کراچی میں ڈمپر’’دہشت گردی‘‘ غفلت یا منظم کھیل؟

کیا اس کے پس پردہ محرکات بھی ہیں

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی مرکز، ایک بار پھر اپنے باسیوں کے لیے موت کا شہر بنتا جارہا ہے۔ یہ شہر اب دہشت گردی، حادثات، اور جرائم کے سبب ایک تاریک دور سے گزر رہا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں کراچی میں ہیوی ٹریفک کے حادثات میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر ڈمپرز اور واٹر ٹینکرز کی وجہ سے… جس سے شہریوں کی اموات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر میں ’’ڈمپر راج‘‘ قائم ہوچکا ہے، اور یہ حادثات محض اتفاق نہیں بلکہ ایک گہری سازش اور بڑے کھیل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ان حادثات کا فائدہ اٹھاکر ایک بار پھر دہشت گردی اور لسانیت کی سیاست کا آغاز ہورہا ہے؟ کیا یہ حالات شہر میں کچھ بڑا ہونے کی نشاندہی کررہے ہیں؟ کراچی کے شہریوں کی نظریں ایک ہوکر یہ سوال کررہی ہیں کہ آیا کچھ اور ہونے جارہا ہے؟

یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ایم کیو ایم اپنے بانی کے بعد سے اب تک کسی بڑی اُٹھان کی کوششوں میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس وقت ایم کیو ایم کی حالت یہ ہے کہ ’’کوئی تھوکتا بھی نہیں‘‘۔ اس لیے یہ تشویش پیدا ہوچکی ہے کہ اس طرح کے حالات پیدا کرنا کہیں اس مُردہ جماعت کو زندہ کرنے کی کوشش تو نہیں؟ گوکہ اب پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے اور ان تلوں میں وہ تیل بھی نہیں رہا ہے، لیکن اس سے ملتے جلتے واقعات ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ کراچی کی تاریخ میں دہشت گردی، جرائم اور فسادات کا ایک طویل سلسلہ رہا ہے، خصوصاً 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں، جب شہر سیاسی اور نسلی فسادات کا مرکز بن گیا۔ ایم کیو ایم کی دہشت گردی اور تصادم نے شہر کو خون میں نہلایا، اور اسی دوران ہتھوڑا بریگیڈ جیسے منظم گروہ بھی سامنے آئے جو لوگوں کو نشانہ بناتے تھے۔ پھر اس کے بعد دہشت گردی اور اسٹریٹ کرائمز نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

کراچی کی تاریخ میں ایک سانحہ جو شاید کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، آج اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ 15 اپریل1985ء کو پیش آنے والا بشریٰ زیدی حادثہ تھا۔ سرسید گرلز کالج ناظم آباد کی طالبہ بشریٰ زیدی کو ایک منی بس نے کچل دیا، جس کے نتیجے میں شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا۔ اس واقعے کے بعد شہر میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے، جن میں کئی بے گناہ لوگ مارے گئے، کاروبار تباہ ہوئے، اور شہر کئی ماہ تک عدم استحکام کا شکار رہا۔ اس واقعے کے پیچھے کیا سازش تھی، یہ آج تک سوالیہ نشان ہے۔ لیکن جو حقیقت ہے، وہ یہ کہ کراچی کے امن کو سبوتاژ کرنے کے لیے مخصوص عناصر ہمیشہ سرگرم رہے ہیں، اور ایسے واقعات سے ایم کیوایم جیسی لسانی تنظیموں کو فیول اور طاقت ملتی ہے۔ بی بی سی کے ایک مضمون میں اس واقعے کی تفصیلات میں لکھا گیا تھا:

’’اس المناک سانحے میں ایک نوجوان طالبہ کی موت صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں رہی، بلکہ یہ پورے شہر کے لیے ایک صدمہ بن گئی۔ جب اس کا خون بہا اور منی بس کے ڈرائیور کے چہرے پر وحشت کے آثار نمایاں ہوئے، تو یہ منظر کسی ایک شخص کی کہانی نہیں رہا، بلکہ پورے شہر کے دکھ کی علامت بن گیا۔ ہر گلی میں درد کی لہر دوڑ گئی، اور ہر محلے میں خوف نے اپنی جگہ بنا لی۔

احتجاج کا آغاز تو محض پبلک ٹرانسپورٹ کے خلاف غصے سے ہوا تھا، لیکن جلد ہی یہ غصہ مختلف شکلیں اختیار کرنے لگا۔ شہر کے پرانے رہائشیوں کے مطابق: جب بسوں، منی بسوں، رکشوں، اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں کو نشانہ بنایا جانے لگا، اور کئی گاڑیاں آگ کے حوالے کردی گئیں، تو ٹرانسپورٹ مالکان کی تنظیموں نے بھی اپنا ردِعمل دکھانا شروع کردیا۔

