تاریخ کو شاید یہ منظر بھی دیکھنا تھا کہ عرب ممالک جو 40 سال سے پے در پے اسرائیل سے جنگیں کرتے ہوئے آرہے تھے وہ اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے درپے ہیں، لیکن اب مزاحمت خود مغرب کی جانب سے ہے
برطانیہ میں یکے بعد دیگرے اسرائیل کی فلسطینیوں کی نسل کُشی میں برطانوی حکومت کے ملوث ہونے کے الزامات کی بازگشت اب میڈیا پر سنائی دے رہی ہے۔ یہ صورتِ حال اس وجہ سے مزید دھماکہ خیز ہے کہ ایک جانب امریکی و اسرائیلی سربراہانِ مملکت کی ملاقات میں غزہ پر مزید آگ برسانے، فلسطینیوں کی غزہ سے بے دخلی اور حماس کے مکمل خاتمے کی باتیں کی جارہی ہیں، تو دوسری جانب برطانیہ جوکہ مغرب میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی ہے اور ہر جنگ میں امریکا کے شانہ بشانہ کھڑا رہا، وہاں صورتِ حال اِس وقت امریکا و اسرائیل کے شدید خلاف ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک جانب اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ سے ملاقات کرکے اُن کو فلسطینیوں کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھولنے کی درخواست، بلکہ حکم دے رہے ہیں تو دوسری جانب وہ مصر سے بھی فلسطینیوں کو پناہ دینے، غزہ کو خالی کروانے، اور مغربی کنارے کے اسرائیل میں انضمام کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تاریخ کو شاید یہ منظر بھی دیکھنا تھا کہ عرب ممالک جو 40 سال سے پے در پے اسرائیل سے جنگیں کرتے ہوئے آرہے تھے وہ اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے درپے ہیں، لیکن اب مزاحمت خود مغرب کی جانب سے ہے، اور یہ مزاحمت اِس وقت اتنی شدید ہے کہ اس نے اسرائیل کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ آئرلینڈ اور جنوبی افریقہ کے بعد اب برطانیہ میں یہ لہر ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کررہی ہے۔ برطانیہ کے سابق سفارت کار مارک اسمتھ جوکہ اہم ترین مقامات پر تعینات رہے، برطانوی حکومت کی اسرائیل نواز پالیسیوں کے باعث مستعفی ہوچکے ہیں اور اب ان تمام اقدامات کا پردہ چاک کررہے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ کو اسرائیل کے ساتھ جنگی، و نسل کُشی کے جرائم کا مجرم قرار دیا ہے۔ اپنے ایک مضمون میں جوکہ برطانوی اخبار ’’دی گارجین‘‘ میں 9 فروری 2025ء کو شائع ہوا، انہوں نے لکھا ہے کہ برطانوی حکومت نے جان بوجھ کر ایسے حقائق کو نہ صرف چھپایا جو کہ اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی سے متعلق تھے، بلکہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل کو ہتھیار فراہم کیے کہ جن سے فلسطین میں قتل عام کیا گیا۔ مارک اسمتھ ایک سینئر سفارت کار تھے جوکہ Foreign Common wealth and Development Office میں بطور پالیسی ایڈوائزر اور مشرق وسطیٰ ڈائریکوریٹ میں اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اگست 2024ء میں، میں نے برطانوی حکومت کی جانب سے غزہ پر بمباری کے دوران اسرائیل کو اسلحے کی فروخت بند کرنے سے انکار پر استعفیٰ دے دیا۔ اس فیصلے سے قبل میں نے ایک سال سے زائد عرصے تک اندرونی طور پر لابنگ کرنے اور آواز بلند کرنے کی کوششیں کیں۔ میرے استعفے نے سرخیوں میں جگہ بنائی، اور چند ہفتوں بعد نئی لیبر حکومت نے بالآخر اسرائیل کو اسلحے کی فروخت معطل کرنے کا اعلان کیا۔ اگرچہ یہ ایک خوش آئند قدم تھا، لیکن بہت دیر سے اٹھایا گیا۔ اسرائیل نے غزہ میں مظالم جاری رکھے ہیں، جبکہ برطانیہ خاموش تماشائی بنا کھڑا ہے اور کارروائی سے گریزاں ہے۔‘‘
انہوں نے واشگاف الفاظ میں لکھا ہے کہ برطانوی حکومت اور وزراء مجھ سمیت دیگر اہلکاروں پر دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ ان حقائق پر پردہ ڈال دیں جن سے کسی بھی قسم کی نسل کُشی میں براہِ راست یا بالواسطہ ملوث ہونے کا تاثر یا ثبوت فراہم ہوسکے۔ انہوں نے لکھا کہ کیونکہ وہ اس کام کے ذمہ دار تھے کہ اسلحے کی سپلائی جن ممالک کو کی جارہی ہے وہ اس کا جائزہ لیں کہ وہ کہیں انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے لیے تو استعمال نہیں ہورہے؟ انہوں نے لکھا:
