جونؔ ایلیا جی ہی جی میںجلا کرتے تھے کہ
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں
کچھ یہی کیفیت ہماری تھی۔ ہم بھی جی ہی جی میں کُڑھاکرتے تھے کہ ایک ہم ہی ہیں جو اسلام آباد میں بیٹھے جھک مار رہے ہیں، ورنہ دیگر شہروں میں تو ’’اپنے سب یار کام کررہے ہیں‘‘۔ وہ تو کہیے کہ یہیں بیٹھے بٹھائے ہم پر منکشف ہوگیا کہ اس شغل میں ہم اکیلے نہیں، بڑا بڑا اِس لت میں پڑا ہوا ہے اور بڑے بڑے شہروں میں۔
جدّہ (سعودی عرب) سے سید شہاب الدین صاحب نے پچھلے پرلے روز یہ سوال کرنے کو فون فرمایا کہ
’’اُردو کا ایک معروف محاورہ ہے ’جھک مارنا‘ جس کے مفہوم سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ’جھک‘ کیا چیز ہے؟ یہ لفظ کس زبان سے آیا ہے؟ اوراس محاورے میں ’مارنا‘کیوں استعمال ہوتا ہے؟ آخر ’جھک‘ ہے کیا چیز جسے مارا جاتا ہے؟‘‘
عرض کیا:’’یہ نہایت معصوم جانور ہے، جسے غیر معصوم لوگ مار مار کر اَدھ مُوا کیے دیتے ہیں۔ پھر معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ یہ ہے کیا چیز؟‘‘
جواب سن کرجھلا گئے۔ کہنے لگے: ’’جھک نہ ماریے۔ مسخرا پن فرمانے کے بجائے تحقیق کیجیے‘‘۔ یہ حکم دے کر فون بند کردیا۔
گویا سید صاحب کی نظر میں ’جَھک‘ پر تحقیق کرنا ’جھک مارنے‘ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
صاحبو! ہم تحقیق کیا کریں؟ جیم پر زبر کے ساتھ جَھک ہندی لفظ ہے۔ جَھک کا مطلب ہے بک بک، بڑ بڑ، واہی تباہی گفتگو، بکواس، بیہودہ گوئی، ٹرٹر یا پاگل پن کی بات۔ بہت بک بک کرنے والے یا اپنی فضول ضد پر اڑے رہنے والے حجتی شخص کو جھکّی کہا جاتا ہے۔ بلکہ یوں کہتے ہیں کہ ’’بڑا جھکّی آدمی ہے‘‘۔ (یہ جان کر اطمینان ہوا کہ جھکّی کو بھی آدمی ہی سمجھا جاتا ہے)
رندؔ اپنی دیوانگی کا علاج کروانے کے بعد کی کیفیت بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں:
باقی ہے ابھی اثر جنوں کا
سودا تو گیا ہے، جَھک رہی ہے
یعنی جنون تو گیا، مگر اثرِجنون بک بک کی صورت میں باقی ہے۔
اے عزیزو! جیسا کہ شہاب بھائی نے فرمایا ’جھک مارنا‘ ایک محاورہ ہے۔ اس محاورے کا مفہوم ہے ’فضول باتیں کرنا یا فضول کام کرنا‘۔ ’محاورے‘ کے الفاظ متعین ہوتے ہیں۔ انھیں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اِس میں ایک ’اسم‘ ہوتا ہے اور ایک ’فعل‘۔ ’جھک مارنے‘ میں ’جھک‘ اسم ہے اور ’مارنا‘ فعل ہے۔ محاورے میں فعل اپنے حقیقی معنوں میں نہیں لیا جاتا۔ مجازی معنوں میں لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سیڑھی سے اُترنا حقیقی فعل ہے، مگر ’دل سے اُترنا‘ محاورہ ہے۔ دل سے اترتے وقت ’اُترنا‘ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں لیا جاتا۔ اسی طرح تھپڑ مارنا، مُکّا مارنا یا ڈنڈا مارنا بھی حقیقی فعل ہے۔ لیکن شیخی مارنا، گپ مارنا، ڈینگ مارنا یا جَھک مارنا محاورہ ہے۔ یہاں ’مارنا‘ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں لیا جائے گا۔ اسی طرح قسم کھانا، غصہ پینا اور وعدہ توڑنا جیسے محاوروں میں ’کھانا، پینا اور توڑنا‘ اپنے اصل معنوں میں نہیں لیا جاتا۔ ان افعال کو تبدیل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ محاورے کے دیگر الفاظ بھی تبدیل نہیں ہوتے۔ الفاظ بدل دیے جائیں تو محاورہ، محاورہ نہیں رہتا۔ مثال ملاحظہ فرمائیے، ’’سورج کو چراغ دکھانا‘‘ محاورہ ہے۔ اگر اس کی جگہ ’’سورج کو دِیا دکھانا‘‘ بولا جائے گا تو یہ محاورے کے خلاف ہوگا۔ حالاں کہ آج کل بلدیہ والے سورج کو دن دِہاڑے ’اسٹریٹ لائٹ‘ دکھا دیتے ہیں۔ اِس کے سوا بھی ان کا محاورہ بگڑا ہی ہوا ہے۔ قصہ مختصر، ’جھک‘ کے ساتھ ’مارنا‘ کا لاحقہ لگانا ضروری ہے۔ یہ محاورے کی مجبوری ہے۔ خیر، یہ توتھیں قاعدے قانون کی باتیں۔ آئیے پھر جھک مارتے ہیں۔
