سیکولرائزیشن ایک تاریخی عمل ہے جو ہمیشہ سے جاری ہے۔ یہ مذہبی معاشرے کا خدا سے رشتہ توڑتا ہے۔ یہ معاشرہ بتدریج مذہب کی قدر و منزلت کھو دیتا ہے۔ جدید مغربی سیکولرائزیشن کی ابتدا کلیسا کی ظالمانہ حاکمیت سے ہوئی۔ یورپ کی تاریخ اندھیر زمانوں میں صدیوں تک سسکتی رہی۔ کلیسائی خدائی اور خاندانی بادشاہتوں میں جکڑے انسان مذہب بیزار ہوئے۔ یہ رویہ سائنسی امکانات اور مادی ترقی سے مستحکم ہوا۔ سماجی نظریہ ساز کارل مارکس، سگمنڈ فرائیڈ، میکس ویبر، اور ڈرخائیم نے دعویٰ کیا کہ معاشرے کی جدیدیت آسمانی تعلیمات کا اثرختم کرتی ہے۔ ہر وہ نظریہ اور نظام جو ربِّ کائنات کے احکامات اور دینی اداروں کی تحقیر چاہتا ہو، اسے سیکولرائزیشن سے گزرنا پڑتا ہے۔ انگلینڈ میں بادشاہ ہینری فور کی جانب سے کلیسائی خانقاہوں کی تحلیل اور انقلابِ فرانس اہم مثالیں ہیں۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں یورپی حکومتوں نے مذہب کو دیس نکالا دیا۔ یہاں یہ وضاحت لازم ہے کہ سیکولرازم کی اصطلاح ریاست کے آئین وقوانین سے متعلق ہے، یعنی ریاست کی نظریاتی نوعیت کا تعین کرتی ہے، جبکہ سیکولرائزیشن معاشروں کو مذہب سے بیزار کرنے کا عمل ہے۔ آج کا مغرب سیکولرآئین کا عہد ہے۔ یورپ اور امریکہ سرخیل ہیں۔ تاہم معاشرے مکمل طور پر سیکولر نہیں ہیں۔
سوائے اسلام، سیکولرازم سب تہذیبوں کی ضرورت کیوں؟
کسی معاشرے میں زندگی کا تصور کیا ہے؟ اس تصورِ زندگی میں انسان کا کیا مقام ہے؟ یہ تصور انسان کا دنیا سے کیسا تعلق قائم کرتا ہے؟ کس نوعیت کا تعلق استوار کرتا ہے؟ اس تصور کی بنیاد پر انسان کس طرح دنیا کے معاملات برت سکتا ہے؟ اس زندگی کا نصب العین کیا ہے؟ یہ ساری تگ ودوکس لیے ہے؟ یہ وہ بنیادی اور لازمی سوالات ہیں، جن کے جوابات ہی کسی تہذیب کی تشکیل وتکمیل کرتے ہیں۔ ابتدا میں یہ جوابات الہامی اور آسمانی تعلیمات واحکامات میں پائے گئے، انبیاء اور صالحین کے کردار میں دیکھے گئے۔ المیہ یہ ہوا (قرآن متواتر اس المیے کا ذکرکرتا ہے) کہ لوگوں نے انبیاء علیہم السلام کا انکارکیا اور انہیں قتل کیا۔ اس سب کے باوجود انبیاء کی عظمت اور تعلیمات نے دلوں کو مسخرکیا، مگر اکثر نافرمانوں نے تعلیمات کو بگاڑ دیا، اپنی خواہشات کی پیروی کی، چند سکوں کے لیے آیات کو بیچ دیا۔ یوں مذہب طاغوت کے مفادات کی باندی ہوگیا اور دھیرے دھیرے دلوں سے نکل گیا، اور پھر مذہب مغربی معاشرے کے لیے آزار ہوگیا۔ چنانچہ یورپ میں سیکولرائزیشن کی جاندار تحریک چلی۔ عیسائیت کو چرچ میں مقید کردیا گیا۔ یہ سیکولرائزیشن عیسائیت اور ریاست میں جدائی کا سبب بن گئی، اور یوں سیکولرازم کی باقاعدہ پیدائش ہوئی۔ اس کی آئینی و قانونی بالادستی تسلیم کرلی گئی۔ مذہب معاشرے کی نجی زندگی تک محدود ہوگیا۔
آج دو بڑے مذاہب اور تہذیبیں ہندو ازم اور عیسائیت سیکولر آئین کی محتاج ہیں۔ آج تقریباً پچاس ممالک سیکولر آئین کے پابند ہیں۔ دیگرکئی نان سیکولرکہلائے جانے والے ممالک بھی سیکولرائزیشن سے گزر رہے ہیں، ان میں اہم نام انگلینڈ کا ہے۔ انگلینڈ سیکولرنہیں، مگر انگریز معاشرہ سیکولرائزیشن کا کامیاب تجربہ ہے۔ مختصراً یہ کہ مغربی دنیا میں آئین وقوانین کی سیکولرائزیشن مکمل ہوچکی ہے، جس کی بنیادی وجہ مغرب کا تہذیبی صلاحیتوں سے عاری ہونا ہے۔
مسخ شدہ مذاہب ہندو ازم، عیسائیت، بدھ ازم، اور یہودیت میں بنیادی سوالات کے جوابات نہیں ملتے۔ جو اِن مذاہب کی بگڑی ہوئی حالت ہے، وہ انسانی زندگی میں صرف بگاڑ ہی لاسکتی ہے۔ امریکہ میں عیسائی انتہا پسندی اور ہندوستان میں ہندو انتہا پسندی سامنے کے مظاہر ہیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ دنیا بھر کے انسانی معاشرے بڑی حد تک سیکولر نہیں ہوئے، صرف آئین و قوانین سیکولر ہیں (یہی وجہ ہے کہ ہندو معاشرے میں راج ٹھاکرے کی ایک آواز سے سیکولر بالی ووڈ چپ سادھ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی جنگ ایک صلیبی جنگ ہے)۔ سیکولرازم کی کامیابی کا سارا انحصار مذاہب کی ناکامی پر ہے۔ اسلام کے سوا سارے مذاہب اور تہذیبیں سیکولرازم کے آگے سرنگوں ہوچکی ہیں۔
