قومی سیاست کی بند گلی

آج کل ملکی سیاست میں سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے آرمی چیف، چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو لکھے جانے والے خطوط کا بہت چرچا ہے۔ اسلام آباد کے سیاسی پنڈت ان خطوط پر تبصرے اور تجزیے کررہے ہیں کہ عمران خان نے درست کیا یا غلط؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ عمران خان کو میڈیا میں رہنا آتا ہے، اور وہ جیل میں بیٹھ کر بھی میڈیا پر غالب ہیں۔ عمران خان کے یہ خطوط ’’کھلا خط‘‘ کی صورت میں ہیں، یعنی یہ خطوط اگرچہ آرمی چیف کو لکھے گئے ہیں لیکن انہیں پاکستان اور پاکستان سے باہر ہر کوئی پڑھ سکتا ہے۔ ان خطوط میں عمران خان نے آرمی چیف کو مخاطب کرکے ایک نیا قومی سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ عمران خان کو اندازہ تھا کہ ان خطوط کا کوئی جواب آرمی چیف نہیں دیں گے، لیکن انہوں نے پوری دنیا میں یہ پیغام دیا ہے کہ اِس وقت اگر ان کی پارٹی پر برا وقت آیا ہوا ہے، یا ان کی پارٹی کو دیوار سے لگایا ہوا ہے تو اس کی کیا وجوہات ہیں، اور سیاست میں فوج کی مداخلت سے سیاسی اور جمہوری عمل کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان خطوط میں عمران خان نے اپنے آپ کو فوج کے ساتھ جوڑا ہے اور فوج کی قربانیوں کا ذکر کیا ہے، اور خاص طور پر تسلیم کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی قربانیوں کو سنہری حروف میں لکھا جانا چاہیے۔ ان کے بقول فوج اور عوام میں کسی قسم کی کوئی خلیج نہیں ہونی چاہیے، اور اگر خلیج پیدا ہوگی تو یہ بات ملک کے مفاد میں نہیں ہوگی۔ لیکن ساتھ ہی عمران خان نے فوج میں موجود چند لوگوں کے کردار پر تنقید کی ہے جو فوج اور عوام کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں، اور یقینی طور پر اُن کا اشارہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے۔ عمران خان نے فوج کے سیاسی کردار پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ فوج اور عوام میں جو دوریاں پیدا ہوتی ہیں اس کی بنیادی وجہ فوج کا سیاسی کردار ہے۔ اگرچہ آرمی چیف نے تردید کی ہے کہ اُن کو اس طرح کا کوئی خط نہیں ملا، اور ان کے بقول اگر کوئی خط ملا بھی تو وہ اسے پڑھیں گے نہیں بلکہ وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔ ان کے بقول اس طرح کے خطوط توجہ حاصل کرنے کے لیے لکھے جاتے ہیں۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آرمی چیف کو تو براہِ راست کوئی جواب نہیں دینا تھا، اور یہ اُن کے منصب کے بھی خلاف تھا۔ البتہ یہ بات ممکن نہیں کہ آرمی چیف نے خط نہیں پڑھا، کیونکہ جس طرح سے خط کی تشہیر ہوئی ہے اور جس انداز سے دنیا بھر سمیت پاکستان میں یہ خط رسمی اور غیر رسمی میڈیا میں زیر بحث آیا ہے، یقینی طور پر آرمی چیف کی بھی نظر سے گزرا ہوا، اور انہوں نے اس خط کے مندرجات کو پڑھا ہوگا۔ ویسے آرمی چیف کے بیان پر سب سے زیادہ خوشی شہبازشریف کی حکومت کو ہے، اور وہ سمجھتی ہے کہ آرمی چیف کے بیان نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ابھی اسٹیبلشمنٹ کو ہماری ضرورت ہے۔ ویسے بھی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان میں جتنی دوریاں ہوں گی اس کا سیاسی فائدہ موجودہ حکمران طبقے کو ہی ہوگا۔ اس بنیاد پر حکمران طبقے کی حکمتِ عملی یہی ہے کہ کسی بھی طریقے سے اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان جو فاصلے ہیں وہ کم نہ ہوں، بلکہ ان فاصلوں کو بڑھانا ہی ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ نظر آتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان نے یہ خطوط کیوں لکھے ہیں؟

(1) ان خطوط سے عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں پاکستان اور پاکستان سے باہر اپنا ایک سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کی ہے، اور وہ جانتے ہیں کہ اس بنیاد پر وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک بڑی مزاحمت کرسکتے ہیں۔

(2) انہوں نے فوج کو پیغام دیا ہے کہ وہ آج بھی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں اور فوج کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں، البتہ جو سیاست میں مداخلت کرتے ہیں وہ ان فوجیوں کے خلاف ہیں۔

(3) ان کو لگتا ہے کہ اگلے الیکشن میں ان کو ایک بڑی مزاحمتی سیاست کی ضرورت ہے، اور یہ مزاحمت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوگی۔ اس لیے ابھی سے وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

(4) ان کو احساس ہوگیا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی مفاہمت ممکن نہیں، اور مفاہمت کے لیے جو شرائط پیش کی جارہی ہیں، اُن شرائط پر مفاہمت ان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔

ان خطوط میں عمران خان نے جس سخت انداز میں فوج کے سیاسی کردار، اور اُس کی سیاست میں مداخلت پر تنقید کی ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے نالاں بھی ہیں اور اس کی سیاست میں مداخلت کا خاتمہ بھی چاہتے ہیں۔ اگرچہ عمران خان کے کچھ مخالفین اُن پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بھی حقیقی جمہوریت سے زیادہ فوج سے ہی معاملات طے کرکے اقتدار میں واپس آنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن عمران خان کے حالیہ خطوط اس مؤقف کی نفی کرتے ہیں۔ اگرایسا ہوتا تو وہ مزاحمت کا یہ انداز اختیار نہ کرتے۔

عمومی طور پر سیاست دان اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کے لیے براہِ راست میڈیا سے گفتگو کرلیا کرتے ہیں، اور خط لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن عمران خان نے ایک نہیں تین خطوط لکھ کر ایک نئی روایت ڈالی ہے جو یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کو بھی قابلِ قبول نہیں ہوگی۔ اس لیے عمران خان یا پی ٹی آئی کی اگر پس پردہ کوئی بات چیت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چل رہی تھی تو ان خطوط کے بعد اس کا مستقبل بھی بہت زیادہ مخدوش نظر آتا ہے۔ جو لوگ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کا کھیل کھیل رہے تھے اُن کے بقول بھی پسِ پردہ چلنے والی یہ بات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی، اور اسی بنیاد پر عمران خان کی مایوسی نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان نے یہ خطوط آرمی چیف کو کیوں لکھے؟ اورکیوں انہوں نے وزیراعظم کو مخاطب نہیں کیا؟ بات بڑی سادہ سی ہے، عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ طاقت کا اصل مرکز کہاں ہے، کس سے بات چیت کرنی ہے، اور کون معاملات کو حل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اسی لیے عمران خان نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کا اشارہ دیا ہے، اور اب جب انہوں نے آرمی چیف کو خط لکھا ہے تو بھی اسٹیبلشمنٹ کو ہی مخاطب کیا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان نے آرمی چیف کو خط لکھ کر فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا حق دیا ہے۔ بات یہ ہے کہ فوج تو پہلے ہی سیاست میں موجود ہے، اور یہ جو موجودہ سیاسی حکومتی بندوبست ہے اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہی اصل طاقت ہے، اور اس طاقت کے بغیر اس حکومت کا کوئی سیاسی وجود نہیں۔ البتہ اسٹیبلشمنٹ بضد ہے کہ سیاست میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے اور موجودہ سیاست میں ہم نے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ لیکن اسے ماننے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سیاست اس وقت ایک عجیب و غریب مخمصے کا شکار ہے، اور اس سیاسی تضاد نے قومی سیاست کو مختلف نوعیت کے مسائل سے دوچار کیا ہوا ہے۔

ایک بات تو سمجھنی ہوگی کہ عمران خان کی خطوط کی سیاست نے اسٹیبلشمنٹ کو دفاعی پوزیشن پہ لاکھڑا کیا ہے۔ کیونکہ ملک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں جس طرح سے ان خطوط کی تشہیر اور ان کے مندرجات پر بحث ہورہی ہے اس سے اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ کی کیفیت دیکھی جا سکتی ہے۔ دوسرے، ایسے لگتا ہے کہ عمران خان نے ایک قومی بیانیہ بھی بنانا شروع کردیا ہے جس میں وہ قومی سیاست کے داخلی مسائل کو اسٹیبلشمنٹ کے مسائل کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ اسی بنیاد پر عید کے بعد ایک بڑی سیاسی تحریک شروع کرنا چاہتے ہیں،جس میں دیگر سیاسی جماعتوں بالخصوص جے یو آئی اور جماعت اسلامی کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں۔اگرچہ پی ٹی آئی کے اندر سے بھی بہت سے لوگوں نے عمران خان کے خطوط کا خیر مقدم نہیں کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے جو بات چیت چل رہی تھی ان خطوط کی وجہ سے وہ بھی متاثر ہوگی اور مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن عمران خان کی حکمت عملی بظاہر یہی نظر آتی ہے کہ وہ سمجھوتے کی سیاست کے لیے تیار نہیں ہیں اور ایک بڑی سیاسی جنگ لڑنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس جنگ میں اُن کی پارٹی کے بیشتر لوگ بظاہر اُن کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے، اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت ان کی پارٹی کا تنظیمی بحران بہت سے سنگین معاملات کی نشاندہی کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس بحران میں پی ٹی آئی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت یا اسٹیبلشمنٹ مخالف تحریک چلاسکے گی؟ ایک مسئلہ اس تحریک کی قیادت کا ہے، اور قیادت پر مولانا فضل الرحمٰن کی نظریں ہیں، وہ چاہتے ہیں اس اتحاد کی قیادت ان کو دی جائے۔ اسی طرح مولانا کی اس اتحاد میں شمولیت پر بھی پی ٹی آئی میں تقسیم ہے۔ ایک گروپ مولانا کا حامی اور دوسرا مخالف ہے۔ اصل مسئلہ پنجاب کا ہے جہاں پی ٹی آئی کو شدید بحران کا سامنا ہے، اور کوئی تحریک یہاں جماعت اسلامی کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی صورتِ حال کراچی کی بھی ہے۔ پی ٹی آئی کا ایک مسئلہ اتحادی سیاست کی ناتجربہ کاری کا بھی ہے، اور اس نے ہمیشہ سب کو ساتھ ملا کر چلنے کے بجائے سولو فلائٹ کو ترجیح دی ہے جس کی وجہ سے دیگر سیاسی جماعتیں اس سے فاصلے پر رہتی ہیں۔