4 اگست 2016ء کی صبح ہمام قادر چودھری ایک عدالت میں مقدمے کی سماعت کے لیے ڈھاکا جارہے تھے۔ راستے میں ٹریفک سگنل پر ان کی کار رُکی، سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ لوگ آگے بڑھے، گاڑی کا دروازہ کھولا، ہمام قادر چودھری کو نیچے اترنے اور اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ چودھری نے پوچھا تم کون ہو؟ مجھے کہاں لے کر جانا ہے؟ اور کیوں لے کر جانا ہے؟ جواب ملا: ’’ڈی ٹیکٹو برانچ آف پولیس۔اُوپر سے حکم ہے۔‘‘وہ مزید کسی سوال کاجواب دینے اور وقت’’ ضائع‘‘ کرنے کے لیے تیا ر نہ تھے۔لہٰذا انھوں نے چودھری کو بازو سے پکڑا،کھینچ کرگاڑی سے اتارااور زبردستی سے اپنی گاڑی میں بٹھا یا اور ساتھ لے گئے۔چودھری کی غم زدہ ماں حیرت،پریشانی اور بے بسی کی تصویر بنی گاڑی میں بیٹھی رہ گئی۔اس دن سے لے کر آج تک ہمام قادرچودھری کی کوئی خبر نہیں۔
اس واقعے کے ٹھیک پانچ دن بعد 9اگست2016ء کورات 11بجے بیرسٹر میراحمد بن قاسم کے گھر کے دروازے پر زور کی دستک ہوئی۔میر احمد نے دروازہ کھولا توسادہ کپڑوں میں ملبوس آٹھ افراد نمودار ہوئے۔انھوں نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ تمھیں ہمارے ساتھ جانا ہوگا۔میر احمد نے کہاکہ آپ لوگ اپنا تعارف کرائیں لیکن یہ لوگ اپنی بات کی رٹ لگائے اپنی شناخت ظاہر کرنے اور کوئی وضاحت دینے کو تیار نہ تھے۔میر احمد نے کہا:میں ایک وکیل ہوں،مجھے اپنے حقوق کا علم ہے، آپ اپنی شناخت بتائیں اور وارنٹ گرفتاری دکھائیں۔ایک اہل کار نے کہا:آپ کے پاس صرف پانچ منٹ ہیں۔تیار ہوجائیں اور ہمارے ساتھ جائیں۔پھر وہ میر قاسم پر جھپٹے،ان کو اپنے ساتھ گھسیٹ کرایک چھوٹی بس میں لے کر چلے گئے۔میر احمد کی بیوی،چھوٹی بہن اور دو ننھے منے بچے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔اب وہ کہاں ہیں؟اس سوال کا جواب کوئی بھی دینے کو تیار نہیں؟
22اگست2016ء کی رات کو جب تاریکی اچھی طرح چھاگئی اور پورے ماحول پر سکوت طاری ہوگیاتو اس وقت ’’قانون نافذ کرنے والے ادارے‘‘کے تیس اہل کارریٹائرڈ بریگیڈیئرجنرل عبداللہ الامان اعظمی کے گھر میں داخل ہوئے۔ انھوں نے اپارٹمنٹ کی سکیورٹی پر مامور اہل کار کو مارا پیٹا،اعظمی کو نیند سے جگاکرگرفتارکیا۔اعظمی نے اپنے ساتھ کچھ کپڑے لے جانے چاہے لیکن سرکار کے ان وفادار کارندوں نے ان کو اس کی اجازت نہ دی۔اس دن سے لے کر اب تک بریگیڈئرجنرل اعظمی لا پتا ہیں۔ان کی 86سالہ بوڑھی ماں تھانوں کے چکر کاٹتی ہیں لیکن کوئی اس بوڑھی ماں کی ایف آئی آر درج کرنے کو تیار نہیں۔
بنگلادیش میں لاقانونیت اور انسانی حقوق کی پامالی کوئی نئی بات نہیں۔سیاسی مخالفین کوانتقام کانشانہ بنانے کے لیے گرفتاریاں،عدالتی قتل،ماورائے عدالت قتل،اغوا اورلاپتا کرناحسینہ حکومت کے معروف ہتھکنڈے ہیں۔لیکن مذکورہ تینوں گرفتاریاں عام نہیں خاص نوعیت کی ہیں۔یہ تینوں اپوزیشن جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کے بیٹے ہیں جن کو 1971ء کے نام نہاد جنگی جرائم کے پاداش میں بدنام زمانہ عدالتوں سے موت کی سزائیں دے دی گئیں۔