مسلمانوں کی ریاست میں سیکولرازم، نامنظور کیوں؟
اسلام معلم ہے، مکمل ہے، خالق کا پسندیدہ ہے۔ اسلام واحد تہذیب، واحد نظامِ حیات ہے جو ریاست سے معاشرے کی ہرسطح تک کسی ناخدائی کا محتاج نہیں۔ انسانی زندگی کے بنیادی سوالات کے مکمل اور اطمینان بخش جوابات دیتا ہے۔ ریاست کے قوانین اور معیشت تشکیل دیتا ہے۔ مسلمان معاشرے کا تصور اسلامی ریاست کے بغیر نامکمل ہے، اور اسلامی ریاست کا تصور اسلامی قوانین کے بغیر نامکمل ہے، اسلامی قوانین کا نفاذ اقتدارِ اعلیٰ کے بغیر نامکمل ہے، اقتدارِ اعلیٰ ایمان کے بغیر نامکمل ہے، اور ایمان عمل کے بغیر نامکمل ہے۔ سو ثابت ہوا، حتمی طور پر مسلمان معاشرے میں سیکولرازم ناقابلِ قبول ہے۔ دیگر تہذیبیں جس قدر سیکولرازم کی محتاج ہیں، اس سے کہیں زیادہ اسلام سیکولرازم سے بے نیاز ہے۔ اسلام کا وجود ہی سیکولرازم کی نفی ہے۔ مذاہب کی سیکولرائزیشن ہی دراصل اسلام کی آمد کا سبب ہے۔ یہ سچائی مسلمان دانشور نہیں سمجھنا چاہتے، مگر مغرب کے عام سیاست دان تک اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔
مسلمان معاشروں کی سیکولرائزیشن پر اصرارکیوں؟
فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند کہتے ہیں:
’’یہ سچ ہے کہ اسلام کے ساتھ مسئلہ ہے۔ کسی کو شک نہیں کہ اسلام ایک مسئلہ ہے، یہ اپنی جہت میں خطرہ ہے۔ اس لیے کہ اسلام ریاست پر اپنا نفاذ چاہتا ہے۔‘‘
فرانسیسی روزنامہ لی فگاروکہتا ہے: ’’شاید پچاس سال میں اسلام کی سیکولرائزیشن مکمل ہوجائے، مگر اس کے لیے دس سال انتہائی کشیدگی کے ساتھ گزارنے ہوں گے۔‘‘
مغرب اور مغرب زدہ طبقات چاہتے ہیں کہ اسلام کی سیکولرائزیشن کی جائے۔ اس میں نصف صدی لگ جائے، کوئی بات نہیں۔ دس سال تک اسلام کی سیکولرائزیشن کی خاطر مسلمان معاشرے تباہ کیے جائیں اور اسلام کی تحقیر و تنقید میں مکر و فریب کی ہرچال چلی جائے، کوئی بات نہیں۔ زرخرید مسلمان دانشوروں پر اسلام کی سیکولرائزیشن کے لیے مالی وسائل کی بارش کردی جائے، کوئی بات نہیں۔ مگر اسلام کی آئینی، قانونی اور تہذیبی حاکمیت کسی صورت منظور نہیں۔ لی فگارو نے مغرب کی نیت دو جملوں میں سمیٹ دی ہے۔ پاکستان میں سیکولرائزیشن کی کوششیں شد ومد سے جاری ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ بھی سیکولرائزیشن ہی کا حصہ ہے۔
سیکولرازم کی پسپائی نوشتۂ دیوار، کیوں؟
دنیا بھر میں سیکولر آئین و قوانین مذہبی معاشروں کی تشفی میں ناکام ہوچکے ہیں، یعنی سیکولرائزیشن اہداف حاصل نہیں کرسکی۔ دو بڑی مثالیں شواہد کے ساتھ خبروں میں موجود ہیں۔ ہندوستان اور امریکہ سب سے بڑی مذہبی آمریتیں بن چکی ہیں۔ دونوں ریاستیں اسلام سے نظریاتی جنگ میں جُتی ہیں۔ یہ جنگ داخلی سطح پر مسلمان اقلیتوں سے، اور خارجی سطح پر مسلمان ملکوں سے جاری ہے۔ دونوں ریاستوں میں سیکولر قوانین ناکام اور مذہبی انتہا پسند قوتیں کامیاب ہیں۔ نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ یا ہیلری کلنٹن کی پالیسیاں سامنے ہیں۔
یقینا، جو سیکولرائزیشن ہندوستان اور امریکہ میں تکمیل نہ پاسکی، اُس کا اسلامی دنیا میں کامیاب ہونا ناممکن ہے۔ ترکی کا ناکام تجربہ زمینی حقیقت ہے۔
یہاں یہ انوکھی سچائی قابلِ ذکر ہے کہ صہیونی ریاست اسرائیل سیکولر نہیں، اور سیکولرازم کی جائے پیدائش برطانیہ بھی سیکولر نہیں۔ ایسی صورت حال میں اسلام کے آگے سیکولرازم کی پسپائی نوشتۂ دیوارہے۔
nn