ایک قاری اٹک سے لکھتے ہیں کہ یوں تو ان کی صحت ٹھیک ہے، لیکن پچھلے کئی روز سے وہ اپنے مسوڑھوں اور دانتوں میں تکلیف محسوس کررہے ہیں۔ مسوڑھوں سے خون بہتا ہے اور ان میں اکثر سوجن بھی رہتی ہے۔ ان کے دوست احباب ان کے منہ سے بدبو آنے کی شکایت بھی کررہے ہیں۔ بقول ان کے، منہ سے سڑی ہوئی گوبھی کی سی بوآتی ہے۔
دانتوں اور مسوڑھوں کی یہ کیفیت ان میں بڑی خرابی کی علامت ہے۔ یہ کیفیت آسان زبان میں مسوڑھوں کے سڑنے اور گلنے کی شکایت ہے۔ اس تکلیف کی بنیادی وجہ دانتوں کو صحیح انداز میں صاف نہ کرنا ہے۔
ہمارے ہاں دانتوں کی صفائی پر آج کل کم توجہ دی جارہی ہے۔ محض کسی خوش ذائقہ ٹوتھ پیسٹ کو برش پر لگاکر دانتوں کو بے دردی سے رگڑ کر کلی کرلینا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ یہ تکلف بھی نہیں کرتے۔ خاص طور پر پان اور نسوار کھانے والے صبح اٹھتے ہی ایک آدھ کلی کے بعد اپنے گال کے کونے کو پان کے بیڑے یا نسوار کی چٹکی سے بھر لیتے ہیں۔ ان کی رائے میں یہ پان اور نسوار کی چٹکی دانتوں کی صحت کا بہترین طریقہ ہے۔ حالانکہ یہ بات قطعی غلط ہے۔
صبح اٹھ کر اپنی انگلی ذرا دانتوں پر اچھی طرح پھیرے اور پھر اسے سونگھیے۔ بدبو اور تعفن سے آپ کا دماغ پھٹ جائے گا۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ کا منہ کس قدر بدبودار ہے۔ اس بدبو کا علاج یہ نہیں ہے کہ اسے پان، نسوار یا سگریٹ کے دھویں سے دبایا جائے۔ اس کیفیت سے نجات کے لیے دانتوں کی مستقل صفائی کا اہتمام ضروری ہے۔ جو لوگ دانتوں کے گلنے سڑنے کی شکایت میں مبتلا ہوگئے ہیں اُن کے لیے باقاعدہ علاج بھی ضروری ہے۔
کھانا کھانے کے دو تین گھنٹے بعد اپنی شہادت کی انگلی مسوڑھوں پر پھیریئے اور اس کا معائنہ کیجیے۔ اگر اس پر سیفد یا زرد رنگ کی گاڑھی رطوبت لگی ہو تو یہ سمجھ لیجیے کہ آپ پائیریا یا ماسخورے کا شکار ہوگئے ہیں۔ یہ رطوبت یا مواد درحقیقت پیپ ہے جو مسوڑھوں میں بڑی خرابی کی علامت ہے۔
دانت صاف کرنے کے جدید طریقوں سے پہلے ہمارے ہاں صبح کے وقت دانتوں کی صفائی کے لیے نیم یا کیکر یا پیلو لکڑی کی مسواک کا استعمال بہت عام تھا۔ کیکر کی لکڑی کا کوئلہ پیس کر اس میں نمک، کالی مرچ ملا کر منجن بنا لیا جاتا تھا اور گھر کے تمام افراد اس منجن سے اپنے دانت لازماً صاف کرتے تھے۔ بچوں کو منہ صاف کرنے کی سخت تاکید کی جاتی تھی۔ اس لیے دانت مانجھنے کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ کوئلے میں خراب رطوبات کو جذب کرنے کے علاوہ دانتوں کی سطح پر جمی چیکٹ تہ دور کرنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ نمک اور کالی مرچ جراثیم کشی کا کام کرتے ہیں۔ عام حالتوں میں اس منجن کا استعمال کافی اور مفید ہوتا تھا۔