ہمام قادر چودھری خود بی این پی کے رہنما ہیں بی این پی کے سرکردہ رہنمااور بیگم خالدہ ضیا کی سابقہ حکومت میں مشیر صلاح الدین قادر چودھری کے بیٹے ہیں جن کو پچھلے سال سزائے موت دے دی گئی۔ بیرسٹر میر احمدنوجوان وکیل ہیں،جماعت اسلامی بنگلادیش کی مرکزی شوری ٰ کے رکن،معروف بزنس مین اورسماجی رہنما میر قاسم علی کے صاحب زادے ہیں جن کو آج سے دو مہینے پہلے سزائے موت دے دی گئی۔عبداللہ الامان اعظمی بنگلادیش آرمی سے بریگیڈئیر جنرل ریٹائر ہیں، سابق امیر جماعت اسلامی بنگلادیش پروفیسر غلام اعظم کے بیٹے ہیں جن کو92سال کی عمرمیں عمر قید کی سزا سنائی گئی،جیل میں علاج معالجے سے محرومی اور ناقص خوراک کی وجہ سے ان کی صحت تیزی سے گرتی چلی گئی بالاخر وہ جیل ہی میں موت سے ہم آغوش ہوگئے۔
ہمام قادر چودھری کی گرفتاری سے ایک ہفتہ قبل وزیر اعظم حسینہ واجد اور وزیر داخلہ دونوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ کچھ لوگ جماعت اسلامی بنگلادیش کے رہنما میر قاسم علی کے پھانسی پر عمل درآمد میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے سازش کر رہے ہیں۔یہ خیال کیاجانے لگا کہ مفروضہ سازش کو ناکام بنانے کے لیے یہ گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں ہیں، اس لیے سزا پر عمل درآمد کے بعد ان تینوں کو رہا کر دیا جائے گالیکن میر قاسم علی کو پھانسی دینے کے دو مہینے بعد بھی گرفتار شدگان کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ایک افواہ یہ تھی کہ ان تینوں کا تعلق ڈھاکا ہولی آرٹیسن بیکری پر حملے سے جوڑا جارہاہے جس میں 2 پولیس اہلکار سمیت کل 20 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے لیکن حکومت یا کسی حکومتی ادارے کی طرف سے باضابطہ طور پر ایسی کوئی بات سامنے نہیں آسکی۔
بنگلادیش ایک عرصے سے کچھ نادیدہ ہاتھوں کے ذریعے سے سیاسی بحران کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے کہنے پر حسینہ واجد نے جماعت اسلامی بنگلادیش کے چوٹی کے رہنماؤں کو 1971ء کے نام نہاد جنگی جرائم کے الزامات لگا کر گرفتار کیا، پھر ایسی عدالتوں سے ان کو سزائے موت سنائی گئیں، جن کو بھارت کے علاوہ مہذب دنیا کا کوئی ملک عدالت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ پوری دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات پر گواہ ہیں کہ ان لوگوں کے مقدمات میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ ان لوگوں نے عدالتی عمل تک تو اپنا مقدمہ لڑا لیکن اس کے بعد رحم کی اپیل اور زندگی کی بھیک مانگنے سے انکار کیا۔صرف یہی نہیں بلکہ ان کے بیوی بچوں اورلواحقین اورجماعت کے ذمہ داران اور کارکنان نے بھی صبرکا دامن تھامے رکھا۔یہی بات سفاک خصلت حسینہ حکومت سے برداشت نہ ہوسکی۔ ان کی فرعونیت کو اس بات سے تکلیف پہنچی کہ یہ لوگ جھکے کیوں نہیں؟ یہ لوگ گڑگڑائے کیوں نہیں؟ ان لوگوں نے مردانگی کا مظاہرہ کیوں کیا؟ اب ان کے خاندانوں کو زچ کرنے کے لیے ان کے بیٹوں کو اغوا کرکے لاپتا کر دیا گیا ہے۔
