طیب اردوان کا دورہ پاکستان

ترک صدر نے یقین دلایا کہ وہ اپنے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہے ہیں۔

اسلام آباد میں بڑی اور اہم پیش رفت ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے دورۂ اسلام آباد کی صورت میں ہوئی ہے۔ ترکیہ کے صدر اپنی اہلیہ کے ہمراہ دو روزہ سرکاری دورے پر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد پہنچے تھے جہاں ان کا استقبال صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف نے کیا۔ اِس دورے میں وزراء کے علاوہ کاروباری افراد بھی صدر اردوان کے ہمراہ تھے۔ ترکیہ کے صدر کا طیارہ پاکستان کی فضا میں داخل ہوا تو پاک فضائیہ کے فائٹر طیاروں نے ان کا فضائی استقبال کیا، جس کے بعد اُنہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، اُن کے اعزاز میں 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔ 2016ء کے بعد صدر رجب طیب اردوان نے 2020ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ترک صدر ملائشیا اور انڈونیشیا کا دورہ کرنے کے بعد پاکستان پہنچے۔ موجودہ حالات میں ان کے دورے کی اہمیت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ مشترکہ تعاون کو فروغ دینے کے لیے ان کا مقصد فلسطین کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے پر غور بھی ہے تاکہ فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہا ہے، یوں ترکیہ نے امریکہ اور بھارت کے مشترکہ اعلامیے کو کلی طور پر مسترد کردیا اور کہا کہ امریکہ مودی اعلامیہ پاکستان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے جو اپنا بہت کچھ گنوا کر بھی دنیا کو محفوظ بنانے میں لگا ہوا ہے۔ خود بھارت میں مودی کے دورۂ امریکہ کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور اسے ناکام قرار دیا جارہا ہے۔ پاکستان اور ترکیہ نے اتفاق کیا کہ حقائق کو نظرانداز کرکے کسی بھی قسم کا بیان اعلامیے کا حصہ نہیں ہونا چاہیے، کسی کو بھی خودمختار ملک پر بے بنیاد الزام لگانے کا حق نہیں ہے، یہ سفارتی اسلوب کے بھی خلاف ہے۔ صدر ٹرمپ امریکہ کے لیے ’’گریٹر امریکہ اگین‘‘ کا خواب دیکھ رہے ہیں، لیکن پاک ترکیہ مشترکہ اعلامیے نے ثابت کردیا ہے کہ بھارت اور امریکہ دونوں مل کر بھی اس خطے میں قوت نہیں پکڑ سکیں گے۔

صدر رجب طیب اردوان کے حالیہ دورے میں پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تجارت، دفاع، توانائی، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اطلاعات، فنانس اور مذہبی امور سمیت مختلف شعبہ جات میں تعاون کو مزید وسعت دینے کے لیے 24 معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ ترکیہ نے مسئلہ کشمیر پر بھی ہمیشہ پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی ہے۔ دونوں ممالک میں پانچ ارب ڈالر کے تجارتی حجم کے علاوہ دفاع اور دفاعی پیداوار کے شعبوں میں تعاون کے فروغ پر گفتگو دو طرفہ تعلقات میں ایک اہم اور نیا موڑ ہے۔ ترک صدر نے یقین دلایا کہ وہ اپنے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہے ہیں۔

ترک وزیر تجارت بھی صدر اردوان کے ساتھ اسلام آباد پہنچے تھے۔ وزیر تجارت جام کمال خان کے ساتھ اُن کے مذاکرات ہوئے جس میں دونوں ممالک نے تجارتی اور سرمایہ کاری تعلقات مزید مضبوط کرنے پر اتفاق کیا۔ ملاقات میں پاکستانی مصنوعات کی ترکیہ میں نمائش کے لیے ’’میڈ اِن پاکستان ایکسپو‘‘ کی تجویز دی گئی، جب کہ ترکیہ پاکستانی باسمتی چاول کی برآمدات بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کرے گا۔ پاکستان نے ترکیہ کو اپریل میں ہونے والی ہیلتھ کیئر اینڈ انڈسٹریل ایکسپو میں شرکت کی دعوت دی ہے۔

