قصہ یک درویش!کینیا میں ایک قادیانی مبلغ کی سرگرمیاں

حاجی قادردینہ مرحوم کی نرینہ اولاد نہیں تھی۔ موصوف کی وفات کے بعد ان کے ورثا نے بھی کچھ مسائل کھڑے کردیے۔ یہ صورتِ حال میرے کینیا سے واپس آجانے کے بعد پیدا ہوئی۔ رائو محمد اختر صاحب نے حکمت کے ساتھ ان الجھنوں کو کسی حد تک سلجھا لیا۔ اب الحمدللہ نئے سرے سے یہ کام شروع ہوچکا ہے۔ محمد اسلم فائونڈیشن کے ساتھ کام کرنے والے کافی پرانے ساتھی ہیں۔ اس ادارے میں مسلسل کئی سالوں سے وہ کام کررہے ہیں۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ اب نئے سرے سے مشکلات کے باوجود کام آگے بڑھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مدد سے مشکلات میں آسانیاں پیدا فرمائے۔

نیری (Nyeri) نیروبی اور اسیولو کے درمیان کینیا کا ایک ضلعی صدر مقام ہے۔ اس کا فاصلہ نیروبی سے شمال مشرق کی طرف 143کلومیٹر ہے۔ اس مقام پر میرے کینیا جانے کے بعد ایک بڑی مسجد اور تعلیمی ادارہ تعمیر کیا گیا۔ اس تعلیمی ادارے میں پاکستان سے جماعت اسلامی کے رکن اور مانسہرہ کے عالم دین قاری محمد جمیل کی ذمہ داری لگائی گئی۔ کچھ عرصہ یہ ادارہ اچھی طرح چلتا رہا۔ پھر معاشی حالات میں بحران پیدا ہوا تو میرے کینیا سے واپس آنے کے چند سال بعد ادارہ بند کرنا پڑا۔ اس وقت مسجد تو آباد ہے، مگر تعلیمی ادارہ چالو نہیں ہوسکا۔ اللہ کرے حالات بہتر ہوں تو یہ ادارہ بھی فعال ہوجائے۔

قاری جمیل صاحب کے بڑے بھائی قاری عبدالرزاق صاحب میرے کینیا میں قیام کے دوران دیگر چار پانچ قرّا و حفاظ کے ساتھ وہاں پاکستانی صنعت کار حاجی محمد یوسف سیٹھی صاحب کی سرپرستی میں تشریف لائے تھے۔ سیٹھی مرحوم نے کئی عرب اور افریقی ممالک میں اپنی جیب سے رقوم فراہم کرکے قرآنی تعلیم کے مراکز و مدارس قائم کیے تھے۔ وہ پہلے سے قائم اسلامی اداروں میں متعین ان اساتذہ کا ایک خاص مدت تک معاوضے کا اہتمام کرتے تھے۔ آپ کا تعلق راہوالی ضلع گوجرانوالہ سے تھا۔ آپ طویل عرصے تک اسیولو اسلامک مرکز میں تحفیظ و تجوید کی تدریس کی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اب بھی وہیں ادارے کی نگرانی کررہے ہیں۔ قاری جمیل صاحب واپس پاکستان آگئے تھے۔

کینیا میں قیام کے دوران بہت سے یادگار واقعات پیش آئے، مگر سب کا احاطہ کرنا ناممکن بھی ہے اور غیرضروری بھی۔ قادیانیوں کے بارے میں پہلے تذکرہ ہوچکا ہے کہ وائس آف کینیا سے وہ اسلامی پروگرام پیش کرتے تھے جس کو بند کراکے ہم نے اس پروگرام کی ذمہ داری سنبھالی۔ قادیانیوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا جھٹکا تھا۔ انھوں نے اِدھر اُدھر ہاتھ پائوں مارے مگر ان کے مقدر میں ناکامی و ذلت ہی آئی۔ قادیانیوں کا ایک مشنری شیخ مبارک احمد کے نام سے نیروبی میں خاصا فعال تھا۔ کبھی کبھار وہ ہمارے دفتر اسلامک فائونڈیشن میں آتا اور اِدھر اُدھر کی بحث چھیڑ دیتا۔ دلائل میں شکست کھا جاتا تو بھاگ جاتا۔ جب کبھی اُس سے کہا جاتا کہ آئو تمھارے بناوٹی مذہب کے بانی کی ذاتی زندگی اور کردار کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ آیا وہ شریف انسان بھی تھا، نبوت تو بہت دور کی بات ہے۔ اس پر بھی وہ آئیں بائیں شائیں کرتا اور راہِ فرار اختیار کرجاتا۔

