بے روزگاری پیدا کرنے والی اس ٹیکنالوجی کی مدد سے نئے شعبے قائم کرکے معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور روزگار کے مواقع بڑھانے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے
ایک دنیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ریلے میں بہے جارہی ہے۔ جب بھی کچھ نیا واقع ہوتا ہے تو دُنیا اُس کی طرف لپکتی ہے۔ یہ فطری امر ہے جس پر حیرت کا اظہار بھی نہیں کیا جاسکتا… مگر ہاں، کسی بھی نئی چیزکو گلے لگانے کے معاملے میں جو تیزی اور ہمہ گیری دکھائی جاتی ہے اُس کے حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں ہر طرف ٹیکنالوجیز جلوے بکھیرتی دکھائی دیتی ہیں۔ تکنیکی دنیا میں پیش رفت کا بازار اِس قدر گرم ہے کہ ہم چاہیں بھی تو اُسے نظرانداز کرسکتے ہیں نہ اُس سے بے نیاز رہ سکتے ہیں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ ٹیکنالوجیز کو ہماری زندگی کی لڑی میں پرو دیا گیا ہے۔ قدم قدم پر ہمیں ٹیکنالوجیز کا سہارا لینا پڑتا ہے کیونکہ زندگی کے تقریباً تمام ہی معاملات کسی نہ کسی ٹیکنالوجی یا ٹیکنالوجیز سے جُڑے ہوئے ہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، ٹیکنالوجیز سے مکمل گریز کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اور مکمل تو کیا، معمولی گریز بھی اُس کی زندگی میں شدید عدم توازن پیدا کرسکتا ہے۔
کل کی دنیا فزیکل تھی، آج کی دنیا نان فزیکل یا آن لائن ہے اور اِسے ہم ڈیجیٹل بھی کہہ سکتے ہیں۔ بہت سے کام کل تک کہیں نہ کہیں پہنچ کر کرنا ہوتے تھے۔ اب اِس کی ضرورت نہیں رہی۔ لوگ بہت سے کام گھر بیٹھے کرلیتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجیز کا مثبت پہلو ہے۔ اس حقیقت سے تو انکار کیا ہی نہیں جاسکتا کہ ٹیکنالوجیز نے ہمارے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ ٹیکنالوجیز ہی کی بدولت ہم ایک ایسی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکے ہیں جس کا گزرے ہوئے زمانوں میں لوگ محض خواب دیکھا کرتے تھے۔ آج عام آدمی کو بھی ایسی سہولتیں میسر ہیں جو گزرے ہوئے زمانوں میں بادشاہوں کو بھی میسر نہ ہوپاتی تھیں۔ بہت سے معاملات اِتنے آسان ہوچکے ہیں کہ اُنہیں دیکھ کر آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ یومیہ بنیاد پر استعمال ہونے والی بہت سی چیزیں اب ٹیکنالوجیز کی بدولت ہماری زندگی کو آسانیوں سے مزیّن کیے ہوئے ہیں۔ عام آدمی کی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو اُسے معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے فضول محنت سے بچاتا ہے۔
چار پانچ صدیوں کی محنت کا نچوڑ ہمارے سامنے ہے۔ ہر شعبے میں ٹیکنالوجیز نے ہمارے لیے انقلابی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی ہے۔ انتہائی مشکل معاملات بھی اب بہت آسانی سے درست کیے جاسکتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ آج کا انسان بیشتر معاملات میں فقیدالمثال آسانیوں سے ہم کنار ہے۔
کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ٹیکنالوجیز نے ہمارے لیے صرف آسانیاں پیدا کی ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شعبے کی ٹیکنالوجی نے جتنی آسانیاں پیدا کی ہیں اُتنی ہی یا اُس سے زیادہ الجھنوں کو بھی جنم دیا ہے۔ یہ الجھنیں اس لیے ہیں کہ ہر ٹیکنالوجی انسان کو تبدیل ہونے کی تحریک دیتی ہے۔ جو لوگ ٹیکنالوجیز کے ساتھ چلتے ہیں، اُس سے ہم آہنگ ہونے اور ہم آہنگ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں وہی کامیاب رہتے ہیں۔ کسی بھی ٹیکنالوجی کے ہاتھوں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے مثبت ہی نہیں بلکہ منفی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی بالکل فطری امر ہے جس پر حیرت میں مبتلا ہونے کے بجائے خود کو نئی دنیا کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم اُس دنیا کا حصہ ہیں جو پل پل بدل رہی ہے۔ اِس بدلتی ہوئی دنیا میں خود کو نہ بدلنا اپنے وجود پر ظلم ڈھانے کے سوا کچھ نہیں۔ نئی ٹیکنالوجیز ہم سے تبدیلی کا تقاضا کرتی ہیں۔ معاشی اور معاشرتی معاملات کو درست رکھنے کے لیے لازم ہوچکا ہے کہ انسان ہر محاذ پر اپنے آپ کو تیار رکھے، محنتِ شاقہ کے ذریعے اپنے آپ کو بھرپور مسابقت کے قابل بنائے۔ ہر ٹیکنالوجی اپنے ساتھ چند منفی معاملات بھی لے کر آتی ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ٹیکنالوجی کے آنے سے چند لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور دوسرے بہت سے لوگ خاصی ناموافق صورتِ حال کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب کمپیوٹر کے ذریعے ٹائپ کرنا عام آدمی کے لیے ممکن ہوگیا تب کتابت ختم ہوگئی، کاتب بے روزگار ہوئے، کیونکہ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ دوسرے بہت سے شعبوں کا بھی ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ آرڈر بُکرز دکانوں پر جاکر مختلف چیزوں کے آرڈر لیا کرتے تھے۔ یہ شعبہ اب ختم ہوچکا ہے کیونکہ دکان دار اپنے آرڈر خود ہی تھوک فروش یا کمپنی کو براہِ راست بھیج سکتے ہیں۔ اگر کسی کو ٹائپ کرنا نہ آتا ہو تو وائس میسیج کے ذریعے بھی آرڈر بھیج سکتا ہے۔ ایسے میں آرڈر بُکرز کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے؟ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جتنے بھی آرڈر بُکرز ہیں اُنہیں متبادل روزگار کی تلاش شروع کرنی چاہیے۔
یہی حال دوسرے تمام شعبوں کا بھی ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز ملازمتیں کھاتی جارہی ہیں۔ مصنوعی ذہانت بھی ایسا ہی کررہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے بہت کچھ آسان بنایا جاچکا ہے۔ اِس کے نتیجے میں بڑے اور درمیانے حجم کے کاروباری اداروں کی چاندی ہوگئی ہے۔ اب اُن کے لیے بہت سے ملازمین کو فارغ کرنا آسان ہوگیا ہے۔ ملازمین کو فارغ کرنے کی صورت میں اُن سے منسلک اخراجات میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں بڑے اور درمیانے حجم کے کاروباری اپنے بیشتر معاملات میں مصنوعی ذہانت سے مستفید ہوتے ہوئے زیادہ سے زیادہ چھانٹیاں کررہے ہیں۔ امریکہ کے تمام بڑے ہائی ٹیک اداروں سے ڈیڑھ دو برس کے دوران بہت بڑے پیمانے پر چھانٹیاں کی گئی ہیں۔ اداروں کو رائٹ سائزنگ کے مرحلے سے گزارا جارہا ہے۔ یہ ناگزیر ہے، کیونکہ بڑھتی ہوئی مسابقت کے باعث منافع کمانے کی صلاحیت گھٹتی جارہی ہے۔ منافع کمانے کی صلاحیت میں اضافے کا ایک طریقہ رائٹ سائزنگ بھی ہے، یعنی جتنے لوگوں کو نکالا جاسکتا ہے، نکال دیا جائے۔ اور اب دنیا بھرکے کاروباری ادارے یہی کررہے ہیں۔
مصنوعی ذہانت نے چھانٹی کے عمل کو بہت تیز کردیا ہے۔ کل تک جو کام دس افراد مل کر کرتے تھے وہ کام اب مصنوعی ذہانت کی بدولت تین افراد بھی آسانی سے کرلیتے ہیں۔ ایسے میں باقی سات افراد کا کیا ہوگا؟ ظاہر ہے اُنہیں نکال ہی دیا جائے گا، اور نکالا جارہا ہے۔
مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لانے سے ہر شعبے میں آسانیاں پیدا ہورہی ہیں۔ میڈیا ہی کی مثال لیجیے۔ چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے مواد زیادہ اور تیزی سے تیار کیا جارہا ہے۔ ہاں، معیار کے معاملے میں اصولوں پر سودے بازی کی جارہی ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ معیار کے بارے میں زیادہ سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کررہے۔
یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ مصنوعی ذہانت نے کاروباری اداروں کو انسانوں پر انحصار سے نمایاں حد تک بچانا شروع کردیا ہے۔ ایسے میں یہ بات بھی آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ جن لوگوں کی ضرورت نہیں اُنہیں کوئی بھی کاروباری ادارہ کیوں ملازم رکھے؟ ایسے میں چھانٹیاں اُصولی طور پر بالکل درست معلوم ہوتی ہیں، مگر معاملہ یہاں ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ کسی بھی ادارے کی ورک فورس میں کمی کرتے جانے کا یہ سلسلہ اگر پوری دنیا میں یونہی جاری رہا تو اِتنی خرابیاں پیدا ہوں گی کہ قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔ مصنوعی ذہانت کے نتیجے میں تبدیل ہونے والے شعبوں سے بڑے پیمانے پر چھانٹیوں نے بے روزگاری کا گراف بلند کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگ متبادل روزگار کی طرف جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ متبادل روزگار کیا ہونا چاہیے؟ کون سا شعبہ ہے جو مصنوعی ذہانت کی دست بُرد سے محفوظ رہ پایا ہے؟ کسی ایک شعبے کے بارے میں بھی پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ مصنوعی ذہانت سے مکمل طور پر محفوظ رہ سکے گا۔
دنیا بھرکی حکومتیں مصنوعی ذہانت سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ اِس کے ہاتھوں انتہائی نوعیت کی الجھنوں سے بھی دوچار ہیں۔ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ آسانیوں کے نتیجے میں مشکلات نے انسانوں کو شکار کرنا شروع کردیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے پیدا ہونے والی آسانیوں نے کاروباری دنیا کو انسانی وسائل کی مکمل غلامی سے دور کردیا ہے۔ انسانوں پر گھٹتے ہوئے انحصار نے بعض شعبوں میں کاروباری اداروں کو غیر معمولی موافق صورتِ حال سے ہم کنار کیا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے بیشتر کاروباری ادارے چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خودکاری یقینی بنائی جائے۔ اِس کے لیے وہ مصنوعی ذہانت کا سہارا لے رہے ہیں۔ آن لائن کلچر کو بہت زیادہ فروغ دیا جارہا ہے۔ اِس کے نتیجے میں کاروباری اداروں کو انسانوں پر زیادہ انحصار سے بچنا نصیب ہوا ہے۔ اِس کیفیت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کی گنجائش پیدا کررہے ہیں۔ منافع بڑھانے کا ایک معقول طریقہ ہے اخراجات گھٹانا۔ اس طریقے پر عمل کرتے ہوئے کاروباری دنیا مصنوعی ذہانت کی مدد سے اپنے لیے اصلی فائدہ یقینی بنارہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چل سکتا ہے؟ دنیا بھر میں کاروباری ادارے اگر مشینوں پر انحصار کرتے ہوئے انسانوں کو فارغ کرتے چلے گئے تو معاشروں کا بنے گا کیا؟ چھانٹی کے ذریعے جنہیں نکالا جائے گا وہ تو، ظاہر ہے، آمدنی سے محروم ہوجائیں گے۔ ایسے میں یہ توقع کیونکر کی جاسکتی ہے کہ جو بے روزگار ہوں گے وہ کچھ خرچ بھی کرسکیں گے؟ لوگوں کو ورک فورس سے باہر کرنے کا سلسلہ اگر اِسی رفتار سے جاری رہا تو معاشروں میں مکمل عدمِ توازن کی کیفیت کو واقع یا برپا ہوتے زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے انسانوں کو فارغ کرنے کا عمل تو تیز کردیا گیا ہے مگر نئے شعبوں کا وجود ممکن بنانے پر خاطر خواہ حد تک توجہ نہیں دی جارہی۔ ترقی یافتہ دنیا میں انسانوں پر انحصار گھٹایا جارہا ہے، خودکاری کا دائرہ وسیع کیا جارہا ہے، معاملات مشینوں کے سپرد کیے جارہے ہیں، بہت سے روزمرہ افعال اب مشینوں کی ذمہ داریوں میں شامل کردیے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ ہورہا ہے مگر انسان کو پائیدار ذریعۂ معاش سے ہم کنار کرنے کے بارے میں بالکل نہیں سوچا جارہا۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے انسانوں کو یونہی فارغ کیا جاتا رہا تو معیشت کا پہیہ کس طور گھومتا رہ سکے گا؟ جب زیادہ لوگ بے روزگار ہوں گے تو معاشرے میں صرف انتشار پھیلے گا۔ جرائم کو بھی بڑھاوا ملے گا۔