مسلمانوں میں مسواک کا استعمال بکثرت ہوتا تھا۔ آج بھی دین دار مسلمان ہر نماز سے پہلے مسواک کرتے ہیں اور منہ کی بدبو اور دانتوں کی خرابیوں اور روگوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ ہندوؤں میں بھی مسواک مقبول تھی اور یہ لوگ زیادہ تر نیم اور کیکر کی مسواک استعمال کرتے تھے۔ آج کل دانتوں کی صفائی اور حفاظت کے یہ دونوں اہم طریقے ترک کردئیے گئے ہیں۔
برش اور ٹوتھ پیسٹ کا استعمال بھی اپنی جگہ مفید ہے، لیکن اس میں دو خرابیاں ایسی ہیں جن پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ ایک تو خود برش کا استعمال ہے۔ برش کا اصل مقصد دانتوں کے درمیانی ریخوں کی صفائی ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ برش صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے۔ نیچے کے دانتوں کی صفائی کرتے وقت اسے مسوڑھے پر رکھ کر نیچے سے اوپر پھیرا جائے تاکہ دانتوں کا درمیانی حصہ صاف ہوجائے۔ اس عمل سے مسوڑھوں میں دورانِ خون بھی تیز ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ان کے ریشے مستحکم ہوتے ہیں۔
اوپر کے دانتوں کی صفائی کی صورت میں برش کو اوپر سے نیچے لانا چاہیے۔ اسی طرح دانتوں کے اندرونی حصوں کی صفائی بھی کرنی چاہیے۔ عام طور پر لوگ برش کو بڑی تیزی سے دانتوں پر آگے پیچھے گھستے اور رگڑتے رہتے ہیں۔ بعض لوگ تو یہ عمل کئی کئی منٹ جاری رکھتے ہیں۔ اس سے فائدے کے بجائے نقصان پہنچتا ہے۔ اس طرح بے دردی سے برش رگڑنے کی وجہ سے مسوڑھے اپنی جگہ چھوڑنے لگتے ہیں اور زخمی ہوجاتے ہیں۔
برش کے استعمال میں دوسری خرابی یہ ہے کہ اسے یوں ہی سرسری طور پر دھوکر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس بے احتیاطی کے نتیجے میں خود اس کے ریشوں میں سڑاند اور جراثیم پروری کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ریشے ٹیڑھے میڑھے ہوجاتے ہیں جن سے دانتوں کی صفائی تو درکنار انہیں الٹا نقصان ہی پہنچتا ہے۔ برش استعمال کیجیے، لیکن صحیح طریقے سے۔ اور اسے اچھی طرح پانی کی تیز دھار سے دھوکر گردو غبار سے محفوظ رکھیے۔
ٹوتھ پیسٹ کیا ہوتے ہیں؟ بنیادی طور پر یہ میٹھے ہوتے ہیں کیونکہ شیرے میں دانت صاف کرنے والے اجزا شامل کردئیے جاتے ہیں۔ ان میں خوشبو کے لیے بالعموم پودینے کا ست یا پیپرمنٹ بھی شامل ہوتا ہے، اور بعض میں جھاگ پیدا کرنے کے لیے تھوڑا سا صابن بھی۔ ہر ٹوتھ پیسٹ دانتوں کے لیے مفید نہیں ہوتا۔ ایسے ٹوتھ پیسٹ جن میں فلورائیڈ، نیم کا جوہر یا پیلو کا ست اور دیگر جراثیم کُش اجزا شامل ہوں، یقیناًمفید ہوتے ہیں۔ ان کے استعمال کا بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ انہیں انگلی پر لگاکر مسوڑھوں پر لگایا جائے اور پھر شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے مسوڑھوں کی مالش کی جائے۔ نیچے کے دانتوں کی نیچے سے اوپر، اور اوپر کے دانتوں کی اوپر سے نیچے۔ اس عمل سے مسوڑھوں میں دورانِِ خون تیز ہوکر وہ مضبوط ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹوتھ پیسٹ کے مفید اجزا کو بھی گھلنے اور اپنا اثر دکھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس کے بعد بتائے ہوئے طریقے کے مطابق دانتوں کو برش سے صاف کرلیں اور تھوڑی دیر منہ بند رکھیں تاکہ ٹوتھ پیسٹ اچھی طرح اپنا عمل کرلے۔اب کلیاں کرکے منہ کو خوب اچھی طرح صاف کرلینا چاہیے تاکہ مٹھاس کا احساس دور ہوجائے۔