ایک روز تو میں نے اس سے یہاں تک کہا کہ تم ہمارے دفتر میں چلے آتے ہو تو ہمارے ساتھیوں کو تمھاری آمد بہت بری لگتی ہے، تاہم میں اِسے کراہت کے باوجود برداشت کرلیتا ہوں، مگر سن لو کہ امام اعظم حضرت ابوحنیفہؒ کے دور میں کسی کذّاب نے نبوت کا دعویٰ کیا تو آپؒ نے فرمایا: ختمِ نبوت کا عقیدہ اس قدر مستحکم ہے کہ اگر کوئی اس کذّاب سے اس کے دعوے پر دلائل مانگے توبھی اس کا ایمان خطرے میں ہوگا۔ تمھارے جھوٹے مداری کے بارے میں ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ اللہ کا کلام اور حدیثِ رسولِ مقبولؐ اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ وہ بلاشک و شبہ خود بھی کذّاب وکافر ہے اور اس کے پیروکار بھی سب اللہ کے غضب اور نارِجہنم کے مستحق ہیں۔

اس دورکا ایک خاص واقعہ مجھے آج تک یاد ہے۔ ایک دن وہ کذّاب ہمارے دفتر میں آیا تو میری میز پر کتابچوں کا ایک بنڈل پڑا تھا۔ یہ مولانا مودودیؒ کا شہرۂ آفاق کتابچہ ’’مسئلہ ختم نبوت‘‘ بزبانِ انگریزی (Finality Of Prophethood)تھا۔ ہمارے ادارے کی طرف سے یہ کتابچہ انگریزی اور سواحلی دونوں زبانوں میں بڑی تعداد میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ مختلف اسلامی کتب خانوں کی طرف سے طلب بھی آتی تھی جو ادائیگی کرتے تھے، اس کے علاوہ ہم فائونڈیشن کی طرف سے فری ڈسٹری بیوشن بھی کرتے تھے۔ اس قادیانی کی نظر جوں ہی اس کتابچے پر پڑی تو اُس نے جلے بھنے انداز میں کہا کہ پاکستان میں ہمارے خلاف مختلف مذہبی شخصیات اور جماعتوں نے بہت احتجاجی مظاہرے اور ہنگامے کیے، ہماری جائدادیں بھی جلائیں اور مار پٹائی بھی کی جس میں ہماری کئی جانیں گئیں، مگر ہمیں جس قدر نقصان اس ’’ظالم‘‘ نے پہنچایا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

اس بدبخت کا اشارہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مصنف ’’مسئلہ قادیانیت‘‘ اور’’عقیدہ ختم نبوت‘‘کی طرف تھا۔ اُس کی بات سن کر مجھے بہت غصہ آیا مگر میں نے خود پر قابو پالیا اور کہا کہ ظالم وہ نہیں جو خاتم النبییّن کا سچا پیروکار اور آپؐ کی ختم نبوت کا دفاع کرتے ہوئے تختۂ دار تک بھی پہنچا تھا، مگر اس کی ثابت قدمی میں کوئی فرق نہ آیا۔ ظالم تو انگریزوں کا تیار کردہ تمھارا لیڈر تھا جو بدبخت خود بھی کفر کا مرتکب ہوا اور تم سب لوگوں کو بھی اسی راستے پر چلا کر دوزخ میں لے جارہا ہے۔ اس بدبخت کا دنیا نے بھی انجامِ بد دیکھا اور آخرت میں بھی ہر شخص اس کذّاب کا مقدر دیکھ لے گا۔ میری یہ تلخ باتیں سن کر وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھا اور نکل گیا۔ میں نے اس کے گمراہ ہونے کے باوجود کبھی اس کے ساتھ سخت لہجے میں بات نہیں کی تھی، مگر آج میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔ اس واقعے سے چند ماہ قبل قادیانیوں کو پاکستان کی پارلیمان نے دستور میں ترمیم کرکے غیرمسلم قرار دیا، اور اللہ کا شکر ہے کہ اس عظیم فیصلے سے بیرونی ملکوں میں بھی قادیانیوں کے اکثر و بیشتر مراکز ویران و برباد ہو گئے اور وہ یورپ اور امریکہ و کینیڈا کو سدھارے۔

