اپنے جرائم دوسروں کے سر تھوپنے کی روایت بہت قدیم ہے۔ اس کی سب سے بڑی علامت ’’امریکی وار آن ٹیرر‘‘ ہے، جس میں دنیاکی تقریباً تمام علاقائی اور عالمی طاقتیں شریک ہیں۔ ’’دہشت گردی‘‘ یا ٹیررازم کی آج تک کوئی متفق علیہ تعریف نہیں کی جاسکی ہے۔ البتہ پراپیگنڈے کے زور پر جس کو چاہے دہشت گرد اور جس کو چاہے امن کی علامت بنادیا جاتا ہے۔ پراپیگنڈے کے وسائل پر جن طاقتوں کا تسلط ہے انہوں نے جھوٹ کو سچ کا جامہ پہنانے کی مہارت حاصل کرلی ہے، اسی وجہ سے امریکہ کی سربراہی میں آج کی غالب طاقتوں نے پوری دنیا کو نظر نہ آنے والی پراسرار طاقتوں سے خوفزدہ کرکے حقائق پر پردہ ڈال دیا ہے۔ آج دنیا کے امن و امان کو، انسانی آزادی اور بنیادی حقوق کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے تو دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جاری اِس جنگ کے قائدین سے ہے جنہوں نے ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے نام پر فوج، پولیس اور خفیہ اداروں کو لامحدود اختیارات دے دیے ہیں۔ گوانتاناموبے، بگرام اور ابوغریب کے تعذیب خانے جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق کے نام نہاد علم برداروں کے ماتھے پر سیاہ داغ کی صورت میں نمودار ہوچکے ہیں۔ عالمی طاقتوں کے جھوٹ کا پردہ تو اسی وقت چاک ہوگیا تھا جب عراق کو تاخت و تاراج کردیاگیا اور اس کے سربراہ صدام حسین پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس نے اپنے ملک میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار جمع کررکھے ہیں اور صدام حسین اور اس کے ملک عراق سے دنیا غیرمحفوظ ہے۔ لیکن بعد میں ثابت ہوگیاکہ یہ گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔ اسی طرح عراق پر حملے سے دو برس قبل یہ دعویٰ کیا گیا کہ سرمایہ داری کی علامت نیویارک ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت کو جہازوں سے ٹکرا کر تباہ کردینے کی منصوبہ بندی دنیا کے سب سے پسماندہ ملک افغانستان میں پناہ گزین گروہ القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن نے کی تھی۔ آج تک اس پُراسرار واقعے کے کوئی مستند شواہد دنیا کے سامنے پیش نہیں کیے گئے البتہ پراپیگنڈے کے زور پر پوری دنیا کو خوفزدہ کردیا گیا کہ دہشت گردی اس وقت دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ کام اس دور میں کیا گیا جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بل پر ایک ایک فرد پر نظر رکھنا آسان ہوچکا تھا۔آج امریکی وار آن ٹیرر کو 15 برس ہوگئے ہیں۔ یہ جنگ فروغِ دہشت گردی کی جنگ ثابت ہوئی ہے۔ اس کا سبب بالکل واضح ہے کہ پوری دنیا کو اپنا غلام بنانے کی ہوس رکھنے والی عالمی طاقت امریکہ نے پینٹاگون، سی آئی اے اور اس کی ذیلی تنظیموں کو اصل اختیارات دے دیے ہیں۔ اس جنگ کے سائے میں دنیا کے ہر ملک میں انٹیلی جنس وار شروع ہوچکی ہے۔ اس جنگ کا آغاز بش جونیئر کی قیات میں ہوا تھا۔امریکہ میں دوبار قیادت تبدیل ہوئی ہے۔ نئی تبدیل شدہ قیادت نے امریکہ سمیت پوری دنیا کو نئے خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ایسی جنگ جو جھوٹ اور فریب کی بنیاد پر شروع کی گئی تھی اس کی آگ کی لپٹیں اب ان کو خود اذیت دے رہی ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں مختصر سا اہلِ دانش کا ایک طبقہ موجود رہا ہے جو یہ تسلیم کرتا تھاکہ یہ جنگ غلط بنیادوں پر شروع کی گئی ہے اور اس کے اچھے نتائج نہیں نکلیں گے، لیکن اس کے باوجود کوئی کھل کر یہ نہیں کہتا تھا کہ دنیا کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکنے والے اصل میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے منفی سامراجی مقاصد اور بلاشرکت غیرے دنیا کا خدا بننے کے لیے یہ جنگ چھیڑی تھی جس نے کم از کم عالم اسلام کے 4 سے 5 ممالک کو کھنڈر بنادیا ہے۔ امریکی وار آن ٹیرر کے بارے میں تقریباً تین برس قبل دو امریکی و یورپی دانشوروں نے اپنی قیادت کو متوجہ کیا تھا کہ انہوں نے غلط جنگ چھیڑی ہے اس لیے اس کے غلط نتائج نکلیں گے۔ دیکھیں وہ کیا کہتے ہیں:
It is difficult to escape the conclusion that the united states has been fighting the wrong war with the wrong tactics, against the wrong enemy and therefore the results can be nothing but wrong.
Malisi Ruthren, New York Review of Books 24, oct. 2013
’’اس کے سوا کوئی نتیجہ نکالنا مشکل ہے کہ امریکہ نے ایک غلط جنگ، غلط حکمت عملی سے غلط دشمن کے خلاف لڑی اور اس لیے نتائج بھی غلط کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتے تھے۔‘‘
The war unleshed or fuelled by the US Britain and their allies over the past 12 years have been shameful. Far from accomplishing their missions, they have brought untold misery, spread terrorism across the world and brought strategic defeat to these who leashed them.
Seusmus Milne The Guardian 12, Dec. 2013
’’امریکہ، برطانیہ اور ان کے حلیفوں نے جو جنگیں گزشتہ 12 برسوں میں شروع کیں اور ان کو ایندھن فراہم کیا، شرمناک تھیں۔ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بجائے یہ غیرمعمولی تحریک لائیں، دہشت گردی کو ساری دنیا میں پھیلادیا، اور جنہوں نے اس کا آغاز کیا ان کی اسٹرے ٹیجک شکست کا باعث بنیں۔‘‘
اس کے باوجود دنیا کی بدامنی کے اصل ذمے دار اپنے جرائم کسی اور کے سر تھوپنے کے لیے پھر جھوٹ کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ انسانی آزادی خطرے میں پڑچکی ہے۔ امن کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر وہ ظلم و تشدد کیا گیا ہے جس کی مثالیں چنگیز و ہلاکو کے دور میں بھی نہیں ملتیں۔ اس کے باوجود دنیا کی سفاک ترین اور مجرم قوموں کے قائدین اور پراپیگنڈا بازوں کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا میں امن کے قیام کے علم بردار ہیں۔ انہوں نے مسلم حکمرانوں کو یہ سبق دیا کہ دہشت گردی اصل خطرہ ہے۔ اس خطرے کو حقیقت بنانے کے لیے خفیہ ایجنسیوں کو ناقابلِ احتساب اختیارات دے دیے گئے۔ البتہ امریکی جنگ کی ناکامی نے عالمی نقشہ تبدیل کردیا ہے۔