اردو زبان کی چند خوبیاں

شمارہ نمبر 48 میں ہم نے لکھا تھا کہ بھارت میں شائع ہونے والے اردو اخبارات نے ہلاک سے مہلوک بنا لیا ہے، یعنی ہلاک ہونے والا۔ اس پر احمدانی کالونی، میرپور خاص سے جناب باب الدین بھی شریکِ محفل ہوئے ہیں اور یہ باب باندھا ہے کہ ’’ہلاک سے مہلوک غلط ہے، کیوں کہ ھَلَک، یَہلِک عربی میں فعل لازم ہے یعنی ہلاک ہونا۔ اب اس کا مفعول کیسے بن سکتا ہے۔ اس کا فاعل ہے ہالک، جس کے معنی ہوں گے ہلاک ہونے والا، جیسے راحل رحلت کرنے والا۔
بھائی باب الدین خوش آمدید۔ اچھا ہوا آپ نے وضاحت کردی۔ لیکن بات تو بھارت سے شائع ہونے والے اردو اخبارات کی ہے، خاص طور پر حیدرآباد دکن کے اخبارات، جنہوں نے مہلوک کی جمع مہلوکین بھی بنالی ہے۔ اب اُن تک یہ بات پہنچا دی جائے تو امید نہیں ہے کہ اصلاح قبول کریں گے، کیونکہ عربی قواعد ایک طرف، ہالک کون لکھے گا۔ باب الدین، خط، کتابت کا باب کھلا ہی رکھیے گا، آپ سے کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
اردو زبان دنیا کی واحد زبان ہے جس میں ہر تلفظ مل جاتا ہے۔ کسی زبان میں ٹ، پ، گ نہیں ہے تو کسی میں ڈ، ڑ اور گھ، بھ وغیرہ نہیں ہے۔ یہی نہیں، اس زبان کا ایک کمال یہ ہے کہ ہر رشتے کے لیے الگ لفظ، الگ پہچان۔ اور جانوروں کے بچوں تک کے لیے الگ الفاظ، کہ سنتے ہی پتا چل جائے کہ کس جانور کا ذکر ہے۔ عربی یقیناًبہت وسیع اور فصیح زبان ہے لیکن اس میں بھی رشتوں کے لیے الگ الگ الفاظ نہیں ہیں۔ مثلاً باپ کا ہر بھائی عم ہے، جب کہ اردو میں چچا، تایا ہیں۔ اور زیادہ ہوں تو بڑے تایا، بڑے ابو وغیرہ، ایسے ہی پھوپھی، چچی، خالو، ماموں وغیرہ۔
معروف صحافی آغا شورش کاشمیری مرحوم کی ایک پرانی تحریر ہے جس میں انہوں نے جانوروں کے بچوں کے لیے مختص الفاظ کی نشاندہی کی ہے مثلاً ’’بکری کا بچہ: میمنا۔ بھیڑ کا بچہ: برّہ۔ ہاتھی کا بچہ: پاٹھا۔ اُلّو کا بچہ: پٹھا (لیکن پٹھا تو پہلوانوں کا بھی ہوتا ہے)۔ بلی کا بچہ: بلونگڑہ۔ گھوڑی کا بچہ بچھیرا۔ بھینس کا بچہ: کٹڑا۔ مرغی کا بچہ: چوزا۔ ہرن کا بچہ: برنوٹا۔ سانپ کا بچہ: سنپولا۔ سور کابچہ: گھٹیا۔
یہ بڑی طویل فہرست ہے جس میں بعض جانداروں اور غیر جانداروں کی بھیڑ کے لیے خاص الفاظ مقرر ہیں۔ درج بالا ’’بچوں‘‘ میں ہاتھی اور ہرن کے بچے کے لیے آغا صاحب نے جو نام دیے ہیں وہ نامانوس سے ہیں یعنی پاٹھا اور برنوٹا۔ اس فہرست کا باقی حصہ پھر کبھی سہی۔
سہ ماہی بیلاگ کا اکتوبر تا دسمبر کا شمارہ ابھی ابھی ہاتھ لگا ہے۔ اس رسالے میں مدیراعلیٰ عزیز جبران انصاری تلفظ کی اصلاح کرتے ہیں، اس لیے ہم بھی اپنی اصلاح کے لیے اسے توجہ سے پڑھتے ہیں۔ اس شمارے میں عزیز جبران نے توجہ دلائی ہے کہ ان الفاظ کا استعمال غلط دیکھنے میں آرہا ہے ’’جمع، طبع، سطح، سطر، منع، معنی‘‘۔ ان الفاظ میں دوسرا حرف ساکن ہے مگر نوجوان بلکہ بعض کہنہ مشق شعرا کے کلام میں بھی یہ خامی موجود ہے۔ عزیز جبران نے درست تلفظ کے ساتھ اساتذہ کے اشعار بطور مثال پیش کیے ہیں۔ قارئین بھی اس سے استفادہ کریں۔
