کیاہندوئوں کی اکثریت گاندھی کے قاتل گوڈسے کے خیالات سے متفق ہوجائے گی؟
ٹائم میگزین کے ایک شمارے میں موہن داس کرم چند گاندھی کے قاتل نتھو رام گاڈسے کے بھائی گوپال گاڈسے کا ایک دلچسپ انٹرویو شائع ہوا تھا جس میں اُس نے گاندھی کے بارے میں کئی اہم باتیں کہی ہیں۔ گوپال اُس پانچ رکنی منڈلی کا رکن تھا جس نے گاندھی کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا۔ نتھو رام اور اُس کے ایک ساتھی کو سزائے موت ہوگئی تھی لیکن گوپال کو اٹھارہ سال کی سزا ہوئی۔
گاندھی کی شخصیت میں کوئی بات ایسی تھی جس کی بنا پر انھیں ہندوؤں نے مہاتما یعنی عظیم روح کا خطاب دیا تھا۔ ہندوستان میں کبھی ”مہاتماؤں“کی کمی نہیں رہی، لیکن مہاتما کی اصطلاح مذہبی یا روحانی دائرے میں سرگرم افراد کے لیے مخصوص رہی ہے، اور گاندھی کا معاملہ یہ تھا کہ وہ یا تو بیرسٹر تھے یا ”سیاست دان“، اس کے باوجود انھیں ہندوؤں نے مہاتما کا خطاب دیا۔ لیکن ہندوؤں میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو گاندھی کے بارے میں شدید مخالفانہ رائے رکھتے تھے۔ نتھو رام گاڈسے انھی لوگوں میں سے تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ ”بھارت ماتا“ کے دو ٹکڑے کرنے کا جرم گاندھی سے ہوا ہے کیونکہ انھوں نے ہی تقسیم کو قبول کیا ہے۔ اگرچہ قائداعظم اور گاندھی کے مابین اچھی ”ورکنگ ریلیشن شپ“ رہی، لیکن قائداعظم نے گاندھی پر کم ہی اعتبار کیا۔ خاص طور پر خلافت تحریک سے گاندھی کی اچانک علیحدگی کے بعد مسلمان اُن کے سلسلے میں پہلے سے زیادہ محتاط ہوگئے۔ جہاں تک عام مسلمانوں کا تعلق ہے وہ گاندھی کو کٹّر ہندو سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں، لیکن نتھو رام گاڈسے، اُس کے ساتھی اور بہت سے ہندو، خاص طور پر آر ایس ایس سے وابستہ ہندو گاندھی کو ہندوؤں کا دشمن اور ہندو ازم سے خاصا دور سمجھتے رہے ہیں۔ بی جے پی کے دورِ حکومت میں گاندھی کے حوالے سے بھارت میں یہ صورتِ حال ہے کہ کچھ عرصہ قبل ممبئی میں ایک ایسا ڈراما اسٹیج ہوا جس میں نتھو رام گاڈسے کو بھارت کا اصل ہیرو اور گاندھی کو ولن ثابت کیا گیا تھا۔ یہ ڈراما کئی ہفتے اسٹیج ہوا۔ بی جے پی کی حکومت نے جہاں اُس کا بس چلا، گاندھی کو نصابی کتب سے بھی باہر کرنے کی کوشش کی۔ ان حالات میں ٹائم میگزین نے صدی کی عظیم ترین شخصیات کے حوالے سے جو پول کرایا اُس میں گاندھی، آئن اسٹائن کے بعد ایک سابق امریکی صدر کے ہمراہ دوسرے نمبر پر تھے۔ گاندھی کی شخصیت کے اور بھی رُخ ہیں۔ ہندوؤں کی عظیم اکثریت گاندھی کو سادہ روش سمجھتی ہے، لیکن خود بعض ہندو مؤرخین نے گاندھی کی سادگی کو ڈھکوسلہ قرار دے کر اس کا مذاق اُڑایا ہے۔ بعض کانگریسی ہندو رہنماؤں کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ کانگریس کو گاندھی کی سادگی خآصی مہنگی پڑتی تھی۔ ان معاملات کو دیکھا جائے تو گاندھی کی شخصیت مجموعہ اضداد نظر آتی ہے۔ بہرحال، آئیے دیکھتے ہیں کہ گوپال گاڈسے نے گاندھی کے بارے میں کیا کہا ہے۔ گوپال گاڈسے نے پہلی بات تو یہ کہی ہے کہ گاندھی ”منافق“ تھے، اور بقول گوپال کے، جب مسلمان ہندوؤں کا قتلِ عام کررہے تھے تو گاندھی خوش، اور سیکولرازم کا پرچم بلند کرنے میں مصروف تھے۔ گاندھی کی مقبولیت کے بارے میں گوپال گاڈسے نے کہا ہے کہ یہ مقبولیت ذرائع ابلاغ کی مرہونِ منت تھی، جنھیں گاندھی نے کامیابی سے اپنا امیج بنانے کے لیے استعمال کیا۔ گوپال کے بقول گاندھی کیسے چلتے ہیں، وہ کیسے مسکراتے اور ہاتھ لہراتے ہیں، یہ سب چھوٹی چھوٹی اور غیر اہم باتیں اہم بناکر پیش کی گئیں۔ تاہم اُس نے تسلیم کیا کہ گاندھی کی مقبولیت میں سادھوپن نے بھی اہم کردار ادا کیا جسے گاندھی نے اپنی سیاست کا جزو بنا لیا تھا۔ گوپال نے گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کا سب سے زیادہ مذاق اُڑایا ہے اور عدم تشدد کے اُصول کو بوگس قرار دیا ہے، اُس کہا ہے کہ سیاست میں اس اصول کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ گوپال نے اس بات کی تردید بھی ضروری سمجھی کہ مرتے دم گاندھی کے لبوں پر ”ہے رام“ کے الفاظ تھے۔ گوپال کے بقول یہ الفاظ اُس وقت کی حکومت نے گاندھی کے منہ میں ڈالے، ورنہ گاندھی کے سینے میں یکے بعد دیگرے اُترنے والی سات گولیوں نے گاندھی میں اتنی سکت ہی نہیں رہنے دی تھی کہ وہ کچھ بھی کہہ سکتے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ کو گاندھی کی کوئی بات پسند بھی ہے؟ گوپال نے دو باتیں کہیں: ایک یہ کہ گاندھی نے عوام کو بیدار کیا، اور دوسرے یہ کہ انھوں نے لوگوں کے دلوں سے جیل جانے کا خوف نکال دیا اور انھیں بتایا کہ چوری کرکے جیل جانا اور بات ہے اور سول نافرمانی کے تحت جیل جانا دوسری بات۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ صرف ذرائع ابلاغ سے گاندھی پیدا نہیں ہوسکتا، بلکہ ذرائع ابلاغ سے گاندھی کیا، الطاف حسین بھی پیدا نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کے باوجود گاندھی کی شخصیت میں ڈرامے اور تراشے ہوئے بت کا عنصر روزِ اوّل سے موجود تھا۔ اس کے بغیر گاندھی، گاندھی نہیں بن سکتے تھے۔
گوپال گاڈسے کے زیر بحث انٹرویو کے مندرجات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صاحب نے کہا ہے کہ گاندھی کٹّر ہندو تھے البتہ کبھی کبھار وہ ایک آدھ بات مسلمانوں کی حمایت میں بھی کہہ دیتے تھے۔ ممکن ہے حقیقت یہی ہو، لیکن گاندھی کی شخصیت کے اس رُخ کی اس سے بہتر تعبیر ممکن ہے اور وہ یہ کہ اسی طرح کی باتیں Performance کا حصہ ہوا کرتی ہیں۔ یعنی انسان بڑا ہوتا نہیں مگر وہ خود کو بڑا فرض کرلیتا ہے، اور پھر اپنے اس امیج کے تحت اور اس امیج کے لیے کوئی بڑی بات کرتا ہے۔ لیکن اس بات کی اُس کی ذات یا شخصیت میں کوئی جڑ نہیں ہوتی۔ یہ حقیقت صرف گاندھی سے مخصوص نہیں۔ اس کا اطلاق کم و بیش ہر انسان پر کیا جا سکتا ہے۔
دیکھا جائے تو گوپال گاڈسے کی یہ بات درست ہے کہ عدم تشدد کا اُصول کوئی اُصول ہی نہیں ہے، خاص طور پر سیاست میں۔ لیکن عدم تشدد کا فلسفہ گاندھی کا اُصول نہیں، ان کی ضرورت تھا۔ گاندھی ہندوؤں کی تاریخ اور ان کے حال سے بخوبی واقف تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ ہندو طاقت کے مقابل آکر بری طرح پٹ جائیں گے۔ گاندھی کے مقابلے پر ہندوؤں میں ایک فکری دھارا موجود تھا۔ یہ دھارا سبھاش چندربوس کی شخصیت سے عبارت تھا جو سمجھتے تھے کہ انگریزوں سے لڑ کر آزادی حاصل کی جاسکتی ہے۔ سبھاش چندربوس کو حمایت تو ملی مگر وہ جڑ نہ پکڑ سکے اور بالآخر بھارت سے فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔ گاندھی کو حمایت بھی ملی اور انھوں نے ہندو معاشرے میں جڑ بھی پکڑلی۔ اور ایسا بلاسبب نہیں ہوا، اس کے نفسیاتی اسباب موجود تھے۔
گاندھی اپنی زندگی میں بھی متنازعہ تھے اور ان کی شخصیت کے اسی پہلو نے ان کی جان لے لی۔ کسے خبر کہ کل کے ہندوستان میں ہندوؤں کی اکثریت گوپال گاڈسے کے خیالات سے متفق ہوجائے اور گاندھی کا کردار بھارت کی تاریخ میں ہیرو کے کردار سے ولن کے کردار میں تبدیل ہوجائے۔