ٹرانسپورٹرز اور ان کی تنظیموں نے شہر کے مختلف علاقوں میں احتجاج کے خلاف آواز اٹھائی، اور کئی جگہوں پر عملی مزاحمت کے واقعات بھی سامنے آئے۔ چونکہ بسوں اور منی بسوں کے مالکان کی اکثریت پشتون یا غیر مقامی افراد پر مشتمل تھی، اس لیے وہ اپنی گاڑیوں، ڈرائیوروں اور عملے کے تحفظ کے لیے متحرک ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں مقامی اور غیر مقامی آبادی کے درمیان تناؤ بڑھنے لگا۔ اردو بولنے والی مقامی آبادی اور غیرمقامی، خاص طور پر پشتون برادری کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ یہ چھوٹے چھوٹے پُرتشدد واقعات آہستہ آہستہ بڑے اور منظم حملوں میں بدلنے لگے، اور شہر کی فضا میں خوف اور بداعتمادی کی لہر گہری ہوتی چلی گئی، اور یہ اتنی طویل ہوئی کہ اس نے شہر کو جلادیا اور آج تک یہ جل رہا ہے۔‘‘

تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ اُس دور میں جنرل ضیا نے شہری سندھ میں پیپلز پارٹی اور دینی جماعتوں کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کے لیے لسانی سیاست کو فروغ دیا۔ اُس وقت تک کراچی میں جماعت اسلامی ایک مقبول سیاسی قوت تھی، مگر خوف و ہراس کی فضا نے ایم کیو ایم کو مضبوط کرنے میں مدد دی، کیونکہ اس کے بعد ایسے واقعات رونما ہوئے جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ اور ڈر اور خوف کی وہ فضا ایم کیو ایم کی طاقت کو ردعمل میں بڑھاتی چلی گئی۔ آج ایک بار پھر تاریخ کو دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن تاحال یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔

ہم حالیہ واقعات کی تفصیلات میں جائیں تو 2025ء کے آغاز سے اب تک کراچی میں ہیوی ٹریفک کے حادثات میں 110 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ان حادثات کا شکار ہونے والوں میں زیادہ تر موٹر سائیکل سوار اور پیدل چلنے والے شہری شامل ہیں۔ تادم تحریر تازہ ترین واقعے میں جیل چورنگی پر ڈمپر کی ٹکر سے شہری جاں بحق ہوا اور مشتعل ہجوم نے 5 واٹر ٹینکرز کو آگ لگا دی۔

حکومت نے ہیوی ٹریفک کے حادثات کو روکنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ سندھ حکومت نے دن کے اوقات میں ڈمپرز کے داخلے پر پابندی عائد کی ہے، اور رات 11 بجے سے صبح 6 بجے تک ہیوی ٹریفک کو شہر میں داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔ کمشنر کراچی حسن نقوی نے ڈمپر ڈرائیوروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے، اور ڈمپرز کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم یہ اقدامات ابھی تک مؤثر ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔ اس سارے قصے میں آفاق احمد اچانک دلہا بن کر سامنے آئے ہیں، اور ظاہر ہے ایسے واقعات ان لوگوں کی سیاست کو تقویت دیتے ہیں۔ وہ آفاق احمد جو پہلے ہی مخصوص ایجنسیوں کی نگرانی میں ہیں اور بکتربند میں رہتے ہیں، عوام کو اشتعال دلانے پر گرفتار ہوچکے ہیں۔

ہیوی ٹریفک کے حادثات پر دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ کراچی کے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے، اور اگر صورتِ حال پر قابو نہ پایا گیا تو کراچی کے حالات 1985ء سے بھی بدتر ہوسکتے ہیں۔ اس سارے معاملے میں اہم بات یہ ہے کہ فاروق ستار نے کہا کہ اگر آفاق احمد کوئی بیان نہ دیتے تو بھی عوام پہلے ہی مشتعل تھے۔ انہوں نے سندھ حکومت پر الزام لگایا کہ وہ ڈمپر اور ٹینکر مافیا کو کھلی چھوٹ دے رہی ہے، اور شہریوں کی جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں۔

پھر ڈاکٹر فاروق ستار کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ فاروق ستار اور متحدہ کے دیگر رہنما یہ سمجھ لیں کہ الزامات لگانے سے ان کی سیاسی حیثیت میں اضافہ نہیں ہوگا۔ کراچی کے عوام طویل عرصے تک متحدہ کی پُرتشدد اور دھونس پر مبنی سیاست کے زیرِ اثر رہے ہیں۔ شرجیل میمن نے مزید کہا کہ متحدہ مختلف حادثات کو جواز بنا کر کراچی میں فسادات بھڑکانے کی کوشش کررہی ہے، مگر عوام بخوبی جانتے ہیں کہ اصل انتشار پھیلانے والے کون ہیں۔

اس وقت ان لسانی تنظیموں کے بیانات اور جذبات کو کراچی کی تاریخ کے پس منظر میں سامنے رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

