ہائے یہ چڑی مار

کراچی کی مصروف ترین سڑکوں پر آپ ایسے لوگوں کو دن کے کسی بھی وقت بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ جن کے کندھوں پر دھرے بانس کے دونوں سروں پر دس، پندرہ پنجرے لٹک رہے ہوتے ہیں اور ان میں بھوک پیاس سے نڈھال پرندے سسک رہے ہوتے ہیں۔ یقیناً کسی بھی ماحول دوست شخص کے لیے یہ منظر شدید صدمے سے کم نہیں ہوسکتا۔

تلور، باز اور چکور سمیت کئی تو وہ اہم ترین پرندے ہیں کہ جن کی بقا اور تجارت، دونوں کو سنجیدہ لیا جاتا ہے۔ ان کے لیے قوانین بھی موجود ہیں۔ لیکن بلبل، ہدہد، طوطا، مینا، چڑیا اور اسی قسم کے دوسرے پرندوں کو پکڑنے کے لیے متعلقہ محکمہ جنگلی حیات کا پرمٹ ہی کافی رہتا ہے، تاہم پرمٹ کے بغیر بھی چڑی مار کا کام چلتا رہتا ہے۔ چڑی مار پرندوں کو پکڑتے وقت یہ بات بھی مدنظر نہیں رکھتے کہ کون سا پرندہ ایسا پکڑا گیا ہے کہ جسے قانونی تحفظ حاصل ہے، یا کون سا پرندہ ایسا ہے جسے کسان دوست پرندہ کہا جاسکتا ہے۔ وہ بلاتفریقِ جنس و نسل پرندے پکڑتے ہیں، جو اس معصوم حیات کو کبھی نہ کبھی معدوم کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

پرندوں کو کرنسی نوٹ سمجھ کر پکڑنے اور پھر انہیں فروخت کرنے کے اس سلسلے کی تین کڑیاں ہیں۔ پہلا تو خود چڑی مار، دوسرا درمیان کا آدمی، اور تیسرا انہیں فروخت کرنے والا تاجر۔ تاہم بنیادی کردار چڑی مار کا ہی ہے۔

عبداللہ ہارون روڈ، کراچی کی مصروف شاہراہ ہے، اور اس پر گھوم پھر کر پرندے فروخت کرنے والوں میں مٹھا اور عبدالکریم بھی شامل ہیں۔ دونوں ٹھٹہ کے قریب ایک گائوں میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’گائوں میں ذریعہ معاش نہیں تھا اور گھر کا چولہا جلنا ضروری تھا، سو انہوں نے سوچا کہ پرندے پکڑکر فروخت کرنا شروع کردیں۔ گائوں کے کھیت کھلیانوں میں عام قسم کے پرندوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور یہ عمل بھی آسان ہے، لہٰذا کام شروع کردیا۔ جال کی مدد سے دن بھر میں سو ڈیڑھ سو پرندے بآسانی پکڑ لیتے ہیں اور ان کی فروخت سے اتنی آمدن ہوجاتی ہے کہ گھر آنے جانے کا کرایہ نکال دینے کے باوجود گھر کا چولہا جلتا رہے۔ دو دن پرندے پکڑتے ہیں اور چار دن میں انہیں فروخت کر ڈالتے ہیں‘‘۔

ایک اور چڑی مار جمال دین، کراچی کے قریب واقع گھارو شہر کے مضافات کے رہنے والے ہیں، لیکن یہ پھیرے لگا کر پرندے فروخت نہیں کرتے بلکہ آڑھتیوں کو بیچتے ہیں۔ یوں پھیری والوں کی نسبت زیادہ رقم کما لیتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ آڑھتی انہیں تاجروں کو فروخت کرکے اور زیادہ منافع حاصل کرلیتا ہے، جنہیں وہ خلیجی ممالک اور ملک کے دوسرے حصوں میں فروخت کر ڈالتے ہیں، اور خریداروں کا بڑا مصرف ہی صرف حصولِ ثواب کی خاطر انہیں آزاد کرڈالنا یا پھر گھروں میں پالنا ہوتا ہے۔

ایک چڑی مار کے مطابق بعض لوگ ثواب کی خاطر ان پرندوں کو خرید کر آزاد کردیتے ہیں۔ محمد علی پیشے کے لحاظ سے بڑھئی ہیں۔ میرے سامنے انہوں نے جب ایک چڑی مار سے بھائو تائو کے بعد ستّر چڑیائیں آٹھ سو روپے میں خریدکر آزاد کروائیں تو میں نے اُن سے اس عمل کی وجہ جاننا چاہی۔ انہوں نے کہا ’’میں نے صرف اس وجہ سے پرندوں کو آزاد کروایا ہے کہ میرے گھر دو ماہ بعد پیدا ہونے والا بچہ بیٹا ہو۔ میری پہلے ہی پانچ بیٹیاں ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ اِس بار بیٹی پیدا ہو‘‘۔

ایک ادھیڑ عمر آدمی کو جب پرندے آزاد کرواتے دیکھ کر وجہ جاننا چاہی تو انہوں نے کہا ’’میری بیٹی بڑی ہوگئی ہے لیکن اچھا رشتہ نہیں مل رہا ہے‘‘۔ ایک خاتون کو پرندوں کی رہائی کے عوض اولاد کے حصول کی خواہش تھی اور ساتھ ہی یہ ڈر بھی تھا کہ اگر ان کے یہاں اولاد نہ ہوئی تو ان کا خاوند دوسری شادی کرلے گا۔

آزادی ایک نعمت ہے اور پرندوں کو آزاد کروانا ایک اچھا عمل ہے، لیکن کیا یہ زیادہ اچھا نہ ہوکہ وہ پرندے جنہیں چڑی مار پکڑتے ہی رقم کے حصول کے لیے ہیں، ہم ان سے پرندوں کو خرید کر آزاد کروانا ترک کردیں اور دوسری طرف محکمہ جنگلی حیات کے افسران بھی ایسے لوگوں کے خلاف سخت اقدامات کریں جو ناجائز طور پر پرندوں کی تجارت کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو یقیناً اس بہیمانہ تجارت کا کسی حد تک سدباب ہوسکتا ہے۔

(صاحبِ تحریر جاوید النبی مجددی دستاویزی فلم ساز ادارے ’’اوش کمیونی کیشن‘‘ سے بطور ریسورس پرسن وابستہ ہیں)

مسلمان کا زوال

اگرچہ زر بھی جہاں بھی ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر تو نگری سے نہیں!
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں!
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں!
اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے، تو نگری سے نہیں!