کینیا میں مسلمانوں کے تمام مسالک اور مکاتبِ فکر دیوبندی، بریلوی، شیعہ، اہل حدیث، حنفی و شافعی موجود تھے۔ مقامی مسلمان تقریباً سوفیصد شافعی تھے۔ برصغیر سے تعلق رکھنے والے حنفی مسلمان، دیوبندی اور بریلوی میں تقسیم تھے جو آپس میں فضول بحثیں کرتے رہتے تھے۔ ہمیں ان بحثوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، ہم سب اہلِ ایمان کو بنیادی اصولوں پر متحد کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اس کے نتیجے میں الحمدللہ، مختلف نوجوان ان مسلکی تنگ نائیوں سے نکل کر اسلام کے وسیع و کشادہ تصور اور نظریات میں سانس لینے لگے تھے۔ وہ ہمارے پروگراموں میں آتے اور ان کے ذہن میں جو کوئی بھی سوال ہوتا، وہ کرتے۔ ہر ایک کے سوال کا محبت اور دلائل سے جواب دیا جاتا۔ اس کے اثرات و نتائج اللہ کی رحمت سے بہت حوصلہ افزا تھے۔ البتہ اس دوران بعض اہلِ علم کچھ ایسی باتیں کر جاتے کہ جن کو سن کر افسوس ہوتا۔

ہمارے درسِ قرآن (لانڈھی جامع مسجد) میں چند نوعمر لڑکے باقاعدگی سے آنے لگے۔ وہ سب کلین شیو تھے۔ کچھ عرصے کے بعد ان میں سے دو لڑکوں نے خود اپنی مرضی سے داڑھی رکھ لی۔ ظاہر ہے کہ آغاز میں وہ داڑھی بہت لمبی نہیں تھی، مگر ان کا چہرہ دیکھ کر اندازہ ہوجاتا تھاکہ چہرے پر داڑھی ہے۔ جب یہ اپنی مقامی مسجد میں نماز پڑھنے گئے تو وہاں کے عالمِ دین مولانا گل محمد جن کا پاکستان سے تعلق تھا، انھیں دیکھ کر کہنے لگے: ’’یہ تم نے کیا کیا ہے، سنتِ رسول ؐ کا مذاق اڑا رہے ہو؟ یہ داڑھی کوئی داڑھی نہیں ہے۔‘‘ ان نوجوانوں میں سے ایک نے یہ طعنے سن کر داڑھی منڈوا دی، جب کہ دوسرے کو اللہ تعالیٰ نے ثابت قدمی عطا فرمائی۔ جب میری ملاقات ان دونوں سے ہوئی تو میں نے داڑھی منڈوانے والے عزیز سے محبت کے ساتھ پوچھا: ’’برخوردار! تم نے داڑھی رکھ لی تھی، پھر منڈوا کیوں دی؟ ‘‘اس نے کہا :’’جناب! مجھے مولانا گل محمد صاحب نے اتنی مرتبہ ڈانٹا کہ میں بالآخر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگیا۔‘‘

مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہوا کہ بعض اہلِ علم لوگوں کو سنت پر عمل کرانے کے بجائے اس سے دور بھگا دیتے ہیں۔ جب ایک لڑکے نے داڑھی رکھ لی ہے تو بڑی بھی ہوجائے گی، اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، نہ کہ دل شکنی۔ میں نے کہا: ’’برخوردار! اپنے اس ساتھی کی طرح ثابت قدمی اختیار کرو اور ہمت نہ ہارو‘‘۔ دوسرے لڑکے نے کہا کہ ’’مجھے بھی مولانا صاحب نے سرزنش کی تھی، مگر میں نے بڑے ادب سے کہا کہ حضور! جب میں کلین شیو تھا تو آپ نے کبھی مجھے ترغیب نہ دی کہ داڑھی رکھ لو، اب جو میں نے داڑھی رکھ لی ہے تو آپ مجھ پر تنقید کررہے ہیں۔ میں اپنے راستے پر چلتا رہوں گا، اگر آپ کو میں ناپسند ہوں تو میں دوسری مسجد میں جاکر نماز پڑھ لیا کروں گا‘‘۔ یہ محض ایک واقعہ آپ کے سامنے عرض کیا ہے۔ اس طرح کے مختلف نوعیت کے کئی واقعات کا تجربہ ہوا۔