ہمام قادر چودھری کے والد صلاح الدین چودھری کا تعلق اگر چہ جماعت اسلامی سے نہ تھا لیکن ان کو پاکستان سے پرانے تعلق اور بھارت سے نفرت کی سزا دے دی گئی۔واضح رہے کہ ہمام قادر چودھر ی کے داداعبدالقادر چودھری متحدہ پاکستان کے ا سپیکر رہے تھے،اس وقت ان کا سیاسی تعلق مسلم لیگ سے تھا بنگلا دیش بننے کے وہ بی این پی میں شامل ہوئے۔
حقیقت یہ ہے کہ حسینہ بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے، جس کی ہوس اقتداراور بے لگام طاقت واقتدارکی بھوک نے بنگلادیش کو دنیا بھر میں بدنام کردیا۔بھارت کا مقصد بھی یہی ہے کہ بنگلادیش کو بدنام کرکے دنیا بھر میں یکہ و تنہاکیا جائے اور ہمیشہ کے لیے اپنا دست نگر بنایا جائے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ2009ء میں جب حسینہ اقتدار میں آئی تھی اُس وقت انسانی حقوق کا مسئلہ صرف گھریلوتشدد کے چند واقعات تک محدود تھا۔لیکن آج صورت حا ل یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہزاروں بے گناہ لوگ جیلوں میں ہیں۔امن وامان مخدوش اورانسانی حقوق معطل ہیں۔ اظہار رائے پر قدغن کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ فیس بک پر بھی حکومت مخالف تبصرے کی اجازت نہیں۔ہیومن رائٹس گروپ کے مطابق جب سے حسینہ اقتدار میں آئی ہے 700سے زائد افراد لاپتا ہوگئے ہیں۔صرف اس سال 60افراد لاپتا ہوگئے ہیں لیکن معروف صحافی اور محقق ڈیوڈبرگ مین کاکہنا ہے کہ جنوری 2016ء سے اب تک 70ایسے افرادکے لواحقین انھیں ملے ہیں جن کوحکومتی اداروں نے اٹھایا ہے، اب یہ لاپتاہیں۔برگ مین کا کہنا ہے کہ صحیح تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ لاپتا افراد کامعاملہ تب سامنے آتاہے جب ان کے لواحقین میڈیا،یا انسانی حقوق کی تنظیموں کو وقوعہ کی اطلاع دے۔لیکن اکثرمتاثرہ خاندان ایسا کرنے سے اس خدشے کی بنیاد پر گریز کرتے ہیں کہ معاملے کی تشہیر کہیں ان کے مسائل میں اضافے کا سبب نہ بن جائے۔یہ خدشہ کچھ ایسا بے بنیا د بھی نہیں۔حال ہی میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے آٹھ افراد کی لاشیں ملی ہیں۔یہ آٹھ افراد ان 70افراد میں سے ہیں جن کو حکومتی اداروں نے گرفتار کرکے لاپتا کردیا ہے۔صرف ایک مثال دی جارہی ہے:
30جون 2016ء کو دو افراد نورلاسلام اورمحمد نبی کو ایک پولیس افسر کی بیوی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔گرفتاری کے چند دن بعد نورالاسلام کے والد نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیاکہ اگر میرا بیٹا مجرم ہے تو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے، اگر ایسا نہیں ہے تو مجھے میرا بیٹا واپس دے دیا جائے۔مذکورہ پریس کانفرنس کے ٹھیک دس دن بعد نورالاسلام اور محمد نبی کو’’ پولیس مقابلے‘‘ میں مار دیا گیا۔جماعت اسلامی اورشبر کے ذمہ داران اور کارکنان عوامی لیگ حکومت کے خاص نشانے پر ہیں۔