پاک ترکیہ اعلامیہ اگرچہ بہت اچھی پیش رفت ہے، تاہم اقوام عالم میں اب یہ بات اہمیت کی حامل سمجھی جارہی ہے کہ کسی ملک کی معیشت کتنی مضبوط ہے۔ یہاں پاکستان کا حال یہ ہے کہ ایک قسط مل جائے تو دوسری قسط کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ اب بھی یہی صورتِ حال ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم ایک بار پھر آرہی ہے، وہ 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کا پہلا جائزہ لے گی، اس کا دورہ مارچ میں متوقع ہے، اور IMF کی شرائط میں زراعت کے شعبے پر ٹیکس لگانا بھی شامل ہے جس کے لیے چاروں صوبوں نے زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے کے قوانین منظور کرلیے ہیں اور یہ قانون اب نافذ ہوچکا ہے۔ آئین کے مطابق آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا قومی اسمبلی کا اختیار ہے تاہم آئین میں زرعی شعبے کی آمدنی پر ٹیکس کے نفاذ کو صوبائی معاملہ قرار دیا گیا ہے۔

زرعی ٹیکس کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد زرعی آمدنی کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ پہلی بار 1996-97ء میں تمام صوبوں نے زرعی زمین اور آمدنی پر کسی نہ کسی شکل میں زرعی انکم ٹیکس نافذ کیا، لیکن زرعی ٹیکس سے آمدنیGDP کے ایک فیصد سے بھی کم رہی۔ زراعت کا ملکی GDP میں 20 فیصد اور ملازمتوں میں 38.5 فیصد حصہ ہے۔ صنعتی سیکٹر کا بھی ملکی GDP میں حصہ تقریباً 20فیصد ہے لیکن صنعتی سیکٹر سے ریونیو کی وصولی 70فیصد ہے جبکہ یہ سیکٹر 25 فیصد ملازمتیں فراہم کرتا ہے۔ سروس سیکٹر کا GDP میں حصہ 60فیصد اور ملازمتیں فراہم کرنے میں 37فیصد ہے، لیکن ٹیکس وصولی میں اس کا حصہ بمشکل 29فیصد ہے۔ پاکستان میں GDP میں مجموعی ٹیکس کی شرح 10فیصد ہے جس کی وجہ ہماری معیشت کا دستاویزی نہ ہونا ہے۔ دیگر ممالک میں GDP میں ٹیکس کی شرح 15 فیصد ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی کوشش کی مگر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ لیکن اب FBR نے ٹیکس قوانین میں تبدیلی کے لیے قومی اسمبلی کو سفارشات بھیجی ہیں جس میں نان فائلر کے لیے پراپرٹی خریدنا ممکن نہیں ہوگا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو کی ذیلی کمیٹی میں ترامیم پر اتفاق کیا گیا ہے۔ زرعی ماہرین کا خیال ہے کہ زرعی ٹیکس کے نفاذ سے حکومت کو 69.5ارب روپے وصول ہوسکیں گے، لیکن زمینداروں نے زرعی ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنی زمینیں اپنے خاندان کے افراد کے نام منتقل کردی ہیں تاکہ ٹیکس ریٹ کم ہو۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے زرعی انکم ٹیکس کے منظور شدہ قوانین کے مطابق 6 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر زرعی ٹیکس لاگو نہیں ہوگا تاہم 12 لاکھ روپے تک زرعی آمدنی پر 15 فیصد ٹیکس، 12 لاکھ سے 16 لاکھ روپے آمدنی پر فکس ٹیکس 90ہزار روپے اور زرعی ٹیکس 20 فیصد، 16 لاکھ سے 32لاکھ آمدنی پر فکس ٹیکس ایک لاکھ 70 ہزار روپے اور زرعی ٹیکس 30فیصد، 32 لاکھ سے 56 لاکھ آمدنی پر فکس ٹیکس 6 لاکھ 50 ہزار روپے اور زرعی ٹیکس 40فیصد، 56 لاکھ روپے سے زائد آمدنی پر فکس ٹیکس 16 لاکھ 10 ہزار روپے اور زرعی ٹیکس پر 45 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر زرعی ٹیکس کی شرح 15فیصد سے بڑھاکر 45 فیصد تو کی گئی ہے لیکن عمل درآمد ایک سوال ہے۔

