان میں بھارت میں مرنے والے پناہ گزین بھی شامل تھے اور ان کے وارثوں کی طرف سے جعلی دعوے داخل کیے گئے تھے۔
شرمیلابوس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں نے اس سرکاری تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے حصول کے لیے درخواست کی تھی لیکن میں انتہائی کوشش کے باوجود اس کے حصول سے محروم رہی۔ ۳۰ لاکھ یا اس سے کچھ کم مقتولوں کے بارے میں دعویٰ جنوبی ایشیا اور مغربی اہلِ علم اور ذرائع ابلاغ میں بغیر کسی تصدیق کے کئی عشروں تک دہرایا جاتا رہا۔
سیسن اور روز نے اپنی کتاب میں ۱۹۷۱ء کی جنگ میں بھارت کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں پاکستانی مظالم کے بارے میں کافی اچھا مواد تیار کیا ہے جسے غیر ملکی اخبارات نے بہکاوے میں آکر اس کی سچائی کی تحقیق کیے بغیر من وعن تسلیم کرلیا، اور بھارت ڈھاکا سے جاری ہونے والے ہولناک واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا اور ان میں اضافہ کیا کرتا تھا۔
بہت سے اخبارات اور ذرائع ابلاغ حقائق کو جاننے کی تکلیف اٹھانے کی زحمت کیے بغیر ۳۰ لاکھ کے عدد کو بار بار دہراتے رہے۔ کبھی کبھار ہی کسی بیرونی مبصر نے دعووں اور اصل حقائق کے درمیان واضح خلیج یا فرق کا نوٹس لیا۔ اخبار دی گارجین نے اپنی ۶ جون ۱۹۷۲ء کی اشاعت میں اپنے نامہ نگار ولیم ڈرومنڈ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کا عنوان ہے: لاکھوں کی غیر موجودگی (The Missing Million)۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۳۰ لاکھ افراد کی موت کا عدد جو جنوری کے اوائل میں شیخ مجیب نے بنگلہ دیش واپسی کے بعد کئی بار دہرایا ہے اسے عالمی اخبارات نے بغیر کسی تحقیق و تصدیق کے من و عن شائع کیا ہے۔ ایسا دعویٰ اگر بار بار دہرایا جاتا ہے تو وہ بتدریج حقیقت کا روپ دھارنے لگتا ہے اور اسے کسی نسبت کی ضرورت نہیں رہتی۔
شرمیلا بوس کا مؤقف بھی یہی تھا کہ انہوں نے اس بارے میں اپنی حتمی رائے دینے سے پہلے بنگلہ دیش کے کئی دورے کیے اور دیہات کی سطح اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز بہت سے افراد سے وسیع پیمانے پر تبادلہ خیال کیا۔ اس کے بعد تصدیق شدہ شہادتوں اور حقائق کی روشنی میں ان کا فیصلہ یہی ہے کہ ۳۰ لاکھ اموات کا دعویٰ حد سے زیادہ مبالغہ آرائی ہے اور مہمل ہے۔
جیسا کہ ڈرومنڈنے نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کی فوج نے بندے مارے تو ہیں لیکن بنگلہ دیش کے دعوے کے غبارے میں حد سے زیادہ ہوا بھری گئی جس سے ان کے دعوے کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگئی۔
وزارت داخلہ بنگلہ دیش کی ۱۹۷۲ء کی تحقیقات
دی گارجین کے نامہ نگار ڈرومنڈ نے یہ اطلاع بھی دی کہ ۱۹۷۲ ء میں بنگلہ دیش کی وزارت داخلہ نے اس مذکورہ قتل عام کے بارے میں جائے وقوع پر جو تفتیش اور تحقیقات کی تھی اس کے نتیجے میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے کل دو ہزار افراد کی اموات کی شکایتیں موصول ہوئیں۔ ان حالات میں ۳۰ لاکھ کا عدد ایک بڑی افواہ کے سوا کچھ نہیں لگتا۔ جب تک ثبوت کے طور پر معتبر اعداد و شمار اور کوائف پیش نہیں کیے جاتے اُس وقت تک دانشوروں اور تبصرہ نگاروں کو چاہیے کہ وہ ۳۰ لاکھ کا ہندسہ دہرانا بند کردیں۔
