آزمودہ دواؤں کے نسخے بتانا ہماری قدیم معاشرتی روایت ہے۔ پڑیے گر بیمار تو عیادت کو آنے والا ہر تیماردار حسبِ توفیق دو چار آزمودہ نسخے بتا جانے کو آدابِ عیادت میں شمار کرتا ہے۔ ہُشیار مریض سنتا ہے اور سب نسخے سینت سینت کر ایک طرف رکھتا جاتا ہے کہ ’’کیوں آزمائے ان کو کوئی آزمودہ کار‘‘۔ پہلے ہر اخبار میں دیسی دواؤں کے آزمودہ نسخے شائع ہوتے تھے۔ اب برقی اور سماجی ذرائع ابلاغ پر ایسے نسخوں کی بھرمار ہوگئی ہے۔ ایک دن ایک ’ذریعۂ ابلاغ‘ پر ادرک، لہسن، پودینے اور انار دانے وغیرہ وغیرہ پر مشتمل ایک دیسی نسخہ بتلایا جارہا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن امراض کے علاج کے لیے یہ دیسی نسخہ ’آزمودہ‘ تھا اُن سب امراض کے نام بدیسی زبان میں لیے جارہے تھے کہ یہ نسخہ کارگر ہے ’ڈایا بیٹیز‘ کے لیے، ’بلڈ پریشر‘ کے لیے، ’گیس‘ کے لیے اور ’ٹیومر‘ کے لیے، وغیرہ وغیرہ۔
صبح کی نشریات میں کوئی حکیم صاحب بلائے گئے تھے۔ اچھی اُردو بول رہے تھے۔ حکیم صاحبان عموماً اچھی ہی اُردو بولا کرتے ہیں۔ غالباً طبِ مشرق کے تعلیمی اداروں کا ذریعۂ تعلیم ابھی اُردو ہی ہے۔ نسخہ توحکیم صاحب نے دیسی اجزا پر مشتمل بتایا، مگر شاید میزبان خاتون کی طرزِ گفتگو سے متاثر ہوکر اُنھوں نے بیماریوں کے نام بدیسی زبان میں بیان کرنا زیادہ مناسب جانا۔ آپ ذرا کی ذرا سوچیے تو سہی کہ ان قومی بیماریوں کے لیے کیا ہماری قومی زبان میں کوئی لفظ نہیں پایا جاتا؟ صبح کی نشریات تو بیشتر گھریلو خواتین ہی دیکھا کرتی ہیں۔
انگریزوں کے ہاں اکثر بیماریوں کے نام لاطینی زبان میں ہیں۔ اُردو میں امراض کے نام عربی، فارسی اور سنسکرت (یا ہندی) سے آئے۔ یہ سب نام کانوں کو بھلے لگتے تھے۔ لوگ ان سے مانوس تھے۔ عوام ہوں یا خواص، سب جانی بوجھی بیماریوں میں مبتلا ہوتے تھے۔ ابلاغیات پر ’’انگریزیات‘‘ کا غلبہ ہوا تو لوگوں نے کھانسی، نزلے اور بخار میں بھی مبتلا ہونا چھوڑ دیا۔ کف، فلو اور فیور میں مبتلا ہونے کو اپنی علمیت اور قابلیت کی سند سمجھنے لگے۔ اب ہمارے معاشرے میں ’دل کے مریض‘ نہیں ملتے۔ ’ہارٹ پیشنٹ‘ پائے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اب کسی کی ’حرکتِ قلب بند‘ نہیں ہوتی۔ قانون پسند آدمی کو بھی ’کارڈِک اَریسٹ‘ ہوجاتا ہے۔ شفاخانوں سے ’شعبۂ امراضِ قلب‘ ختم۔ ہر جا ’کارڈیالوجی‘ ہے۔ یہی نہیں، انگریزی بیماریوں کے ایسے ایسے نام (انگریزی سے) ناواقف مریضوں کو بتائے جاتے ہیں جو کبھی ان کے باپ دادا نے نہیں سنے تھے۔ باپ دادا تو خیر اگلے جہان پہنچے۔ جو لوگ ابھی اسی جہان میں دندناتے پھر رہے ہیں، وہ بھی ان بیماریوں کے نام سن سن کر اس جہانِ فانی سے رخصت ہوجانے کی ٹھان رہے ہیں۔ ایسے میںذیابیطَس، فشارِ خون، اَپھارا اور رسولی کس کھیت کی مولی؟
