(سندھ کے قوم پرستوں کے اعترافات کا موسم (اسامہ تنولی

صوبہ سندھ میں اس وقت لگ بھگ ڈیڑھ درجن قوم پرست جماعتیں مختلف ناموں کے ساتھ میدانِ سیاست میں موجود ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ اس بات کی دعویدار ہے کہ دراصل وہی صحیح اور درست انداز میں صوبہ سندھ کے ساتھ روا رکھی گئی مبینہ (وفاق اور پنجاب کی) زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف حقیقی جدوجہد میں مصروف ہے اور اس کے سوا باقی جتنی بھی قوم پرست تنظیمیں ہیں وہ ایجنسیوں یا پنجاب کے پے رول پر ہیں۔ ان قوم پرست جماعتوں میں نصف درجن سے زائد تو ایسی ہیں جو جی ایم سید مرحوم کی فکر کی پیروکار ہونے کے ناتے سے نام نہاد آزاد ’’سندھو دیش‘‘ کے قیام کی علَم بردار ہیں اور انتخابی سیاست کی قائل نہیں ہیں۔ وفاق سے علیحدگی کی آرزومند یہ جماعتیں اپنے نام کے ساتھ ’’جیے سندھ‘‘ کا سابقہ بھی استعمال کرتی ہیں۔ سندھ کی تمام قوم پرست جماعتیں اوائل ہی سے اس الزام کی زد میں رہی ہیں کہ ’’صوبے میں تعلیم کی تباہی اور مبینہ طور پر بھتہ خوری، زمینوں پر ناجائز قبضے اور اسلحہ کی سیاست میں ان کا نمایاں اور اہم کردار رہا ہے۔ اس وجہ سے عوامی عدم پذیرائی نے انہیں قومی، صوبائی اور بلدیاتی سطح پر منعقدہ کسی بھی الیکشن میں کبھی کوئی ایک نشست بھی جیتنے کا موقع فراہم نہیں کیا ہے‘‘۔ انتخابی عمل اور انتخابی سیاست پر یقین رکھنے والی سندھ کی قوم پرست جماعتوں کا ہر مرتبہ ہر سطح کے الیکشن میں برے طور پر شکست یافتہ ہونا ایک امرِ واقع ہے، تاہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرلینا کہ مذکورہ تنظیمیں سندھ کی سیاست پر اپنے اثرات نہیں رکھتیں، ایک خلافِ واقعہ اور حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف بات ہوگی۔ انتخابی سیاست میں ناکام کردار کے باوجود صوبے میں قوم پرست تنظیموں کے بہرحال قابلِ ذکر اور نمایاں اثرات موجود ہیں اور وہ واضح طور پر دکھائی بھی دیتے ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی سمیت قومی سطح پر سیاست کرنے والی دیگر جماعتیں (بشمول دینی جماعتیں) سندھ میں اور سندھ سے باہر مختلف ایشوز اور امور پر الگ الگ یا برعکس مؤقف اختیار کیے ہوئے ہیں تو اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ بھی ان قوم پرست تنظیموں کے اثرات کو ہی قرار دیا جائے گا۔ اس حوالے سے ایک اہم اور نمایاں مثال متنازع کالا باغ ڈیم کی تعمیر یا عدم تعمیر کا ایشو ہے۔ ہماری تمام قومی سیاسی جماعتیں اگر سندھ میں اس ڈیم کی تعمیر کی سخت مخالفت کرتی دکھائی دیتی ہیں تو دوسری جانب بیرونِ صوبہ اس سے یکسر برعکس مؤقف اپنا لیتی ہیں۔
سندھ کی قوم پرست تنظیموں نے فی الوقت آپریشن ضربِ عضب کے تناظر میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کررکھا ہے۔ یہاں تک کہ ہر سال 23 مارچ کو یوم قراردادِ پاکستان کے موقع پر کراچی میں نام نہاد ’’آزادی مارچ‘‘ کا انعقاد کرنے والی تنظیم جیے سندھ قومی محاذ المعروف ’’جسقم‘‘ بھی منقارِ زیر پر ہے۔ لگتا یہ ہے کہ اس دوران سندھ کی قوم پرست تنظیمیں داخلی طور پر ماضی میں روا رکھی گئی اپنی غلط پالیسیوں اور حکمت عملی کے حوالے سے احتساب کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ یہ تاثر کیوں کر اور کس لیے اجاگر ہوا ہے، اس بارے میں تفصیل ذرا آگے چل کر پیش کی جائے گی۔ بلاشبہ اگر ایک طرف سندھ کے قوم پرستوں نے ماضی میں (میدانِ سیاست میں) پہاڑ جیسی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے تو دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وفاق نے بھی ہمیشہ سندھ کے معدنی اور قدرتی وسائل کو دھڑلے کے ساتھ استعمال کرکے بدلے میں اسے محض ’’بہ قدرِ اشکِ بلبل‘‘ کے مصداق ہی عطا کیا ہے۔ نیز سندھ کے لیے وفاقی ملازمتوں میں مختص کردہ کوٹہ کے حوالے سے بھی اہلِ صوبہ کے ساتھ روا رکھی گئی ناانصافی کی ایک الگ داستان ہے۔ یہ، اور اسی طرح کے دیگر ملتے جلتے مسائل پر ہی سندھ کے قوم پرستوں نے بھی اپنی ساری جدوجہد پر مبنی سیاست کی عمارت کی بنیادیں استوار کررکھی ہیں۔ تاہم اب یہ صاف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ سندھ کے قوم پرستوں نے جن ایشوز پر اپنی سیاست کی بنیادیں قائم اور برقرار کررکھی تھیں ان میں سے وہ بعض ایسے ایشوز پر بھی ماضی میں غلط فہمی اور عدم معلومات کی بنا پر بلاوجہ اور بلاسبب ہی جدوجہد اور احتجاجی سیاست کرتی رہی ہیں جو اصل حقائق پر مبنی نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل قوم پرست سیاسی رہنماؤں، کارکنان اور اہلِ دانش کی جانب سے ماضی میں روا رکھی گئی حقائق کے برعکس غلط پالیسیوں کو اپنائے جانے سے متعلق اعترافات تواتر کے ساتھ سامنے آرہے ہیں، اور اس طرح سے گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ سندھ میں قوم پرستوں کی جانب سے ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کے حوالے سے آج کل ’’اعترافات کا موسم‘‘ چل رہا ہے۔ یہ سامنے آنے والے نئے حقائق کیا ہیں؟ اور وہ کون سے ایسے ایشوز رہے ہیں کہ جن پر ماضی میں قوم پرست جماعتیں بڑے شدومد کے ساتھ احتجاجی سیاست کرتی رہی ہیں؟ ان کے بارے میں تفصیل کے ساتھ ممتاز سندھی دانشور اور کالم نگار نصیر میمن نے معروف سندھی پندرہ روزہ ’’افیئر‘‘ میگزین کراچی اور ممتاز سندھی قوم پرست دانشور اور رہنما علی نواز بٹ نے اس شمارہ کی 15 اکتوبر تا 30 اکتوبر 2016ء کی اشاعت میں علی الترتیب اپنے تحریر کردہ مضامین ان کہی کہانی۔ ٹوڑھی پھاٹک واقعہ اور شیریں سومرو واقعات پر چڑھی گرد اور قومی تحریک کے خلاف سازش۔ 1986ء میں جھنڈا کس نے اور کیوں جلایا؟ کے عناوین کے تحت اظہارِ خیال کیا ہے۔ ذیل میں ہر دو اصحاب کے ان مضامین کے جستہ جستہ منتخب حصوں کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔
نصیر میمن اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں:
’’تاریخ میں کئی محض جھوٹ پر مبنی اور من گھڑت قصے قومی غیرت کا پیمانہ بن جاتے ہیں۔ سندھ میں بھی قوم پرستی پر مبنی سیاست ایسے رویوں کی متواتر شکار رہی ہے۔ اندھی عقیدت میں کارکنان اور ہمدردوں کے لیے یہ امر ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وہ رہنماؤں کے ہر الٹے سیدھے فرمان اور عمل کے لیے دلیل ڈھونڈیں اور دل و جان سے ان کے کرتوتوں کا دفاع کریں۔ اس رویّے کے باعث کئی افسانے بھی حقیقت بن جاتے ہیں۔ گوئبلز کے پجاری اس جھوٹ کو اتنا بنا سنوار کے اور اعتماد کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ پھر ان کے اصل سچ کو بے نقاب کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔
سندھ کی قوم پرست سیاست کے حوالے سے ایک ایسے ہی قصہ کی اصلیت سوشل میڈیا پر عیاں ہوئی ہے۔ یہ واقعہ ہے 1978ء میں ایک سندھی بیٹی شیریں سومرو کے ساتھ مبینہ طور پر ایک فوجی اہلکار کے ہاتھوں ریپ کیے جانے کا۔ اس واقعہ کے ردعمل میں طلبہ کے احتجاج کے دوران ایک فوجی اہلکار کا قتل ہوا اور پھر مرحوم علی حیدرشاہ کو اس جرم میں عمرقید کی سزا بھی ملی۔ تمام قوم پرست سیاست اس واقعے کو سندھیوں پر ہونے والے ایک ظلم کی داستان کے طور پر بیان کرتے ہوئے اس واقعے میں ملوث افراد کو قومی ہیرو کا درجہ دیتی رہی ہے۔ آج کی نسل کے قوم پرست اس واقعے پر تِل برابر بھی شک نہیں کرتے ہوں گے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر سہیل میمن، قادر جتوئی، حسن مجتبیٰ، رسول بخش تھیبو کے مابین ہونے والی گفتگو سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ طلبہ کا سارا ردعمل نواب شاہ سے آنے والی ایک فون کال کے باعث ہوا، درآں حالیکہ اس نوع کا کوئی ایسا واقعہ درحقیقت پیش ہی نہیں آیا تھا۔