مزید یہ کہ جب تک کہ متعلقہ حکومتوں کے قومی اور تاریخی دستاویزات کے محکمے معتبر اور شفاف حقائق اور کوائف کی بنیاد پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا تعین نہیں کرتے اور اس کا اجرا نہیں کرتے مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں غیر مصدقہ تعداد کے بارے کوئی بیان یا رپورٹ جاری نہ کی جائے۔
حمود الرحمن کمیشن پاکستان کی رپورٹ
جنگ کے بعد بھٹو حکومت نے جنگ میں پاکستان کی شکست کے بارے میں تحقیقات کے لیے حمود الرحمن کمیشن قائم کیا تھا۔ ۳۰ لاکھ افراد کی ہلاکت کے د عوے کے بارے میں اس نے جو رپورٹ دی تھی وہ ذیل میں درج ہے:
بنگلہ دیش حکام کے مطابق حکومت پاکستان ۳۰ لاکھ بنگالیوں کی ہلاکت اور دو لاکھ مشرقی پاکستانی عورتوں کی عصمت دری کی مرتکب ہوئی۔ یہ جاننے کے لیے کہ یہ اعداد و شمار انتہائی مبالغہ آمیز ہیں کسی بڑی بحث یا دلیل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ مشرقی پاکستان میں متعین فوج کی ساری قوت اور تعداد مل کر بھی ملک کو اتنا بڑا نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی اگر ان کے پاس اس کے علاوہ کرنے کا کوئی اور کام نہیں بھی ہوتا۔
ڈھاکا انتظامیہ کی طرف سے ہلاکتوں کی تعداد کے دعووں کو حمود الرحمن کمیشن نے غیر حقیقی اور انتہائی تخیلاتی قرار دیتے ہوئے ہلاکتوں کے بارے میں اپنے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔
جنرل ہیڈ کوارٹرز (GHQ) نے اس بارے میں جو تازہ ترین بیان فراہم کیا ہے اس کے مطابق پاکستانی فوج کی کارروائی کے دوران ہلاک شدگان کی کل تعداد کا اندازہ تقریباً ۲۶ ہزار لگایا گیا ہے۔ یہ تعداد ان رپورٹوں کی بنیاد پر متعین کی گئی ہے جو مشرقی کمان کارروائیوں کے دوران وقتاً فوقتاً جنرل ہیڈ کوارٹرز کو بھیجتی رہی تھی۔ یہ رپورٹیں مشرقی پاکستان کی کمان کی طرف سے جی ایچ کیو کو بھیجی گئی تھیں، جب کہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوجی افسروں کے ذہنوں میں اس سلسلے میں کسی جواب دہی کا کوئی خیال تک نہ تھا۔
۱۹۷۱ء کی خانہ جنگی کے دونوں فریقوں کے دعووں کی بنیاد پر ہمارے پاس اس میں ہلاک ہونے والی تعداد پاکستانی فوج کی رپورٹ کے مطابق ۲۶ ہزار تھی جو حمود الرحمن تحقیقاتی کمیشن کو پیش کی گئی اور جس کی بنیاد مشرقی کمان کی طر ف سے وقتاً فوقتاً بھیجی جانے والی رپورٹیں تھیں، جبکہ بنگلہ دیش اور بھارت کے ۳۰ لاکھ کی ہلاکتوں کے دعوے کی بنیاد کوئی نہ تھی، کسی بھی معیار سے یہ حد بے معنی تھی اور بغیر کسی توجیہی بنیاد کے ۳۰ لاکھ افراد کا صفایا کرنے کی بات انتہائی مضحکہ خیز ثابت ہوئی ہے۔
ہلاک شدگان کے بارے میں سیسن اور روز کی تحقیق