قرآن مجید میں بار بار حکم دیا گیا ہے اور حدیثِ مبارکہ میں بھی اس کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے کہ اپنے رب کے راستے کی طرف (لوگوں کو) حکمت اور بہترین (شیریں) نصیحت کے ساتھ بلائو۔ فارسی میں کہا جاتا ہے ’’زبانِ شیریں ملک گیریں۔‘‘ الحمدللہ! اس کا تجربہ زندگی میں بارہا ہوا ہے۔ پتھر مارنے اور لعن طعن کرنے سے کب کسی کی اصلاح ہوسکتی ہے! حضور پاکؐ کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ آپؐ نے کس طرح بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا لوگوں کو اپنے سے دور دھکیلنے کے بجائے پیار و محبت سے اپنے قریب لا کر ان کو گناہوں سے نکالا اور تزکیہ کرکے ان کی زندگیاں بدل دیں۔

بریلوی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے نیروبی کے ایک تاجر جناب غلام محی الدین پراچہ بھی ہمارے ساتھ بے تکلف تھے۔ البتہ جب کبھی کسی اسلامی و مذہبی موضوع پر گفتگو ہوتی اور توحید و شرک، سنت و بدعت کے مسائل کی تشریح ہوتی تو وہ اس میں کئی مرتبہ مین میخ نکالتے اور کبھی ناراض بھی ہوجاتے۔ اس کے باوجود میل جول قائم رہا۔ ایک دن ایک دوست کے ذریعے مجھے اطلاع ملی کہ غلام محی الدین پراچہ صاحب کی اہلیہ وفات پاگئی ہیں اور انھوں نے پیغام دیا ہے کہ آپ مرحومہ کی نمازِ جنازہ پڑھائیں۔ مجھے اس پر تعجب ہوا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ تمھیں غلط فہمی ہوئی ہوگی۔ پراچہ صاحب کے عقائد اور میرے نظریات آپ کو معلوم ہیں؟

وہ دوست فرمانے لگے کہ یہ بات تو ٹھیک ہے، مگر مجھے انھوں نے کہا ہے کہ ان کی اہلیہ نے اپنی بیماری کے دوران وصیت کی تھی کہ اگر میری وفات ہوجائے تو میرا جنازہ حافظ محمد ادریس ہی پڑھائے۔ وائس آف کینیا سے نشر ہونے والے ہمارے ہفتہ وار دروس برصغیر کے تمام مسلمانوںکے گھروں میں بڑے شوق سے سنے جاتے تھے۔ دوستوں نے بتایا کہ یہ بھی اسی کا اثر تھا۔ اس طرح کے کئی اور واقعات بھی مختلف اوقات میں میرے علم میں آتے رہے۔

مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ وہ مرحومہ خاتون اپنے میاں سے عقائد و افکار میں کس قدر مختلف تھیں مگر اس کے باوجود گھریلو زندگی بہت خوش گوار گزری۔ ساتھ ہی پراچہ صاحب کی عزت میری نظر میں بہت بڑھ گئی کہ انھوں نے فکری اختلاف کے باوجود اپنی اہلیہ کی وصیت کو امانت سمجھ کر مجھے من و عن یہ پیغام پہنچا دیا۔ ہوسکتا ہے ان کے ہم مسلک کئی لوگوں میں ان کی سبکی ہوئی ہو۔ میں نے اپنی زندگی میں بے شمار جنازے پڑھائے ہیں، مگر بعض خاص جنازے جو یادگار ہیں، ان میں سے ایک اس نیک خاتون کا جنازہ تھا۔ اس موقع پر ہمارے سب ساتھی بھی حیران تھے اور پراچہ صاحب کے ہم خیال تو خاصے پریشان تھے۔ اللہ تعالیٰ سب جانے والوں کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کو دین اور اسلام پر استقامت بخشے۔

ان بارہ سالوں میں ایک یادگار واقعہ کینیا کے بابائے قوم اور پہلے صدر جناب جومو کنیاٹا(Jomo Kenyatta) کے بارے میں ہے۔ موصوف کینیا کے سب سے بڑے قبیلے کیکویو (Kikuyu)سے تعلق رکھتے تھے۔ انگریزوں کے استعمار کے خلاف گزشتہ صدی کے پہلے نصف میں ایک بہت بڑی عوامی تحریک چلی جسے سواحلی زبان میں ’’مائو مائو‘‘ تحریک کہا جاتا ہے۔
(جاری ہے)