امریکہ اور یورپ نے مصنوعی ذہانت کی دنیا میں اپنی برتری قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس میں تاحال بہت حد تک کامیاب بھی رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ وہ اپنی برتری کب تک برقرار رکھ پائیں گے؟ چین بھی ’’ڈیپ سیک‘‘ کے ساتھ میدان میں آچکا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر پلیٹ فارمز کو پچھاڑنے کی پوری تیاری کے ساتھ چین نے ڈیپ سیک کے ساتھ اے آئی کے میدان میں قدم رکھا ہے۔ چین بھی بڑی قوت ہے اور ٹیکنالوجی کے فرنٹ پر اُس کی پوزیشن بھی مضبوط ہے۔ چین بھی چاہے گا کہ اُس کی ورک فورس کم ہو۔ چینی کاروباری ادارے بھی منافع کا گراف بلند کرنے کی تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے چین میں بھی بڑے کاروباری ادارے چھانٹیوں کا بازار گرم کریں گے۔ پھر بھی یہ توقع کی جانی چاہیے کہ چینی حکومت اس معاملے کو ایک خاص حد تک ہی جانے گی کیونکہ بہت زیادہ چھانٹیوں سے معاشرے میں عدم توازن بھی پیدا ہوسکتا ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ معیشت بھی اپنا توازن کھو بیٹھے گی۔ متبادل شعبوں کا اہتمام کیے بغیر چھانٹیاں کرنے سے چند بڑے ادارے تو کامیاب ہو رہیں گے، تاہم مجموعی طور پر پورے معاشرے میں شدید عدم توازن پیدا ہوگا۔
مغرب اب تک اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ زیادہ سے زیادہ خودکاری زیادہ سے زیادہ بے روزگاری اور زیادہ سے زیادہ معاشی و معاشرتی عدم توازن کی راہ ہموار کرے گی۔ معاملات کو مشینوں کے حوالے کرکے خوش ہونے والے یہ نہیں سوچ رہے کہ خطرناک حد تک بڑھی ہوئی بے روزگاری تمام ہی معاملات کو بگاڑ سکتی ہے، پورے معیشتی اور معاشرتی ڈھانچے کو تہس نہس کرسکتی ہے۔
پاکستان جیسے ممالک کے لیے مصنوعی ذہانت کا بڑھتا ہوا استعمال انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ بے روزگاری پہلے ہی اچھی خاصی ہے۔ اگر کاروباری اداروں نے مصنوعی ذہانت سے زیادہ کام لینا شروع کیا اور اپنے بیشتر معاملات مشینوں کے سپرد کیے تو فارغ کیے جانے والوں کا کیا ہوگا؟ دنیا بھر کی ریاستوں اور معاشروں کو مصنوعی ذہانت کے حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ آنکھیں بند کرکے معاملات کو مصنوعی ذہانت کے حوالے کرنا کسی بھی اعتبار سے دانش مندانہ روش نہیں۔ مصنوعی ذہانت سے کام لینے کی صورت میں آسانیاں یقینی بنائی جاسکتی ہیں مگر اِس کے نتیجے میں بے روزگاری بھی پھیلتی ہے۔ مصنوعی ذہانت سے نئے شعبے بھی تخلیق کیے جانے چاہئیں تاکہ چھانٹیوں کی زد میں آنے والوں کو کمائی کے معقول ذرائع میسر رہیں۔
امریکہ، یورپ، چین، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ معاشروں اور ترقی پزیر معیشتوں کو مصنوعی ذہانت کے نتیجے میں رونما ہونے والی منفی تبدیلیوں اور مشکلات کے بارے میں مشاورت کے ذریعے ایسی حکمتِ عملی اپنانی چاہیے جس کے ذریعے لوگوں کے ذرائعِ معاش داؤ پر نہ لگیں۔ اب تک ہم نے دیکھا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے باعث چھانٹیاں ہو رہی ہیں۔ اِس کے بطن سے روزگار کے مواقع بھی نمودار ہونے چاہئیں۔