مسواک کی خوبی یہ ہے کہ اس کے ریشے نرم ہونے کی وجہ سے برش کا کام تو کرتے ہی ہیں، اس میں شامل مفید اجزا کا رس بھی مسوڑھوں کی صحت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ اسے چونکہ چبایا جاتا ہے، اس لیے اس عمل سے مسوڑھوں کی صحت میں زبردست اضافہ ہوتا ہے اور دانتوں کی جڑیں خوب مضبوط ہوجاتی ہے۔ برش سے آپ یہ فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ یہ جراثیم سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
دانتوں کی صفائی کم از کم دو بار ضروری ہے۔ صبح ناشتے سے پہلے اور رات سونے سے قبل۔ اصولاً ہر کھانے کے بعد اپنا منہ صاف کرنا چاہیے۔ شریعت میں خلال کی یہی اہمیت ہے کہ اس طرح کھانے کے ذرات کو الگ کردیا جائے اور پھر اچھی طرح کلیاں کرلی جائیں۔ بعض بزرگ خلال کے لیے چاندی یا نیم وغیرہ کے تنکے کے بجائے موٹے دھاگے سے بھی یہ کام لیتے تھے۔ جدید ماہرین اب صفائی کے اس طریقے کی بھی حمایت کررہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں اس مقصد کے لیے مخصوص دھاگے کی ریلیں ملنے لگی ہیں۔ دھاگے سے دانتوں کے خلا کی صفائی کے نتیجے میں وہ چیکٹ لعابی تہ دور ہوجاتی ہے جس میں مسوڑھوں کو سڑانے اور گلانے والے جراثیم بھرے ہوتے ہیں۔ ہمارے قاری کے مسوڑھے دراصل ان جراثیم کی زد میں آگئے ہیں، اس کی بنیادی وجہ دانتوں کی صفائی نہ کرنے کے علاوہ ذیابیطس اور جدید تیز کیمیائی دواؤں کا استعمال بھی ہوسکتا ہے۔ غذا میں حیاتین ’ج‘ کی کمی بھی اس کا ایک اہم سبب ہوتی ہے۔ بروقت علاج اور توجہ نہ کرنے کی صورت میں وہ اپنے دانتوں سے محروم ہوسکتے ہیں۔
انہیں ان معلومات کی روشنی میں اپنے دانتوں کی خرابی کی وجہ کا کھوج لگانا چاہیے، جس کے ایک سے زیادہ اسباب بھی ہوسکتے ہیں۔ ممکن ہے وہ پان، نسوار اور تمباکو کھانے کے علاوہ سگریٹ نوشی بھی کرتے ہوں۔ جدید تحقیق کے مطابق تمباکو کا دھواں مسوڑھوں کے ریشوں کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے۔
مٹھائیوں اور میٹھی اشیاء و مشروبات کا استعمال بھی آج کل دانتوں کی خرابی کا ایک بڑا اہم سبب ہے۔ بچوں اور نوجوانوں میں دانتوں کی اکثر خرابیاں میٹھی اشیاء کے کثرتِ استعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
ان تمام چیزوں سے احتیاط اور پرہیز ضروری ہے۔ چیونگم، میٹھی گولیاں، چاکلیٹ، پیسٹری، میٹھے اور بہت سرد مشروبات وغیرہ دانتوں کے دشمن ہوتے ہیں۔ ہمارے تھوک اور شکر کے ملنے سے منہ میں تیزابی اثرات پیدا ہوتے ہیں جس سے دانتوں اور مسوڑھوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ دانت کھوکھلے اور مسوڑھے زخمی ہوجاتے ہیں۔