’’برطانیہ کا قانونی فریم ورک واضح ہے: اگر اس بات کا ’’واضح خطرہ‘‘ ہو کہ ہتھیار بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں، تو اسلحے کی فروخت روک دی جانی چاہیے۔ سرکاری ملازمین غیر جانب داری کے سخت ضابطے کے پابند ہوتے ہیں، جس کے تحت ہمیں غیر جانب دارانہ اور شواہد پر مبنی مشورہ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اس مشورے میں سیاسی مقاصد کے لیے تبدیلی یا ہیرا پھیری کرنا نہ صرف غیر اخلاقی، بلکہ غیر قانونی بھی ہے۔
تاہم اپنے دورِ ملازمت میں مَیں نے دیکھا کہ وزراء کے دباؤ کے تحت سینئر افسران قانونی تجزیے کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ میری رپورٹس بار بار مجھے واپس بھیجی جاتیں، اس ہدایت کے ساتھ کہ نتائج کو ’’متوازن‘‘ کیا جائے، یعنی شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کے شواہد کو کم اہم ظاہر کیا جائے اور سفارتی کوششوں کو زیادہ نمایاں کیا جائے، چاہے حقائق کچھ بھی ہوں۔ مجھے اکثر زبانی ہدایات کے لیے طلب کیا جاتا تھا۔ یہ ایک سوچا سمجھا حربہ تھا تاکہ کوئی تحریری ریکارڈ نہ بنے، جو بعد میں معلومات کی آزادی کی درخواستوں یا قانونی جانچ پڑتال کا شکار ہوسکتا تھا۔‘‘
مارک اسمتھ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اسلحے کی غیر قانونی سپلائی کی سہولت صرف اسرائیل کے لیے نہیں تھی بلکہ سعودی عرب کے لیے بھی تھی، کہ جہاں سعودی عرب کو فراہم کردہ اسلحہ یمن میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنا، اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ برطانوی حکومت اس بات سے مکمل آگاہ تھی کہ یمن میں انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے، اس کے باوجود کہ اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس میں جس میں قانونی مشیر بھی شامل تھی، اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ برطانیہ اسلحے کی فروخت کی حد سے تجاوز کرچکا ہے لہٰذا اب مزید اسلحے کی سپلائی کو روکا جائے۔ لیکن حکومت ِ برطانیہ کی تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ اسلحے کی سپلائی کو جاری رکھتے ہوئے اس کا قانونی جواز تلاش کیا جائے۔
برطانیہ میں متحرک سول سوسائٹی کی جانب سے دائر درخواست پر عدالتی حکم کے بعد سعودی عرب کو تو اسلحے کی فروخت روک دی گئی لیکن اسلحے کی سپلائی کو دوبارہ یقینی بنانے کے لیے حکومت نے قانون میں تبدیلیاں کردیں جس کے بعد یہ سپلائی دوبارہ جاری کردی گئی۔ بعد ازاں اس قانون کو جواز بناتے ہوئے اسرائیل کو بھی اسلحے کی لامحدود سپلائی جاری رہی جس سے معصوم فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مارک استمھ نے مزید انکشاف کیا کہ جب میں نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی کے قانونی جواز پر سوالات اٹھائے تو مجھے خاموش کروانے کے حربے استعمال کیے گئے، میری ای میلز کا جواب نہیں دیا گیا اور مجھے متنبہ کیا گیا کہ آپ اپنی اس تشویش کا اظہار تحریری طور پر نہ کریں اور اپنی اس خط کتابت کا ریکارڈ ضائع کردیں۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری مؤقف پر یقین کرنے کو کہا جاتا رہا۔ اس کے باوجود میں نے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی سے بھی رابطہ کیا لیکن مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
مارک اسمتھ نے اس مضمون میں اپیل کی ہے کہ دیگر سفارتی اہلکاروں کو بھی حقائق چھپانے کے بجائے انہیں بیان کرنا چاہیے تاکہ فلسطینیوں کے مجرموں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے۔
