کیا پاکستان کی سیاست میں بہتر تبدیلی ممکن ہے؟جو سیاسی نظام اس وقت ملک میں جمہوریت اور عام آدمی کے نام پر چل رہا ہے اس سے سوائے سیاسی، سماجی اور معاشی استحصال کے کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ ساری سیاسی جماعتیں اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والے مختلف فریقین اور پالیسی ساز اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہے۔ لیکن اصلاحات کا عمل کیوں اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپارہا؟ اس پر سنجیدگی سے غور وفکر کی ضرورت ہے۔اس کی وجہ یہ بھیہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت کے نام پر فکری مغالطے عام ہیں اور بعض بنیادی سوالات پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ بس جمہوری نظام کو چلنے دیں، اس نظام کے تسلسل سے ہی ہمارے مسائل حل ہوسکیں گے۔ لیکن سب نے دیکھ لیا کہ اس نظام نے ہماری ان خواہشات کو پورا نہیں کیا جو ہم رکھتے ہیں۔ جب سیاسی قیادتیں اصلاحات کے عمل کی بات کرتی ہیں تو یہ بات ان کی ذاتی خواہشات سے زیادہ عوامی دباؤ کے باعث ہوتی ہے۔ اس عوامی دباؤ یا اہل دانش کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے مصنوعی طور پر اصلاحات کے عمل کا سہارا لیا جاتا ہے، لیکن عملی طور پر صورت حال کو جوں کا توں رکھنا ہی ان کی مفاداتی سیاست کا تقاضا ہے۔ کیونکہ اصلاحات کا وہ عمل جو سیاسی اداروں کو مضبوط کرتا ہے، ہماری سیاسی قیادتوں کو قبول نہیں۔ اس کے برعکس یہ سیاسی قیادتیں اداروں کے مقابلے میں اپنی ذات کو زیادہ مضبوط بنانے کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جہاں سیاسی جماعتیں کمزور ہوکر فردِ واحد کے تابع بن کر کام کریں وہاں اُن کے اندر ادارہ جاتی عمل اپنی اہمیت کھودیتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے یہاں جو سیاسی جماعتیں یا جمہوری نظام ہے وہ ابھی بھی ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے، لیکن کہیں سے تو ہمیں اپنے سیاسی نظام میں بہتری کے سفر کا آغاز کرنا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہمیں سیاسی مسائل کا علم نہیں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر ان مسائل کے حل کی ’’کنجی‘‘ ثابت نہیں ہورہے۔
اہم بات یہ ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ اور اس سے وابستہ اداروں میں سیاسی اصلاحات کے حوالے سے کسی واضح اور جامع ہوم ورک کا فقدان ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں میں مستقل بنیادوں پر اصلاحات کے حوالے سے کوئی ٹھوس کام اور ان کے اندر پالیسی سازی کے عمل نہ ہونا بھی ایک مسئلہ ہے۔ جو ادارے ملک میں سیاسی اصلاحات پر کسی نہ کسی شکل میں کام کرکے اسے سیاسی قیادتوں اور پالیسی ساز افراد یا اداروں کے سامنے پیش کرتے ہیں، وہ بھی اس کمزور سیاسی نظام میں کوئی بڑی پذیرائی حاصل نہیں کرپاتے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ سیاسی جماعتوں، قیادتوں اور اصلاحات پر کام کرنے والے اداروں کے درمیان واضح خلا موجود ہے۔ سیاسی جماعتیں یا ادارے دنیا بھر میں ان اداروں کی اہمیت کو قبول کرکے ہی اپنے اندر اصلاحات کے عمل کو طاقت فراہم کرتے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں ان فریقین میں اعتماد سمیت ایک دوسرے کی قبولیت کے مسائل موجود ہیں۔ کیونکہ جب سیاسی قیادتیں بہتری کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ ہوں اور چاہتی ہوں کہ وہ اپنی طاقت کی سیاست کو ترجیح دیں تو پھر وہ مصنوعی اصلاحات کے نام پر سیاسی تماشا لگاتی ہیں تاکہ لوگوں کو یہ باور کروا سکیں کہ وہ واقعی تبدیلی چاہتی ہیں۔ حالانکہ ان کا ایجنڈا تبدیلی سے مختلف ہے، اور اگر وہ واقعی تبدیلی کی خواہش مند ہیں تو تبدیلی کا عمل کوئی ایسی راکٹ سائنس نہیں جس پر عملدرآمد نہ ہوسکے۔ بنیادی طور پر حکومتوں پر اصلاحات کے عمل پر جوابدہی کا ایک مکمل نظام موجود ہے۔ حزبِ اختلاف، سیاسی جماعتیں، اہلِ دانش، پارلیمنٹ، اسٹینڈنگ کمیٹیاں، پارلیمانی کمیٹیاں، میڈیا، تھنک ٹینک یا واچ گروپس کا مؤثر کام اور حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی ہی حکومتوں کو بہتر اصلاحات لانے کی طرف مجبور کرتی ہے۔ لیکن جیسے یہاں حکومتیں کمزور ہیں اسی طرح حکومتوں پر دباؤ ڈالنے والے تمام ادارے بھی یا تو کمزور ہیں، یا وہ بھی حکومتوں کے ساتھ سازباز کرکے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سمجھوتے کی سیاست کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں محض سیاسی نظام میں حکومتوں نے ہی مایوس نہیں کیا، بلکہ جن لوگوں کی ذمہ داری تھی کہ حکومتوں پر دباؤ ڈالتے، وہ بھی ناکام ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم اصلاحات کی توقع کس سے کریں اور یہ عمل کیسے ممکن ہوگا؟ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ہمیں سیاسی نظام پر بھروسا کرنا چاہیے۔ لیکن محض بھروسا کرنا چاہیے یا ان سیاسی جماعتوں کی نیتوں کا بھی جائزہ لے کر اپنی رائے قائم کرنی چاہیے! کیونکہ تضادات پر مبنی جو سیاست ہے اس میں کہا کچھ جاتا ہے اور کیا کچھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پیچھے کی جانب بڑھ رہے ہیں اور جو کام کرنا چاہیے اس سے گریز کرنے کی پالیسی نے جمہوری نظام کو بھی کمزور کیا ہے۔
ملک میں موجود سیاسی نظام میں جو بھی رکاوٹیں ہیں اصلاحات کا بنیادی مقصد اُن کو کم کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح سیاسی نظام میں اصل طاقت عوام یعنی جمہور کی ہوتی ہے۔ اصلاحات میں اگر عام یا کمزور طبقے کو باہر نکال دیا جائے اور اصلاحات کچھ مخصوص طبقے کے مفادات میں ہوں تو پھر لوگوں کی سیاسی نظام پر ملکیت کا احساس کیسے پیدا ہوگا؟ لوگوں کو لگتا ہے کہ سیاسی اصلاحات کے عمل میں ہماری حیثیت کمزور سی ہے اور سیاسی نظام یا قیادت ہمارے مفادات کو قربان کرکے ایک مخصوص طبقے کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے یہاں اصلاحات کے عمل میں کمزور نگرانی اور عدم جوابدہی کا نظام بھی مؤثر اصلاحات میں رکاوٹ بنتا ہے۔ کوئی بھی ایسا نظام نہیں جو دورانِ حکومت اِن لوگوں کی جوابدہی کے عمل کو ممکن بناسکے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر سیاسی حکومتیں کام نہ کریں تو لوگ ان کو دوبارہ ووٹ نہ دیں، اور یہی جوابدہی کا نظام ہے۔ لیکن کیا پانچ برسوں تک جوابدہی کا کوئی نظام نہیں ہونا چاہیے؟ اور کیا محض ووٹوں کے نظام کو ہی جوابدہی کا نظام سمجھ کر بیٹھ جانا چاہیے؟ انتخابات کا عمل کس حد تک اس ملک میں شفاف ہے، وہ الگ بحث ہے، اور اس نظام کے تحت انتخابات سے یہ سمجھنا کہ ان سے عوام کی اصل رائے کی عکاسی ہوتی ہے، محض خوش فہمی ہے۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ 2014ء کے تحریک انصاف کے دھرنے کے نتیجے میں 35 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کا کام انتخابی اصلاحات کرنا تھا، اگر ملک میں اُس وقت تحریک انصاف کا دھرنا نہ ہوتا تو اس پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل بھی ممکن نہ تھی۔ لیکن اس پارلیمانی کمیٹی کا کیا بنا اور کیوں اس کی سیاسی پٹاری سے وہ سانپ نہیں نکل سکا جس کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی تھی؟ اصل مسئلہ نیتوں کا ہے۔ اُس وقت عمران خان کے دباؤ میں کمیٹی بنادی گئی، بعد میں اس کمیٹی میں تاخیری حربے اختیار کرکے اسے غیر مؤثر بنادیا گیا۔ حیرت ہے اس میں جو جماعتیں حکومت مخالف تھیں وہ بھی خاموش رہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اختلاف کی سیاست کس حد تک سنجیدہ ہے۔