جماعت اسلامی کراچی کی شناخت اوردردِ دل رکھنے والی ایک جماعت ہے اور شہر کے لوگوں نے گزشتہ انتخابات میں اس کی طرف رجوع بھی کیا تھا جس کو اسٹیبلشمنٹ نے فارم47کے ذریعے ناکام بنادیا، اور آج اس کے جتنے بلدیاتی نمائندے ہیں پیپلز پارٹی کی لاکھ رکاوٹوں کے باوجود اپنی بساط کے مطابق شہر کی خدمت کررہے ہیں اور لوگ مطمئن بھی ہیں۔ اسی جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر خان نے بھی ہیوی ٹریفک کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ انہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے، جس میں ہیوی ٹریفک کے اوقاتِ کار کی خلاف ورزی، شہریوں کی اموات، اور زرِتلافی کی ادائیگی کا معاملہ اٹھایا ہے۔ منعم ظفر خان نے کہا کہ شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری سندھ حکومت اور محکمہ پولیس کی ہے، لیکن وہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے ہیں۔

منعم ظفر خان نے کہا کہ جو پارٹیاں وفاق میں ایک دوسرے کی حلیف ہیں، وہ محض بیان بازی کے ذریعے عوام کو دھوکہ دے رہی ہیں۔ شہریوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں، مگر شہر میں جلاؤ گھیراؤ کی باتیں کی جارہی ہیں۔ کراچی 1986ء سے 2016-17ء تک ایسے ہی حالات سے گزرتا رہا، جب گاڑیاں جلتی رہیں اور بے شمار لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہوگئے۔ یہ شہر مزید کسی انتشار یا تباہی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہمارا واضح اور دوٹوک مؤقف ہے کہ شہریوں کے تحفظ کی بنیادی ذمے داری سندھ حکومت اور محکمہ پولیس کی ہے، جس میں موٹر وہیکل لا، روڈ سیفٹی ایکٹ، ٹریفک قوانین پر عمل درآمد اور ہیوی ٹریفک کی غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنا شامل ہے، لیکن بدقسمتی سے حکومت اپنی یہ ذمے داری پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔

جماعت اسلامی کراچی کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ جدوجہد کررہی ہے۔ اس نے اپنی سفارشات حکومت کے سامنے پیش کی ہیں اور عدالت میں پٹیشن بھی دائر کی ہے۔

کراچی کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ شہر ایک بار پھر فسادات کے دہانے پر کھڑا ہے؟ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں کراچی میں ہونے والے فسادات کی یاد تازہ ہوچکی ہے۔ اُس وقت بھی سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم، نسلی فسادات اور دہشت گردی نے شہر کو تباہ کردیا تھا۔ اب ہیوی ٹریفک کے حادثات اور اُن کے پسِ پردہ سازشوں کے شبہات نے شہریوں کو ماضی کی تاریک یادوں کی طرف لوٹا دیا ہے۔

اس وقت کراچی کے لوگ شدید بے یقینی اور تکلیف کا شکار ہیں۔ روزمرہ زندگی عدم تحفظ، ٹوٹ پھوٹ کا شکار انفرااسٹرکچر، پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ کے بدترین مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عام شہری کی کمر توڑ دی ہے، جبکہ حکمرانوں کی بے حسی نے مایوسی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ ٹریفک حادثات میں معصوم جانیں ضائع ہو رہی ہیں، سڑکوں پر موت کے سوداگر دندناتے پھر رہے ہیں، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں، جبکہ کراچی کے شہری ہر روز ایک نئے بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔

اس ضمن میں آخر میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے اور طاقت ور طبقے کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کراچی کے ساتھ پرانا کھیل نہ کھیلا جائے۔ اگر حکومت اور انتظامیہ نے فوری طور پر ان حادثات کا نوٹس نہ لیا اور مؤثر اقدامات نہ کیے تو کراچی کے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ شہریوں میں بڑھتا ہوا غم و غصہ کسی بڑے فساد کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ہیوی ٹریفک کے حادثات کو روکنے کے لیے ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرانا، ڈرائیوروں کی تربیت، اور شہر میں مؤثر ٹریفک مینجمنٹ سسٹم قائم کرنا ضروری ہے تاکہ شہریوں کو سکون اور ٹینکر و ڈمپر راج سے نجات مل سکے۔ کچھ تو رحم کرو اس شہر پر ظالمو! تم جس جس نام سے بھی ہو…سب کچھ تو چھین لیا ہے۔

یہ شہر اپنی آنکھوں میں بے شمار خواب اور دل میں درد رکھے ہوئے ہے۔ آج ٹریفک کے شور میں بھی اس کی گلیوں میں ایک عجیب سی خاموشی ہے، جیسے اس نے اپنی آواز کو کھو دیا ہو۔ مگر پھر بھی اس شہر کی مٹی میں وہ جاذبیت ہے جو اس کے باشندوں کے دل میں امید کا دیا جلائے رکھتی ہے۔ یہاں کے لوگ روز نئے دکھوں اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں، پھر بھی اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود جینے کی کوشش میں ہیں۔ کراچی کو بھی جینے کا حق ہے، اور اس حق کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس کی حالت بدلنے کی کوشش کرنا ہوگی، تاکہ وہ دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوسکے، اور اس کی آواز دوبارہ بلند ہوسکے۔