ہزاروں کارکنان عقوبت خانوں میں سیکڑوں لاپتا اورسیکڑوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔برٹش پارلیمنٹ میں بنگلادیش میں انسانی حقوق کی مخدوش صورت حال پر بات کرتے ہوئے برطانوی وزیر خارجہ برائے ایشیاالوک شرما نے کہاکہ یہ بات واضح ہے کہ انتہا پسندی وہاں پروان چڑھتی ہے جہاں اظہار رائے پر قدغن ہو،جہاں جمہوری چیلنجوں کو جگہ نہ دی جائے اورجہاں عدم برداشت کا کلچر عام ہو۔ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈائریکٹر براد آدم نے کہا ہے کہ بنگلادیشی حکام اپوزیشن کے تین اہم رہنماؤں کے بیٹوں کو فوری طور پر رہا کریں۔ان کا کہنا تھا کہ بنگلادیش کے معاونین اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے اس کے اتحادیوں کو حکومت کے سیاسی مخالفین اور تنقید کرنے والوں کے حقوق غصب کرنے کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔انھوں نے کہا ہے کہ ان تینوں افراد : ہمام قادرچودھری،میر احمد بن قاسم اورامان اعظمی کو کسی عدالتی حکم نامےjudicial warants) (دکھائے بغیر گرفتار کیا گیا۔ان کو نہ تو قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا گیا اورنہ ان کے خاندان والوں اور وکلا کو ان سے ملنے کی اجازت دی گئی۔انھوں نے کہا کہ بنگلادیش کے قانون نافذ کرنے والے حکام سیاسی بنیادوں پر گرفتاریوں،محبوس رکھنے اور انھی لوگوں کو لا پتا قرار دینے کی طویل تاریخ رکھتے ہیں۔بہت سارے لوگوں کو عقوبت خانوں میں اذیت سے دوچارکیا جاتا ہے اور ان میں سے بعض کو موت کے گھاٹ اتارا جاتاہے۔انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت ان لوگوں کو عدالت کے سامنے پیش کرے یا انھیں رہا کردے۔اور لوگوں کو لاپتا کرنے اور غیر قانونی طور پر جیل میں رکھنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
اگرچہ 1971ء کے واقعات تلخ ہیں لیکن ایک اہم بات یہ ہے کہ بنگلادیش بننے کے بعد دونوں طرف کے عوام میں ایک دوسرے کے لیے محبت کا بے پنا ہ جذبہ پایا جانے لگا۔ 1992ء میں جب پاکستا ن کرکٹ ورلڈ کپ جیت گیا تو ڈھاکا کی بیکریاں مٹھائیوں سے خالی ہوگئی تھیں۔خوشی اورجشن کا اسی طرح کامنظر 1998ء میں پاکستان کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے بعد دیکھنے کو ملا۔اس وقت بنگلادیش میں سارا کھیل اسی محبت کے جذبے کو ختم کرنے کے لیے کھیلا جارہاہے۔اس گھناونے کھیل میں حسینہ واجد کی حیثیت محض ایک مہرے کی سی ہے جس کے ذریعے سے بھارت بی این پی اور جماعت اسلامی کو دیوار سے لگاکر افراتفری،انتشار اورنفرت کے بیج بورہی ہے۔نادان حسینہ واجد پاکستان سے نسبت رکھے والوں اوراسلام اور مسلمانوں کی بات کرنے والوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ بنگلادیش کو سیاسی بحران کے ایک ایسے دلدل میں دھکیل رہی ہے جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔افسوس !انسانی حقوق کی تنظیموں کا واویلازبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔عملاًدنیا خاموش اور عالمی ضمیر سورہا ہے۔