بہت باتیں بنانے کو بھی جَھک مارنا کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرتِ امیرؔ مینائی نے حضرتِ ناصح کی آمد کی اطلاع دیتے ہوئے کہا:
حضرتِ ناصح یہاں آئے تھے آج
دیر تک کچھ بیٹھے جَھک مارا کیے
’جھک مارنا‘ بے نتیجہ اورفضول کام کرنے کے معنوں میں استعمال ہونے کے علاوہ ’کچھ نہ کرنے‘ کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ جیسے:
’’کتاب شائع کرنے کی ذمے داری اُنھیں کو دی گئی تھی، مگر دو برس تک کچھ نہ کیا، محض جھک مارا‘‘۔
یا’’کیا بتاؤں کہ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں آج کل کیا کررہی ہیں۔ بس جھک مار رہی ہیں‘‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ’بہت کچھ کرنے‘ کو بھی انکسار کے اظہار کے طور پر ’جھک مارنا‘ ہی کہتے ہیں۔ مثلاً:
’’ہم بھی پچاس برس سے صحافت کے میدان میں جھک مار رہے ہیں‘‘۔
(اب ان بزرگ سے کون پوچھے کہ اب تک مار کیوں نہیں پائے؟)
’جَھک جَھک کرنا‘ تو تو مَیں مَیں کرنے یا تکرار کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ توتو میں میں طول پکڑ جائے تو کہا جاتا ہے:
’’دونوں میں بڑی دیر سے بک بک جھک جھک ہورہی ہے‘‘۔
عموماً جیم پر زبر کے ساتھ جَھک جَھک کی جاتی ہے، لیکن لغت اجازت دیتی ہے کہ آپ کا جی چاہے تو جیم کے نیچے زیر لگاکر جِھک جِھک کرلیجے۔ نتیجہ دونوں کا ایک ہی نکلے گا کہ آپ کی جَھک جَھک یا جِھک جِھک بند ہوگی تو لوگ داغؔ کی طرح اطمینان کا سانس لیں گے:
سنتا ہوں کہ ناصح کی زباں بند ہوئی ہے
ہر روز کی جِھک جِھک سے مرا ناک میں دم تھا
ہندی میں جَھک کے ایک اور معنی لیے جاتے ہیں: اُجلا، روشن،تاباں،منور، درخشاں، چمک دار یا چمکتا ہوا سفید۔محبوبہ کے بُڑھیا ہو جانے پر بھی شعورؔ کو شعر سوجھ گیا:
زلفِ مُشکیں کا سفیدی پر بھی ہے پیری میں بَل
کچھ نہ کچھ جَھک رہ گئی جس کو ہوا سودا کبھی
زُلف ہی نہیں، کوئی لباس یا زیور بھی خوب چمکیلا، دمکتا ہوا یا سونے چاندی کی جھلک مارتا ہوا ہو تو کہا جاتا ہے کہ ’’جَھکا جَھک ہے‘‘۔
’جَھک مارنے‘ پر ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔گھر کے ایک بزرگ کسی کام کی جلدی میں بڑی تیزی سے گھر سے نکل رہے تھے۔ ایسے میں اُن کی ایک ننھی منی بھتیجی آکر اُن کی ٹانگوں سے لپٹ گئی: ’’چچا جان! کہاں جارہے ہیں؟‘‘
چچا جان جھنجلا گئے۔ بچی کا ہاتھ پکڑکر اُس کو الگ کرتے ہوئے غصے سے بولے: ’’جَھک مارنے جارہا ہوں‘‘۔
واپس آئے تو غالباً اپنے کام میں کامیابی پر شاداں و فرحاں و خنداں گھر میں داخل ہوئے۔ بچی نے اُنھیں خوش دیکھا تو ایک بار پھر آکر اُن کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ بڑی معصومت اور محبت سے پوچھا: ’’چچاجان! جَھک مار کے آگئے؟‘‘
(سبق: بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔ ہر بات پر جھٹ یقین کرلیتے ہیں)