سندھ کی حالیہ سیاسی تاریخ کا ایک اور ایسا ہی واقعہ ٹوڑھی پھاٹک کا سانحہ تھا، جس میں پانچ نوجوان سیاسی کارکنان اور طلبہ جنرل ضیا کے مارشل لا کے دوران فوج کی فائرنگ میں قتل کیے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد کئی طلبہ گرفتار ہوئے، جن میں سے سات افراد کئی برس تک جیل میں بھی رہے اور ایک عرصے تک سندھ کے قومی ہیرو بنے رہے۔ جیے سندھ محاذ کے رہنما عبدالخالق جونیجو نے اپنی غیرمطبوعہ آپ بیتی میں اس واقعے کے بارے میں چند سوالات اٹھائے ہیں اور اس بارے میں ایک اخباری مضمون بھی لکھ چکے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ دو برس قبل ٹوڑھی پھاٹک کے ایک چشم دید گواہ نے بتایا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چند مطلوبہ ملزمان کی اس بس میں ہونے کے بارے میں پکی معلومات تھیں۔ انہوں نے بس کو سڑک سے اتار کر پہلے اعلان کیا کہ فلاں فلاں افراد نیچے اتر کر خود کو ان کے حوالے کردیں تو باقی شاگردوں (طلبہ)کو جانے کی اجازت ہوگی۔ جس کے بعد یہ خون ریزی ہوئی۔ مختلف افراد اس بارے میں سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ اگر اس سانحہ کے پیش آنے میں کوئی دیگر کردار بھی ذمہ دار تھے تو وہ حقائق بھی عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔
اسی طرح سے حال ہی میں سینیٹ میں سندھی زبان کے حوالے سے پیش کردہ بل کے حوالے سے مسلم لیگ فنکشنل کے سینیٹر اور سابق وزیراعلیٰ سندھ سید مظفر علی شاہ کی جانب سے مذکورہ بل کی مخالفت کی خبر آنے کے بعد اُن کے خلاف سوشل میڈیا پر زبردست مہم چلائی گئی اور انہیں غدار تک قرار دیا گیا۔ یہ سارا شوروغوغا ایک اخبار میں خبر آنے کے بعد کیا جا رہا تھا۔ بعد میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ اس بل میں تو سندھی زبان کو قومی بولی بنائے جانے کا کہیں ذکر ہی نہ تھا۔ عام روزمرہ کے معاملات میں تو اس رویّے کا نقصان چند افراد تک ہی محدود رہتا ہے، لیکن قومی اور اجتماعی معاملات میں یہ رویّے خطرناک حد تک نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
علی نواز بٹ اپنے مضمون میں جیے سندھ کا سابقہ لگائے ہوئے مختلف تنظیموں کے قائدین ہی کو ان دھڑے بندیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’سندھ کی قومی تحریک کے خلاف سرکار تو شروع ہی سے متمنی تھی کہ اس کے حصے بخرے ہوں، لیکن خود قومی تحریک میں بھی ہم نے کئی غلطیاں کی ہیں۔۔۔ کچھ دانستہ اور کچھ غیر دانستہ۔ ہر ایک اپنے لیڈروں کی شہرت کے لیے کوشاں رہا ہے۔ قومی تحریک میں منفی رجحانات نے عروج حاصل کیا۔ جب تک جی ایم سید زندہ رہے کسی نہ کسی حد تک نظریاتی کام منظم طور پر ہوتا رہا۔ 1995ء میں جیے سندھ محاذ کے ٹوٹنے کے بعد نظریاتی کام ختم ہوکر رہ گیا۔ اس کا نتیجہ آج سامنے ہے، اور آج قومی تحریک کی بیس جماعتیں ہوچکی ہیں اور ان میں سے اکثر جماعتیں قومی تحریک کو کمائی کا کارخانہ سمجھتی ہیں۔‘‘
سندھ کے قوم پرستوں کی جانب سے ماضی کی غلطیوں کے اعترافات پر مبنی اس نئے سلسلے کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’دیر آید درست آید‘‘۔۔۔ اور یا پھر یہ کہ
’’دیر لگی آنے میں تم کو لیکن پھر بھی آئے تو‘‘
nn