۱۹۷۱ء کے تنازعے پر سیسن اور روز نے اپنی مربوط تحقیق کے دوران اس سوال کا جوا ب ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ حقیقت میں اس جنگ میں کتنے افراد ہلاک ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’بھارت نے پاکستانی مظالم کے شکار افراد کی تعداد ۳۰ لاکھ متعین کی اور یہی تعداد عام طور پر ابھی تک بیان کی جاتی رہی ہے۔ ہم نے اُن دو بھارتی افسروں کا انٹرویو کیا جو ۱۹۷۱ء کی جنگ میں بنگلہ دیش کے امور پر ذمہ دار عہدوں پر فائز تھے، جب ان سے پوچھا گیا کہ ۱۹۷۱ء کی خانہ جنگی میں بنگلہ دیش میں کتنے افراد مارے گئے؟ تو ایک نے جواب دیا تین لاکھ، لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس کے ساتھی نے اپنے چہرے کے تاثرات سے اس کی نفی کی ہے تو اس نے اس تعداد میں تبدیلی کرکے اسے پانچ لاکھ کردیا۔
اس واقعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ بھارتی حکام بغیر کسی تائیدی اعداد و شمار کے، مرنے والوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ دکھانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ نہ تو تین لاکھ اور نہ اسے بڑھا کر پانچ لاکھ کرنے سے یہ عدد معتبر ہوجائے گا، کیونکہ ان اعداد و شمار کی کوئی بنیاد نہیں ہے، لہٰذا اسے لازمی طور پر مستر کردینا چاہیے۔‘‘
سیسن اور روز نے ہلاک شدگان کی تعداد کے بارے میں ایک اور اہم سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اب بھی ناممکن ہے کہ ہلاک شدگان کے بارے میں قابلِ بھروسا اندازے حاصل کیے جاسکیں کیونکہ
۱۔ یہ معلوم کرنا بہت مشکل ہے کہ ان میں سے کتنے بنگلہ دیش کی آزادی کے جنگجو تھے جو لڑائی میں ہلاک ہوئے۔
۲۔ ان میں سے کتنے بہاری اور پاکستان کے حمایتی تھے جن کو بنگالیوں نے ہلاک کیا۔
۳۔ اور کتنے پاکستانی بھارتی فوج اور مکتی باہنی کی گولہ باری اور فائرنگ میں ہلاک ہوئے، لیکن اس سے ایک بات واضح ہے کہ ظالمانہ اور قاتلانہ کارروائیاں یا لڑائی یک طرفہ نہیں تھی۔
۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگ میں ہلاک شدگان فوجیوں کی تعداد
بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل جے ایف آر جیکب کے مطابق صرف دسمبر کے دوران بھارتی فوج کے ۱۴۲۱ سپاہی ہلاک اور چار ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے، ۵۶ لاپتا ہوئے جنھیں مُردہ تصور کرلیا گیا۔ جبکہ بھارت تو دسمبر سے بہت پہلے سے اس تنازعے میں ملوث رہا ہے تو اس کے سپاہیوں کی ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ جنرل جیکب کے مطابق جنگ میں ۲۶ مارچ سے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء تک پاکستان کے۶۷۶۱ سپاہی ہلاک اور تقریباً آٹھ ہزار زخمی ہوئے۔ جبکہ جنرل نیازی نے مشرقی پاکستان میں مارچ سے ۳ دسمبر تک پاکستانی فوجیوں کی ۴ ہزار ہلاکتوں اور تقریباً اتنے ہی زخمیوں کی تعداد بیان کی ہے۔