کچھ عرصہ قبل پاکستان میں ہارون خواجہ کی سربراہی میں’’پاکستان فریڈم موومنٹ‘‘ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کی گئی۔ اگرچہ ان کی جماعت نئی ہے، لیکن یہ لوگ پچھلے کئی برس سے اس جماعت کے لیے ہوم ورک کررہے تھے۔ ان کے پاس پاکستان کے مسائل کے حل کا ایک جامع پروگرام ہے، اور یہ پروگرام محض انسانی دماغوں تک محدود نہیں بلکہ تحریری شکل میں بھی موجود ہے۔ مجھے کئی اجلاسوں میں ان کے پروگرام کی تفصیلات کو سننے کا موقع ملا، جو واقعی قابلِ قدر ہیں۔ ان کو پاکستان کے عام آدمی کے مسائل کا فہم بھی ہے اور ادراک بھی۔ نوجوانوں کی یہ ٹیم پاکستان کے سیاسی نظام میں اصلاحات کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔ لیکن کیا وہ یہ کام کرسکیں گے؟ یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ مجھے اس ٹیم کی صلاحیتوں پر کوئی شبہ نہیں، لیکن مسئلہ اس فرسودہ سیاسی نظام اور روایتی قیادت کا ہے جو اس وقت ہمارے ملک میں رائج اور موجود ہے اور ایک بڑی تبدیلی میں رکاوٹ ہے۔ یہ قوتیں پوری ریاستی مشینری اور حکومتی و انتظامی طاقت کو بنیاد بناکر سیاسی نظام کو اپنے ہاتھوں یرغمال بناکر رکھنا چاہتی ہیں۔ نئی سیاسی جماعتیں وہیں کامیابی حاصل کرتی ہیں جہاں ان کے سامنے آگے بڑھنے کا مناسب اور سازگار ماحول ہو، ورنہ وہ بھی جلد اپنی اہمیت کھودیتی ہیں۔ ایک ایسا سیاسی ماحول جہاں کرپشن، بدعنوانی، دولت سمیت مافیا کی بنیاد پر سیاسی نظام کو چلایا جارہا ہو، وہاں اچھے لوگ کیسے اپنی جگہ بناسکیں گے! کیونکہ اس طاقت ور مافیا نے محض سیاسی نظام کو ہی یرغمال نہیں بنایا ہوا، بلکہ انتظامی، قانونی اداروں پر ان کے مضبوط کنٹرول نے بھی تبدیلی کے عمل کو روکا ہوا ہے۔ ایسے میں ضرورت اصلاحات سے زیادہ سیاسی نظام کو آزاد کرانے کی ہے۔ سیاسی نظام میں تبدیلی کا عمل ہم ڈسپرین کی گولی سے کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ جو مسائل ہمیں کینسر کے مرض کے طور پر لاحق ہیں ان کا علاج ڈسپرین کی گولی نہیں بلکہ ایسی کڑوی گولیاں ہیں جو مشکل فیصلوں کی طرف مائل کرتی ہیں۔ اس لیے پاکستان فریڈم موومنٹ سمیت جو بھی سیاسی جماعتیں پاکستان کے سیاسی نظام میں اصلاحات چاہتی ہیں پہلے ان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کیا واقعی اس فرسودہ نظام کی مدد سے یہ اصلاحات ممکن ہیں؟ ایک ایسا سیاسی نظام جس پر بالادست طبقات کا کنٹرول ہے، وہ کیسے نئی سیاسی جماعتوں کو قبول کرے گا؟ ہاں اگر نئی جماعتیں اسی فرسودہ نظام میں بڑی طاقتوں کی سیاست کا حصہ بن کر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر چلنا چاہتی ہیں تو ان کو ان کی طاقت کے مطابق حصہ دیا جاسکتا ہے، اور یہ عمل کسی بھی بڑی تبدیلی کو روکتا ہے۔ یہ جو دھن دولت اور پیسے کی سیاست کا غلبہ ہے اس میں پڑھے لکھے اور مڈل کلاس طبقات کی سیاست میں کیا جگہ ہے، یہ ایک توجہ طلب مسئلہ ہے۔ اس لیے ہمیں اس وقت پورے سیاسی نظام کی ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے، یہ سرجری کیے بغیر ہم شاید آگے نہ بڑھ سکیں۔ سیاسی نظام کی بہتری اور اصلاحات کا عمل سیاسی ماحول میں ہی اپنی اہمیت منواتا ہے۔ لیکن اس وقت ہمیں کچھ بڑے انتظامی، سیاسی، قانونی نوعیت کے کڑوے فیصلے کرنے ہیں جس کے لیے موجودہ سیاسی نظام اور اس میں موجود قیادتیں تیار نہیں۔ لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس نظام سے خیر کا کوئی پہلو سامنے نہیں آسکے گا۔ اس کے لیے ہمیں ہر سطح پر ایک مؤثر، جامع اور بھرپور سیاسی، سماجی اور قانونی مزاحمت کی ضرورت ہے۔ لیکن اس مزاحمت کے لیے ہماری بڑی سیاسی قیادتیں تیار نہیں، اور وہ لوگوں کو جذباتی سیاست اور خوشنما جمہوری نعروں میں الجھا کر اپنی مفاداتی سیاست کو مضبوط کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔ حالانکہ اگر وہ واقعی مثبت تبدیلی چاہیں تو جو کچھ دنیا میں اچھے تجربات کی صورت میں ہورہا ہے اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں نئی سیاسی جماعتیں ضرور بنیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں زیادہ مؤثر پریشر گروپوں کی ضرورت ہے جن کی بنیاد علمی، تحقیقی کام ہو۔ کیونکہ جب تک ہم اپنے اس سیاسی نظام میں موجود سیاسی فریقین پر مؤثر دباؤ پیدا نہیں کریں گے، اصلاحات کی سیاست کچھ نہیں کرسکے گی۔
nn