عالمی بینک نے پاکستان میں 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔ 20 ارب ڈالر سے پاکستان میں صحت، تعلیم، ترقیِ نوجوانان اور دیگر سماجی شعبوں میں مختلف منصوبوں سے ترقی کا نیا باب کھلے گا، جب کہ آئی ایف سی کے تحت نجی شعبے میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔ عالمی بینک نے پاکستان کے لیے 10 سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (سی پی ایف) کی منظوری دی تھی جس کے تحت ملک کو 40 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

ایک جانب سرمایہ کاری کی اٹھان ہے، دوسری جانب حقائق بہت تلخ ہیں۔ صرف ایک شعبہ ہی دیگ کا دانہ چکھنے کے لیے کافی ہے۔ حکومت نے پیٹرولیم لیوی کی وصولی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، 6 ماہ میں عوام کی جیبوں سے 549 ارب روپے نکالے گئے ہیں، خدشہ ہے کہ مالی سال کے اختتام پر پیٹرولیم لیوی کا حجم 1100 ارب روپے سے تجاوز کرجائے گا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی بھی مالی سال کی پہلی ششماہی میں سب سے زیادہ لیوی کی وصولی کی گئی ہے۔ جولائی تا دسمبر 2024ء کے دوران پیٹرولیم لیوی کی مد میں وصولی 549 ارب 41کروڑ روپے سے زائد رہی۔ رواں مالی سال ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ لیوی کی وصولی کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ وصولی کا ہدف 1281ارب روپے مقرر کیا گیا ہے اور فی لیٹر پیٹرول پر60 روپے لیوی وصول کی جارہی ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں سالانہ بنیاد پر پیٹرولیم لیوی کی وصولی میں 76 ارب 64 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر وصول کی جانے والی پیٹرولیم لیوی سیلز اور دیگر ٹیکسوں کے علاوہ ہے۔

عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا امکان تھا، جو کہ نہیں ہوئی۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں 6 فیصد تک کمی ہوئی ہے، اس کے مطابق عوام کو ریلیف نہیں ملا۔ مختلف چارجز اور مارجن میں ردوبدل کے باعث عوام پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود مکمل ریلیف سے محروم رہے۔

حکومت کی انتظامی کمزوری کے باعث رئیل اسٹیٹ سیکٹر بھی پریشان کن صورت حال سے دوچار ہے۔ وجہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ہیں۔ ایف بی آر بھی رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو بحالی کے لیے مراعات دینے کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مراعاتی پیکیج کا فیصلہ مؤخر کردیا گیا ہے۔ تجاویز یہ تھیں کہ پہلی بار گھر خریدنے والوں کو 5 کروڑ تک ذریعہ آمدن ظاہر نہ کرنے کی سہولت دی جائے۔ پراپرٹی ٹرانزیکشن ٹیکس میں کمی اور 3 فیصد ایف ای ڈی ختم کرنے کی بھی تجویز تھی۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے باعث ہر قسم کی ٹیکس ایمنسٹی یا چھوٹ دینے پر پابندی ہے۔ ہاؤسنگ سیکٹر ٹاسک فورس نے وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات کی تھی اور انہیں جائداد کی خریداری پر ٹیکسوں میں کمی اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی سفارشات دی تھیں۔ ایف بی آر نے 3 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز کی حمایت کی تھی۔ ایف بی آر چاہتا ہے کہ پرانے گھروں پر جو ایک سے زائد مرتبہ فروخت ہوچکے ہیں، تین فیصد ڈیوٹی عائد کی جائے۔ وزیراعظم نے وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ کو مراعاتی پیکیج کو قابل عمل بنانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ امکان ہے کہ بزنس کمیونٹی اگلے ماہ آئی ایم ایف حکام سے ملاقات کرے گی۔