حکومتِ پاکستان کے قرطاس ابیض(Thw White Paper) میں بنگلہ قوم پرستوں کے ہاتھوں مغربی پاکستانی فوجیوں، شہریوں، بہاریوں اور ان کے اہل وعیال کے خلاف لرزہ خیز مظالم اور سفاکی، قتل و غارت گری کے واقعات کی فہرست اور تفصیل دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ عوامی لیگی دہشت گردی کے دور میں جو یکم مارچ ۱۹۷۱ء سے شروع ہوا تھا، بنگالی قوم پرستوں نے ایک لاکھ سے زیادہ نہتے غیر بنگالیوں کو جن میں مغربی پاکستانی فوجی، ان کے اہل و عیال، بہاری اور سرکاری ملازم اور ان کے اہل و عیال یعنی عورتیں اور بچے شامل تھے، بے دردی سے قتل کیا۔
۲۔ جنگی قیدیوں کی تعداد؟
۱۹۷۱ء کی جنگ کے بعد ۹۳ ہزار پاکستانی فوجیوں کے بارے میں جنھیں بھارت نے جنگی قیدی بنالیا تھا، بار بار ذکر کیا گیا اور ہر رسالے اور اخبار میں ان اعداد و شمار کا اعادہ کیا گیا اور انھیں چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔ بھارت میں پاکستانی جنگی قیدیوں کی تعداد کا صحیح تعین ہونا چاہیے تھا اور اندازے نہیں لگانے چاہیے تھے، تاہم یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ حقیقتاً ۹۳ ہزار فوجی بھارت کی قید میں نہیں تھے۔
مشرقی کمان میں پاکستانی فوج کی تعداد
مارچ ۱۹۷۱ء میں ایک اطلاع کے مطابق مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کی فوج کی کل تعداد بارہ ہزار تھی۔
۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کو وہائٹ ہاؤس کے ایک اجلاس میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر رچرڈ ہیلمز نے بتایا تھا کہ اس وقت مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کی وفادار فوج کی تعداد ۲۰ ہزار ہے۔ مشرقی کمان کے کمانڈر اے اے کے نیازی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بحران سے نمٹنے کے لیے اپریل سے دسمبر تک مزید نفری وہاں بھیجی گئی تھی۔ میرے پاس جو فوجی قوت تھی اس کی کل تعداد ۴۵ ہزار تھی جس میں ۳۴ ہزار برّی فوجی تھے۔ ۳۴ ہزار باقاعدہ فوج میں سے ۲۳ ہزار پیدل فوج، باقی بکتر بند، توپخانہ، انجینئرنگ سگنل اور دوسرے یونٹ شامل تھے۔ ۴۵ ہزار کی تعداد کو دگنے سے زیادہ ۹۳ ہزار فوج بنادیا گیا۔
جنرل نیازی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اگر ہم بحریہ اور فضائیہ کے چند شعبوں کے افراد اور فوجی یونیفارم والے ہیڈ آفس، مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے دفتر کے لوگ، ڈپو تربیتی اداروں، ورکشاپ، فیکٹریوں کے ملازمین، نرسوں اور لیڈی ڈاکٹروں، نائیوں، باورچیوں، موچیوں، جمعداروں کو بھی شامل کرلیں تب بھی کُل تعداد پچپن ہزار سے زیادہ نہیں بنتی۔ باقی شہری حکام، عملے کے افراد اور ان کے اہل وعیال ہوں گے۔
چنانچہ یہ بیان کہ بھارت نے پاکستان کے ۹۳ ہزار فوجی اپنی قید میں لیے، بالکل غلط تھا، اور اس سے یہ ابہام پیدا ہوا کہ مشرقی پاکستان میں پاکستان کی لڑاکا فوج کی تعداد کو بڑھا کر ۴۵ سے ۹۳ ہزار بنادیا گیا ہے جو انتہائی مبالغہ آمیز تھا۔
۵؍اپریل۔۹؍ اپریل ۱۹۷۴ء سہ فریقی معاہدہ دہلی
