مھک

جس دن ضمیر جعفری، مولانا ماہرالقادری اور محمد جعفری یکجا ہوں تو کمرے کی ہر دیوار دیوارِ قہقہہ بن جاتی۔ شعر و شاعری ملتوی۔۔۔ نوک جھونک، چھیڑ چھاڑ، فقرے بازی اور قہقہوں کے سوا اور کچھ سنائی نہ دیتا۔ ’’نورا کشتی‘‘ تھوتھے تیروں سے نشانہ بازی اور بناوٹی مُچیٹے ہوتے رہتے۔ برابر کی ٹکر اور برابر کی چوٹ تھی۔ کوئی کسی پر حاوی یا غالب نہیں آسکتا تھا:
ہر ایک شیر افگن، ہر ایک شیر گیر
ہر اک صاحبِ نیزہ و گُرز و تیر
بعض اوقات مولانا کو اپنا مذاق اڑوانے اور چاند ماری کا ہدف بننے میں بھی مزا آتا تھا اور خود اس کا موقع و مواد و جواز خوشدلی سے فراہم کرتے۔ شاید یہ بھی انہوں نے اللہ کے بندوں کا دل شاد کرنے کی ایک صورت نکالی تھی۔ اتوار کے دن مولانا لباس کے باب میں خاصے لاپروا نظر آتے تھے۔ ہفتے کے بقیہ دنوں کے بارے میں کچھ عرض نہیں کرسکتا، اس لیے کہ اس زمانے میں اُن سے صرف اتوار ہی کو ملاقات ہوتی تھی۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ وہ مجھے بھری محفل میں دو دفعہ ٹوک چکے تھے کہ لاپروا اور لاچاری غلط ہیں۔ صحیح بے پروا اور ناچاری ہے۔ مگر پچاس برس میں آج بھی اپنی غلطی پر قائم ہوں۔ اس لیے کہ مجھے بے پروا میں وہ شانِ لاپروائی، تھوڑی ڈھٹائی اور مکمل بے پروائی نظر نہیں آتی۔ اسی طرح ناچاری میں وہ سرتاپا بے چارگی کا عالم نظر نہیں آتا جو لاچاری سے ٹپکا پڑتا ہے۔ مجھے تو اس میں اس بیچارے کا لولا لنگڑا پن ہی نہیں بلکہ اس کا توتلا پن اور لاٹھی تک نظر آتی ہے! کسی نقّاد یا قواعد داں کو صحتِ ترکیب پر اتنا ہی اصرار ہے تو پھر لاابالی پن کو بے ابالی پن کیوں نہیں بولتے؟
مولانا اچھے اچھوں کی زبان و کلام میں غلطیاں نکالنے میں اسم بامسمیٰ یعنی ماہر تھے، اور اپنے رسالے کو اغلاط کی نشاندہی اور دشمن بنانے کے لیے وقف کررکھا تھا۔ مرزا غیاب میں انہیں ماہر القادر الاغلاطی کہتے تھے! یہ بھی ہوا کہ کسی نے مجھے مطلع کیا کہ اس ماہ کے شمارے میں آپ کی کتاب (چراغ تلے) میں زبان کی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، لیکن میں نے جان بوجھ کر وہ شمارہ بازار سے نہیں خریدا، مبادا میرے احترام و تپاک میں فرق آجائے۔ یہ خدشہ بھی تھا کہ پھر میں کہیں ان جیسا ہی نہ لکھنے لگوں!
مولانا مَسلے کُرتے اور اٹنگے پاجامے میں بھی بارعب نظر آتے تھے۔ ازار بند اکثر سہرے کی لڑی کی مانند لٹکا رہتا اور کُرتے کے نیچے لرزاں و جنباں نظر آتا تھا۔ ایک دفعہ ضمیر جعفری نے ٹوکا تو فرمایا، گِرہ تو مضبوط ہے۔
ضمیر بولے، آپ کے ڈِھلمل عقیدے کی طرح!
ایک اتوار کو مولانا ذرا تاخیر سے آئے اور گھبرائے گھبرائے سیدھے باتھ روم گئے۔ وہاں سے قہقہے لگاتے لوٹے۔ کہنے لگے، بس اسٹینڈ پر بلا کی دھکم پیل تھی، بس میں کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ لہٰذا میں بس کے دروازے کے پاس ہی کھڑا رہ گیا۔ اتنے میں ایک بڑے میاں بس میں چڑھنے لگے۔ کچھ دیر تو وہ بس کا ڈنڈا اور سہارا ڈھونڈتے ٹٹولتے رہے۔ پھر میرے ازار بند کا کلیدی یعنی کھل جا سم سم والا سرا پکڑ کے پوری طاقت سے اوپر چڑھے۔ گرہ پہلے ہی جھٹکے میں کھل گئی۔ آپ کے تو علم میں ہوگا کہ یوپی اور دکن کے شرفا میں پبلک یا بازار میں کھڑے ہوکر کھانا یا ازاربند برسرعام باندھنا خلافِ تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا میں ازاربند کے دونوں سروں کو دونوں ہاتھوں میں دبوچے سینے سے لگائے کھڑا رہا۔
بس اسٹینڈ سے فضل صاحب کے گھر، جو ایک فرلانگ کے فاصلے پر تھا، وہ اسی دبوچواں پوز میں تشریف لائے۔
(مشتاق احمد یوسفی کی تصنیف ’’شام شعرِ یاراں‘‘ سے اقتباس۔انتخاب: محمود عالم صدیقی)