جمع (ج۔م۔ع میم ساکن ہے)
امیر جمع ہیں احباب حالِ دل کہہ لے
پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہے
طبع کے لیے غالب کا شعر:
پاتے نہیں راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
اسی طرح دیگر الفاظ کے تلفظ کی سند میں اساتذہ کے شعر دیے گئے ہیں لیکن سطح کے لیے مرزا غالب کا جو شعر دیا گیا ہے اس میں سطح کا کوئی ذکر نہیں۔ شعر یہ ہے:
سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی
ہمارا خیال ہے کہ دوسرا مصرع جناب انصاری کو صحیح یاد نہیں رہا، اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے غالب کی اصلاح کرڈالی ہے۔ دوسرے مصرع میں ’’روئے آب‘‘ کی جگہ سطح آب ہے جو شاید پانی کے نیچے چلا گیا۔
ایک ادبی رسالے ’انشا‘ میں ایک افسانہ ہے ’’من کا چور‘‘۔ اس میں ایک جملہ ہے ’’اس نے پھیکے منہ سے بھی نہ پوچھا‘‘۔ محاورے سے یہ چھیڑ چھاڑ اچھی نہیں ہے۔ تو کیا پہلے منہ میٹھا کرتا پھر پوچھتا! اصل محاورہ ہے ’’جھوٹے منہ بھی نہ پوچھنا‘‘۔ اب اگر ادیب اور افسانہ نگار بھی غلط اردو لکھنے لگیں تو دوسروں سے کیا شکوہ۔ ہمارے صحافی بھائی تو ادیب نہ افسانہ نگار۔ لیکن صحافیوں نے شعر اور ادب کو ممنوع کیوں قرار دے رکھا ہے؟ اچھی نہ سہی، غلطی سے پاک اردو لکھنے کے لیے ادب کا تھوڑا بہت مطالعہ ضروری ہے۔ کوئی ایسا لفظ سامنے آئے جس کا مفہوم تو معلوم ہو لیکن لغوی معانی معلوم نہ ہوں تو فوراً لغت دیکھ لی جائے۔ ہم اب تک یہی کرتے ہیں، کہ ہر ایک تو بابائے اردو نہیں ہوتا۔ اور بابائے اردو بھی لغت ضرور دیکھتے ہوں گے۔
لاہور سے ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ایک حدیث کا ترجمہ پڑھا کہ ’’میںؐ مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں‘‘۔ مکارمِ اخلاق کا مطلب کیا ہے؟ وقت کے ساتھ اب کئی الفاظ مشکل ہوتے جارہے ہیں۔ مکارم اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ یہ مکرمت کی جمع ہے، اور مکرمت کا مطلب ہے بزرگی، مہربانی، عنایت، نوازش، عظمت وغیرہ۔ چنانچہ مکارم اخلاق کا مطلب ہوا: اخلاق کی عظمت، بزرگی۔ اسی سے مکّرم ہے جس سے آپ بھی واقف ہیں۔ مکرم (عربی۔صفت) عزت دیا گیا، بزرگ، محترم، معظم، معزز وغیرہ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطلب ہے کہ وہ اخلاقِ کریمہ کی تکمیل کے لیے بھیجے گئے۔ اور آپؐ سے بڑھ کر اخلاق کس کا ہوسکتا ہے۔ اب کوئی مکرم، محترم اخلاق کے مطلب نہ پوچھ بیٹھیں۔ اخلاق میں الف پر زبر ہے۔ مکارم بفتح اول و کسر چہارم یعنی مَکارِم۔فی الوقت اتنا ہی، ملتے ہیں ایک بریک کے بعد۔