پاکستان کے وزیر خارجہ جناب عزیز احمد، بھارت کے وزیر خارجہ سورن سنگھ اور بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ ڈاکٹر کمال حسین نے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے جس میں یہ طے کیا گیا کہ جنگ بقائے پاکستان، جنگ آزادی بنگلہ دیش میں شرکت کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے گی اور ۱۹۵ جنگی قیدیوں پر بنگلہ دیش کوئی مقدمہ نہ چلائے گا اور بھارت بقیہ پاکستانی جنگی قیدی اور شہری دہلی کے اگست ۱۹۷۳ء کے معاہدے کے تحت آزاد کرکے جن کی تعداد ۶۵۰۰ تھی، اپریل کے آخر تک رہا کرکے ان کے مقامات پر پہنچا دے گا۔
۹؍اپریل ۱۹۷۴ء کو نئی دہلی میں اس معاہدے پر تینوں وزرائے خارجہ کے دستخط ہوئے اور اس کے تین اصل (original) متن تیار کیے گئے اور تینوں نے اس پر دستخط کیے۔
اس مذکورہ معاہدے پر تینوں ملکوں کی حکومتوں کے سربراہوں کی طرف سے ان کے وزرائے خارجہ نے باضابطہ طور پر دستخط کیے اور اس کا ایک اصل متن حکومت پاکستان کے پاس بھی یقیناًموجود ہے۔
معاہدے کے تحت حکومتِ پاکستان کا فرض
اس معاہدے کے تحت پاکستان نے بھی ہزاروں بنگالی شہریوں اور ان کے اہل و عیال کو غیر مشروط طور پر بنگلہ دیش بھیج دیا تھا اور کسی بنگالی شہری، فوجی افسر یا اہل کار پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا تھا۔ معاہدے پر دستخط کے تقریباً چار عشروں کے بعد بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت بھارت کے ایما پر اس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے جس طرح حق و انصاف اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جماعت اسلامی کے اکابرین اور بنگلہ دیش کے باضابطہ اور محب وطن اسلام پسند شہریوں کو ظلم و سفاکی کا نشانہ بنا رہی ہے اور اس پر حکومت پاکستان کی مجرمانہ خاموشی، اور جنرل حمیدگل اور جنرل مرزا اسلم بیگ کے سوا عساکر پاکستان کے کسی ترجمان نے اپنے ان مددگاروں کی جاں بخشی کے لیے کوئی اپیل تک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جنھوں نے اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر انتہائی مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا تھا اور خود کو تباہ کرلیا تھا۔ سقوط ڈھاکا کے بعد یہ بنگالی اور غیر بنگالی مسلمان جنھوں نے ملک کی یک جہتی اور سالمیت کے لیے پاک فوج کا ساتھ دیا تھا، غدار کہلائے۔ دکھ تو یہ ہے کہ ان کے خلاف پاکستان میں (اُس وقت بھٹو کی حکومت تھی جو اقتدار کی خاطر ملک کو توڑنے میں معاون و مددگار تھے) انتہائی زہریلا پروپیگنڈہ کیا گیا تاکہ مغربی پاکستان میں ان کے خلاف نفرت پھیلا کر ان کو پاکستان نہ لایا جا سکے۔ بھٹو، بے نظیر، ضیاالحق اور پرویز مشرف نے محب وطن پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کی کوئی کوشش نہیں کی جبکہ رابطہ عالم اسلامی، مخیر مسلمان شخصیات اور اسلامی رفاہی ادارے ان کی واپسی اور آبادکاری کے سارے اخراجات اٹھانے کو تیار تھے۔ نوازشریف صاحب نے ان مظلوم پاکستانیوں کو واپس لانے کا اعلان کیا لیکن چند سو خاندانوں کو لانے کے بعد یہ نمائشی اقدام بھی دم توڑگیا۔
nn