ادھر دوسری جانب برطانوی پارلیمان میں صورت حال زیادہ دھماکہ خیز ہے کہ جہاں وزیراعظم برطانیہ سر کیئر اسٹارمر کو پارلیمان میں فلسطینیوں کی مظلومیت کا اعتراف کرنا پڑا، گوکہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اسرائیلی مغویوں کو بھی مظلوم قرار دیا لیکن گزشتہ 16 ماہ میں برطانوی حکومت کی جانب سے مؤقف میں یہ ایک واضح تبدیلی ہے، اس کے ساتھ ہی اب پارلیمان میں لیبر پارٹی کی نوجوان رکن پارلیمان زہرہ سلطانہ کا بل بھی زیر غور ہے جس کے ڈرافٹ میں واضح طور پر تحریر ہے کہ
’’بل، جس کا مقصد غیر ملکی ریاستوں کو برآمد کیے گئے ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کرنا ہے تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ آیا انہیں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی میں استعمال کیا گیا ہے، ایسے تمام ہتھیاروں کی برآمد کو فوری طور پر معطل کرنا جہاں یہ ثابت نہ کیا جاسکے کہ انہیں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی میں استعمال نہیں کیا جائے گا، اور اس سے متعلقہ دیگر امور کے لیے۔‘‘
اور اس بل کے ڈرافٹ کا آغاز ہی دھماکے دار ہے جس میں برآمد کردہ ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن کا قیام ہے۔ یہ بل کہتا ہے :
End use of arms inquiry
(1) The Secretary of State must, no later than 60 days after the day on which this Act
is passed, commission an independent inquiry ,(“the inquiry”) into the end use of
arms sold to foreign states, with a view to determining whether they have been used
in violation of international law.
’’ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات
(1) سیکرٹری آف اسٹیٹ (وزیر خارجہ) اس قانون کے منظور ہونے کے دن سے 60 دن کے اندر ایک آزاد تحقیقات کا آغاز کریں گے، تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ غیر ملکی ریاستوں کو فروخت کیے گئے ہتھیاروں کا اختتامی استعمال بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی میں ہوا یا نہیں۔‘‘
اگر یہ بل پارلیمان سے اسی صورت میں منظور ہوتا ہے تو یقیناً یہ نہ صرف اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے لیے بھیانک نتائج لے کر آئے گا بلکہ خود سابق حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے لیے بھی مشکلات کا باعث بنے گا۔ ماضی میں بھی سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو عراق کے معاملے پر جھوٹ کی بنیاد پر حملہ کرنے اور امریکا کا ساتھ دینے پر انکوائری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال دن بدن ابتر ہورہی ہے، شاہ عبداللہ سے ٹرمپ کی ملاقات کے بعد اب امریکا کی کوشش یہ ہے کہ سعودی عرب کے ذریعے فلسطین کا ایسا حل تلاش کیا جائے جس کی بنیاد پر فلسطین نام کی ریاست کا نام و نشان ہی مٹا دیا جائے۔ تاہم مغرب میں فلسطین کے حق میں حیرت انگیز طور پر رائے عامہ ہموار ہوئی ہے، یورپی پارلیمان سے لے کر برطانیہ کے ایوانِ اقتدار تک اب سب کم از کم اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیل ظالم اور فلسطینی مظلوم ہیں اور ان کو اپنی زمین پر آزادانہ طور پر رہنے کے حق سے کوئی محروم نہیں کرسکتا۔ بین الاقوامی جنگی قوانین و انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کو جس طرح دنیا نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، اس کے بعد کوئی ایک فرد بھی فلسطینیوں کی مزاحمت کو غلط قرار نہیں دے سکتا۔
حماس و اسرائیل کے اس تنازعے نے جہاں اسرائیل کے چہرے پر پڑا نقاب الٹ دیا، وہیں اب مغرب میں خود اس بات کا مشاہدہ کیا جارہا ہے کہ کیا انسانی حقوق کا مطلب صرف ایک خاص رنگ کے حقوق ہیں؟ کیا کسی اور کو آزادانہ طور پر زندگی گزارنے کا حق حاصل نہیں؟
حماس و اسرائیل کی جنگ بندی اب 42 روز سے قبل ہی ختم ہوتی نظر آرہی ہے، لیکن اگر یہ جنگ بندی 42 دن چلی بھی، تو مکمل جنگ بندی کا امکان اب نظر نہیں آرہا۔ فلسطین کے حق میں مغرب کی آوازیں فلسطین کی جدوجہد کا نیا عنوان ہے، اور شاید یہیں سے فلسطینیوں کی زندگی کے لیے کوئی امکان پیدا ہو۔