وادئ کشمیر میں پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہرانا ایک معمول سا بن گیا ہے۔ بھارتی فوجی پرچم اُتارتے ہوئے تھک جاتے ہیں مگر کشمیری نوجوان یہ پرچم لہرانے سے تھکنے کا نام نہیں لیتے۔ رواں برس تو پاکستان کے جس قدر پرچم وادی میں سلے اور لہرائے گئے شاید ہی اتنی بڑی تعداد میں پاکستان بھر میں لہرائے گئے ہوں۔۔۔گوکہ مجموعی طور پر کرفیو، ہڑتالوں اور مظاہروں کے باعث کشمیر میں عام کاروباری سرگرمیاں معطل ہوکر رہ گئیں، مگر سری نگر کے وسط میں گنجان آباد علاقے میں پاکستانی پرچم تیار کرنے والوں کا کاروبار عروج پر رہا۔ اس دوران آزادکشمیر کے کچھ سیاسی لوگوں کے ایما پر سبز پرچم کے متبادل کے طور پر وادی میں چار لکیروں والا آزادکشمیر کا پرچم لہرانے کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی، مگر کشمیر کے مخصوص حالات میں یہ پرچم اور یہ مہم اپنا رنگ نہ جما سکی۔ شاید چار لکیروں والے اس پرچم سے بھارت کو وہ چبھن محسوس نہیں ہورہی تھی جو سبز ہلالی پرچم کو وادی میں لہراتا دیکھ کر ہوتی ہے، اورکشمیریوں کا مقصد اور مدعا سانڈ کو سرخ رومال دکھانا ہوتا ہے۔
پاکستان کا پرچم لہرانے کے بعد اب وادی میں عوامی جمہوریہ چین کے پرچم بھی لہراتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ یہ پرچم عوامی جمہوریہ چین کی طرف سے کشمیریوں کی حمایت پر شکریے کے طور پر لہرائے جارہے ہیں، جن پر لکھا ہے’’چینی دوستو! کشمیری آپ کی مدد کے منتظر ہیں‘‘۔ چین کی مدد کشمیری تحریکِ مزاحمت کے لیے اُس وقت حیاتِ نو کا پیغام لائی تھی جب پرویزمشرف کے عروج کے دنوں میں امریکہ کے شدید دباؤ پر پاکستان کشمیر پر بھارت کے ساتھ ایک کمزور سمجھوتا کرنے کی طرف مائل اور مجبور تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان امریکی دباؤ کے باعث کشمیر پر اپنے تاریخی دعوے سے دستبردار ہوجائے گا۔ ایسے میں چین نے کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دیتے ہوئے کشمیریوں کو سادہ کاغذ پر ویزا جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا، جس پر پاکستان کے ساتھ معاملات طے پا جانے کی خوشی سے پھولے نہ سمانے والا بھارت چین کے اس اچانک قدم پر چیں بہ جبیں ہوکر رہ گیا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ جیسے رنگ میں بھنگ پڑ گئی ہو۔ چین نے بھارت کے احتجاج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اُس وقت تک یہ مشق جاری رکھی جب تک کہ پاکستان اس دباؤ سے باہر نہیں نکل آیا۔
وقت اور حالات نے چین کو ریاست جموں وکشمیر پر جاری کھیل کا ایک فریق بنادیا ہے۔ بھارت نے اس مسئلے کے حل میں تاخیر کا راستہ اختیار کرکے درحقیقت اسے پیچیدہ بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ مسئلے کے الجھاؤ کا شاخسانہ تھا کہ اقصائے چن کی صورت منقسم اور متنازع ریاست جموں وکشمیر کا وسیع رقبہ حتمی تصفیے تک چین کے تصرف میں چلا گیا۔ اس کے بعد تو چین پاکستان، بھارت اور کشمیریوں کی طرح اس تنازعے کا ایک کردار بن گیا۔ اب رفتہ رفتہ چین کے عالمی کردار کے ساتھ اس کا علاقائی کردار بھی وسعت پذیر ہے۔ کشمیر کے معاملے میں چین کے اس کردار کی طرف کشمیر کے درویش منش راہنما چودھری غلام عباس متعدد بار لب کشائی کرتے رہے۔ اُس زمانے میں چین ایک عام سا ملک اور کمزور سی معیشت تھا اور کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ آنے والے وقتوں میں چین ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر سامنے آئے گا۔ چودھری غلام عباس نے دو بار کھلے لفظوں میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے چین کے کردار کا حوالہ دیا۔ پہلی بار 1958ء میں جب چودھری غلام عباس کی قیادت میں مسلم کانفرنس نے کنٹرول لائن توڑنے کے لیے مارچ کی تیاریاں شروع کیں تو بھارت نے امریکہ سے مداخلت کے لیے رابطہ کیا۔ پاکستان میں امریکی قونصل جنرل مسٹر جیمز پال، چودھری غلام عباس سے مارچ روکنے کی غرض سے ملے تو چودھری غلام عباس نے امریکی سفارت کار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسٹر پال اپنے صدر آئزن ہاور کو میری طرف سے پیغام دیجیے کہ ایشیا کا کھیل چین اور پاکستان کے درمیان ہے نہ کہ بھارت اور چین کے درمیان، جیسا کہ امریکی سمجھ رہے ہیں‘‘۔ چودھری غلام عباس بتا رہے تھے کہ ایشیا کے مستقبل کا ٹرمپ کارڈ پاکستان اور چین کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح چین بھارت جنگ کے بعد جب امریکہ نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو بھارت کے ساتھ مشترکہ دفاع پر آمادہ کرنے کی کوششیں شروع کیں تو 1964 ء میں چودھری غلام عباس نے پنڈت نہرو کی کچھ تجاویز لے کر پاکستان آنے والے کشمیری راہنما شیخ عبداللہ کے اعزاز میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں منعقدہ ایک جلسہ عام میں اعلانیہ طور کہا کہ ’’مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں بات چیت کے فریق صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ ایک بڑا ہمسایہ چین بھی چھت پر بیٹھا ہوا ہے، بہتر ہے کہ اصل فریق کو رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ اس بات پر شیخ عبداللہ چونک کر رہ گئے اور جوابی خطاب میں حیرت کے ساتھ کہنے لگے کہ ’’ہم تو ابھی تک یہی سنتے تھے کہ تنازعے کے دو فریق پاکستان اور بھارت ہیں، چودھری صاحب نے تیسرا فریق بھی پیدا کردیا‘‘۔
پچاس سال پہلے عجیب معلوم ہونے والی باتیں آج حقیقت بن کر سامنے آرہی ہیں۔ پانچ ملکوں کی تنظیم ’’برکس‘‘ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے پاکستان کے لیے’’مدرشپ آف ٹیررازم‘‘ کے الفاظ استعمال کرنے کے دوسرے روز ہی کانفرنس کے ایک اہم شریک عوامی جمہوریہ چین کے دفتر خارجہ کی ترجمان ہیوچنینگ نے دوٹوک انداز میں کہا کہ دہشت گردی کو کسی مخصوص مذہب اور ملک کے ساتھ جوڑنے کا رویہ قطعی نامناسب ہے۔ دنیا کو دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں طویل عرصے تک بہت قربانیاں دی ہیں۔ چینی ترجمان نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے باہمی تنازعات مذاکرات اور بات چیت سے حل کرنے چاہئیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کو تنہا کرنے کی مہم پر نکل کھڑے ہوئے ہیں اور اس کام میں صرف دہشت گردی کا ’’منترا‘‘ پڑھ کر دنیا کو اپنا ہمنوا بنا رہے ہیں۔ برکس کانفرنس میں بھی نریندر مودی کا یہی رویہ تھا۔ اب عوامی جمہوریہ چین نے دوٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ دہشت گردی پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ دہشت گردی سے پوری دنیا متاثر ہے۔ اس لیے دہشت گردی کو کسی مخصوص مذہب اور ملک کے ساتھ نہیں جوڑا جانا چاہیے۔ مغرب اس وقت بدترین ’’اسلاموفوبیا‘‘کا شکار ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی کے ساتھ بریکٹ کردیا گیا ہے۔ مغرب کا متعصب میڈیا کسی بھی مسلمان کے انفرادی فعل کو مذہبِ اسلام سے جوڑتا ہے۔ ایسے کسی بھی شخص کی گرفتاری کے وقت مسلمان دہشت گرد کہنا لازمی ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کے برعکس عیسائیوں، ہندوؤں، یہودیوں میں سے کوئی جرم کرے تو اسے صرف مجرم کہا جاتا ہے۔ اس کے جرم کا تذکرہ کرتے وقت اس کے مذہب کا حوالہ نہیں دیا جاتا۔ یہ متعصبانہ رویہ صرف مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں ہی روا رکھا جاتا ہے۔ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ آج مغرب میں مسلمان آبادی کے بارے میں شدت پسندانہ جذبات پیدا ہورہے ہیں۔ بھارت چونکہ ایشیا کے گریٹ گیم میں امریکہ کا اہم مہرہ اور شہ بالا ہے اس لیے وہ اسی اسٹائل میں مسلمانوں اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد بھارت کا رویہ مزید بگڑ گیا ہے۔ اب بھارت امریکہ کے ہی اسٹائل میں پاکستان کو دہشت گردی کا منبع کہنے کا ڈھول پیٹ رہا ہے، لیکن اسے ہر محاذ پر منہ کی کھانا پڑ رہی ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کی طرف سے دہشت گردی کے حوالے سے اس مؤقف کا اظہار دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ دنیا میں دہشت گردی پاکستان کی پیدا کردہ نہیں۔ پاکستان نے صدام حسین کو کویت پر اور امریکہ کو عراق پر حملے کی دعوت نہیں دی تھی۔ یہ امریکی سفیر تھیں جنہوں نے صدام حسین کو ’’گو اے ہیڈ‘‘ کا کاشن دے کر کویت پر چڑھ دوڑنے کا اشارہ دیا تھا۔ پھر صدام کی کلائی مروڑنے اور کویت کو آزاد کرانے کے نام پر امریکہ خلیج میں اُترا تھا، سعودی عرب میں فوجیں داخل کی تھیں۔ اس کھیل نے اسامہ کا کردار تخلیق کیا تھا۔ پاکستان تو اس عالمی کھیل کا محض ایک شکار ہے۔ اب جبکہ پاکستان نے حالات کو جھٹک کر دہشت گردی کی دلدل سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو بھارت اور امریکہ کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