سرطان کا لفظ ہمارے ذرائع ابلاغ کے کسی سلطان کو یاد ہوگا، نہ سلطانہ کو۔ کیسی کیسی سُبک اُردو اصطلاحات کو انگریزی کا ’کینسر‘ لاحق ہوگیا ہے۔ آدھی اُردو، آدھی انگریزی نے ہماری دنیائے ابلاغیات کی آدھی آبادی کو میگرین یا مائیگرین میں اس بری طرح مبتلا کیا ہے کہ اچھی اُردو پڑھنے اور سننے کے شائقین کو بھی دردِ شقیقہ ہونے لگا ہے۔ چچا غالبؔ جو ’’تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر‘‘ سے تنگ آکر بالآخر یہ شکوہ کر بیٹھے تھے کہ ’’دل سے تری نگاہ جگر تک اُتر گئی‘‘ آج اگر اپنے امراضِ جگر کے ساتھ جینے کی سعی کررہے ہوتے تو فوراً اُن کا ’’لیور ٹرانسپلانٹ‘‘کردیا جاتا۔ نوحؔ ناروی بھی ’الٹرا ساؤنڈ ٹسٹ‘ کے اس زمانے میں جگر کی چوٹ نظر نہ آنے کی شکایت سہلِ ممتنع میں کرتے نظر نہ آتے کہ
جگر کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے؟
جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے!
جگر کے ذکر پر یاد آیا کہ 1960ء میں جنابِ جگر مراد آبادی کا انتقال ہوا توجناب شوکت تھانوی نے اپنے تعزیتی مضمون میں جگر ؔکی عوامی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے ایک دلچسپ اور بلیغ فقرہ تحریر کیا: ’’ایک دنیا کی دنیا جگر کی مریض تھی‘‘۔
مگر ہماری دنیا تو ’خرابیِ جگر‘ کی مریض ہے۔ دنیائے ابلاغیات ہو، دنیائے سیاسیات ہو یا نوکر شاہوں کی دنیا، ہماری ان تینوں دنیاؤں میں سب کے جگر خراب ہوگئے ہیں۔ یہ خرابی کثرتِ انگریزی نوشی سے پیدا ہوئی ہے۔ آپ نے اکثر سرکاری تقاریب میں دیکھا ہوگا (بلکہ بہت سی غیر سرکاری تقاریب میں بھی دیکھا ہوگا) کہ سننے والے پاکستانی، بولنے والے پاکستانی اور موضوعِ گفتگو بھی پاکستانی، مگر خطاب کیا جارہا ہے برطانوی زبان میں۔ اٹک اٹک کر اور دیسی لہجے میں انگریزی بولنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستانی موضوعات پر پاکستانیوں سے پاکستانیوں کی اِس ’’انگریزی گوئی‘‘ کا، ہمیں تو جگر کی خرابی کے سوا کوئی سبب نظر نہیں آتا۔ ان لوگوں میں اتنا جگرا ہے ہی نہیں کہ قومی محافل میں قومی زبان بولنے کی جرأت کرسکیں۔ تقاریب خواہ شہری ہوں یا عسکری، سب میں اُردو لہجے، پنجابی لہجے، پشتو لہجے اور سندھی لہجے وغیرہ وغیرہ میں انگریزی بولی جاتی ہے۔اب یہ بات تو کسی سمجھ والے، عقل والے اور دانش والے ہی سے کہی جا سکتی ہے کہ میاں! انگریزی بولنے کا اتنا ہی شوق ہے تو وہاں بولو جہاں سننے والے کو انگریزی کے سوا کوئی زبان نہ آتی ہو۔ مگر وہاں تو یہ ڈر لگا رہے گا کہ سننے والا ان کی انگریزی سن کر یہ نہ کہہ بیٹھے کہ “Sorry, I don’t know French,” فیصل آباد میں پیدا ہونے والے ضیاء محی الدین جیسے لوگ اس قوم میں کیسے پیدا ہوں کہ جب وہ انگریزی بولتے تھے تو ٹھیٹھ انگریزوں کے لہجے میں بولتے تھے، اور جب اُردو بولتے تھے تو کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان بولتے تھے۔ آخر ضیاء محی الدین بھی تو ابلاغیات کی دنیا کے آدمی تھے۔ اُن کا جگر کیوں نہیں خراب ہوا؟
سب سے خراب اور سب سے تشویشناک حالت اُن لوگوں کی ہے جو ہمارے قومی ذرائع ابلاغ پر بزعمِ خود قومی زبان میں نشریات پیش کرنے پر مقرر ہیں مگر فقروں کے فقرے ایسے بولتے ہیں جن میں اُردو کے صرف حروفِ ربط استعمال کیے جاتے ہیں (کا، کی، کے، تھا، تھی، تھے، سے، میں، پر اور تک وغیرہ) بقیہ تمام الفاظ انگریزی کے ہوتے ہیں۔ ہمارے لڑکپن میں ایسے فقرے لوگوں کو ہنسانے کے لیے بولے جاتے تھے:’’اس لیے فدوی کین ناٹ کم‘‘۔ اُس زمانے میں تو ایسی ہر بات پر ہنسی آتی تھی۔ اب کسی بات پر نہیں آتی۔
خیر ہنسی مذاق اپنی جگہ۔ اگر برقی ذرائع ابلاغ پر بولنے والے خود بھی یہ خواہش رکھتے ہوں کہ اُن کی بولی کا مذاق نہ بنے تو بس ذرا سی توجہ سے وہ بہتر زبان بولنے لگیں گے۔ مثلاً ایک سیاسی نشریے کے میزبان اپنے مہابکُّو مہمان کو چپ کرانے کے لیے بار بار کہتے ہیں:
’’آپ کا Pointآگیا…آپ کا Pointآگیا‘‘۔
اس کی جگہ اگر وہ یوں کہہ دیا کریں کہ
’’آپ کا مؤقَف آگیا‘‘۔
تب بھی مہمان تو خیر بک بک ہی کیے جائے گا، بلکہ بک بک کو رائیگاں جاتے دیکھ کر ہاتھا پائی پر بھی اُتر آئے گا، مگر صاحب!آپ کی زبان خراب ہونے سے بچ جائے گی۔ حالت تو پہلے ہی خراب ہے۔
خرابی کو خوبی میں بدلنے کا نسخہ بہت آسان ہے۔ لو بھئی! کالم نگار بھی تیماردار بن کر جاتے جاتے ایک آزمودہ نسخہ بتائے جارہا ہے۔ نسخہ بہت آسان ہے۔ آپ کو ایک معمولی سی مشق کرنی ہوگی۔ یہ مشق آپ محفل میں بھی کرسکتے ہیں اور تنہائی میں بھی۔ مشق بس اتنی سی ہے کہ آپ سوچ سوچ کر اُردو کے پانچ چھے فقرے ایسے بولیے جس میں بس اُردو ہی کے الفاظ ہوں۔ کسی اُردو لفظ کی جگہ غیر مطلوب اور غیر ضروری انگریزی لفظ استعمال نہ کیا جائے۔ بولتے ہوئے جو انگریزی لفظ آپ کے ذہن میں آئے اُس کا اُردو متبادل تلاش کیجیے۔ اُردو متبادل خودبخود آپ کے بھولے بسرے حافظے کی تہوں میں سے اُبھر آئے گا۔ لیکن اگر تلاشِ بسیار پر بھی نہ ملے تو انگریزی-اُردو ڈکشنری دیکھ لیجیے، پھر درست تلفظ کے لیے اُردو لغت سے استفادہ کرلیجیے۔ یقین کیجیے کہ خالص اُردو بولنے کی اس مشق میں آپ کو بہت مزہ آئے گا۔