ضروری ہے کہ وہ اصل سبب کا کھوج لگائیں اور دانتوں کی باقاعدہ صفائی کی عادت ڈالیں۔ نیم کے تازہ پتّوں کو پانی میں جوش دے کر تھوڑا نمک یا پھٹکری شامل کرکے دن میں دو تین مرتبہ کلیاں کریں۔
ہر کھانے کے بعد دانت صاف کریں اور حیاتین ج کی 500ملی گرام کی ایک ایک ٹکیہ صبح و شام کھائیں۔ دانتوں میں میل جم گیا ہو تو اسے صاف کروائیں۔ یہ میل دھیرے دھیرے مسوڑھوں کو ہٹاکر دانتوں کی جڑیں کھول دیتا ہے۔
غذا میں گائے کا گوشت قطعی طور پر ترک کردینا چاہیے۔ خاص طور پر اس کی بوٹیوں کے ریشے مسوڑھوں کے لیے سخت نقصان دہ ہوتے ہیں۔ صبح و شام نیم کی تازہ مسواک یا پیلو کی مسواک پانی میں بھگو کر نرم کرکے استعمال کرنا بھی ایک مفید تدبیر ہے۔
دانتوں اور مسوڑھوں کی خرابی کے لیے کنیر کی مسواک کا استعمال بھی بہت مفید ہوتا ہے۔ اس کا لعاب نگلنا نہیں چاہیے۔ موسم پرکینو، مالٹے اور سنگتروں کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے۔ ان تدابیر سے افاقہ نہ ہونے کی صورت میں معالجِ دندان سے مشورہ ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔۔
س: میرے دانتوں سے خون نکلتا رہتا ہے،کبھی درد بھی ہوجاتا ہے۔ میں منہ کی بدبو کی وجہ سے بھی پریشان رہتا ہوں۔ مجھے اس تکلیف سے نجات کی کوئی ترکیب بتادیجیے۔ (صہیب احمد، مٹیاری)
ج: بلاشبہ پاکستان میں مسوڑھوں اور دانتوں کی تکلیف ایک مسئلۂ صحت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے دو بدیہی اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ مجموعی طور پر ہماری غذا ناقص ہے، یعنی ہمیں جس قسم کی غذا کی ضرورت ہے وہ میسر نہیں ہے، یا تو اس میں ملاوٹ ہے یا یہ کہ ہم غذا کی تیاری میں اس کے بہترین اجزا کو ضائع کردیتے ہیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ دانتوں کی صفائی سے غفلت برتی جاتی ہے۔ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ سب سے پہلے اپنی غذا پر توجہ دیں۔ میری رائے میں آپ کو گائے کا گوشت ترک کردینا چاہیے۔ میں اس نقطۂ خیال کا حامی ہوں کہ ہمیں گائے کا دودھ پینا چاہیے اور گائے کے گوشت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ یہ کون سی عقل مندی ہوئی کہ ہم گائے تو کاٹ کاٹ کر کھا جائیں اور دودھ سے محروم رہیں! اور دودھ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے باہر کے ملکوں سے دودھ کا پاؤڈر درآمد کریں! واقعی ہماری قوم کا عجیب حال ہے۔آپ اپنی غذا میں تازہ کچی سبزیوں کو اہمیت دیں۔گاجر، مولی، ٹماٹر وغیرہ کچے کھائیں۔ لیموں کا رس آپ کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ صبح ایک گلاس تازہ پانی میں لیموں کا رس ملاکر پئیں۔ دانتوں کی صفائی پر توجہ کیجیے۔ فی الحال 20-15 دن تک ریونڈ چینی تین ماشے کو پانی میں جوش دے کر اس سے رات کو کلیاں کیجیے۔
nn
س: میری عمر 17سال ہے۔ عام صحت ٹھیک نہیں۔ میرا چہرہ بہت پتلا ہوتا جارہا ہے۔ ہڈیاں ابھرآئی ہیں۔ ازراہِ کرم کوئی علاج بتائیے کہ چہرہ گوشت سے بھر جائے، جسم سڈول ہوجائے۔ کیا کسی تیل کی مالش میرے لیے مفید ہوگی؟ (نسیم مغل، صادق آباد)
ج: شاید آپ نے کبھی اس انداز سے غور نہیں کیا ہے کہ دنیا میں ایک ایسی چیز بھی ہے جسے روپے پیسے سے خریدا نہیں جا سکتا، اور وہ ہے صحت۔ میں آپ کی یہ غلط فہمی بھی دور کردوں کہ دواؤں سے صحت حاصل ہوسکتی ہے۔ دوائیں تو ایک ذریعہ ہیں اور ان کے ذریعے سے بگڑی ہوئی کلوں کو صحیح رخ دیا جاتا ہے اور پھر فطرت خود ہی سامانِ صحت کرتی ہے۔ صحت کے لیے لازماً حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔ غذا میں احتیاط، پُرخوری سے اجتناب، ایک ناشتا ایک کھانا، نیند پوری کرنا، رات جلد سوجانا، صبح جلد بیدار ہونا، اور طلوع ہوتے سورج کا استقبال کرنا، صاف پانی پینا، تازہ ہوا، آرام۔۔۔ جو لوگ ان سے غفلت برتتے ہیں وہ صحت مند نہیں رہ سکتے۔ اور جو لوگ اپنی صحت کو لٹاتے رہتے ہیں وہ پتلے چہرے کے ہوتے ہیں، ان کی ہڈیاں ابھر آتی ہیں۔
س: میری عمر 21 سال ہے، دمے کا مریض ہو۔ ہر رات مجھے اس کا دورہ پڑتا ہے۔ نزلہ زکام مستقل رہتا ہے۔ چھینکیں بہت آتی ہیں۔ یہ مرض کیوں ہوتا ہے اور کیا یہ ایک متعدی مرض ہے ؟ (عرفانہ فاروقی، اسلام آباد)
ج: زکام بلاشبہ متعدی مرض ہے، یعنی ایک سے دوسرے کو لگ سکتا ہے۔ مثلاً اگر زکام میں مبتلا ایک انسان بے احتیاطی سے چھینکے، اور نفاست اور شائستگی کو بالائے طاق رکھ کر ناک پر رومال نہ رکھے، اور اس پر مستزاد یہ کہ چھینک مارکر الحمدللہ بھی نہ کہے تو یرحمک اللّٰہ نہ کہنے والا سامنے والا انسان اس کی چھینک سے نکلنے والے کروڑوں جراثیم کا شکار ہوسکتا ہے۔ دمہ (ضیق النس۔ یزما) چھوت والا مرض نہیں ہے۔ مختصر بات یہ ہے کہ پھیپھڑوں میں واقع ہوائی نالیاں، جو بکثرت ہیں ورم پاکر بالآخر تنگ ہوجاتی ہیں۔ یہ نالیاں جب تنگ ہوجاتی ہیں اور دورہ کے وقت تنگ تر ہوجاتی ہیں تو سانس پوری طرح نہیں آتی، اور جب سانس نہیں سماتی تو پھر پھیپھڑوں کو خون صاف و تازہ کرنے کے لیے آکسیجن نہیں ملتی۔ آکسیجن کی کمی دور کرنے کے لیے سانس زور زور سے لینا پڑتا ہے۔ یہی دمہ کی کیفیت کہلاتی ہے۔
دمہ کے مریضوں کو گہری سانس لینے کی ورزش کرنی چاہیے۔ جب دورہ نہ ہو اُس وقت صبح تازہ ہوا میں گہرے سانس لینے چاہئیں۔ اس سے نالیوں کو کشادہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔
س:میری عمر 18برس ہے، مجھے تھوک کے ساتھ کبھی کبھی خون (باریک ریشے کی طرح) آجاتا ہے۔ بظاہر صحت مند ہوں مگر اندر سے بجھی بجھی رہتی ہوں۔ کوئی دوا یا علاج تجویز کیجیے۔ (نائلہ راؤ،کراچی)
ج: عزیزہ! میری رائے ہے کہ آپ کے مسوڑھے خراب ہیں۔ خون ان سے رس رہا ہے۔ آپ کو غذا میں احتیاط کرنی چاہیے۔ گائے، بھینس کا گوشت آپ کے مسوڑھوں کو اور بھی خراب کردے گا۔ اس کا کھانا ترک کردیجیے۔ آپ کے جسم کو وٹامن سی کی ضرورت ہے۔ وٹامن سی کی 500 ملی گرام کی ٹکیاں صبح وشام مہینہ بھر تک کھا لیجیے اور کوئی اچھا ٹوتھ پیسٹ یا منجن استعمال کیجیے۔